عمرو بن سعید بن العاص
عمرو بن سعید بن العاص الاکبر رضی اللہ عنہ(وفات: 13ھ) اکابر صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا ۔حبشہ کی دوسری ہجرت میں اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی وہاں کافی عرصہ رہے پھر مسلمانوں کے قافلے کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت فرمائی غزوہ خیبر ہو چکا تھا پھر فتح مکہ ، طائف ، حنین اور تبوک میں شرکت کی 13ھ میں جنگ اجنادین میں شہادت نوش فرمائی ۔
عمرو بن سعيد بن العاص | |
---|---|
عمرو بن سعيد بن العاص بن أُميّة بن عبد شمس بن عبد مناف بن قُصيّ | |
معلومات شخصیت | |
لقب | أبا عقبة |
زوجہ | فاطمہ بنت صفوان |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | أبوه : سعید بن العاص أمه : صَفِيّة بنت المغيرة أخوه : خالد بن سعيد بن العاص ابان بن سعید بن العاص عبد الله بن سعيد بن العاص |
عملی زندگی | |
نسب | القرشيّ الأمويّ |
اہم واقعات | ہجرت حبشہ |
تاریخ قبول اسلام | من السابقين الأولين |
پیشہ | أمير على قرى :تبوك، وخَيْبَر، وفَدك في عهد النبي محمد |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمعمرونام، ابو عقبہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے ،عمرو بن سعید العاص بن امیہ بن عبد شمس القرشی الاموی، ماں کا نام صفیہ تھا، قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں،حضرت عمروؓ خالد بن ولیدؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔[1]
اسلام و ہجرت
ترمیمان کے گھر میں سب سے پہلے ان کے بھائی خالد بن سعید مشرف باسلام ہوئے، ان کے کچھ دنوں کے بعد عمرو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے،تیسرے بھائی ابان نے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، دونوں بھائیوں کے اسلام پر اشعار میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا عمرو بن سعید نے اپنے بھائی خالد کی ہجرت کے دوسال بعد ہجرت ثانیہ میں مع اپنی بیوی فاطمہ کے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں سے مسلمانوں کے قافلہ کے ساتھ کشتی کے ذریعہ سے غزوۂ خیبر کے دوران میں مدینہ آئے۔[2]،[3] [4]
غزوات
ترمیمحضرت عمرو بن سعید بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ آنے کے بعد فتح مکہ،غزوہ حنین، غزوہ طائف اور غزوہ تبوک وغیرہ تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب رہے۔[5]
امارت
ترمیمآنحضرت ﷺ نے ان کو مدینہ کے مغربی مقامات تبوک ،خیبر اور فدک وغیرہ کا عامل مقرر کیا، جہاں وہ حیات نبوی ﷺ تک اپنے خدمات نہایت جانفشانی سے انجام دیتے رہے،آنحضرت ﷺ کی خبروفات سن کر وہاں سے واپس ہوئے واپسی کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم سے زیادہ امارت کا کون مستحق ہو سکتا ہے اور دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی؛لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔،[6] [7]
فتوحات شام
ترمیمامارت سے واپسی کے کچھ ہی دنوں بعد شام پر فوج کشی کی تیاریاں شروع ہوئی، حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور 13ھ میں اجنادین کے معرکہ میں نہایت جوش وخروش سے لڑے،جب مسلمانوں کے پیروں میں ذرا بھی لغزش ہوتی یہ للکار کرثبات و استقلال پر آمادہ کرتے،
وفات
ترمیماجنادین میں ایک مرتبہ جوش میں آکر کہا کہ میں اپنے ساتھیوں کا میدان جنگ میں پلہ کمزور نہیں دیکھ سکتا،اب میں خود گھستا ہوں یہ کہہ کر دشمنوں کے قلب میں گھستے ہوئے چلے گئے اور بڑی بے جگری سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، شہادت کے بعد دیکھا گیا تو سارا بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا، شمار کرنے پر تیس سے زیادہ زخم جسم پر نکلے۔ [8]