مرثد بن ابو مرثد
مرثد بن ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں حاضر ہونے والے مہاجر صحابی ہیں۔
مرثد بن ابو مرثد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام وفات | مکہ |
والد | ابو مرثد الغنوی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، سریہ مرثد بن ابو مرثد |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیممرثد نام ، سلسلۂ نسب یہ ہے ،ابو مرثد کناز بن حصین بن یربوع بن جہینہ بن سعد بن طرایت بن خرشہ بن عبید بن عوف بن کعب بن جلاں بن غنم بن یحییٰ بن یعصر بن سعد ابن قیس عیلان بن مضر۔[1] [2]
اسلام و ہجرت
ترمیممرثد بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ بہت ابتدا میں مکہ میں مشرف باسلام ہوئے اور غزوہ بدر سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ گئے، آنحضرت ﷺ نے اوس بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مواخات کرادی۔[3] [4]
غزوہ بدر
ترمیمسلسلۂ غزوات کے سب سے پہلے غزوۂ بدر میں شریک ہوئے،یہ اور ان کے باپ کناز بن حصین دونوں شامل تھے میدان جنگ میں آنحضرت ﷺ کے پہلو بہ پہلو سبل نامی گھوڑے پر سوار دادِ شجاعت دے رہے تھے۔[5]
نزول آیت
ترمیمزمانہ ٔجاہلیت میں مکہ مکرمہ کی عناق نامی ایک طوائف سے تعلقات تھے، تحریم زنا کے بعد قطع تعلق کر لیا، مرثد نہایت قوی اور بہادر آدمی تھے،اس لیے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ لے جانے کی خدمت ان ہی کے سپرد تھی، اس سلسلہ میں ایک مرتبہ مکہ جانے کا اتفاق ہوا،چاندنی رات میں ایک گلی سے گذر رہے تھے ، اتفاق سے عناق کی نظر پڑ گئی،اس نے آواز دی، یہ رک گئے، اس نے اپنے مخصوص دلربائی کے اندز میں بڑی خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا اور شب باشی کی خواہش کی، فرمایا عناق، اب خدانے زنا حرام کر دیا ہے، اس کو اس خشک جواب پر غصہ آ گیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ مرثد یہاں کے قیدی مدینہ لے جاتے ہیں؛چنانچہ آٹھ آدمیوں نے ان کا تعاقب کیا، مگر یہ ایک محفوظ مقام پر چھپ گئے اورجب وہ لوگ تلاش کرکے واپس ہو گئے تو مدینہ کا راستہ لیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ !عناق سے میرا نکاح کردیجئے،آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کے بعد یہ حکم نازل ہوا: الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ(سورہ النور:3) بدکردار مرد بد کار عورت یا مشرکہ سے نکاح کریگا اور بدکردار عورت کو بدکار مردیا مشرک کے سوا کوئی نکاح میں نہ لائے گا اور ایمان والوں پر یہ حرام ہے۔ [6]
وفات
ترمیم3ھ بنو عضل وقارہ نے اسلام لانے کے بعد آنحضرت ﷺ سے مذہبی تعلیم کے لیے چند معلم بھیجنے کی درخواست کی تھی، آپ نے ان کی درخواست پر باختلاف روایت مرثد یا عاصم بن ثابت کی زیر امارت ایک جماعت بھیجی، یہ لوگ مقام رجیع تک پہنچے تھے کہ بنو ہذیل اچانک ننگی تلواریں لیے ہوئے آ گئے اور کہا ہمارا مقصد تمھارا خون بہانا نہیں ہے؛بلکہ تمھارے بدلہ میں اہل مکہ سے روپیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور تمھاری حفاظت جان کا عہد کرتے ہیں، مرثد،خالد اور عاصم نے کہا کہ ہم مشرکین سے کسی قسم کا عہد کرنا نہیں چاہتے اور تینوں نے لڑکر جان دی۔[7] ،[8]
فضل و کمال
ترمیمفضل وکمال کے ثبوت کے لیے یہ واقعہ کافی ہے کہ مذہبی تعلیم کے لیے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا انتخاب فرمایا تھا؛ چونکہ آنحضرت ﷺ کی حیات میں انتقال کرگئے،اس لیے ان کے علمی جوہر کھلنے نہ پائے ،تاہم ان کی روایت سے حدیث کی کتابیں یکسر خالی نہیں ہیں۔ [9] [10]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ابن سعد جزء3،قسم 1:32
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة - كناز بن حصين آرکائیو شدہ 2016-12-25 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الاستیعاب :1/274
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة - خالد بن البكير آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]
- ↑ مستدرک حاکم:3/221
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد - مرثد بْنِ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ آرکائیو شدہ 2016-12-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ ابن سعد حصہ مغازی:39
- ↑ الإصابة في تمييز الصحابة - مرثد بن أبي مرثد الغنوي آرکائیو شدہ 2016-12-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (تہذیب الکمال:372)
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة - مرثد بن أبي مرثد آرکائیو شدہ 2016-12-24 بذریعہ وے بیک مشین