فرزانہ باری
فرزانہ باری (ولادت: 7 مارچ 1957ء) ایک پاکستانی استاد، فیمنسٹ اور انسانی حقوق کی علمبردار کارکن ہیں۔ وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہء جینڈر سٹڈیز کی سابقہ ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ [1][2][3]
فرزانہ باری | |
---|---|
فرزانہ باری | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 7 مارچ، 1957 |
قومیت | پاکستان |
جماعت | عوامی ورکرز پارٹی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | یونیورسٹی آف سسیکس، مملکت متحدہ |
پیشہ | استاد، سابقہ ڈائریکٹر جینڈر سٹدیز قائد اعظم یونیورسٹی |
مادری زبان | اردو |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
کارہائے نمایاں | سماجی کارکن، فیمنسٹ، رکن وومین ڈیموکریٹک فرنٹ اور عوامی ورکرز پارٹی |
درستی - ترمیم |
پیشہ ورانہ زندگی
ترمیمفرزانہ باری نے 25 سال سے زائد عرصے پر محیط جینڈر سٹڈیز کے شعبہ میں مہارت حاصل کی ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی آف سسیکس، مملکت متحدہ سے سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جس میں ان کی تحقیق کا موضوع تھا "خاندانی نظام میں عورت کا مقام اور ملازمت کے اثرات"۔ وہ خواتین کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی خاطر پالیسی سازی میں بھی اپنا کردار نبھاتی رہی ہیں۔ ان کی حالیہ تحقیق کا موضوع خواتین کی سیاست میں یکساں نمائندگی تھا۔[4][5][6] وہ پاکستان میں پہلے جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے بنانے والوں میں سے ہیں۔[7]
انسانی حقوق اور حقوق نسواں
ترمیمفرزانہ باری ایک انسانی حقوق کی کارکن ہیں اور معاشرے میں انصاف اور صنفی برابری کی قائل ہیں۔[8][9] انھوں نے پدر شاہی کے زیر اثر پنپنے والے جرگہ نظام کی مخالفت کی۔[10][11][12]
2013ء میں فرزانہ باری نے ایک تحقیق کی جس کے مطابق گیارہ ملین خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انھیں شناختی کارڈ کی تیاری تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔[13] جنوری 2014ء میں انھوں نے کوہستان میں ہونے والے تشدد کے واقعے کی تفتیش و تحقیقات کی درخواست کی جس میں بے گناہ لڑکیوں کو ایک شادی میں ناچنے کی سزا کے طور پہ موتر کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔[14][15][16] ان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے مجرموں کی نشان دہی کی اور انھیں عمر قید کی سزا دی گئی۔[17][18]
اگست 2015ء میں انھوں نے ضلع قصور میں 300 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے خلاف احتجاج کیا جنھیں 2006 سے 2014 تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔[19] مئی 2016ء میں انھوں نے خاوندوں کی طرف سے بیویوں کی پٹائی کو قانونی قرار دیے جانے کے خلاف آواز بلند کی اور اسے غیر انسانی فعل قرار دیا۔[20] پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل کیے جانھے کے واقعات کے خلاف فرزانہ باری سرگرم رہیں اور اس کے خلاف بل منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔[21][22][23][24][25]
وومین ڈیموکریٹک فرنٹ
فرزانہ باری وومین ڈیموکریٹک فرنٹ کی رکن ہیں جوخواتین کی ایک فیمنسٹ سوشلسٹ جمہوری تنظیم ہے۔[26][27] بطور ڈبلیو ڈی ایف کارکن انھوں نے عورت مارچ منعقد کرانے میں دیگر کارکنان کے ساتھ کام کیا۔[28]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Naveed Siddiqui Dawn.com (21 اکتوبر 2016)۔ "Kohistan video case: Girls declared alive by SC had actually been killed, says Bari"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Discrimination: For women in rural areas, healthcare not a basic right"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 7 جولائی 2013
- ↑ Deutsche Welle (www.dw.com)۔ "Young Pakistani girls learn to speak up for their rights | DW | 9. نومبر 2011"۔ DW.COM
- ↑ "Democracy, the Political and Social Movements in Europe and South Asia: An Intercontextual Dialogue" (PDF)۔ German Academic Exchange Service (DAAD)
- ↑ "Call for greater role of women in politics"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 31 اگست 2017
- ↑ Rafia Zakaria (21 ستمبر 2016)۔ "The thorny question of quotas"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Brother found guilty of murdering Pakistani model in 'honor killing'"۔ NBC News (بزبان انگریزی)
- ↑ Pakistan Liberation Movement interview with Dr. Farzana Bari۔ Vimeo۔ اطلع عليه بتاريخ 2016-03-09
- ↑ "WDF pays tribute to women who stood up against dictatorship"۔ The Nation (بزبان انگریزی)۔ 16 فروری 2020
- ↑ Blind justice: Reforms can make jirgas more representative، Tribune.com.pk، 27 فروری 2014
- ↑ Pakistan clerics say women don't need to cover up آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ enca.com (Error: unknown archive URL)، Enca.com، 20 اکتوبر 2015
- ↑ "Decree controversy: Civil society activists seek abolition of CII"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 14 مارچ 2014
- ↑ "Taliban, taboos bar millions of women from Pakistan vote"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 25 اپریل 2013
- ↑ Rights activist Farzana Bari for reopening of Kohistan video case، Geo.tv، 29 جنوری 2014
- ↑ The Newspaper's Staff Reporter (7 اپریل 2017)۔ "SC asks Nadra to verify Kohistan girls' identity"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Dr. Farzana Bari accuses ANP leaders and KP police for protecting the people behind Kohistan killings"۔ Daily Times۔ 2 اپریل 2019
- ↑ Haseeb Bhatti (2 جنوری 2019)۔ "Girls in 2011 Kohistan video were killed, Supreme Court told"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)
- ↑ "Three Sentenced for Years-old 'Honor' Killings"۔ Newsweek Pakistan۔ ستمبر 6, 2019۔ 23 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2020
- ↑ Luavut Zaid, INTERVIEW: ‘This has gone on for a long, long time’ –Dr Farzana Bari، Pakistantoday.com، 15 اگست 2015
- ↑ Tim Craig, Pakistani husbands can ‘lightly beat’ their wives, Islamic council says، Washingtonpost.com، 27 مئی 2016
- ↑ "Pakistani woman's body found by roadside after marriage deal goes awry"۔ South China Morning Post (بزبان انگریزی)۔ 16 جولائی 2020
- ↑ Katharine Houreld, Shafait Raja (29 مئی 2014)۔ "Pakistan PM: honor killing of pregnant woman was 'unacceptable'"۔ Reuters (بزبان انگریزی)
- ↑ Pakistan unanimously passes legislation to try to stop 'honor killings'، Pri.org، 6 اکتوبر 2016
- ↑ "Brother found guilty of murdering Pakistani model in 'honor killing'"۔ NBC News (بزبان انگریزی)۔ ستمبر 27, 2019
- ↑ "Afzal Kohistani: 'Honour killing' whistleblower shot dead"۔ BBC News۔ 7 مارچ 2019
- ↑ "WDF holds two-day political school"۔ Women Democratic Front۔ 23 جون 2019۔ 04 اپریل 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2020
- ↑ "Islamabad's Women's Day مارچ was met with violent opposition from conservative agitators · Global Voices"۔ Global Voices (بزبان انگریزی)۔ 13 مارچ 2020 [مردہ ربط]
- ↑ Aamir Yasin (11 مارچ 2020)۔ "Aurat مارچ organisers demand judicial probe into Islamabad stone pelting incident"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)