لاطینی امریکا میں سزائے موت

بیش تر لاطینی امریکی ممالک نے یا تو سزائے موت کے نفاذ کے بارے میں کوئی موقف نہیں لیا ہے یا اپنے موقف کا رسمی اور واضح طور پر اعلان نہیں کیا ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین نے محسوس کیا ہے کہ اس خطے میں سزائے موت کی منسوخی کے حق میں فضا سازگار ہے۔

بھانسی کا پھندا

برازیل ترمیم

بین الاقوامی سطح پر سزائے موت کی معطلی کے حق میں ادارہ اقوام متحدہ کی قرارداد کو برازیل نے تائید کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خود برازیل میں 1979ء میں سزائے موت پر روک لگا دی گئی تھی۔ ملک میں سزا کی اعظم ترین میعاد 30 سال ہے۔[1]

پرلی سیپریانو، صدارتِ برازیل کے انسانی حقوق کے دفاع کے نائب معتمد نے کہا کہ ان کا ملک اپنے اس موقف کا بین الاقوامی فورموں میں با رہا اعلان کرتا آیا ہے۔ تاہم سیپریانو نے زور دیا ہے کہ حالاں کہ برازیل میں سزائے موت کو قانونی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے، “سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو آمریت کے دور (1964ء-1985ء) میں فوج اور پولیس کے اداروں میں قتل کیا گیا ہے اور ان اموات کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔” 2007ء کے لگ بھگ برازیل کے لولا انتظامیہ نے پہلی بار ایک کتاب “Direito á Memória e á Verdade” (یاد داشت اور سچائی جاننے کا حق)، جس میں پہلی بار ملک نے ان موتوں کے سانحوں کو تسلیم کرنے کی کوشش کی ہے۔[1]

ارجنٹائن ترمیم

ارجنٹائن میں 1984ء میں عام جرائم کے لیے سزائے موت منسوخ کر دی گئی تھی۔ یہ برازیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادارۂ اقوام متحدہ کی جانب سے سزائے موت روکنے کے اقدام کی پزرور وکالت میں کھڑا ہونے والا دوسرا لاطینی امریکی ملک ہے۔

ارجنٹائن کے سابق نیسٹر کیرچنر انتظامیہ نے مکمل طور پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔[1]

وینیزویلا ترمیم

وینیزویلا غالبًا ایسا پہلا لاطینی ملک ہے جہاں دستوری طور سزائے موت کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ یہ منسوخی سبھی جرائم کے لیے 1863ء میں ہوئی تھی۔ تاہم ملک میں سرکاری طور کوئی موقف کا اعلان نہیں کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی قرارداد پر کیا رد عمل دکھائے گا۔ مگر ملک کے قوانین اور اس موضوع پر قانونی ماہرین کی رائے کو دیکھتے ہوئے وینیزویلا بھی سزائے موت کی عالمی سطح پر منسوخی کا حامی قرار دیا گیا ہے۔[1]

میکسیکو ترمیم

میکسیکو میں سزائے موت سزائے موت سے متعلق چند آخری مسلح افواج کی قانونی گنجائشوں کو 2005ء میں منسوخ کر دیا گیا۔ یہ باوجود اس کے ہے کہ 1961ء سے لے کر ان گنجائشوں کی منسوخی تک کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی۔[1]

پیرو ترمیم

پیرو کے سابق صدر ایلان گارسیا (Alan García) نے اپنے دور حکومت (1985ء تا 1990ء اور 2006ء تا 2011ء) کے دور یہ ارادے کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ سزائے موت کو دوبارہ واپس لانا چاہتے ہیں۔ انھوں ایک مسودہ بھی پیش کیا تھا، جس کا مقصد یہی تھا۔ تاہم ملک یہ سزا شاذ و نادر ہی ہے۔[1]

کیوبا اور گواتیمالا ترمیم

کیوبا اور گواتیمالا میں کچھ معمولی جرائم کے لیے بھی سزائے موت کا جواز موجود ہے۔[1]

کولمبیا، کوسٹا ریکا، ایکواڈور، ہونڈوراس، نکاراگوا اور پناما ترمیم

کولمبیا، کوسٹا ریکا، ایکواڈور، ہونڈوراس، نکاراگوا اور پناما میں سزائے موت فوجی عدالتوں سے بھی ہٹا دی گئی ہے۔[1]

بولیویا، چلی اور ایل سیلواڈور ترمیم

بولیویا، چلی اور ایل سیلواڈور میں کچھ فوجی ضابطوں کو چھوڑکر باقی معاملوں میں سزائے موت منسوخ کر دی گئی ہے۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم