مریم نمازی
مریم نمازی انسانی حقوق کی علمبردار، تبصرہ نگار اور ایک براڈکاسٹر ہیں۔ انھوں نے خواتین اور پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے اور مغربی ممالک میں مسلما نوں کے اندر موجود شدت پسند گروہوں اورانکے انتہا پسندانہ نظریات اور رویّوں کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ " حزب کمونیست کارگری ایران" ( ورکرز کمیونسٹ پارٹی آف ایران ) کی مرکزی کمیٹی رکن ہیں۔ اور ایران کی موجودہ مزہبی قیادت کی شدید مخالف اور نقاد ہیں ۔[1] وہ ایران میں خواتین کے لیے مساوی حقوق، برطانیہ میں متوازی شرعی قانون کے نفاذ کے مخالف تنظیم اور " ایکس مسلم آف برٹن " کی ترجمان ہیں۔ انھیں 2005ء میں نیشنل سیکولر سوسائٹی نے سال کے بہترین سیکولر کا انعام دیا تھا۔[2]
مریم نمازی | |
---|---|
ایمسٹرڈیم میں 2021 کے پینل ڈسکشن میں نمازی۔
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1966ء (عمر 57–58 سال) تہران |
قومیت | ایران |
مذہب | کوئی بھی |
جماعت | ورکر کیمونسٹ پارٹی ایران |
عملی زندگی | |
پیشہ | مرکزی کمیٹی کی رکن Worker-communist Party of Iran |
وجہ شہرت | انسانی حقوق کی کارکن |
تحریک | الحاد |
اعزازات | |
سال کا بہترین سیکولر (2005) |
|
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
درستی - ترمیم |
تعارف
ترمیممریم نمازی 1963ء میں ایران کے دار الحکومت تہران میں پیدا ہوئیں۔ لیکن 1980 ء میں اسلامی انقلاب کے وقت وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے ملک سے ہجرت کر گئیں۔ وہاں سے وہ پہلے بھارت پھر برطانیہ اور آخر میں امریکا منتقل ہو گئیں۔ وہاں انھوں نے 17 سال کی عمر میں یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ گریجوئیشن کے بعد انھوں نے سوڈان میں مقیم ایتھوپیا کے پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے سوڈان کا رخ کیا۔ مریم کے سوڈان کے قیام کے دوران میں اسلامی انقلاب کے نام پر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ان کی خفیہ تنظیم کے کا سراغ ملنے پر جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملنی شروع ہو کئیں۔ نتیجتاً وہ امریکا واپس آ کئیں۔
امریکا واپسی کے بعد مریم نے انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کی تنظیموں کے لیے کام کیا۔ 1991ء میں انھوں نے ایرانی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔ 1994ء میں وہ ترکی گئیں اور وہاں ایرانی پناہ گزینوں کی حالت زار پر ایک دستاویزی فلم بنائی۔
ترکی سے واپسی کے فوراً بعد مریم کو ایرانی پناہ گزینوں کی عالمی تنظیم کا منتظم اعلٰی بنایا گیا۔ اس تنظیم کی دنیا کے 20 ملکوں میں 60 شاخیں ہیں۔ تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں مغربی ممالک میں ایرانی پناہ گزینوں کی مدد کے سلسلہ میں کئی کامیابیاں ملیں۔ جن میں نیدرلینڈز سے ایک ہزار ایرانیوں کے اخراج کو روکنا نہایت نمایاں ہے۔
مریم نے کئی اور تحریکوں میں بھی کام کیا ہے۔ وہ اسلامی ممالک میں خواتین کے استحصال، سنگ زنی کی سزا اور سزائے موت کی بہت بڑی نقاد ہیں۔[3] انھوں نے کینیڈا میں اسلامی شرعی عدالت کے قیام کے خلاف انتہائی کامیابی سے مہم چلائی۔ وہ شرعی یا دیگرمذہبی قوانین کی انتہائی مخالف ہیں۔[4] اور اسکولوں اور دیگر عوامی مقامات پر اسلامی یا دیگرمذاہب کے خصوصی نشانات یا ملبوسات (حجاب، پگڑی ) کے استعمال پابندی لگائے جانے کے حق میں ہیں۔
مریم ایرانی یک جہتی تحریک کی منتظم ہیں۔ جو 2009ء میں ایرانی عوام کے حکومت کے خلاف اٹھنے پر ان کی مدد کے لیے قائم کی گئی تھی۔ وہ " دی تھرڈ کیمپ " کی پرجوش حامی ہیں۔ جس کا مقصد امریکا کی جنگجویانہ اور مسلمان گرہوں کی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کام کرنا ہے۔[5]
اس وقت مریم "نیو چینل ٹی وی" کے ایک ہفتہ وار پروگرام کی میزبان ہیں۔ اس چینل کے پروگرام مشرق وسطی اور یورپ میں سیٹلائٹ کی مدد سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل ٹی وی مشرق وسطی سے متعلقہ مسائل کو بائیں بازو کے ترقی پسندانہ نقطۂ نظر سے پیش کرتا ہے۔ مریم کے پیش کردہ پروگرام سیکولر ازم اور اس جیسی دیگر قدروں کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور یورپ، مشرق وسطی اور ایران میں بہت پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مریم نمازی (2009-06-15 accessdate=2010-12-22)۔ "Long live revolution against the Islamic Republic of Iran!"۔ worker-communistpartyofiran.blogspot.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2010
- ↑ Nick Cohen (2005-10-16)۔ "One woman's war"۔ www.guardian.co.uk۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2010
- ↑ Maryam Namazie (2010-06-28)۔ "Please help our mother return home! Stop Sakine's stoning now!"۔ blogspot.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2010
- ↑ Maryam Namazie (2010-06-17)۔ "New Report – Sharia Law in Britain – A Threat to One Law for All and Equal Rights"۔ www.onelawforall.org.uk۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2010
- ↑ "The Third Camp Against US Militarism and Islamic Terrorism"۔ thirdcamp.com۔ 04 جنوری 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 دسمبر 2010