محمد قاسم مظفر پوری

ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، مصلح اور قاضی شریعت

محمد قاسم مظفرپوری (1937-2020) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم دین، فقیہ، قاضی شریعت امارت شرعیہ اور رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تھے۔ تقریباً نصف صدی تک مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں مدرس و شیخ الحدیث رہے، پھر جب دار القضاء کا قیام عمل میں آیا تو قضاء کی ذمہ داری بھی ان ہی کے سپرد کی گئی اور انھوں نے اسے بہ حسن و خوبی انجام دیا مولانا نے زندگی کا بیشتر حصہ پڑھنے پڑھانے اور مفتی و قاضی کی ٹریننگ اورمعاشرے کی اصلاح میں گزارا۔[1] [2] [3]

محمد قاسم مظفر پوری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1937ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مظفر پور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 2020ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی تعارف

ترمیم

نام : محمد قاسم

والد ماجد کا نام: معین الحق بن محمد ابراہیم بن فخر الدین بن لعل محمد۔

جائے ولادت :مظفرپور، صوبہ بہار۔

تاریخ ولادت : 1356ھ؍ 1937ء۔

تعلیم

ترمیم

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں مادھوپور اور اس سے متصل گاؤں انگواں کے مدرسہ تعلیم القرآن میں حاصل کی۔ اُس سے آگے کی تعلیم یعنی فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم ایک سال مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے 1370ھ؍ 1951ء میں لہریا سرائے دربھنگہ کے مدرسہ امدادیہ میں داخلہ لیا اور 1373ھ؍ 1953ء تک یہاں عربی دوم تا عربی چہارم تک کا مرحلہ طے کیا۔درجہ پنجم عربی میں 1373ھ؍ 1954ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور دورۂ حدیث تک یہیں محوِ تعلیم رہے اور یہیں سے 1377ھ؍ 1958ء میں فارغ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ مولانا کی علمی عظمت ولیاقت کے لیے، یہ بات کافی ہے کہ اُس وقت دار العلوم میں مُمْتَحَنَہ کتابوں میں اعلیٰ نمبر 50 تھا؛ لیکن اساتذۂ کرام نے اُن کے جوابات کی صحت، ترتیب، خوش خطی وغیرہ سے خوش ہوکر مَتَعدِّد کتابوں میں 51، 52 اور 53 نمبر دیے۔ انھوں نے دار العلوم میں دورۂ حدیث میں فرسٹ پوزیشن حاصل کیا، جو ایک غیر معمولی بات ہے اور اُن کے مثالی طالبِ علم ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔[4]

عملی زندگی

ترمیم
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1377ھ؍ 1958ء سے 1378ھ؍ 1959ء تک مادرِ علمی مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں اعزازی طور پر ایک سال تدریسی خدمت انجام دی، 1378ھ؍ 1959ء سے مارچ 2004ء (محرم 1425ھ) تک مسلسل 46 سال تک مدرسہ رحمانیہ سوپول ضلع دربھنگہ میں مصروفِ تعلیم و تربیت رہے۔ یہاں کی تدریسی خدمت مولانا محمد قاسم نے سید منت اللہ رحمانی ؒ (1332ھ؍ 1913ء –1411ھ؍ 1991ء) اور مدرسے کے مہتمم و ذمے دار اعلی مولانا محمد عثمان متوفی فروری 1977ء (صفر 1397ھ) کے اصرار پر قبول فرمائی۔ تدریس و تربیت کے ساتھ انھوں نے وہاں کار قضا کی ذمے داری بھی انجام دی۔ امارت شرعیہ نے پھلواری شریف کے مرکزی دارالقضا کے علاوہ جب مدرسہ رحمانیہ سوپول میں اپنا پہلا ذیلی دارالقضا قائم کیا، تو روز اول سے آپ اس کی ذمہ داری سے وابستہ کردیے گئے۔ مولانا محمد عثمان کی زندگی میں نائب قاضی اور اُن کی وفات کے بعد مستقل قاضی کی حیثیت سے قضا کی ذمے داری انجام دی۔قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی وفات کے بعد امارت شرعیہ کے ذمے داروں نے مرکزی دارالقضاء کے قاضی کی حیثیت سے پھلواری شریف تشریف لے آنے کی ان سے درخواست کی؛ لیکن پیرانہ سالی، کمزوری اور دیگر ناگزیر مشاغل کی وجہ سے، وہاں مستقلاً قیام سے معذرت کرلی، البتہ بہ وقتِ ضرورت مقدمات کی سماعت کی خدمت قبول فرمالی، جس سے تاحیات عہدہ برآ ہوتے رہے۔اِسی کے ساتھ دربھنگہ شہر کے قلعہ گھاٹ کے غرب میں واقع مہدولی گاؤں میں امارت شرعیہ نے جب دارالقضاء قائم کیا تو وہاں بھی انھیں ہی قاضی کی ذمے داری سپرد کی گئی، نصف صدی سے زائد تک قضاء سے شغل رہا۔[5] نیز مرکزی دارالقضا نے وقتاً فوقتاً فضلاے مدارس کی تدریب کے لیے متعدد جگہوں میں قضائی کیمپ قائم کیے، جہاں قضاء کی تدریب کے لیے انھیں ہی زحمت دی گئی اور انھوں نے وہاں تدریب کا فريضہ انجام دیا۔[4]

مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اساسی کی ذمے داری بھی انجام دی،[6] امارت شرعیہ کی مجلس عاملہ کے بھی تاحیات رکن رہے۔ نیز اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے رکن تاسیسی کی خدمت بھی آپ کے سپرد رہی۔[7] اور اپنی وفات تک متعدد دینی و تعلیمی اداروں کی سرپرستی و راہنمائ فرماتے رہے۔[4]

تحریری کاوشیں

ترمیم
  1. رشتہ داروں کا احترام اور یتیموں کا اکرام کیجیے
  2. بینک سے متعلق چند مسائل اور بینک انٹرسٹ کا مصرف
  3. مسجد کے آداب و احکام،
  4. مکاتیبِ رحمانی (حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کے اہم خطوط کا مجموعہ)
  5. کیا کثرت عبادت بدعت ہے؟
  6. رہ نماے قاضی
  7. معلم و مربی: خصوصیات و امتیازات
  8. الأدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل الفقہیّۃ (اس کتاب میں فقہ حنفی کے مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد جو عبادات پر مشتمل ہے محدث کبیر محمد بن عبداللہ بن مسلم بہلوی کی تالیف ہے، مولانا محمد قاسم مظفرپوری نے اِس کتاب کا تکملہ دو جلدوں میں تالیف فرمایاجو معاملات پر مشتمل ہے، اِس طرح یہ کتاب تین جلدوں میں دارالقلم دمشق سے شائع ہوئی۔[4]

کچھ کتابیں منتظرِ طباعت ہیں، جیسے: رہنماے مفتی ، قرآن کریم کی سورتوں کے مضامین کا تعارف،مجموعۂ مقالات، زندگی کا سفر، مشائخ، معاصرین اور شاگردوں کے چند خطوط وغیرہ۔[4]

مولانانے کئی بار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ پہلا حج 1417ھ ؍ 1997ء میں کیا۔ دوسرا حج 1429ھ؍ 2009ء میں، جب کہ تیسرا حج رابطۂ عالم اسلامی مکۂ مکرمہ کی دعوت پر 1434ھ؍ 2013ء میں کیا۔[4]

وفات

ترمیم

طویل علالت کے بعد سوموار –منگل: 11–12؍ محرم 1442ھ مطابق 31؍ اگست –1؍ ستمبر 2020ء کی درمیانی شب میں بہ وقت تہجد پونے 3 بجے آخری سانس لی۔ یکم ستمبر 2020 کو ظہر کی نماز کے بعد نماز جنازہ زکریا کالونی میں ادا کی گئی، جس کی امامت جامع العلوم مظفرپور کے سرپرست اور دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے رکن مولانا اشتیاق احمد نے کی اور زکریا کالونی شہر مظفرپور کے قبرستان میں آسودۂ خواب ہوئے۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی

امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 17 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2020 
  2. "مولانا محمد قاسم مظفرپوری کی پوری زندگی اکتسابِ علم میں گزری:قاری شبیراحمد"۔ 9 ستمبر، 2020 
  3. "مولانا محمد قاسم مظفرپوری کا انتقال ایک بڑا سانحہ:مولانا انیس الرحمن قاسمی"۔ 1 ستمبر، 2020  [مردہ ربط]
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج "عالمِ جلیل و قاضی و فقیہ مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ- مولانا نورعالم خلیل امینی - قندیل qindeel"۔ 10 اکتوبر، 2020 
  5. حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری (2009)۔ رہنماۓ قاضی۔ پٹنہ بہار: المعھد العالی للتدریب فی القضاء و الافتاء پٹنہ الہند۔ صفحہ: 26 
  6. http://www.aimplboard.in/foundermembers.php
  7. "آرکائیو کاپی"۔ 22 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2020 

عالم جلیل و قاضی و فقیہ مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ- مولانا نورعالم خلیل امینی رئیس التحریرماہنامہ’’الداعی‘‘ عربی