قیس بن سعد سعد بن عبادہ کے بیٹے اور صحابی ہیں۔

قیس بن سعد
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 670ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سعد بن عبادہ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
خلافت راشدہ میں والئ مصر (4  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
657  – 657 
محمد بن ابی حذیفہ  
مالک اشتر  
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد ،  والی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاخ خلافت راشدہ کی فوج   ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں جنگ جمل ،  جنگ صفین   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

قیس نام، ابو الفضل کنیت، خاندان ساعدہ (قبیلہ خزرج) اور سعد بن عبادہ سردار خزرج کے فرزند ارجمند ہیں، سلسلۂ نسب، قیس بن سعد بن عبادہ بن ولیم بن حارثہ بن حزام بن خزیمہ بن ثعلبہ بن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکب رہے، والدۂ ماجدہ کا نام فکیہ بنت عبید بن ولیم تھا اور ان کے والد بزرگوار کی بنت عم تھیں۔ اجداد گرامی مدینہ کے مشہور مخیر اور رئیس اعظم تھے۔

اسلام

ترمیم

ہجرت نبوی سے قبل مذہب اسلام سے مشرف ہوئے۔

غزوات

ترمیم

تمام غزوات میں شرکت کی جیش الخبط میں کہ رجب میں ہوا تھا شریک تھے، یہ غزوہ مسلمانوں کے لیے یکسر امتحان وآزمائش تھا 300 آدمیوں کو لے کر جن میں ابو بکر و عمر بھی تھے، ابو عبیدہ ساحل کی طرف بڑھے، وہاں 15روز قیام رہا زاد راہ ختم ہو چکا تھا، لوگ پتے جھاڑ جھاڑ کر کھاتے تھے، قیس نے یہ دیکھ کر اونٹ قرض لیے اور ان کو ذبح کرایا، اس طرح تین مرتبہ میں 9 اونٹ قرض لے کر ذبح کیے اور تما م لشکر کے قوت کا سامان کیا ابو عبید ہ نے یہ دیکھ کر زیادہ زیر بار ہو رہے ہیں اس سے منع کر دیا۔[1] غزوہ سے واپس ہوکر لوگوں نے آنحضرتﷺ سے ذکر کیا تو فرمایا کہ سخاوت اورفیاضی اس گھرانے کا خاصہ ہے۔حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے کہا کہ ان کو روکا جائے ورنہ اپنے باپ کا مال اسی طرح صرف کر دیں گے [2] غزوہ سے واپس ہوکر لوگوں نے آنحضرتﷺ سے ذکر کیا تو فرمایا کہ سخاوت اورفیاضی اس گھرانے کا خاصہ ہے۔ [3] غزوۂ فتح میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب تھے، یاد ہوگا، سعد بن عبادہؓ سے جب آنحضرتﷺ نے جھنڈا لے لیا، تو انہی کو عطا کیا تھا۔ [4] غزوات کی علمبرداری کے علاوہ، وہ خلافت الہی کے ایک ضروری رکن تھے، خلافت کا نظام جن ارکان سے قائم تھا ان میں ایک حضرت قیسؓ بھی تھے۔جنگ صفین میں علی المرتضیٰ کے ساتھ تھے۔جنگ نہروان میں اپنی تمام قوم کے ساتھ شریک تھے، جنگ نہروان میں اپنی تمام قوم کے ساتھ شریک تھے، ابتداً اتمام حجت کے لیے جناب امیر ؓ نے حضرت ابوایوبؓ انصاری اورحضرت قیسؓ کو خوارج کے لشکر میں بھیجا، عبد اللہ بن سنجر خارجی سے گفتگو ہوئی، اس نے کہا کہ آپ کی اتباع ہمیں منظور نہیں، ہاں عمربن خطابؓ جیسا کوئی ہو تو اس کو خلیفہ بناسکتے ہیں، حضرت قیسؓ نے جواب دیا کہ ہم میں علی بن ابی طالبؓ ہیں، تم میں کوئی اس مرتبہ کا ہو تو پیش کرو، بولا ہم میں کوئی نہیں، فرمایا تو پھر اپنی جلد خبر لو، میں دیکھتا ہوں فتنہ تمھارے دلوں میں گھر کرتا جارہا ہے۔ لڑائی کے بعد بھی حضرت علیؓ کے وفادار دوست رہے، 40 ھ میں جناب امیر ؓ شہید ہوئے اورعنان خلافت امام حسن ؓ کو تفویض ہوئی تو قیسؓ ان کے بھی دست بازو رہے، امیر معاویہ نے حضرت علیؓ کی خبر شہادت سن کر ایک لشکر بھیجا تھا، قیسؓ 5 ہزار آدمیوں کو لے کر جن کے سرمنڈے ہوئے تھے اور موت پر بیعت کرچکے تھے، شامی لشکر کو روکنے کے لیے ابنار پہنچے، امیر معاویہؓ نے ابنار کا محاصرہ کیا، اسی درمیان میں فریقین میں صلح ہو گئی اور امام حسنؓ نے قیس ؓ کو خط لکھا کہ "شہر معاویہؓ کے سپرد کرکے میرے پاس مدائن چلے آؤ " خط پہنچا تو نہایت برہم ہوئے اور امام حسنؓ کو سخت وسست کہا، پھر سب کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا اورکہا کہ "دو باتوں میں سے ایک اختیار کرو، قتال بلا امام یا اطاعت معاویہ " سب نے باتفاق کہا کہ جنگ کی بجائے امن اچھا ہے، ہم سب امیر معاویہؓ کی بیعت میں داخل ہوتے ہیں، قیسؓ نے ان لوگوں کے لیے امیر سے امان طلب کی اور سب کو لے کر مدائن چلے آئے۔ یہاں سے قیسؓ نے مدینہ کا رخ کیا، ساتھیوں کے لیے خود اپنے اونٹ ذبح کرائے مدینہ پہنچنے تک ایک اونٹ روزانہ ذبح کراتے تھے۔ مدینہ آکر گوشۂ تنہائی اختیار کیا، اورعبادت الہی میں مصروف ہوئے، یہاں تک کہ ان کا مقرر ہ وقت آگیا۔

وفات

ترمیم

60ھ میں انتقال کیا، یہ امیر معاویہ کی حکومت کا اخیر زمانہ تھا، کچھ دنوں بیمار رہے، اہل مدینہ کثر ت سے ان کے قرضدار تھے، اس لیے عیادت کو آتے ہوئے شرماتے تھے، انھوں نے اعلان کرادیا جس پر جتنا قرض ہے میں معاف کرتا ہوں، اس خبر کے مشہور ہوتے ہی عیادت کے لیے تمام شہر امنڈآیا، قیس بالاخانہ پر تھے، لوگوں کی یہ کثرت ہوئی کہ آمدورفت میں کوٹھے کا زینہ ٹوٹ گیا۔[5]

اہل و عیال

ترمیم

لڑکے کا نام عامر تھا، [6] اپنے والد سے حدیث روایت کی ہے۔

حلیہ

ترمیم

حلیہ یہ تھا، قد لمبا، بدن دوہرا، خوبصورت اورشکیل تھے، چہرہ پر ایک بال نہ تھا اس لیے انصار ظرافت میں کہا کرتے تھے کہ کاش ان کے لیے ایک داڑھی خرید لیجاتی، قد اتنا لمبا تھا کہ گدھے پر سوار ہوتے تو پیر زمین پر لٹکتے تھے۔

فضل وکمال

ترمیم

فضلائے صحابہؓ میں تھے، اشاعت حدیث، خاص نصب العین تھا، مصر میں جب امیر ہوکر گئے، تو بعض حدیثیں منبر پر بیان کیں۔ [7] مسائل میں غور و فکر اور تحری سے کام لیتے تھے۔ ایک شخص نے صدقہ فطر کی بابت سوال کیا، فرمایا زکوٰۃ سے پیشتر آنحضرتﷺ نے اس کا حکم دیا تھا، جب زکوٰۃ مقرر ہو گئی تو نہ حکم دیا اور نہ منع فرمایا، اسی بنا پر ہم لوگ اب تک ادا کرتے ہیں۔ [8] راویان حدیث اور تلامذہ خاص میں اصحاب ذیل کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ، ثعلبہ بن ابی مالک، ابو میسرۃ، عبد الرحمن بن ابی لیلی، ابو عمار غریب بن حمید ہمدانی، شعبی، عمرو بن شرجیل وغیرہ۔

اخلاق و عادات

ترمیم

گلستان سیرت نسیم اخلاق سے شگفتہ ہے، خدمت رسول، زہد و اتقا، ادب نبوت، جو دوسخا، رائے و تدبر، شجاعت وبسالت، ہر دلعزیزی اور بے تعصبی اس نوبادۂ ساعدہ کے گلہائے شگفتہ ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی خدمت دین و دنیا کی سعادت ہے، تمام صحابہؓ اس شرف عظیم کے لیے جدوجہد کرتے تھے؛لیکن"ایں سعادت بزور با زونیست"حضرت قیسؓ کو یہ شرف بھی حاصل تھا، مسند ابن حنبل میں ہے:

ان اباہ دفعہ الی النبی ﷺ یخدمہ[9] یعنی ان کے باپ حضرت سعدؓ نے ان کو آنحضرتﷺ کے حوالہ کیا کہ ان سے کام لیا کریں۔

زہد کا یہ حال تھا کہ امام حسن ؓ کے زمانۂ خلافت کے بعد بالکل عزلت نشین ہو گئے تھے، اکثر عبادت کیا کرتے تھے۔ ف رائض سے گذر کر نوافل تک نہایت پابندی سے ادا کرتے تھے، یوم عاشورہ کا روزہ نفل ہے اور رمضان کے روزوں سے قبل تمام صحابہؓ رکھتے تھے، روزہ رمضان فرض ہونے کے بعد اس کی ضرورت باقی نہ رہی، تاہم حضرت قیسؓ ہمیشہ عاشورے کے دن روزہ رکھتے تھے۔[10]

حامل رسالت کے ادب واحترام کا یہ حال تھا کہ ایک بار آنحضرتﷺ حضرت سعد بن عبادہؓ کے مکان تشریف لے گئے، واپسی کے وقت حضرت سعدؓ نے اپنا گدھا منگایا اوراس پر چادر بچھوائی اور قیسؓ سے کہا کہ آپ کے ساتھ ساتھ جاؤ، قیسؓ چلے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سوار ہوجاؤ، ان کو تامل ہوا تو ارشاد ہوا کہ سوار ہو یا واپس جاؤ حضرت قیسؓ آنحضرتﷺ کے برابر بیٹھنا خلاف ادب سمجھتے تھے، اس لیے واپس آئے۔

جو دوسخا، فیاضی وکرم ان کی زندگی کا روشن ترو صف ہے، اسماء الرجال کے مصنفین لکھتے ہیں:

کان من کرام اصحاب النبی ﷺ واسخیائہم یعنی وہ صحابہؓ میں نہایت کریم اور سخی تھے۔

سخاوت ایک حد تک تو فطری تھی یعنی طبعاً فیاض پیدا ہوئے تھے، لیکن اس میں ملک کی آب و ہوا، والدین کے طرز بود ومانداور خاندان کی قدیم خصوصیات کو بھی بڑی حد تک دخل تھا۔

جیش الخبط کے معرکے میں جب مدینہ آکر اپنے والد سے لوگوں کی فاقہ مستی کا حال بیان کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اونٹ ذبح کراتے، جواب دیا کہ میں نے ایسا ہی کیا، دوسرے فاقہ کا حال کہا تو بولے پھر ذبح کراتے، عرض کیا یہی کیا تھا، اسی طرح تیسری بار کی بھوک اوراس کی شدت کا حال سنا تو فرمایا کہ پھر ذبح کراتے بولے کہ مجھے روک دیا گیا۔[11]

اسی غزوہ میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے جو جملہ ان کے متعلق استعمال کیا تھا، اس کی خبر سعد بن عبادہ کو پہنچ گئی، وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آکر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ابن ابو قحافہؓ اورابن خطابؓ کی طرف سے کوئی جواب دے، وہ میرے بیٹے کو بخیل کیوں بنانا چاہتے ہیں۔[12]

جس شخص کا باپ اتنا دریا دل ہو، اس کی فیاضی کی کیا انتہا ہو سکتی ہے، مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں:

واما جودہ فلہ فیہ اخبار کثیرۃ لانطول بذکرہا۔[13] یعنی ان کی سخاوت کے قصے کثرت سے مشہور ہیں ہم ان کا ذکر طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔

کثیر بن صلت امیر معاویہؓ کے قرضدار تھے، انھوں نے مروان کو لکھا کہ کثیر کا مکان تم خرید لو، اگر نہ دیں تو روپیوں کا مطالبہ کرنا، روپیہ دیں تو خیر ورنہ مکان فروخت کرڈالنا، مروان نے کثیر کو بلاکر اس واقعہ سے آگاہ کیا اور 3 دن کی مہلت دی، کثیر کو مکان بیچنا منظور نہ تھا روپیوں کی فکر کی؛ لیکن 30 ہزار کی کمی تھی سخت پریشان تھے کہ کہاں سے پوری ہو! اتنے میں قیسؓ کا خیال آیا، ان کے مکان پر پہنچے اور 30 ہزار قرض مانگا، انھوں نے فورا ًدے دیا، چنانچہ مروان کے پاس روپے لے کر آئے اس کو رحم آگیا اورمکان اور روپے دونوں ان کے حوالے کر دیے، وہاں سے اٹھ کر قیسؓ کے پاس پہنچے اور 30 ہزار کی رقم واپس کی، انھوں نے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ جو چیز ہم دیدیتے ہیں اس کو پھر واپس نہیں لیتے۔[14]

ایک ضعیفہ اپنی مفلوک الحال اور فقر کی شکایت لے کر آئی اور کہا کہ میرے گھر میں چوہے نہیں ہیں (یعنی اناج نہیں جس کی وجہ سے چوہے آئیں) فرمایا سوال نہایت عمدہ ہے، اچھا جاؤ اب تمھارے گھر میں چوہے ہی چوہے نظر آئیں گے ؛چنانچہ اس کا گھر غلہ اور روغن اور دوسری کھانے کی چیزوں سے بھروادیا۔[15]

آبائی جائداد میں نہایت استغنا اور سیر چشمی ظاہر کی، حضرت سعدؓ شام روانہ ہوتے وقت اپنی تمام جائداد اولاد پر تقسیم کر گئے تھے، ایک لڑکا ان کی وفات کے بعد پیدا ہوا اس کا حصہ انھوں نے نہیں لگایا تھا، حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ نے قیس کو مشورہ دیا کہ اس تقسیم کو فسخ کرکے از سر نو حصے لگائیں، انھوں نے کہا کہ میرے باپ جس طرح حصے لگا گئے ہیں بدستور باقی رہیں گے، باقی میرا حصہ موجود ہے، وہ میں اس کو دیے دیتا ہوں۔[16]

رائے و تدبیر میں تمام عرب میں انتخاب تھے، مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں:

كانوا يعدون دهاة العرب حين ثارت الفتنة خمسة رهط، يقال لهم: " ذوو رأي العرب ومكيدتهم " : معاوية، وعمرو بن العاص، وقيس بن سعد، والمغيرة بن شعبة، وعبد اللہ بن بديل بن ورقاء۔[17] یعنی ایام فتنہ میں عرب میں چال اور حکمت عملی والے پانچ شخص تھے، معاویہؓ، عمرو بن العاصؓ، قیسؓ، مغیرہؓ، عبد اللہ بن بدیل

ہوشیاری اورچالاکی کا یہ عالم تھا کہ جب تک وہ مصر کے والی رہے امیر معاویہؓ اور عمروؓ کی کوئی حکمت عملی کارگر نہ ہوئی وہ کہتے ہیں:

لو لا الاسلام لمکرت مکرالاتطیقہ العرب

یعنی اگر اسلام نہ ہوتا تو میں ایسا مکر کرتا جس سے تمام عرب عاجز آجاتا اپنی قوم میں نہایت ہر دلعزیز اور تمام انصار پر حاوی تھے۔

حبیب بن مسلمہ فتنۂ اولی (قتل حضرت عثمانؓ) کے زمانہ میں گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پاس آئے اور کہا کہ اسی گھوڑے پر سوار ہوجایے اورخود زین سے ہٹ گئے، قیسؓ نے اس بنا پر آگے بیٹھنے سے انکار کیا کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ آگے خود جانور کے مالک کو بیٹھنا چاہیے، حبیب نے کہا یہ بھی جانتا ہوں، لیکن آپ کے پیچھے بیٹھنے میں مجھ کو اطمینان نہیں۔[18]

نہایت درجہ بے تعصب تھے، قادسیہ میں سہل بن حنیف کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ گذرا تو جیسا کہ مسلمانوں کا عام قاعدہ تھا، کھڑے ہو گئے، لوگوں نے کہاآپ ناحق کھڑے ہوئے، وہ ایک ذمی کا جنازہ تھا، حضرت قیسؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ بھی ایک یہودی کے جنازہ کے لیے اٹھے تھے، جب واقعہ معلوم ہوا تو ارشاد فرمایا کیا مضائقہ آخر وہ بھی تو ایک جان ہے۔[19]

شجاعت وبسالت کا تذکرہ غزوات میں آچکا ہے، اس بنا پر اس کا اعادہ چنداں ضروری نہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. بخاری:2625
  2. (اسد الغابہ:4/215)
  3. (استیعاب:2/539)
  4. (استیعاب::2/539)
  5. اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 840 حصہ ہفتم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير، ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  6. (مسند :3/422)
  7. (مسند:2/422)
  8. (مسند:2/423)
  9. (مسند:3/422)
  10. (مسند:3/422)
  11. (بخاری:3/626)
  12. (اسد الغابہ:4/215)
  13. (اسدالغابہ:4/316)
  14. ( استیعاب:2/539)
  15. (استیعاب:2/539)
  16. (استیعاب:2/539)
  17. (اسد الغابہ، باب قیس بن سلع:2/419)
  18. (مسند:3/422)
  19. (مسند:6/6)

سانچے

ترمیم