فرحت دہلوی
پریم شنکر فرحت دہلوی (پیدائش: 4 جنوری 1926ء — وفات: 30 اپریل 1968ء) اردو زبان کے شاعر، مصنف اور ادیب تھے۔
فرحت دہلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 4 جنوری 1926ء دہلی ، برطانوی ہند |
وفات | 30 اپریل 1968ء (42 سال) میرٹھ ، بھارت |
شہریت | برطانوی ہند (4 جنوری 1926–14 اگست 1947) بھارت (15 اگست 1947–30 اپریل 1968) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی ، انگریزی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش و خاندان
ترمیمفرحت دہلوی کا پیدائشی نام پریم شنکر تھا جبکہ اُن کے والد لالہ موہن لال گوئلہ تھے جو گھڑیوں کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ فرحت دہلوی دہلی میں 4 جنوری 1926ء کو ایک متمول تجارتی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
ترمیمفرحت چونکہ یہ جانتے تھے کہ انھیں بالآخر تجارت ہی کرنی ہے، تو اِس لیے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرپائے۔ باوجود اِس کے، انگریزی زبان بہت خوب جانتے تھے جیساکہ اُن کے رابندر ناتھ ٹیگور کی متعدد نظموں کے تراجم سے ظاہر ہوتا ہے۔فارسی زبان سے خاصا شغف رکھتے تھے۔ اردو زبان اور ہندی زبان سے شغف رکھتے تھے۔ [1]
شعرگوئی
ترمیمفرحت چونکہ انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے اور رابندر ناتھ ٹیگور کی نظموں کے متعدد انگریزی ترجمے بھی کہے۔ ہری ونش بچن فرحت کے محبوب شاعر تھے۔ اردو زبان میں میر انیس اور مرزا دبیر کے مراثی اور علامہ اقبال کے کلام کے شیدائی تھے۔اردو زبان میں شعرگوئی کا شوق بہت ابتدا میں ہی پیدا ہوا۔ چند دن لالہ دھرم پال گپتا وفاؔ سے مشورہ لیتے رہے اور بعد ازاں بشیشور پرشاد منورؔ لکھنؤی اور کامل نظامی دہلوی (تلمیذ سائل دہلوی مرحوم) سے اصلاح لیتے رہے۔ فرحت دہلوی کا مجموعہ کلام ’’سازِ حیات‘‘ کے نام سے 1959ء میں شائع ہوا تھا۔ اِس کے بعد کا کلام غیر مطبوعہ رہ گیا اور شائع نہ ہو سکا۔فرحت اپنے آخری ایام میں ایک مثنوی بنام ’’ساقی نامہ‘‘ لکھ رہے تھے مگر وہ بھی فرحت کی اچانک وفات سے نامکمل رہ گئی۔ شاعری میں تخلص فرحت تھا۔ [2]
وفات
ترمیمفرحت دہلوی میں فربہی کے اثرات تھے جس سے قلب کا فعل کمزور ہونے لگا تھا۔ اِسی سبب سے 30 اپریل 1968ء کو اچانک اپنے دوسرے سکونتی مکان میرٹھ میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ وفات کے وقت عمر 42 سال تھی۔