مجیب اللہ ندوی (1918ء – 2006ء) ایک بھارتی عالم دین، حنفی فقیہ، ادیب، مصنف، مؤرخ، دار المصنفین کے رفیق اور صوفی تھے۔ اترپردیش کے ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ مظہر العلوم بنارس اور دار العلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی۔ 1944ء میں فضیلت کی تکمیل اور سند فراغت حاصل کرنے کے بعد دار المصنفین سے وابستہ ہوئے۔ 1962ء میں اعظم گڑھ شہر میں ایک دینی درسگاہ جامعۃ الرشاد قائم کی۔ شیخ وصی اللہ الہ آبادی اور سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور شیخ محمد احمد پرتاپ گڑھی سے استفادہ کیا اور مؤخر الذکر سے مجاز بیعت و ارشاد ہوئے۔ 2006ء میں وفات پائی۔ فقہ و حدیث اور تاریخ کے موضوع پر متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں۔

حافظ مجیب اللہ ندوی
معلومات شخصیت
پیدائش 1918ء
غازی پور ضلع، اترپردیش، بھارت
تاریخ وفات 2006ء
شہریت بھارتی
مذہب اسلام
مکتب فکر حنفی
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم ندوۃ العلماء
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت و تعلیم

ترمیم

مجیب اللہ ندوی کی ولادت اترپردیش کے ضلع غازی پور کے ایک گاؤں کسمی خورد میں 4 جنوری 1918ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر اسکول میں داخل ہوئے۔ چونکہ ان کے والد پولیس کے دیوان اور پھر نائب داروغہ کے منصب پر تھے، جس کی وجہ سے ان کا اکثر تبادلہ ہوتا رہتا تھا، اسی وجہ سے ان کی تعلیمی زندگی بھی مختلف مکاتیب، اسکول اور مدارس میں ہوئی اور مختلف جگہوں کی تبدیلی کی وجہ سے کافی تاخیر سے 1935ء میں بہار کے ایک علاقہ اکھنی میں حافظ عبد العزیز کے پاس حفظ قرآن مکمل کیا۔[1][2] حفظ قرآن کے بعد اگست 1935ء میں عربی تعلیم کے لیے مدرسہ مظہر اسلام بنارس میں داخلہ لیا۔ وہاں چار سال تعلیم حاصل کی۔ وہاں دوران تعلیم شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی کتب اور دار العلوم ندوۃ العلماء سے تعارف ہوا، چنانچہ اکتوبر 1939ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا۔[3] انھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء کے بڑے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ چنانچہ وہ اپنے اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علمی اعتبار سے سب سے زیادہ فائدہ راقم الحروف کو مولانا شبلی فقیہ مرحوم، شاہ حلیم عطا مرحوم، اور مولانا ناظم ندوی مرحوم سے پہنچا، اور علمی زندگی میں سب سے زیادہ اثر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کا پڑا، مولانا شاہ حلیم عطا صاحب علم کا پہاڑ تھے، ان کو حدیث و تاریخ کی صفحہ کی صفحہ عبارتیں زبانی یاد تھیں، ان کی صحبت میں رہ کر ندوہ کے کتب خانہ کی ہر فن کی امہات الکتب سے واقف ہو گیا تھا، اس علم بالفہرست سے جس پر مولانا بہت زور دیا کرتے تھے یہ فائدہ ہوا کہ دار المصنفین آیا تو میرے لیے یہاں کا کتب خانہ جانا پہچانا محسوس ہوا۔ [4]

دار العلوم ندوۃ العلماء سے 1944ء میں فضیلت کی تعلیم مکمل کی۔[5]

دارالمصنفین سے وابستگی

ترمیم

دار العلوم ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد دار المصنفین سے وابستہ ہوئے اور 1966ء تک اس تحقیقی ادارہ سے وابستہ رہے۔ دار المصنفین میں اپنے قیام کے دوران سید سلیمان ندوی سے متعدد کتابیں پڑھیں اور ان کی رہنمائی میں تالیف و تصنیف اور تحقیق کی مشق کی۔ دار المصنفین کے قیام کے دوران ان کی متعدد ضخیم کتابیں شائع ہوئیں۔[6]

جامعۃ الرشاد کا قیام

ترمیم

7/مارچ 1962ء میں انھوں نے اعظم گڑھ شہر میں ایک دینی درسگاہ جامعۃ الرشاد قائم اور بہت جلد اپنی محنت سے اس کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ جامعۃ الرشاد میں عالمیت تک تعلیم ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کا علاحدہ نظم ہے، اس کے علاوہ اسی کے ساتھ پرائمری اور سکنڈری اسکول بھی قائم ہیں۔[7]

سلوک و احسان

ترمیم

سلوک و احسان میں مجیب اللہ ندوی نے شاہ وصی اللہ الہ آبادی اور مشہور نقشبندی شیخ محمد احمد پرتاپ گڑھی سے استفادہ کیا اور موخر الذکر سے مجاز بیعت و ارشاد ہوئے۔[8]

علمی خدمات اور اوصاف و کمالات

ترمیم

ان کو شروع ہی سے لکھنے کا ذوق ملا تھا۔ پھر دار المصنفین سے وابستگی اور سید سلیمان ندوی کی رہنمائی نے اس کو جلا بخشی اور ان کا قلم رواں ہو گیا۔ ان کی اکثر کتابیں فقہی موضوعات پر ہیں، جن میں سر فہرست اسلامی فقہ ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور جو اپنی وسعت، فقہی جزئیات اور شرعی مسائل کے اعتبار سے علم فقہ کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ منور سلطان ندوی لکھتے ہیں:

فقہ کے میدان میں آپ کا مقام بہت بلند ہے، اس فن پر نہ صرف پوری دسترس حاصل ہے بلکہ اس کی کلیات و جزئیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، فقہی موضوعات پر آپ نے جو گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے، اس میں فقہی بصیرت کے ساتھ آپ کی محققانہ و مجتہدانہ شان بھی نمایاں ہے۔ آپ کے لکھنے کا انداز بڑا پیارا ہوتا ہے، اسلوب اتناسلجھا اور آسان اختیارکرتے ہیں کہ ہر شخص آسانی کے ساتھ اس کو سمجھ سکے، پھر خالص فقہی اصطلاحات کو بھی آپ آسان اردو میں منتقل کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے قاری کے لیے بڑی سہولت فراہم ہو جاتی ہے۔

آپ انھی مسائل کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے ہیں جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہوتی ہے، پھر اس تقاضا کو اپنے قلمی جوہر سے دو آتشہ بنا دیتے ہیں، اس لیے آپ کی ساری تصنیفات ارباب فن اور اکابر علما سے خراب تحسین وصول کر چکی ہیں، آپ کی ایک اہم تصنیف " اجتہاد اور تبدیلی احکام" جب اہل شوق کے ہاتھوں میں پہنچی تو عالم اسلام کی مایہ ناز ہستی مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی نے فرمایا تھا کہ پورے ندوہ کی طرف سے آپ فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔[9]

مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور کے ڈائرکٹر سید متین ہاشمی لکھتے ہیں:

مولانا کی تحریر میں سب سے بڑی خوبی سلاست اور روانی کے ساتھ Originalityاور اہم ترین موضوعات پر تحقیق ہے۔ مولانا موصوف گھسے پٹے موضوعات پر نہیں چلتے، بلکہ ہمیشہ ایسے موضوعات پر قدم اٹھاتے ہیں جس پر دور حاضر کے کسی محقق کی نظر نہ گئی ہو، اس طرح تحقیق کا نیا باب وا ہوتا ہے اور نئی نسل کے اسکالرز کو کام کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں، اور ا ن کی جذبہ کو مہمیز ملتی ہے۔[10]

محمد الیاس الاعظمی لکھتے ہیں:

ادب پر بڑی گہری اور عالمانہ نظر تھی، خاص طور سے عربی و فارسی ادب کا ذوق بہت بلند تھا، اردو و فارسی کے کلاسیکل شعرا کا کلام ان کے نوک زبان تھا جس کا وہ برملا استعمال کرتے اور ان کے معنی و مفہوم کی ایسی ادبی تشریحات کرتے کہ گویا عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں، حالانکہ یہ ان کا موضوع نہ تھا۔[11]

تصانیف

ترمیم

مجیب اللہ ندوی نے حدیث، فقہ اور تاریخ و ادب کے موضوعات پر بہت سی کتابیں تالیف کیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

  • اہل کتاب صحابہ و تابعین
  • تبع تابعین – حصہ اول
  • اسلامی فقہ – حصہ اول (1957ء)
  • اسلامی فقہ – حصہ و دوم (1990ء)
  • اسلامی فقہ - حصہ سوم (1996ء)
  • فقہ اسلامی اور دور جدید کے مسائل (1977ء)
  • اجتہاد اور تبدیلی احکام (1988ء)
  • اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصورات (1990ء)
  • اسلام قانون اجرت
  • فتاوی عالمگیری اور اس کے مؤلفین (1989ء)
  • قرآن پاک کی تعلیم اور اس کی اجرت
  • اسوۂ حسنہ (2000ء)
  • ثبوت رجم (1994ء)
  • خدمت حدیث میں خواتین کا حصہ (1994ء)
  • ایمان و عقیدہ (1998ء)
  • عبادت و خدمات (2001ء)
  • مسئلہ کفاءت
  • دینی مدارس اور ان کی ذمہ داریاں
  • سرمد اور ان کی رباعیاں (1993ء)
  • اسلامی تعلیم (حصہ اول تا پنجم) (1968ء)
  • اہل دل کی باتیں
  • ریاض الحدیث
  • افکار سلیمانی
  • خطبہ نکاح ایک اہم معاشرتی عبادت
  • اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصورات (1990ء)[12][13]
  • تذکرہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری

وفات

ترمیم

مجیب اللہ ندوی نے طویل علالت کے بعد 12 مئی 2006ء کو وفات پائی۔[14]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. مجیب اللہ ندوی: دینی مدارس اور ا ن کی ذمہ داریاں، دار التالیف و الترجمہ، اعظم گڑھ، 2002ء، صفحہ 63۔
  2. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 309۔
  3. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 310۔
  4. مجیب اللہ ندوی: دینی مدارس اور ان کی ذمہ داریاں، اشاعت اعظم گڑھ، 2002ء، صفحہ 70۔
  5. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 311۔
  6. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 311-312۔
  7. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 312۔
  8. محمد الیاس الاعظمی: مطالعات و مشاہدات، ادبی دائرہ، اعظم گڑھ، 2010ء، صفحہ 194۔
  9. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 313۔
  10. مجیب اللہ ندوی: اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصورات، مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، صفحہ 3 (مقدمہ)۔
  11. محمد الیاس الاعظمی: مطالعات و مشاہدات، ادبی دائرہ، اعظم گڑھ، 2010ء، صفحہ 192۔
  12. محمد الیاس الاعظمی: مطالعات و مشاہدات، ادبی دائرہ، اعظم گڑھ، 2010ء، صفحہ 194-195۔
  13. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 385-448۔
  14. محمد الیاس الاعظمی: مطالعات و مشاہدات، ادبی دائرہ، اعظم گڑھ، 2010ء، صفحہ 190۔