قاضی محمد طاہر علی ہاشمی
قاضی طاہر علی الہاشمی ایک پاکستانی سنی عالم دین تھے۔ پروفیسر اور خطیب ہونے کے ساتھ محقق و مصنف بھی تھے۔ آپ نے ایک عظیم صحابی امیر معاویہؓ کی عظمت کی خاطر طویل عرصہ تحریری تقریری وعدالتی جدوجہد کی[1]۔
قاضی طاہر علی الہاشمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | طاہر علی |
پیدائش | 9 جنوری 1953 تحصیل حویلیاں ضلع ایبٹ آباد |
وفات | 2020ء حویلیاں،ضلع ایبٹ آباد ، صوبہ خیبرپختونخواہ، پاکستان |
قومیت | پاکستانی |
عرفیت | پروفیسر قاضی طاہر علی الہاشمی |
مذہب | اسلام |
رشتے دار | قاضی عبد الحئی چن پیر(والد)،قاضی عبد الواحد فاضل دیوبند(تایا)،قاضی عبد القادر(دادا) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ اسلامیہ بہاولپور |
پیشہ | تحقیق و تالیف |
شعبۂ عمل | سنت |
کارہائے نمایاں | تصانیف: عقیدہ امامت وخلافت راشدہ،تذکرہ خلیفہ راشدسیدنا امیر معاویہ،سیدنا مروان بن الحکم شخصیت اورکردار،شیعیت تاریخ وافکار |
تحریک | دیوبندی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمقاضی محمد طاہر علی الہاشمی معروف علمی و روحانی شخصیت قاضی چن پیر الہاشمی کے گھر اسکول ریکارڈ کے مطابق 9 جنوری 1953ء کو تحصیل حویلیاں کے گاؤں رجوعیہ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
ترمیمآپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور تایا جان قاضی عبد الواحد (جو دار العلوم دیوبند کے فاضل اور انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید تھے) سے حاصل کی۔
جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں تعلیم
ترمیم1963ء میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور کا قیام عمل میں آیا جس کا باقاعدہ افتتاح 9 /اکتوبر 1963ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے کیا، آپ کے والد کو تدریس کے لیے بلایا گیا تو وہ آپکو بھی اپنے ساتھ لے گئے، حالانکہ اس وقت آپ کی عمر 10سال تھی۔۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے پہلے صدر شمس الحق افغانی اس یونیورسٹی میں بحیثیت ’’شیخ التفسیر‘‘ اور احمد سعید کاظمی بحیثیت ’’شیخ الحدیث‘‘ جبکہ جامعۃ الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے شیخ الحدیث عبدالرشید نعمانی اس وقت نائب شیخ الحدیث کے فرائض انجام دے رہے تھے۔۔جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں 9 سالہ قیام کے دوران آپ نے شہادت العالمیہ کا نصاب مکمل کیا جس میں تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و فقہ، عربی ادب، انگریزی، معاشیات کے مضامین مستند علما سے پڑھیں۔۔آپ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے شمس الحق افغانیؒ نے آپ کو سند القرآن الکریم اور احمد سعید کاظمی نے آپ کو سند اجازۃ فی روایۃ الحدیث کی اضافی سندات سے نوازا۔[2]
اساتذہ
ترمیمجامعہ اسلامیہ میں قیام کے دوران آپ نے جن گرامی قدر اساتذہ کرام سے استفادہ کیا ان میں علامہ شمس الحق افغانیؒ، احمد سعید کاظمی اور نائب شیخ الحدیث عبد الرشید نعمانی کے علاوہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں:محمد احمد صاحب بہاولپوری، ڈاکٹر الٰہی بخش جاراللہ، لطافت الرحمن (فاضل دیوبند)، شیخ سید حبیب اللہ شاہ بنوری (فاضل دیوبند)،حسن الدین ہاشمی (شیخ الفقہ) ، ڈاکٹر محمد حسن ازہری (شیخ الادب) ، ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ (شیخ التاریخ)، مولانا شیخ کلیم اللہ، مولانا محمد فرید، مولانا محمد ناصر، پروفیسر چراغ عالم قریشی (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر محمد زبیر (شعبہ اکنامکس) 1973ء میں مولانا قاری فضل ربی صاحبؒ (مہتمم معہدالقرآن الکریم مانسہرہ) نے آپ کو سند القراءت والتجوید للفرقان الحمید علی روایۃ حفص کی اعزازی سند عطا کی۔
ایم اے
ترمیم1976ء میں آپ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا۔پھر مائیگریشن کے بعد 1977ء میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا۔
ملازمت
ترمیمجنوری 1978ء گورنمنٹ کالج سدہ (کرم ایجنسی) میں اسلامیات کے ’’ایڈہاک لیکچرر‘‘ کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی۔۔مئی 1978ء میں پبلک سروس کمیشن صوبہ سرحد کی طرف سے بھی عربی و اسلامیات کے لیکچرر کی حیثیت سے باضابطہ طور پر نوٹیفکیشن جاری ہوا اس کے بعد آپ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد، گورنمنٹ ڈگری کالج حویلیاں، گورنمنٹ کالج شیروان ایبٹ آباد میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے ہوئے بالآخر گورنمنٹ ڈگری کالج حویلیاں سے 8 جنوری 2013 کو بیسویں گریڈ میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔
دینی سرگرمیوں کا آغاز
ترمیم1972ء میں تحصیل علم کے بعد جب آپ گھر واپس آئے تو مرکزی جامع مسجد حویلیاں میں اپنے والد گرامی کے ساتھ نائب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے یہ سلسلہ والد کی وفات 1990ء تک جاری رہا۔اس مسجد کی بنیاد آپ کے والد نے 1956ء میں رکھی تھی۔
والد کی وفات
ترمیم26 جولائی 1990ء کو آپ کے والد گرامی کا انتقال ہوا۔اگلے روز والد کی نماز جنازہ سے قبل علاقہ بھر کے جملہ اقوام و قبائل کے شدید اصرار پر جمعیت العلماء اسلام کے مرکزی امیر سمیع الحق صاحب کے دست سے آپ کی دستار بندی کی گئی اور آپ کو اپنے والد مرحوم کی جگہ مرکزی جامع مسجد حویلیاں کا محکمہ اوقاف صوبہ سرحد کی طرف سے اعزازی طور پر خطیب مقرر کیا گیا۔
بیعت وارشاد
ترمیمآپ 1974ء میں قاضی بشیر احمد پسروری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔
انظر شاہ کشمیری کے ہمراہ
ترمیم18/اکتوبر 1982ء کو انظر شاہ کشمیری (فرزند محمد انور شاہ کشمیری) ایبٹ آباد تشریف لائے تو حویلیاں کی جامع مسجد میں بھی ان کا بیان رکھا گیا۔جس کے بعد شاہ صاحب کے ساتھ بالاکوٹ کے سفر میں شریک ہوئے اور شنکیاری ضلع مانسہرہ میں حضرت کا درس ہوا جس میں انھوں نے دیگر علما کرام کے ساتھ آپ کو بھی سندالاجازہ فی روایۃ الحدیث عطا فرمائی۔
دفاع امیر معاویہؓ کے لیے عدالتی جدوجہد
ترمیمقاضی طاہر ہاشمی نے ایک صحابی سیدنا امیر معاویہؓ کے دفاع کے لیے طویل عرصہ تحریر وتقریر اور یہاں تک کہ بھرپور عدالتی جدوجہد بھی کی۔ تحصیل حویلیاں ضلع ایبٹ آباد کے’’سید محمود المشہور بہ محدث ہزاروی‘‘ کی 23 جون 1985ء کی ریکارڈ شدہ تقریر کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجے میں یکم جولائی 1985ء کو دفعہ نمبر 298-A کے تحت مقامی انتظامیہ نے ان کے خلاف باقاعدہ ایک ایف آئی آر درج کر دی جس کے مطابق تقریباً آٹھ سال (25 دسمبر 1992ء) تک مختلف عدالتوں میں مقدمہ چلتا رہا اور 25 دسمبر 1992ء کومدعا علیہ پیر مجمود ہزاروی کے فوت ہو جانے کی وجہ سے بغیر کسی فیصلہ کے ’’داخل دفتر‘‘ ہو گیا جب کہ پیر محمود ہزاروی اس مقدمہ میں زندگی کی آخری سانس تک ملزم اور پابندِ ضمانت رہے۔’’محمود ہزاروی‘‘ کی وفات (25دسمبر 1992ء) کے 24 سال بعد جنوری 2017ء میں قاضی طاہر الہاشمی نے محمود ہزاروی کے ایک مرید کی غلط بیانیوں کی نشان دہی کے لیے کتاب ’’رودادِ مقدمات‘‘ مرتب کی جو اس مقدمے کی ساری روداد پر مشتمل ہے۔[3][4]
قاضی طاہر علی الہاشمی پر تحقیقی کام
ترمیمچیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی اور بورڈ آف اسٹڈیز کی باضابطہ منظوری سے ایک طالب علم اظہر فرید رول نمبر 13163 نے 25 مئی 2015 کے خط نمبر D/429-is کے تحت ایم اے کے مقالہ کے لیے ’’پروفیسر قاضی محمد طاہر علی الہاشمی-حیات و خدمات‘‘ پر مقالہ پیش کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔
تصانیف
ترمیمقاضی محمد طاہر علی الہاشمی کی علمی و تحقیقی تصانیف حسب ذیل ہیں۔
(1) اصلاح معاشرہ
(2) تحقیق نکاح سیدہ
(3) اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون؟
(4) فرقہ مسعودیہ نام نہاد جماعت المسلمین کا علمی محاسبہ
(5) حدیث حوأب کا مصداق کون؟
(6) حدیث کلاب حوأب کا تاریخی، تحقیقی اور علمی محاکمہ
(7) سرگزشت ہاشمی (سوانح قاضی چن پیر لہاشمی)
(8) حج مبرور
(9) کھلا خط بنام مولانا اللہ وسایا
(10) زلزلہ لولاک اور آفٹر شاکس
(11) عمر عائشہ رضی اللہ عنہا پر تحقیقی نظر… ایک تقابلی مطالعہ
(12) شیعیت… تاریخ و افکار
(13) سقوط جامعہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا
(14) تعارف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ
(15) تذکرہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ
(16) سیدنا معاویہ رضی اللہ پر اعتراضات کا علمی تجزیہ
(17) عقیدہ امامت و خلافت راشدہ
(18) ملی یکجہتی کونسل…ایک تنقیدی جائزہ
(19) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ناقدین
(20) امام طبری کون؟ مؤرخ، مجتہد یا افسانہ ساز
(21) سیدنا مروانؓ شخصیت اور کردار
(22) توضیحات بسلسلہ امام طبری کون۔۔۔ مورخ، مجتہد یا افسانہ ساز۔۔؟؟---المعروف بہ کھلا خط بنام چیف ایڈیٹر روزنامہ اسلام
(23) کتاب گلزار یوسف کا تنقیدی جائزہ
(24)خلیفہ راشد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر سو اعتراضات کا علمی تجزیہ،مطبوعہ 2020ء
(25)اسماعیل ریحان کی تاریخ امت مسلمہ اور تنقیص صحابہؓ،مطبوعہ 2021ء
وفات
ترمیم28 نومبر 2020ء کو وفات پاگئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ رودادِ مقدمات، قاضی طاہر علی الہاشمی مطبوعہ 2018ء
- ↑ اسماعیل ریحان کی تاریخ امت مسلمہ اور تنقیص صحابہ ،مصنف قاضی طاہر علی الہاشمی ،قاضی چن پیر اکیڈمی حویلیاں،مطبوعہ 2021
- ↑ https://ahrar.org.pk/ur/naqeeb-rasala/%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%D9%82%D8%A7%D8%B6%DB%8C-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B7%D8%A7%DB%81%D8%B1-%D8%A7%D9%84%DB%81%D8%A7%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%92-%D8%B5%D8%A7%D8%AD%D8%A8-%D8%B3/ مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت) - ↑ سرگزشت ہاشمی ،از قاضی طاہر علی الہاشمی مطبوعہ 2005ء