مفتی محمد ظہور ندوی (1927ء-2016ء) ایک حنفی فقیہ، عالم دین اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے صدر مفتی، نائب مہتمم اور ندوۃ العلماء کے نائب ناظم تھے۔ ان کی ولادت مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ، اتر پردیش میں ہوئی۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم مبارک پور کے مدارس میں حاصل کرنے کے بعد اعلٰی تعلیم دار العلوم ندوۃ العلما میں حاصل کی۔ فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء ہی میں بحیثیت استاد ان کا تقرر ہو گیا۔ پینسٹھ (65) سال سے زائد عرصہ تک ندوہ میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد 25 ستمبر 2016ء کو وفات پائی۔[1]

ہندوستانی عالمِ دین وعظیم فقیہ
مفتی محمد ظہور ندوی
پیدائش1927ء
وفات2016ء
نسلمسلم
عہدجدید دور
شعبۂ زندگیجنوبی ایشیاء
مذہباسلام
فقہحنفی
مکتب فکرسنی
شعبۂ عملفقہ

ولادت و تعلیم

ترمیم

مفتی محمد ظہور ندوی کی ولادت 1927ء میں مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش، بھارت میں ہوئی۔[2][3] ان کے والد عبد الستار ممتاز فارسی داں اور علاقہ کے بڑے ذمہ داروں میں سے تھے۔[2][3] ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گاؤں کے مدرسہ ریاض العلوم میں ہوئی۔ پھر مبارک پور کے مدرسہ احیاء العلوم شرح جامی اور شرح تہذیب تک درس نظامی کے مطابق تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 1944ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور 1950ء تک یہاں تعلیم حاصل کی۔[2] معقولات کی تعلیم ابو العرفان خان ندوی سے، ابوداؤد و ترمذی شریف محمد اسحاق سندیلوی ندوی سے پڑھی، اس کے علاوہ شاہ حلیم عطا سلونی اور ابو الحسن علی ندوی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ خصوصی استفادہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے مفتی سعید احمد ندوی سے کیا اور انہی کی رہنمائی میں فقہ و افتا کے مصادر سے استفادہ و عملی مشق کی۔[4]

تدریس و افتا سے تعلق

ترمیم

فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں ان کا تقرر بحیثیت استاد فقہ ہوا۔ کچھ سال کے بعد ندوہ کے صدر مفتی بنائے گئے۔ اس کے علاوہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے نائب مہتمم کی حیثیت سے منصب اہتمام کی ذمہ داری بھی کئی سال تک ادا کرتے رہے۔[5] اس طرح وہ ایک بے مثال فقیہ، مدرس ہونے کے علاوہ ندوہ کے صدر مفتی اور نائب مہتمم کے اعلی انتظامی و علمی مناصب پر فائز رہے۔ تقریبا ساٹھ سال تک دار العلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ قضا کے ذمہ دار رہے۔ اس کے علاوہ شعبہ تعمیر و ترقی اور دیگر شعبہ جات کے بھی ذمہ دار رہے۔[3] فتاوی دار العلوم ندوۃ العلماء کی تین جلدیں ان کے زیر اہتمام شائع ہوئیں۔[3]

صفات و کمالات

ترمیم

مفتی محمد ظہور ندوی تبحر علمی، مسائل کے استحضار، تقوی و دیانت، قوت حافظہ، ذہانت، قناعت و فراست، متانت، شرافت، ظرافت،حاضر جوابی، تواضع، حلم و بردباری اور سادگی میں ضرب المثل تھے۔[3] ان کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ ان کو ہدایہ کی جلدیں گویا از بر ہیں۔ فقہی مہارت کے ساتھ دقیقہ رسی اور نکتہ دانی میں بھی کمال حاصل تھا۔[5] اور ان کے شاگرد منور سلطان ندوی کے الفاظ میں

سادہ مزاج و سادگی پسند، مرنجان مرنج طبیعت کے مالک، ظاہری شان و شوکت اور تکلفات سے بے نیاز، انتہائی خلیق و خاکسار، ہر شخص سے کھل کر ملنے والے، ظرافت پسند، فقہی جزئیات کے حافظ اور بحر فقہ کے شناور، ہر جگہ مسئلہ بتانے والے اور ہر کس و ناکس کو جواب دینے والے مفتی، اعلیٰ درجہ کے ذہین و نکتہ رس، حاضر جوابی کی دولت سے سرشار، علماء و عوام دونوں طبقہ میں یکساں مقبول و محترم، قانونی موشگافیوں سے واقف، انتظامی امور کے کوچہ آشنا اور بہترین مدبر و منتظم، اور اس طرح کی گوناگوں صفات کے حامل اور زندہ تصویر.......۔[2]

تلامذہ

ترمیم

مفتی صاحب نے 65 سال سے زائد عرصہ تک دار العلوم ندوۃ العلماء میں تدریس و افتا کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس دوران ہزاروں افراد نے ان سے استفادہ کیا اور رہنمائی حاصل کی۔ ان کے مشہور تلامذہ میں شامل ہیں۔

اولاد

ترمیم

ان کو تین لڑکے محمد سہیل ندوی، محمد شعیب ندوی اور محمد زہیر ندوی اور چار لڑکیاں ہیں۔[6]

وفات

ترمیم

ایک طویل علالت کے بعد 25 ستمبر 2016ء کو صبح پونے پانچ بجے لکھنؤ میں وفات پائی۔[3] عصر بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں ان کی نماز محمد رابع حسنی ندوی نے پڑھائی اور لکھنؤ کے ڈالی گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔[3][7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، شمارہ نومبر 2016ء، ص ص 312-314۔
  2. ^ ا ب پ ت منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 334۔
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج روزنامہ اودھ نامہ، اشاعت علی گڑھ، شمارہ 26 ستمبر 2016ء، صفحہ 1
  4. منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 335۔
  5. ^ ا ب منور سلطان ندوی: ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابناء ندوہ کی فقہی خدمات، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد، 2004ء، صفحہ 336۔
  6. روزنامہ انقلاب، اشاعت علی گڑھ، شمارہ 26 ستمبر 2016ء، صفحہ 6۔
  7. روزنامہ انقلاب، اشاعت لکھنؤ، شمارہ 26 ستمبر 2016ء، صفحہ 1