عمرو بن سعید بن العاص الاکبر اکابر صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔

عمرو بن سعید بن العاص
معلومات شخصیت
بہن/بھائی

نام ونسب ترمیم

عمرونام، ابو عقبہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے ،عمروبن سعید العاص بن امیہ بن عبد شمس القرشی الاموی، ماں کا نام صفیہ تھا، قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں،حضرت عمروؓ خالد بن ولیدؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔[1]

اسلام وہجرت ترمیم

ان کے گھر میں سب سے پہلے ان کے بھائی خالد بن سعید مشرف باسلام ہوئے، ان کے کچھ دنوں کے بعد عمرودائرۂ اسلام میں داخل ہوئے،تیسرے بھائی ابان نے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، دونوں بھائیوں کے اسلام پر اشعار میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا عمروبن سعید نے اپنے بھائی خالد کی ہجرت کے دوسال بعد ہجرت ثانیہ میں مع اپنی بیوی فاطمہ کے حبشہ کی طرف ہجرت کی اوروہاں سے مسلمانوں کے قافلہ کے ساتھ کشتی کے ذریعہ سے غزوۂ خیبر کے دوران میں مدینہ آئے۔[2]،[3] [4]

غزوات ترمیم

مدینہ آنے کے بعد فتح مکہ، حنین، طائف اور تبوک وغیرہ تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہے۔[5]

امارت ترمیم

آنحضرتﷺ نے ان کو مدینہ کے مغربی مقامات تبوک ،خیبر اور فدک وغیرہ کا عامل مقرر کیا، جہاں وہ حیات نبویﷺ تک اپنے خدمات نہایت جانفشانی سے انجام دیتے رہے،آنحضرتﷺ کی خبروفات سن کر وہاں سے واپس ہوئے واپسی کے بعد ابوبکرنے فرمایا کہ تم سے زیادہ امارت کا کون مستحق ہو سکتا ہے اور دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی؛لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔،[6] [7]

فتوحات شام ترمیم

امارت سے واپسی کے کچھ ہی دنوں بعد شام پر فوج کشی کی تیاریاں شروع ہوئی،عمرو بن سعیدبھی اس میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور13ھ میں اجنادین کے معرکہ میں نہایت جوش وخروش سے لڑے،جب مسلمانوں کے پیروں میں ذرا بھی لغزش ہوتی یہ للکارکرثبات واستقلال پرآمادہ کرتے،

وفات ترمیم

اجنادین میں ایک مرتبہ جوش میں آکر کہا کہ میں اپنے ساتھیوں کا میدان جنگ میں پلہ کمزور نہیں دیکھ سکتا،اب میں خود گھستا ہوں یہ کہہ کر دشمنوں کے قلب میں گھستے ہوئے چلے گئے اوربڑی بے جگری سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے،شہادت کے بعد دیکھا گیا تو سارا بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا، شمار کرنے پر تیس سے زیادہ زخم جسم پر نکلے۔ [8]

حوالہ جات ترمیم

  1. اسد الغابہ:4/106
  2. طبقات ابن سعد،جزو4،ق1:73
  3. (اسد الغابہ:۴/۱۰۶)
  4. (ابن سعد،جزو۴،ق۱:۷۳)
  5. الاستیعاب:2/441
  6. (استیعاب:۴۲۲)
  7. (استیعاب:۱/۱۵۵)
  8. (واقعہ کی تفصیل اصابہ :۴/۳۰۱،سے ماخوذ ہے لیکن شہادت کا تذکرہ فتوح البلدان بلاذری فتح اغبادین میں ہے)