المؤمن، سورہ

قرآن مجید کی 40 ویں سورت
(غافر سے رجوع مکرر)

قرآن مجید کی 40 ویں سورت جسے سورۂ غافر بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں 85 آیات اور 9 رکوع ہیں۔

  سورۃ 40 - قرآن  
سورة غافر
Sūrat Ghāfir
سورت غافر
----

عربی متن · audio speaker iconصوتی ·انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
متبادل نام (عربی)سورة المؤمن
دیگر نام (انگریزی)The Forgiving One, The Believers, Forgiving
عددِ پارہ24 واں پارہ
اعداد و شمار9 رکوع, 85 آیات

نام

آیت 28 کے فقرے وقال رجل مومن من اٰل فرعون سے ماخوذ ہے، یعنی وہ سورت جس میں اُس خاص مومن کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

ابن عباس اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ یہ سورت سورۂ زمر کے بعد متصلاً نازل ہوئی ہے اور اس کا جو مقام قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ہے وہی ترتیب نزول کے اعتبار سے بھی ہے۔

حالات نزول

جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی طرف صاف اشارات اس مضمون میں موجود ہیں۔ کفار مکہ نے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف دو طرح کی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر، طرح طرح کے الٹے سیدھے سوالات اٹھا کر اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل ایمان زچ ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کر دینے کے لیے زمین ہموار کی جائے چنانچہ اس غرض کے لیے وہ پیہم سازشیں کر رہے تھے اور ایک مرتبہ تو عملاً انھوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا اور اس نے آ پ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بل دینا شروع کر دیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپ کو مار ڈالے۔ مگر عین وقت پر حضرت ابو بکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ پہنچ گئے اور انھوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبد اللہ کا بیان ہے جس وقت ابو بکر صدیق اس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے

کیا تم ایسے شخص کو صرف اس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے

تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام میں بھی منقول ہوا ہے اور نسائی اور ابن ابی حاتم نے بھی اسے روایت کیا ہے۔

موضوع اور مباحث

صورت حال کے ان دونوں پہلوؤں کو آغاز تقریر ہی میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے اور پھر آگے کی پوری تقریر انہی دونوں پر ایک انتہائی مؤثر اور سبق آموز تبصرہ ہے۔ قتل کی سازشوں کے جواب میں مومنِ آلِ فرعون کا قصہ سنایا گیا ہے (آیات 23 تا 55) اور اس قصے کے پیرائے میں تین گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں :

  1. کفار کو بتایا گیا ہے کہ جو کچھ تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کرنا چاہتا تھا، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ دوچار ہوا؟
  2. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے پیرووں کو سبق دیا گیا ہے کہ یہ ظالم بظاہر خواہ کتنے ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں اور ان کے مقابلے میں تم خواہ کتنے ہی کمزور اور بے بس ہو، مگر تمھیں یقین رکھنا چاہیے جس خدا کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم کام کر رہے ہو اس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے۔ لہٰذا جو بڑی سے بڑی خوفناک دھمکی بھی یہ تمھیں دے سکتے ہیں، اس کے جواب میں بس خدا کی پناہ مانگ لو اور اس کے بعد بالکل بے خوف ہو کر اپنے کام میں لگ جاؤ۔ خدا پرست کے پاس ظالم کی ہر دھمکی کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے انی عدت بربی و ربکم من کل متکبر لا یؤمن بیوم الحساب۔ اس طرح خدا کے بھروسے پر خطرات سے بے پروا ہو کر کام کرو گے تو آخر کار اس کی نصرت آ کر رہے گی اور آج کے فرعون بھی وہی کچھ دیکھ لیں گے جو کل کے فرعون دیکھ چکے ہیں۔ وہ وقت آنے تک ظلم و ستم کے جو طوفان بھی امنڈ امنڈ کر آئیں انھیں صبر کے ساتھ تمھیں برداشت کرنا ہوگا۔
  3. ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا، اوروہ ان لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ساتھ ہے اور کفار قریش زیادتی کر رہے ہیں مگر یہ جان لینے کے باوجود خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالٰیٰ نے اس موقع پر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انھیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمھاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو۔ اس حالات میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اسے تو اٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون کے بھرے دربار میں اس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا۔ جو مصلحتیں تمھیں زبان کھولنے سے باز رکھ رہی ہیں، یہی مصلحتیں اس شخص کے آگے بھی راستہ روک کے کھڑی ہوئی تھیں۔ مگر اس نے افوض امری الی اللہ کہہ کر ان ساری مصلحتوں کو ٹھکرا دیا اور اس کے بعد دیکھ لو فرعون اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔

اب رہا کفار کا مجادلہ جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے مکۂ معظمہ میں شب و روز جاری تھا، تو اس کے جواب میں ایک طرف دلائل اور توحید و آخرت کے ان عقائد کا برحق ہونا ثابت کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور کفار کے درمیان اصل بنائے نزاع تھے اور یہ حقیقت صاف کھول کر رکھ دی گئی ہے کہ یہ لوگ کسی علم اور کسی دلیل و حجت کے بغیر ان سچائیوں کے خلاف خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف ان اصل محرکات کو بے نقاب کیا گيا ہے جن کی بنا پر سردارانِ قریش اس قدر سرگرمی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ بظاہر انھوں نے ڈھونگ رچا رکھا تھا کہ حضور کی تعلیم اور آپ کے دعوائے نبوت پر انھیں حقیقی اعتراضات ہیں جن کی وجہ سے وہ ان باتوں کو نہیں مان رہے تھے، لیکن در حقیقت یہ ان کے لیے محض ایک جنگِ اقتدار تھی۔ آیت 56 میں یہ بات کسی لاگ لپیٹ کے بغیر ان سے صاف کہہ دی گئی ہے کہ تمھارے انکار کی اصل وجہ وہ کبر ہے جو تمھارے دلوں میں بھرا ہوا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر لوگ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت تسلیم کر لیں گے تو تمھاری بڑائی قائم نہ رہ سکے گی۔ اسی وجہ سے تم ان کو زک دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو۔ اسی سلسلے میں کفار کو پے در پے تنبیہات کی گئی ہیں کہ اگر اللہ کی آیات کے مقابلے میں مجادلہ کرنے سے باز نہ آؤ گے تو اسی انجام سے دو چار ہو گے جس سے پچھلی قومیں دو چار ہو چکی ہیں اور اس سے بدتر انجام تمھارے لیے آخرت میں مقدر ہے۔ اس وقت تم پچھتاؤ گے، مگر اس وقت کا پچھتانا تمھارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوگا۔