فرضی خبر، من گھڑت خبر، بناوٹی خبر یا جھوٹی خبر (انگریزی: fake news) پیلی صحافت یا پروپگنڈا کی ایک قسم ہے جس میں دانستہ غلط بیانی یا دھوکا ہو جسے روایتی خبروں کے ذرائع (چھپوائی اور نشر) یا آن لائن سماجی ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا جاتا ہے۔[1] غلط اطلاعات کسی وجہ اکثر وہ ذرائع ہوتے ہیں جنہیں اخبار نویس خبروں کے حصول کے لیے پیسہ دے کر حاصل کرتے ہیں۔ اس میں ایک غیر اخلاقی طریقہ چیک بک صحافت چل رہا ہے۔ ڈیجیٹل خبریں فرضی خبر اور پیلی صحافت کو دوبارہ اپنے ساتھ لائے ہیں۔[2]

اہمیت

ترمیم

فرضی خبر کی اپنی اہمیت ہے۔ اکثر اس کے لیے غلط بیانی، دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔ اس سے لوگوں میں بھی پھوٹ اور فساد ہونے کا امکان پے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مئی 2018 میں ہوا۔یہاں پوسٹ کارڈ نیوز نام کے نیوز پورٹل کے ایک ایڈیٹر کو بنگلورو پولیس کی کرائم برانچ نے گرفتار کیا ہے۔ پوسٹ کارڈ ڈاٹ کام کے مہیش وکرم ہیگڑے نے ویب گاہ پر ایک فرضی نیوز شائع کی تھی ، جس میں لکھا تھا کہ بنگلورو میں ایک جین منی پر کچھ مسلم نوجوانوں نے حملہ کر دیا ہے۔ اس نے زخمی جین منی کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سدا رمیا حکومت میں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اس پوسٹ کو سوشل میڈیا پر ہزاروں مرتبہ شیئر کیا جاچکا ہے۔ وہیں افسران نے بتایا کہ خبر میں جس جین منی کا ذکر کیا گیا ہے ، اصل میں وہ کنک پورا میں ایک حادثہ میں زخمی ہوئے تھے۔

قانون سازی

ترمیم

دنیا کے مختلف ممالک نے راست یا بالواسطہ طور پر جھوٹی اور فرضی خبروں پر روک لگانے کے لیے قانون سازی کی ہے یا پھر مروجہ قانون میں ان معاملات سے نمٹنے کی گنجائش فراہم کی ہے۔ 2019ء میں ایشیا کے ملک سنگاپور نے جھوٹی خبریں شائع کرنے والوں کو 10 برس قید کی سزا دینے کا قانون تیار کر لیا ۔ سنگاپور کی حکومت کو انٹرنیٹ پر گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں سے نمٹنے کے سلسلے میں زیادہ اختیارات ہو جائیں گے۔ مجوزہ قانون میں جھوٹی خبریں دینے والے کو 10 برس تک قید اور 738500 امریکی ڈالر کا جرمانہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ [3]

متصادم نظریات اور فرضی خبریں

ترمیم

کبھی کبھی قوم پرستی اور دیگر خوشنما نظریات کے باعث بھی فرضی خبروں کو نشر و اشاعت ملتی ہے۔ بی بی سی کی ایک 2018ء کی خبر کے مطابق بھارت میں لوگ ایسے پیغامات کو شیئر کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں جو ان کے مطابق تشدد پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں لیکن یہی لوگ قوم پرستی والے پیغامات کو شیئر کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ بھارت کی ترقی، ہندو قوت اور ہندو وقار کی بحالی کے متعلق پیغامات بڑے پیمانے پر بغیر حقائق کی جانچ پڑتال کیے واٹس ایپ اور سماجی میڈیا پر بھیج دیے جاتے ہیں۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Tufekci, Zeynep (January 16, 2018)۔ "It's the (Democracy-Poisoning) Golden Age of Free Speech"۔ Wired 
  2. Jacob Soll (2016-12-18)۔ "The Long and Brutal History of Fake News"۔ POLITICO Magazine (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2019 
  3. سنگاپور میں جھوٹی خبرپر 10برس قید کی تجویز
  4. فیک نیوز: انڈیا میں جعلی خبروں کے پیچھے ’قوم پرستی کا جذبہ کارفرما‘