مانڈو، مدھیہ پردیش
مانڈو یا شادی آباد(انگریزی: Mandu) بھارت کا ایک مشہور تاریخی قصبہ جو مدھیہ پردیش میں واقع ہے۔[1]
माण्डू شادی آباد | |
---|---|
قصبہ | |
جہاز محل | |
ملک | بھارت |
ریاست | مدھیہ پردیش |
ضلع | دھر ضلع |
علاقہ | مالوہ |
قائم از | پنوار راجا |
زبانیں | |
• دفتری | ہندی زبان |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
آیزو 3166 رمز | آیزو 3166-2:IN |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | ایم پی |
مانڈو یا مانڈوگڑھ ضلع دھار کے موجودہ مانڈوا علاقے میں ایک قدیم شہر ہے۔ یہ دھار شہر سے 35 کلومیٹر دور بھارت کے مغربی مدھیہ پردیش کے مالوا خطے میں واقع ہے۔ 11 ویں صدی میں مانڈو ترنگا گڑھ یا ترنگا بادشاہی کا سب ڈویژن تھا۔ یہ قلعہ قصبہ اندور سے 100 کلومیٹر (62 میل) دور پتھریلی خطے پر واقع ہے اور یہ اپنے تاریخی عمارتوں کے لیے مشہور و معروف ہے۔
آبادی سے بربادی تک [مختصر تاریخ]
ترمیمیہ مالوہ بلکہ ہندوستان کا قلب ہے ،اس کی تعمیر پنوار راجاوں کے عہد بارہویں صدی عیسویں میں شروع ہوئی اس کو "منڈپ درگ"کانام دیا گیا تھا جو بعد میں چل کر "منڈپ گڑھ "و"مانڈو گڑھ" ہو گیا، پنوار خاندان کا آخری راجا مہلک دیو کے عہد میں دہلی کے سلطان علا٫الدین خلجی کے سپہ سالار عین الملک ملتانی نے 1305ءمیں حملہ کرکے مہلک دیو کو شکست دیکر اس قلعہ پر قبضہ کر لیا اور مالوہ دہلی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔
دہلی کے تغلق سلطنت کے زوال کے بعد مالوہ کے صوبہ دار دلاور خاں غوری نے 804ھ م 1402ء میں اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور مانڈو کی تعمیرات کا کام شروع جو 150 سال تک جاری رہا، سلطان ہوشنگ شاہ غوری نے اپنی تخت نشینی کے بعد 809ھ م 1406ء کو اپنا دا رالسلطنت دھار سے مانڈو منتقل کر دیا اور اس کا نام شادی آباد رکھا، جس پر 1512ء میں اکبر کے حملہ اور فتح کے بعد دہلی کی مغل سلطنت میں ضم کر لیا گیا، مانڈو کی مرکزی حیثیت ختم ہو گئی اور یہ صرف فوجی اہمیت کا قلعہ رہ گیا ، 1731ء کی ترلہ کی لڑائی میں مانڈو کے مغل گورنر دریا بہادر کو مرہٹہ سردار ملہار راو ہلکر و اوداجی راو پنوار نے شکست دیدی اور مانڈو پر مرہٹوں کا قبضہ ہو گیا، مغلوں نے محمد خاں بنگش ، راجا رائے سنگھ ، راجا سوائی جے سنگھ اور نظام الملک کو یکے بعد دیگرے مانڈو کا مقرر کیا مگر ان میں سے کوئی بھی مرہٹوں کو مانڈو سے نہ نکال سکا ، آخر محمد شاہ بادشاہ دہلی نے 1734ء میں باجی راو پیشواکو مالوہ کا گورنر مقرر کر دیا، مانڈو سے انتقال آبادی کا سلسلہ شروع ہو گیا ، یہاں کے باکمال ، صاحب علم ، صاحب اقتدار اور اہل حرفہ نے ہجرت شروع کردی اور مانڈو ویران ہو گیا، مرہٹہ سلطنت کے زوال کے بعد مالوہ میں چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں قائم ہو گئیں اور یہ قلعہ ریاست دھار کے قبضہ میں آگیا ، اب اس کی فوجی اہمیت بھی ختم ہو گئی اور عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہو گئیں، انگریزی دور حکومت میں اسے محکمہ آثار قدیمہ ریاست دھار کے تحفظ میں لیا گیا، پھر 1956ء میں کانگریس کے دور میں مزید اس کے تحفظ کے احکام جاری کیے گئے جس کی بنا پر آج تک اس میں مرمت کا سلسلہ جاری ہے،اور مانڈو کی حیثیت ایک بین الاقوامی ٹورسٹ سینٹر کی ہو چکی ہے۔
قلعہ مانڈو
ترمیمقلعہ مانڈو اپنے محل وقوع کی بنا پر دنیا کے اہم ترین قلعوں میں سے ایک ہے، یہ کوہ بندھیاچل کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے ، سطح سمندر سے اس کی اونچائی 2079 فٹ ہے ، اس چوٹی اور مالوہ کی سطح مرتفع کے درمیان ایک قدرتی گہرا نالہ حائل ہے ، جس پر گھنے جنگلات کھڑے ہیں ، یہ نالہ اس عجیب و غریب چوٹی کے ارد گرد پھیلا ہوا ہے ، اپنے عجیب و غریب پیچ و خم کی بناپر "کوہ کیکڑا" کہلاتا ہے ، جو بعد کو بگڑ کر" کانکڑا کھوہ"ہو گیا، پہاڑی کی چوٹی کے کنارے کنارے فصیل بنائی گئی ہے جس کی لمبائی 40 میل 64 کیلو میٹر ہے، اس طرح یہ قلعہ دنیا کا وسیع ترین اور محفوظ ترین قلعہ بن گیا ہے{مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی} فرشتہ کہتا ہے : اس قلعہ کو چاروں طرف سے محصور کرلینا انسانی طاقت سے باہر ہے{تاریخ فرشتہ:2/674}سر جے ایس کیمبیل کے مطابق پندرہویں صدی کے عہد عروج میں مانڈو کی پہاڑی کا رقبہ 12000 ایکڑ تھا ، جس میں 560 کھیت ، 370 باغات ، 2000کنویں ، 780 تالاب اور جھیلیں ہیں ، 100 بازار کی سڑکیں، 1500مکانات ، 200 سرائیں ، 360 حمام ، 470 مسجدیں اور334 محلات تھے۔
قلعہ کے دروازے
ترمیمعالمگیر دروازہ: قلعہ میں داخل ہونے لیے یہ پہلا دروازہ ہے ، جو پہاڑی کے نیچے بنا ہوا ہے ، دروازہ کی مرمت عہد عالمگیر میں ہوئی تھی ، اس لیے یہ عالمگیر دروازہ کہلاتا ہے۔
بھنگی دروازہ: عالمگیر درواہ سے گذر کر دوسرا دروازہ ہے جس کو بھنگی دروازہ کہتے ہیں ، یہ دروازہ غالبا ہندو عہد کا تعمیر کردہ ہے {اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قلعہ کی مکمل تیاری کے بعد ایک بھنگی کو یہاں دفن کیا گیا تھا۔
کمانی دروازہ: بھنگی دروازہ اور گاڑی دروازہ کے درمیان محراب دار دروازہ ہے جو کمان کی شکل کا ہے۔
گاڑی دروازہ: پہاڑی کے اوپر قلعہ میں داخل ہونے کے لیے یہ دروازہ ہے ،گاڑیاں وغیرہ اسی دروازہ سے داخل ہوتی ہیں۔
دہلی دروازہ: یہ دروازہ دلاور شاہ غوری کے زمانہ میں ہوشنگ شاہ نے بنوایا تھا ، مختلف زمانوں میں اس دروازہ پر محاصرین سے زبردست لڑائیاں ہوئیں ہیں، یہ دروازہ پندرہویں صدی کے فن تعمیر کا ایک نمونہ ہے ۔
تریپولیا دروازہ:جامع مسجد کے سامنے مشرقی رخ پر سڑک کے کنارے ایک بلند دروازہ کے کھنڈر ہیں ، جس کے اصل میں تین در تھے ، دروازہ اینٹ چونے کا بنا تھا یہ کسی بادشاہ نے شاہی جلوس یا امرا٫ کی سواری کے لیے تعمیر کیا ہوگا۔
تاراپور دروازہ: یہ دروازہ مانڈو کے جنوب مغرب میں واقع ہے، دروازہ سے نیچے وادی میں تاراپور گاؤں ہے ، یہ دروازہ دلاور خاں غوری کے عہد میں اس کے لڑکے الپ خاں{ہوشنگ شاہ} نے بنوایا تھا، تاریخ شاہد ہے کہ اس دروازہ کی جانب سے مانڈو پر کئی حملے ہوئے ہیں ، ہمایوں کی فوجیں اسی درازہ کے پاس دیواروں پر چڑھ کر مانڈومیں داخل ہوئی تھیں، یہاں پہاڑی کی بلندی ایک ہزار فٹ ہے۔
بگوانیا{بھگوانیہ} دروازہ: قلعہ کی جنوبی دیوار میں نماڑ کی وادی کے سامنے بگوان پور گاؤں سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک دروازہ ہے جس کو بگوانیہ یا بھگوانیہ دروازہ کہتے ہیں ، اس دروازہ تک پہنچنے کے دو راستہ ہیں: ایک روپ متی کی شہ نشیں سے قلعہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ اور دوسرا ایک پگڈنڈی ہے جو باز بہادر کے محل والی سڑک سے جاتی ہے، ایک کتبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دروازہ سلطان محمود خلجی دوم کے زمانہ میں تعمیر ہوا ہے۔
جہانگیر پور دروازہ:قلعہ کے مشرقی جانب پہاڑی اتنی زیاہ بلند نہیں ہے کہ جتنی دوسری جانب ہے، اس لیے مشرقی کنارے پر فصیل بہت مضبوط بنائی گئی ہے اور اس میں صرف ایک ہی دروازہ بنایا گیا ہے ، جو جہاگیر پور دروازہ کہلاتا ہے ، اس دروازہ سے 2-3 میل کے فاصلہ پر نیچے نماڑ کی وادی میں جہانگیر پور ایک گاؤں ہے ، جس کے نام پر اس دروازہ کا نام پڑا۔
رام پول دروازہ: یہ دروازہ اشرفی محل سے بجانب شمال مشرق کچھ فاصلہ پر واقع ہے اور شاید قلعہ کے اولیں دروازہ میں سے ہے، داخلی محراب کے فیل پائے اور نگہبانوں کے کمروں کے ستونوں سے ہندو صناعی کا اظہار ہوتا ہے اور چھت اسلامی فن تعمیر کی ہے ، مالوہ کے سلطانوں نے س دروازہ کو دوبارہ تعیر کروایا اور قدیم عمارت کا ملبہ استعمال کیا۔
لوہانی دروازہ: ہوشنگ کے مقبرہ سے دو فرلانگ پر پہاڑی کے نغربی کنارے پر یہ دروازہ واقع ہے، یہاں سے ایک پگڈنڈی نیچے وادی کی پشت میں جاتی ہے اور نماڑ میں واقع دیہاتوں کو پہنچتی ہے، یہاں سے وادی میں کچھ مقبرے اور محلات کے کھنڈر نظر آتے ہیں ۔
مساجد
ترمیمجامع مسجد :یہ مسجد شادی آباد میں سلطان ہوشنگ شاہ نے بنوانا شروع کی ، مگر ان کی زندگی میں اس کی تکمیل نہیں ہو سکی ، سلطان محمود خلجی نے اس کی تعمیر جاری رکھی اور 858ھ م 1454 ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی، مسجد کی لمبائی شرقا غربا 273 فٹ 19انچ اور چوڑائی شمالا جنوبا 274فٹ 6 انچ ہے ، مسجد میں کوئی مینار نہیں ہے ، گنبدوں کی شکل فلسطین و شام کے مصنوعی چوبی گنبدوں کے مشابہ ہے ،عمارت کا نقشہ جامع قیروان کے نقشہ سے مشابہ ہے ، لیکن محرابوں کی شکل مختلف ہے، مسجد کے تین بڑے گنبد اور 58 چھوٹے گنبد ہیں جو امام و خطیب کی آواز کو باز گشت کرتے تھے ، جس سے مسجد کے ہر حصے میں آواز صاف سنائی دیتی ہے مکبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ملک مغیث کی مسجد:ساگر تالاب سے مشرقی جانب راستہ کے بائیں جانب یہ مسجد واقع ہے ، اس کے مشرقی دروازہ کے کتبہ کے مطابق اس کو خان جہاں ملک مغیث پدر سلطان محمود خلجی نے 1432 ء میں تعمیر کیا تھا ، اس کا طرز تعمیر نیم ہندو اور نیم مسلم مخلوط ہے ، عمارت کا بیرونی رخ اسلامی طرز کا ہے ، گنبد مخروطی نہ ہوکر چپٹے عہد تغلق کے طرز کے ہیں، مسجد کی تعمیر ہندو معماروں کی ہے اور مانڈو کے دور اول کی عمارتوں میں سے ہے، مسجد کی محراب پر پلاسٹر کیاہوا ہے اور منبر غائب ہے۔
دلاور خاں کی مسجد :ہنڈولہ محل سے ایک دیواروں سے گھرا ہوا راستہ دلاور خاں کی مسجد کو جاتا ہے ، یہ مسجد شاہی محلات کے مکینوں کے لیے مخصوص تھی ، مشرقی دروازہ کے کتبہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسجد 1405ء میں تعمیر ہوئی تھی اور مانڈو کی سب سے پہلی اسلامی عمارت ہے ، اس کے فن تعمیر کا طرز بنگالی ہے ، اس میں سوائے نماز گاہ اور مشرقی دروازہ کے طاقوں کے بہت کم ایسی چیزیں ہیں جن کو خالص اسلامی سمجھا جائے ، مغربی دیوار کاممبر بھی حوادث زمانہ سے غائب ہے۔
مدرسہ اشرفی محل
ترمیمجامع مسجد کے مشرقی یا صدر وازہ کے سامنے ایک بہت بڑی مگر شکستہ عمارت کھڑی ہے ، جس کو مدرسہ یا اشرفی محل کہتے ہیں ، یہ مدرسہ سید اشرف جہانگیر صمنانی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا ، سلطان ہوشنگ اور محمود خلجی ان کے بڑے معتقد تھے اور انہی کے پند و نصائح کے مطابق حکومت چلاتے تھے ، حضرت صمنانی جونپور سے شاہان مالوہ کو پند و نصائح بھیجتے تھے ، یہ عمارت تین عمارتوں کا مجموعہ ہے، پہلی مدرسہ جو سلطان ہوشنگ کے عہد میں تعمیر ہوا، دوسرا مدرسہ کے مشرقی صحن کو پر کرکے اس پر سلطان محمود خلجی کا مقبرہ تعمیر ہوا ، تیسرے کے شمالی مشرقی حصہ میں ایک سات منزلہ مینار جو رانا میواڑ پرفتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھااور جس کو فتح مینار کہا جاتا ہے ، بعد کی دونوں عمارتیں محمود خلجی نے بنوائی تھی اور تینوں کا مجموعہ عمارت "اشرفی محل" کہلاتی ہے ۔
مقبرے
ترمیممقبرہ ہوشنگ شاہ :یہ مقبرہ ہوشنگ شاہ نے اپنی زندگی میں بنوانا شروع کر دیا تھا ، جس کی تعمیر محمود خلجی کے زمانہ میں ہوئی ، یہ سنگ مرمر کا مقبرہ مانڈو کی بہترین عمارتوں میں ہے، جو پندرہویں صدی کا شاہکار ہے، اس وقت مانڈو کی درست حالت کی عمارتوں میں سے ایک ہے، یہ مقبرہ جامع مسجد کے مغربی دیوار کے احاطہ کے ساتھ واقع ہے ، مقبرہ اندور سے مربع ہے جس کی دیواریں گیارہ فٹ چوڑی ہیں ، مقبرہ کا ہر پہلو 49 فٹ دو انچ ہے ، تیس فٹ بلند محرابوں کے اندر مثمن کی شکل میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس پر گنبد بنا ہوا ہے ، گنبد کے نیچے ہوشنگ شاہ کا مقبرہ ہے ، قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے ، اصل قبر اس تعویذ کے نیچے ہے جس میں جنوب کی طرف سے سیڑھیاں اندر جانے کے لیے بنی ہوئی ہیں،اس پر پتھر کا فرش ڈھانک کر راستہ بند کر دیا گیا ہے، گنبد کے نیچے تین قبریں بنی ہوئی ہیں جن میں تین تابوت سنگ مرمر کے ہیں،ایک سرخ پتھر کی اور باقی پر چونے کا صندلہ ہے ، یہ قبریں سلطان ہوشنگ کے خاندان کے افراد کی ہیں ، ہوشنگ کے مقبرہ کے گنبد میں مسامات کے ذریعہ ہوا داخل ہو جاتی ہے جوسرد ہوکے پانی بن کر ہوشنگ کے تابوت پر قطرہ قطرہ ٹپکتی رہتی تھی ، تعویذ پر پانی نکلنے کا راستہ بنا ہوا ہے جو بہ جاتا تھا،اس کو لوگ ہوشنگ کی کرامت باور کرتے تھے ، پانی کے قطرات ٹپکنے کا سلسلہ اب بند ہو گیا ہے، ہوشنگ کے تعویذ قبر پر قلمدان بنا ہوا ہے ، اس کے بالائی حصہ سے آج بھی صندل کی خوشبو آتی ہے،یہ مقبرہ ایک زیارت گاہ بن گیا تھا جہاں ہر سال سلطان ہوشنگ کا عرس ہوتا تھا۔گذشتہ سو سال سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔
مقبرہ سید نظام مانڈوی:ساگر تالاب کے مشرقی پشتہ کے نیچے فاریسٹ نرسری کے درمیان سید نظام مانڈوی اور ان کے پدر بزرگوار سید اشرف کا مقبرہ ہے ، یہ مقبرہ سید نطام نے خود اپنے والد کے مزار پر بنوایا تھا اور خود بھی اسی میں دفن ہوئے ، عمارت دو منزلہ ہے ، بیچ میں مقبرہ اور تین طرف غلام گردش اور بڑے بڑے دالان ہیں ، حادثات زمانہ سے مقبرہ کے تابوت غائب ہیں۔
دریا خاں کا مقبرہ: ہاتھی محل کے شمال میں کچھ دور ایک مقبرہ ہے ، جو دریاخاں کے مقبرہ کے نام سے منسوب ہے ، دریاخاں سلطان محمود خلجی دوم کے عہد {1510ء سے 1526ء} میں مانڈو کے دربار شاہی کا ایک اعلی حاکم تھا، اس قدیم عمارت کا فن تعمیر بے حد دلچسپ ہے؛ کیونکہ یہ اس دور تغیر کا اظہار کرتا ہے جس میں جامع مسجد و مقبرہ ہوشنگ شاہ کا طرز تعمیر دائی کے محل اور چھپن محل کے طرز میں تبدیل ہوا۔
محلات
ترمیمطویلی محل:یہ طویلہ محل کی بگڑی ہوئی صورت یعنی اصطبل ہے ، اس عمارت کا دروازہ کے اتنا قریب ہونا ظاہر کرتاہے کہ یہ عمارت شاہی احاطہ کی حفاظت کے لیے پہرے داروں کی قیام گاہ اور شاہی گھوڑوں کا اصطبل رہا ہوگا ، زمین کی سطح سے نیچے ایک منزل ہے جس میں اصطبل اور زمین کے اوپر دو منزلوں میں سپاہیوں کی قیام گار رہی ہوگی ، طویلہ محل کے کوٹھے پر چڑھ کر کھنڈر اور پہاڑوں کا نظارہ بڑا دلکش دکھائی دیتا ہے ۔
جہاز محل: شاہی احاطہ کے شمالی دروازہ میں داخل ہوتے ہی یہ عمارت بائیں جانب طویلہ محل کے سامنے ہے ، اس محل کانام جہاز محل اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ اس کے مشرق میں کپور تالاب اور مغرب میں منج تالاب ہیں ، محل کے مغرب مین چمپا باولی اور شاہی محلات پر کھڑے ہو کر دیکھنے میں اس محل کا پورا عکس منج تالاب میں ایک جہاز کی شکل میں نظر آتا ہے ، اس محل کی لمبائی 361 فٹ اور چوڑائی 48 فٹ اور بلندی 31 فٹ 6 انچ ہے ، یہ غیاث الدین خلجی کے عہد میں تعمیر ہوا تھا اور ان کی حرم سرا تھا۔
ہنڈولہ محل: ہنڈولہ کے معنی جھولنے کے ہیں اس محل کو ہنڈولہ محل اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کی دیواریں بہت جھکی ہوئی ہیں اور ڈھالو ہیں ، دیواریں نیچے سے سات فٹ 6 انچ زیادہ چوڑی ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمارت جھول رہی ہے، اس محل کا فن تعمیر سادگی اور حسن تاثیر میں جہاز محا یا ملک مغیث کی مسجد سے جداگانہ ہے، یہ عمارت غیاث الدین خلجی کے آخری عہد یعنی پندرہویں صدی کے اواخر میں تعمیر ہوئی تھی، ہنڈولہ محل کو سلطان دیوان عام کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
دائی کی چھوٹی بہن کا محل: کارواں سرائے کے جنوب میں بہت سی قدیم عمارتیں ہیں جن کانام دائی کا محل اور دائی کی چھوٹی بہن کامحل ہے ، ان عمارتوں کا طرز تعمیر مانڈو کی تیسری دور کی عمارتوں کا ہے، کارواں سرائے سے جنوب میں سو قدم پر پہلی عمارت ہے جس کا نام دائی کی چھوٹی بہن کا محل ہے ، اس عمارت کا نام گور محل ہے ، لیکن یہ کسی خاتون کا مقبرہ ہے ، سلاطین نے اکثر ایسے محلات بنوائے ہیں جن میں مرنے کے بعد انھیں دفن کیا گیا ہے، اسی لیے یہ عمارتیں ان کے رہائشی مکانات کے ساتھ ساتھ ان کے مقبرے بن گئے۔
دائی کا محل: اس عمارت سے جنوب کی طرف جو محل ہے وہ دائی کا محل کہلاتا ہے، یہ نہایت رفیع الشان عمارت ہے جس کی کرسی زمین سے 16 فٹ بلند ہے ، عمارت کے شمال مشرق اور جنوب مشرق میں کونوں پر برجیوں کے آثار ہیں ، جن کے اوپر شہ نشیں بنائے گئے تھے ، مقبرہ کی کرسی کے اوپر چبوترا ہے ، اس کے وسط میں مقبرہ ہے ، کہتے ہیں کہ یہ محمود خلجی اول کی دایہ کا محل اور مقبرہ ہے ، انھیں عمارتوں کے گنبدوں سے آواز باز گشت ہوتی ہے۔
جالی محل: صدائے با گشت کے مقام سے جنوب کی طرف آگے بڑھنے پر ساگر تالاب کے جنوبی سرے کے سامنے سڑک کے مقابل ایک پہاڑی پر یہ محل واقع ہے، یہ محل کسی رئیس یا وزیر کا مقبرہ ہے ، اورجالی محل کہلاتا ہے ، اس میں کام اسلامی طرز کے ہندی نمونہ کا ہے اس لیے اس کا نام جالی محل پڑا، مقبرے کے اندر چار قبریں ہیں مقبرہ سنگ سرخ کابنا ہو اہے اور اس کے اوپر گنبد ہے۔
باز بہادر کا محل: ریوا کنڈ کے مشرقی کنارے پر پہاڑی کے ڈھال پر یہ محل واقع ہے ،جو بہت خوبصورت ہے ، یہ محل ناصر الدین خلجی نے 914ھ م 1508ء میں تعمیر کیا تھا اور یہ اس کی قیام گاہ تھا بعد کو اس میں باز بہادر نے اپنی قیام گاہ بنائی ؛ اس لیے یہ اس کے نام سے منسوب ہو گیا، روپ متی ریواکنڈ میں ہر صبح اشنان کرتی تھی ؛اس لیے باز بہادر نے اس کو اپنی قیام گاہ بنایا تھا، دوران قیام اس میں بہت سے اضافہ کیے تھے ؛ اس لیے یہ محل باز بہادر کے نام سے مشہور ہو گیا، یہ محل جہاز محل کے طرز پر بنایا گیا ہے۔
ہاتھی محل: جامع مسجد سے ساگر تالاب کی طرف جانے والی سڑک کے بائیں طرف بجانب مشرق بہت سی قدیم عمارتیں ہیں ، ان میں سے ایک ہاتھی محل بھی ، اس عمارت کے فیل پا{ہاتھی کے پیر کی طرح} موٹے موٹے ستونوں کی وجہ سے اس کو ہاتھی محل کہا جاتا ہے ، اس کے درمیان میں ایک قبر ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت تفریح کے کیے بنائی گئی ہوگی اور بعد میں اس میں مدفن بن گیا، عمارت کے طرز تعمیر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پندرہویں صدی کے اواخر اور سولہویں صدی کے اوائل میں سلطان ناصر الدین خلجی کے عہد حکومت میں بنی ہوگی۔
لال محل یا لعل بنگلہ: یہ محل شاہان مالوہ کے موسم گرما کی قیام گاہ تھا ، یہ محل جنگلوں کے درمیان بنا ہوا ہے، جامع مسجد سے دریاخاں کء مقبرہ کو جانے والی ایک سڑک کے بیچ سے ایک راستہ اس محل تک جاتا ہے ، اس محل کے تین حصے تھے ، صدر کا حصہ سلطانوں کے رہائش کے استعمال میں آتا تھا اور دو کنارے والے حصوں میں دیگر ملازمین رہتے تھے، دروازہ قدیمی ہے اور سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے، یہ عمارت جب اچھی حالت میں رہی ہوگی تو ایک بہترین عمارت رہی ہوگی۔
چھپن محل: یہ کسی رئیس کا محل ومقبرہ ہے، اس کانام چھپن محل اس لیے پڑ گیا کہ سمبت 1856بکرمی میں جب مالوہ میں قحط پڑاتو اس وقت ریاست دھار نے اس کی مرمت کروائی اور مہاراجا دھار نے اس کو اپنا ریسٹ ہاوس بنا لیا،مقبرہ کی عمارت سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے ، یہ عمارت مانڈو کے فن تعمیر کے تیسرے دور کا بہترین نمونہ ہے ، مانڈ ومیں فن تعمیر کا آغاز عہد ناصر شاہی سے ہوا اور مغلوں کی آمد تک جاری رہا۔
نیل کنٹھ محل:یہ مانڈو کی مغربی پہاڑی کے کنارے پر بنا ہوا ہے جو پہاڑی کی ڈھال پر واقع ہے، یہاں سے وادی کا نظارہ بہت دلکش نظر آتا ہے، شہنشاہ جہانگیر اپنے مانڈو کے قیام کے دوران اپنی بیگمات کے ہمراہ یہاں آیا کرتا تھا ، وہ اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ :یہ مانڈو کو خوش گوار ترین مقامات میں سے ایک ہے، یہ محل اس سڑک ہر واقع ہے جو چھپن محل سے تاراپور دروازہ تک جاتی ہے،عمارت کا نقشہ جنوبی جانب ایک داخلی کرہ پر مشتمل ہے، جس کے صدر میں ایک حوض ہے، اس حوض میں پہاڑی پر واقع تالاب سے پانی آتا ہے، اس حوض کے اندر ہندووں کے دیوتا "شیو" کی مورتی نصب ہے، اسی نسبت سے اسے "کنٹھیشور "کہتے ہیں ، "نیل کنٹھیشور" شیو کا دوسرا لقب ہے، یہ مورتی 1734ء میں باقی راو پیشوا نے یہاں نصب کی تھی ، جب مانڈو مغل اقتدار سے نکل کر مراٹھا قبضہ میں آگیا تھا ، اورمغل شہنشاہ نے باجی راو پیشوا کو مانڈو کا صوبہ دار مقرر کر دیا تھا، یہ محل عہد مغلیہ میں اکبری دورمیں مالوہ کے صوبہ دار شاہ بداغ خاں نے 982ھ میں تعمیر کیا تھا،جو ایک تفریح گاہ اور شکار گاہ تھی ، قلعہ مانڈو میں مغلیہ عہد کی یہ واحد عمارت ہے جس کا طرز تعمیر بھی خالص مغلئی ہے۔
چشتی خاں کا محل:قلعہ مانڈو کا آخری شمالی دروازہ جو گاڑی دروازہ کہلاتا ہے اس سے مشرق کی جانب ایک سڑک کانکڑہ کھوہ کے ساتھ ساتھ اس محل تک پہنچتی ہے، جو چشتی خاں کا محل کہلاتا ہے ، چشتی خاں کا اصل نام شیخ قطب الدین اور خطاب چشتی خاں تھا؛ چونکہ آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی اولاد سے ہیں اس لیے چشتی کہلاتے ہیں،آپ کا سلسلہ نسب چھ واسطوں سے حضرت خواجہ صاحب تک پہنچتا ہے ،آپ محمود خلجی دوم کے عہد میں 12 ہزار فوج کے سپہ سالار تھے، یہ محل ان کی رہائش گاہ تھا، محل فوجی اہمیت کے علاوہ برسات میں قیام کے لیے تیار ہوا تھا، اس موسم میں وادی میں سبزہ چھایا رہتا ہے اور پہاڑیوں پر بادل منڈلاتے رہتے ہیں ، پہاڑی چشمہ اور آبشاروں کا منظر بڑا دلکش نظر آتا ہے۔
تالاب
ترمیمکپور تالاب: جہاز محل کے سامنے مشرق کی طر ایک تالاب ہے ، اس کے تین طرف دیواریں ہیں اور چاروں کنارے پکے بنے ہوئے ہیں ، جن میں سیڑھیاں ہیں ، تالاب کے وسط میں ایک شہ نشین بنا ہوا تھا اسی طرح تالاب کے مغربی کنارے پر بھی ایک شہ نشین بنا ہوا تھا دونوں شہ نشینوں کو ایک پتھر کا راستہ جوڑتا تھا۔
منج تالاب: یہ تالاب جہاز محل کے مغرب میں 750 فٹ مربع ہے اور کپور تالاب سے بڑا ہے ، تالاب کے شمال اور جنوب میں شاہی محلات کے کھنڈر ہیں ۔
ساگر{ساغر}تالاب: مانڈو کی پہاڑی کے وسط میں ایک بڑا تالاب ہے جو گرمیوں میں بھی خشک نہیں ہوتا ، موسم سرما میں تالاب میں بطخوں کا پڑاو رہتا ہے اور مچھلیاں بہت ہیں ۔
ریوا کنڈ تالاب: ہندو لوگ اس تالاب کو متبرک مانتے ہیں اور دریائے نرمدا کا طواف{پری کرما} کرنے والے یہاں آکر اس تالاب میں اشنان کرتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ اس تالاب میں دریائے نربدا کا سوت ہے ، یہاں پانی کا چشمہ رہا ہوگا جو آس پاس کی پہاڑیوں سے رستہ ہوا جمع ہو جاتا تھا، سلطان باز بہادر نے اس کو کھدواکر ایک گہرا تالاب بنوا دیا وار اسے پختہ کروادیا۔
باولیاں
ترمیمچمپاباولی: ہنڈولہ محل کے قریب ہی ایک کنواں ہے جس کا نام چمبا باولی ہے ، باولی کے اندر جانے کا نیچے سے ایک راستہ ہے جو باولی کو اس تہ خانہ سے ملا دیتا ہے جس میں شاہی محلات کے مکیں گرمیوں کے موسم میں آرام کرتے تھے ، جبکہ آفتاب کی تمازت و حدت محلوں میں نا قابل برداشت ہو جاتی تھی ، یہ تہ خانے منج تالاب کی سطح کے برابر ہیں،اور ایک غلام گردش اس شہ نشیں کو جاتی ہے جو اس کے مغربی کنارے پر ہے ، تہ خانہ سے زینہ باولی کی طرف جاتا ہے جو 18 فٹ مربع ہے ۔
اجالی باولی: شاہی احاطہ میں دو کنویں نظر آتے ہیں جو اجالی باولی اور اندھیری باولی کہلاتے ہیں ، یہ کنواں بڑا اور بہت گہرا ہے ، مشرق ومغرب دونوں دونوں طرف سے سطح آب تک زینے جاتے ہیں جو باولی کی تہ تک چلے گئے ہیں ، باولی کے شمالی سرے پر پانی نکالنے کی چرسی ہے ، جنوب میں ایک شہ نشین بنا ہوا ہے جس میں شاہی نگہبان رہتے تھے، ہر کشادہ سیڑھی پر پاسبانوں اور نگہبانوں کے لیے کمرے بنے ہوئے ہیں ۔
اندھیری باولی: اجالی باولی سے کچھ فاصلہ پر جنوب مغرب میں اندھیری باولی ہے، اس کے چاروں طرف غلام گردش ہے اور باولی اوپر سے بند ہے جس کے سبب اس میں اندھیرا رہتا ہے اسی بنا پر اس کو اندھیری باولی کہاجاتاہے ۔
ناہر جھروکا
ترمیمدلاورخاں کی مسجد کے مشرق میں ایک وسیع مربع صحن ہے ، جہاں مانڈوکے عہد عروج میں بادشاہ کے درشن کے لیے رعایا ہر صبح جمع ہوتی تھی ، اس صحن کے جنوبی کنارے پر کھنڈر ہیں جن کو ناہر جھروکا کہتے ہیں، بادشاہ اس جھروکا سے اپنی رعایا کو درشن دیتے تھے ، جو اب گر گیا ہے ، یہ سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا اور شیر کی مورت پر قائم تھا اس سبب سے اس کا نام "ناہر جھروکا" پڑ گیا۔
گدا شاہ کی دکان
ترمیمیہ لقب اس عمارت کے لیے غلط ہے کیونکہ یہ عمارت بجائے ایک دکان کے ایک دیوان خانہ ہے ، جو ہنڈولہ محل کے طرز پر تعمیر ہوا تھا، لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانہ پر بنایا گیا تھا ، ہال کے عظیم الشان طول و عرض سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بادشاہوں کا دربار عام تھا اور ہنڈولہ محل دربار خاص۔
گدا شاہ کا مکان
ترمیمگدا شاہ کی کی دکان کے جنوب مغرب میں گدا شاہ کا مکان واقع ہے ، اس عمارت میں مغلیہ فن تعمیر کے اثرات نظر آتے ہیں،ہال کے جنوب مغرب کونے میں دیوار پر دو تصویریں ہیں ، جن میں ایک امیر اور ایک بیگم کی ہے ، یہ تصویریں یاتو باز بہادر یا روپ متی کیں یا میدنی رائے اور اس کی رانی کی ہو سکتی ہیں ، یہ محل میدنی رائے کے نام سے بھی منسوب ہے ، محمود خلجی دوم کے زمانہ میں جبکہ میدنی رائے اس کا وزیر تھا، یہ محل اس کی قیام گاہ رہا ہوگا، گدا شاہی محمود خلجی کاشاہی مودی تھا اس کے نام سے بھی یہ عمارت منسوب ہے۔
کارواں سرائے
ترمیممسجد ملک مغیث کے مشرقی دروازہ کے سامنے ایک عمارت کھڑی ہوئی ہے جو کارواں سرائے کہلاتی ہے،یہ عمارت مسجد ہی سے متعلق اس میں مسافروں اور تاجروں کے ٹھہرنے کا انتظام تھا، یہ سرائے یورپ کے عہد وسطی کی سرایوں کی طرح ہے ، یہ عمارت اسی زمانہ میں تعمیر ہوئی تھی۔
صدائے باز گشت کا مقام
ترمیمساگر تالاب کے مشرقی پشتہ کے ساتھ آگے چل کر کھرنی کے درختوں کا ایک جھنڈ ملتا ہے ، اس کے قریب سڑک کے کنارے ایک پتھر کی سل رکھی ہوئی ہے ، اس پتھر پر کھڑے ہوکر تالاب کی طرف پشت اور دائی کے محل کی طرف رخ کرکے آواز لگائی جائے تو یہ آواز بازگشت ہوتی ہے ، یہ "مقام صدائے باز گشت" (ECO POINT)کہلاتا ہے ، اگر پتھر کی سل سے دائیں یا بائیں ہٹ کر آواز لگائی جائے تو دوہری باز گشت ہوتی ہے ، یہ مقام سیاحوں اور خصوصا بچوں کے لیے بڑا دلچسپ ہے ،یہ آوازیں دائی اور اس کی چھوٹی بہن کے مقبروں کے گنبد سے ٹکراکر واپس آتی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سامنے پہاڑی کے پیچھے سے کو ئی آواز دے رہا ہے ۔
روپ متی کی شہ نشیں
ترمیمباز بہادر کے محل کے آگے سڑک بہت ڈھلوان ہے ، روپ متی کے محل تک گھماو دار سڑک بنی ہوئی ہے ، یہ محل قلعہ مانڈو کی جنوبی فصیل کے ساتھ پہاڑی پر بنا ہوا ہے، جومانڈو کاسب سے اونچا مقام ہے ، یہاں سے نماڑ کی وادی اور دریائے نرمدا تک کھیت گاؤں ، تالاب اور نالے نظر آتے ہیں، اس مقام سے فضائی منظرbird view-arial view کی طرح نظر آتا ہے ، یہاں سے دریائے نربدا اور کوہ ست پڑا تک صاف دکھائی دیتا ہے اور حد نظر تک ہر چیز بغور دیکھی جا سکتی ہے، یہ عمارت قلعہ کی حفاظت کے لیے ایک فوجی چوکی تھی جو بعد کو روپ متی کے نام سے منسوب ہو گئی، عمارت تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے ، پہلی اصل عمارت ،دوم تہ خانہ ، سوم شہ نشیں،عمارت کے چھت پر جنوب و شمال میں دونوں طرف دو شہ نشیں ہیں جن پر گنبد ہیں ، شمالی شہ نشیں سے قلعہ مانڈو کے اندرونی حصہ کا شمالی فصیل تک پورا منظر نظر آتا ہے ، جس میں پہاڑ ،عمارتیں ، کانکڑہ کھوہ اور شکستہ عمارتیں نظر آتی ہیں ، جنوبی شہ نشیں روپ متی کے نام سے منسوب ہے، وہ روازانہ صبح نرمدا کے درشن کے لیے یہاں آتی ہوگی ، جو نیچے نماڑ کی وادی سے ناگ کی طرح بل کھاتی ہوئی بہتی ہے ، یہ دونوں شہ نشیں شاید اسی مقصد کے لیے باز بہادر نے بنائے ہوں۔
سونگڑھ کا قلعہ
ترمیمنیل کنٹھ سے دو فرلانگ کے فاصلہ پر سونگڑھ کی پہاڑی ہے ، پہاڑی کی چوٹی اونٹ کے کوہان کی طرح ابھری ہوئی ہے، جو مانڈو کی بلندی سے نہایت شاندار نظر آتی ہے، یہ پہاڑی مانڈو کی سطح مرتفع سے تنگ غار سے جدا تھی ، سلاطین مالوہ نے اس غار کو پر کرکے اس کو مانڈو کی پہاڑی سے ملا لیا اور اس پہاڑی کو قلعہ مانڈو میں شامل کر لیا ؛ تاکہ غنیم کی فوجیں سونگڑھ کی پہاڑی پر چڑھ کر مانڈو میں داخل نہ ہو سکیں اس سے قلعہ محفوظ ہو گیا،پہاڑی پر کچھ قبریں ، ایک مسجد کے کھنڈر اورایک حوض ہے ، ایک قبر پیر غائب کے نام سے منسوب ہے۔
بوڑھی مانڈو
ترمیمبیرون قلعہ مانڈو کے عالمگیر دروازہ کے قریب سے ہی ایک راستہ بجانب مغربی، پہاڑوں میں سے قلعہ کی فصیل کے باہر سے بوڑھی ماندو کو جاتا ہے ، یہ راستہ بہت دشوار گزار ہے، سیاح پیدل بغیر کسی رہنما کے وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، بوڑھی مانڈو کے راستہ میں کہیں ٹھہرنے یا رکنے کی جگہ نہیں ہے ، نہ کوئی آبادی ہے،ایک ویران مقام ہے، جہاں ایک تالاب اور کھنڈر ہیں، کھنڈر کے ملبے اور وہاں کی شکستہ مورتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مقام جین عہد میں آباد تھا، جین مندروں کا ملبہ ہے[2]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اس مضمون کی تیاری میں اکثر مواد مولانا عبد القدوس دیپالپوری کی کتاب "مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی" سے لیا گیا، مزید جن کتب سے استفادہ کیا گیا درج ذیل ہیں:تاریخ فیروز شاہی،طبقات ناصری، تزک بابری، تزک جہانگیری، اکبر نامہ/آئین اکبری، شاہجہاں نامہ، رقعات عالمگیر،تاریخ مالوہ، تاریخ فرشتہ، تاریخ وسط ہند۔(عزیر فلاحی)
- ↑ اس مضمون کی تیاری میں اکثر مواد مولانا عبد القدوس دیپالپوری کی کتاب "مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی" سے لیا گیا، مزید جن کتب سے استفادہ کیا گیا درج ذیل ہیں:تاریخ فیروز شاہی،طبقات ناصری، تزک بابری، تزک جہانگیری، اکبر نامہ/آئین اکبری، شاہجہاں نامہ، رقعات عالمگیر،تاریخ مالوہ، تاریخ فرشتہ، تاریخ وسط ہند۔(عزیر فلاحی)
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
|
|