قلندر مومند
صاحبزادہ حبیب الرحمٰن قلندر مومند (پیدائش: 1 ستمبر 1930ء - وفات: 3 فروری 2003ء) پشتو زبان، اردو اور انگریزی کے ترقی پسند ادیب، شاعر، مترجم، صحافی، لغت نویس، افسانہ نگار اور دانشور ہیں۔
قلندر مومند | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 ستمبر 1930ء پشاور ، شمال مغربی سرحدی صوبہ |
وفات | 4 فروری 2003ء (73 سال) پشاور ، پاکستان |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعۂ پشاور |
تعلیمی اسناد | ایم اے ، فاضل القانون |
پیشہ | ماہرِ لسانیات ، شاعر ، محقق ، مدیر (اخبار) ، مترجم |
پیشہ ورانہ زبان | پشتو |
ملازمت | گورنمنٹ کالج پشاور ، جامعہ گومل |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
اعزازات | |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمقلندر مومند 6 اکتوبر 1930ء کو موضع بازید خیل، پشاور، شمال مغربی سرحدی صوبہ میں پید ہوئے۔[1] ان کا اصل نام صاحبزادہ حبیب الرحمٰن تھا۔ اسلامیہ کالج پشاور میں میں داخلہ لیا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ بعد میں پرائیویٹ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ 1958ء میں جامعہ پشاور سے ایم اے (انگریزی) اور پھر 1973ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ وکالت کی۔ ملازمت کی ابتدا محکمہ زراعت سے کی۔ چند سال بعد اے جی آفس میں رہے۔ پھر انگلش رابرٹ کمپنی میں ملازت اختیار کی۔ پبلک سروس کمیشن کی وساطت سے گورنمنٹ کالج پشاور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ جب ان کا ٹرانسفر پشاور سے گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد ہوا تو انھیں بے بنیاد الزامات لگا کر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ 1980ء میں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے اور 1982ء میں اسی یونیورسٹی میں لاء کالج کے پرنسپل کے عہدے پر تقرری ہوئی۔ 1983ء میں پشتو ڈکشنری پروجیکٹ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جس کے نتیجے میں میں 1994ء مین دریاب کے نام سے پشتو کی ضخیم لغت شائع ہوئی۔[2] 1960ء سے 1962ء تک وہ شاہی قلعہ لاہور، نوشہرہ، پشاور، ملتان، مچھ اور بہاولپور کی مختلف جیلوں میں پابندِ سلاسل رہے۔ پشتو ادب میں ترقی پسند نظریات کے داعی تھے۔ شاعر، افسانہ نگار، مترجم، لغت نویس اور محقق اور دانشور کے ساتھ ساتھ انھوں نے صحافت میں بھی نام پیدا کیا اور پشتو کے کئی رسائل و جرائد کے مدیر رہ چکے ہیں۔ 1962ء میں روزنامہ انجام جو بیک وقت پشاور اور کراچی سے شائع ہوتا تھا، کے کراچی ایڈیشن کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1968ء میں انگریزی اخبار خیبر میل سے منسلک ہو گئے۔ 1969ء میں روزنامہ شہباز کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1986ء میں انقلاب نامی اخبار سے اعزازی طور پر منسلک ہو گئے۔ وہ اس اخبار کے ادبی ایڈیشن ادبیاتِ ہشتو کے انچارج بھی تھے۔ پشتو زبان میں نکلنے واکے روزنامہ وحدت کے مدیر رہ چکے ہیں۔ ان کی شائع ہونے والی کتابوں میں گجرے (1959ء، افساے)، تنقید (1963ء، ہڈسن کی مشہور کتاب An Introduction of to the Study of Literature کے ایک باب کا ترجمہ و تلخیص)، نظمیات (اپریل 1963ء، بوطیقا کا ترجمہ اور تلخیص، سباؤں (1976ء، شعری مجموعہ)، قصے کہانیاں (1981ء، مختصر کہانیاں، پشتو اکیڈمی پشاور)، کلیات رحمان بابا، د ابو القاسم دیوان (1985ء، دیوان ابو القاسم)، د محمدی صاحبزادہ دیوان (1985ء، دیوان محمدی صاحبزادہ)، د خیر البیان تنقیدی مطالعہ (1988ء، خیر البیان کا تنقیدی مطالعہ)، پٹہ خزانہ فی المیزان (1988ء، مضامین و مقالات)، رنائی (2004ء، دوسرا شعری مجموعہ، ناشر: قلندر ریسرچ سیل)، دریاب (1994ء، پشتو لغت) اور میزان (2008ء، مضامین و مقالات، ناشر: امن پریس باچا خان مرکز پشاور) شامل ہیں۔[3]
اعزازات
ترمیمحکومت پاکستان کی جانب سے 1986ء میں قلندر مومند کی علمی، ادبی خدمات کے صلے میں صدارتی تمغا برائے اعزاز حسن کارکردگی [4] اور بے نظیر دورِ حکومت میں ستارۂ امتیاز دیا گیا۔
وفات
ترمیمقلندر مومند 3 فروری 2003ء کو پشاور، پاکستان میں وفات پا گئے۔[5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ پروفیسر محمد زبیر حسرت، قلندر مومند: شخصیت اور فن، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد، ، 2007ء، ص 17
- ↑ قلندر مومند: شخصیت اور فن، ص 19
- ↑ تاج سعید، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ، 2006ء، ص 83
- ↑ قلندر مومند: شخصیت اور فن، ص 24
- ↑ Bureau Report (5 February 2003)۔ "Qalandar Momand passes away" (بزبان انگریزی)۔ روزنامہ ڈان