مرزا مظفر حسین صفوی

عہد جہانگیری کا ایک ایرانی امیر

مرزا مظفر حسین صفوی (پیدائش: 1562ء – وفات: 1600ء) مغلیہ سلطنت کا ایک امیر، شاعر اور صفوی شاہزادہ تھا۔ وہ جلال الدین اکبر کے عہد میں دربارِ شاہی سے منسلک ہوا۔

مرزا مظفر حسین صفوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1562ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قندھار   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1600ء (37–38 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی ،  مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت صفویہ (1562–1595)
مغلیہ سلطنت (1595–1600)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد قندھاری بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سلطان حسین مرزا صفوی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان صفوی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

پیدائش ترمیم

مرزا مظفر حسین کی پیدائش 1592ء میں قندھار میں ہوئی۔

خاندان ترمیم

مرزا مظفر کے والد سلطان حسین مرزا صفوی تھے جو ایران میں صفوی سلطنت کے بانی شاہ اسماعیل صفوی کے فرزند تھے اور مرزا مظفر حسین شاہ اسماعیل صفوی کا پوتا تھا۔ جب 1558ء میں قندھار کا قلعہ شاہ طہماسپ صفوی کے قبضہ میں آگیا تو اُس نے قندھار سمیت دریائے ہلمند تک سلطان حسین مرزا صفوی کے سپرد کر دیا۔ سلطان حسین مرزا صفوی نے تقریباً بیس سال اپنے چچا شاہ طہماسپ صفوی کی تربیت میں گزارے اور شاہ اسماعیل ثانی کے عہدِ حکومت میں 1566ء میں وفات پائی۔ شاہ اسماعیل ثانی کو سلطان حسین مرزا صفوی کی طرف سے خوف اور وساوس رہا کرتے تھے، اِس لیے وہ اپنے چچاؤں کی اولاد کو قتل کے اِرادے سے جو وہ اپنے دِل میں رکھتا تھا، سلطان حسین مرزا صفوی کی زِندگی میں اِس اِرادے کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ اُس کے اِنتقال کے بعد اُس نے اپنے عزیزوں کی جان لینے کی ٹھان لی۔سلطان حسین مرزا صفوی کے چار لڑکوں میں سے محمد حسین مرزا (جو ایران چلا گیا تھا)، اُسے وہاں قتل کر دیا گیا اور اُس نے چاروں بھائیوں کی جان لینے کے لیے شاہ قلی سلطان کو جس کو قندھار کا حاکم بنایا تھا، مامو کر دیا۔ اُس نے بداغ خاں کو اِن بے گناہوں کے قتل کے لیے بھیجا۔ بداغ خاں نے اِس خیال سے کہ اِن کو صبح کو قتل کر دیں گے کہ اچانک شاہ اسماعیل ثانی کی موت کی خبر پہنچی اور اِن سب بھائیوں کو رہائی مل گئی۔[1]

محمد خدابندہ کا عہدِ حکومت اور قندھار کی حکومت ترمیم

1578ء میں جب شاہ محمد خدا بندہ صفوی سلطنت کا شہنشاہ بنا تو اُس نے بڑے بھائی مرزا مظفر حسین کو قندھار کی نظامت پر فائز کر دیا۔ دَاوَر اور دریائے ہلمند رستم مرزا کو دے دیا اور دوسرے بھائی ابوسعید مرزا اور سنجر مرزا کو بھی اُس کے ہمراہ مقرر کیا۔ حمزہ بیگ ذوالقدر جو سلطان حسین مرزا صفوی کا وکیل تھا، اُسے مرزاؤں کا اَتالیق بنا دیا۔ حمزہ بیگ نے قوت پکڑی اور سب بھائیوں کے پاس حکومت برائے نام باقی رہ گئی۔ مرزا مظفر حسین نے تنگ آکر حمزہ بیگ کو ختم کرنا چاہا، اُس کو یہ بات معلوم ہو گئی تو وہ دَاوَر کے مقام پر بھاگ گیا اور رستم مرزا کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے تیار ہو گیا۔ چانکہ فوج متفق تھی، اِس لیے مرزا مظفر کو شکست ہو گئی اور وہ قندھار میں محصور ہوکر رہ گیا۔ قزلباش قبیلوں کے بزرگوں نے صلح کروا دی اور پھر تین سال کے بعد مرزا مظفر حسین، حمزہ بیگ کی جان کے دَرپے ہو گیا اور اُس نے چپکے سے رستم مرزا کو قندھار بلا لیا اور پھر مرزا مظفر کو قلعہ قلات کی طرف بھیج دِیا کہ جو ہزارہ جات کے درمیان ہے اور محمد بیگ کو حفاظت کے لیے متعین کر دیا۔ مرزا مظفر حسین نے اُس کے ساتھ ساز باز کرلی اور کچھ دِنوں کے بعد وہ سیستان چلا گیا اور وہاں کے حاکم ملک محمود نے دوبارہ حمزہ بیگ سے صلح کروا دی اور مرزا مظفر حسین کو دوبارہ قندھار کی مسند پر بٹھا دِیا۔ اِس بار محمد بیگ کی مدد سے حمزہ بیگ کو قتل کروا دیا اور محمد بیگ وکیل قندھار مقرر ہو گیا۔[2]

ہندوستان آمد ترمیم

1595ء میں مرزا مظفر قندھار چھوڑ کر ہندوستان چلا آیا اور اپنے ہمراہ اپنے چاروں بیٹے بہرام مرزا، حیدر مرزا، القاس مرزا اور طہماسپ مرزا کو بھی ساتھ لے آیا اور ایک ہزار قزلباس (ایرانی) سپاہیوں کو اپنے ہمراہ ہندوستان لے آیا۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے اُسے منصب اور جاگیر سے نوازا۔

وفات ترمیم

مرزا مظفر حسین نے 1600ء میں دہلی میں وفات پائی۔

حوالہ جات ترمیم