ابان بن سعید بن عاص
ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ(وفات: 13ھ) صحابی رسول کاتب وحی اور مکہ مکرمہ کے خاندان قریش کی سرکردہ شخصیت تھے۔غزوہ خیبر سے قبل مشرف باسلام ہوئے ، غزوہ خیبر کے بعد تمام غزوات نبوی میں شریک ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔
ابان بن سعید بن عاص | |
---|---|
(عربی میں: أبان بن سعيد بن العاص)،(عربی میں: أبان بن سعيد بن العاص الأموي)[1] | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | ابان بن سعید |
وفات | سنہ 634ء [1] اجنادین [1] |
شہریت | خلافت راشدہ |
لقب | کاتب وحی |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
طبقہ | الصحابہ |
نسب | الجمحی القرشی |
پیشہ | تاجر ، صحابی [1] |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
آجر | مدینہ منورہ |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | دیگر غزوات |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمابان نام، سلسلہ نسب یہ ہے، ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی الاموی،ماں کا نام ہند بنت مغیرہ تھا،ان کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت پر عبد مناف پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔[2]
زمانہ جاہلیت
ترمیماسلام لانے کے قبل ابان بھی دوسرے اہل خاندان کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے سخت خلاف تھے ؛چنانچہ جب ان کے بھائی خالد اور عمرو مشرف بہ اسلام ہوئے تو انھوں نے اشعار میں اظہار ناراضی کیا، جس کا ایک شعریہ ہے۔ الالیت میتا بالظریبہ شاھد لما یفتری فی الدین عمروخالد (کاش ظریبہ میں موت کی نیند سونے والا دیکھتا کہ عمرو اور خالد نے دین میں کیا افترا کیا ہے) غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں اپنے بھائی عبیدہ اور عاص کے ساتھ لڑنے نکلے، عبیدہ اور عاص مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے ؛لیکن ابان بچ کر نکل گئے۔[3] صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قریش کے پاس صلح کی گفت وشنید کے لیے بھیجا تو وہ ابان ہی کے یہاں مہمان ہوئے تھے، کیونکہ یہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیز تھے اور انھی نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی۔ [4]
راہب سے گفتگو
ترمیمگو وہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف تھے تاہم اصل حقیقت کی جستجو رہتی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارہ میں واقف کاروں سے پوچھا کرتے تھے، اس وقت شام اصحاب علم وخبر کا مرکز تھا، یہ تجارت کے سلسلہ میں وہاں جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک راہب سے کہا کہ میں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوں، اس قبیلہ کا ایک شخص اپنے کو خدا کا فرستادہ ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ کو بھی خدا نے عیسی علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی بناکر بھیجا ہے۔ راہب نے نام پوچھا، انھوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، راہب نے صحف آسمانی کی رو سے نبی مبعوث کا سن اور نسب وغیرہ بتایا، ابان نے کہا یہ تمام باتیں تو اس شخص میں موجود ہیں، راہب نے کہا تو خدا کی قسم، وہ شخص عرب پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد تمام دنیا پر چھا جائے گا، تم واپس جانا تو خدا کے اس نیک بندے تک میرا سلام پہنچا دینا؛ چنانچہ ابان جب واپس ہوئے تو رنگ بدل چکا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وہ پرخاش باقی نہ رہی۔[5]
اسلام و ہجرت
ترمیمآبان بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دنوں تک آبائی مذہب کی لاج اور ہم چشموں کی طعنہ زنی کے خیال سے خاموش رہے لیکن زیادہ دنوں تک جذبہ حق نہ دب سکا اور غزوہ خیبر سے پہلے مشرف بی اسلام ہو گئے اور اسلام کے بعد ہی ہجرت کی سعادت بھی حاصل کی۔، [6]
کاتب وحی
ترمیمابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، [7][8][9]
غزوات
ترمیماسلام لانے کے بعد ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک سریہ کا امیر بناکر نجد روانہ کیا، وہاں سے کامیاب ہوکر واپس ہوئے تو غزوہ خیبر فتح ہو چکا تھا، اسی وقت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی مہاجرین حبش کے ساتھ واپس ہوئے تھے، دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ خیبر کے مال غنیمت سے کچھ ہم لوگوں کو بھی مرحمت ہو، ان میں اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں پہلے سے کچھ چشمک تھی، انھوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو نہ دیجئے، ابان کو غصہ آ گیا بولے پہاڑ کی بھیڑی اتری » (بلی سے چھوٹا ایک جانور)وہ بھی بولی!آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو خاموش کیا۔[10] نجد کی مہم کے علاوہ ان کو دوسرے سریوں کی امارت بھی عطا کی گئی۔
بحرین کی امارت
ترمیمعلا بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بحرین کے بری اور بحری دونوں حصوں کا عامل مقرر کیا، آپ کی وفات تک یہ اپنے فرائض ذمہ داری سے انجام دیتے رہے ، وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے۔[11]
خلافت صدیقی
ترمیمحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت عام کے بعد قریش کے جو چند افراد کچھ دنوں تک ان کی بیعت سے دست کش رہے تھے، ان میں ایک ابان بھی تھے ؛لیکن جب بنو ہاشم نے بیعت کرلی، تو ان کو بھی کوئی عذر نہ ہوا، صدیق اکبر نے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی عامل کو معزول نہیں کیا تھا، ابان بھی آپ کے مقرر کردہ عامل تھے، اس لیے ان سے دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی ؛لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کا پیش کردہ عہدہ قبول نہیں کر سکتا، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دنوں تک اس عہد پر قائم نہیں رہے اورخلیفۂ اول کے اصرار پر یمن کی گورنری قبول کرلی۔[12]
وفات
ترمیمزمانہ وفات میں بہت اختلاف ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخر عہدِ خلافت 13ھ میں جنگ اجنادین میں شہادت پائی، ابن اسحق کی روایت ہے کہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے، ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عثمان کے عہدِ خلافت تک زندہ تھے اور مصحف عثمانی انھی کی نگرانی میں زید بن ثابت کاتب وحی نے لکھا تھا۔[13]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ مصنف: خیر الدین زرکلی — عنوان : الأعلام — : اشاعت 15 — جلد: 1 — صفحہ: 27 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://archive.org/details/ZIR2002ARAR
- ↑ (اسد الغابہ:1/35)
- ↑ الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، مؤلف : احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی، ناشر : دار الجيل - بيروت
- ↑ محسن الأمين۔ أعيان الشيعة - ج2۔ صفحہ: 99۔ 08 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (اسد الغابہ:1/36)
- ↑ (استیعاب:1/35)
- ↑ المصباح المضئی 18/1، الہدایہ والنہایہ5/ 340، الاستیعاب1/51، التاریخ الکامل 2/313، عیون الاثر 2/315 العجالة السنیہ 246، التنبیہ وا لإشراف 346
- ↑ (اصابہ:1/10)
- ↑ (استیعاب:1/35)
- ↑ بخاری، جلد2،کتاب المغازی غزوۂ خیبر
- ↑ (استیعاب:1/35)
- ↑ اسد الغابہ1/35مؤلف، ابو الحسن علی الشيبانی الجزری عز الدين ابن الاثير، ناشر: دار الفكر بيروت
- ↑ الاستيعاب فی معرفۃ الأصحاب1/36مؤلف، ابو عمر يوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری القرطبی، ناشر: دار الجيل، بيروت