مظہر محمود شیرانی

اردو کے محقق، خاکہ نگار، ماہر تعلیم اور فارسی کے پروفیسر

پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی (پیدائش: 9 اکتوبر 1935ء وفات 13 جون 2020ء) پاکستان کے نامور محقق، خاکہ نگار، ماہر تعلیم اور فارسی کے پروفیسر تھے۔

مظہر محمود شیرانی
معلومات شخصیت
پیدائش 9 اکتوبر 1935ء (89 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناگور،  ریاست جودھ پور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد اختر شیرانی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اسلامیہ کالج لاہور
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
اورینٹل کالج لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری مشیر وحید قریشی  ویکی ڈیٹا پر (P184) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محقق،  پروفیسر،  سوانح نگار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب
فائل:M m sherani (cropped).jpg
مظہر محمود شیرانی

اردو کے معروف محقق پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی کے پوتے اور نامور رومانوی شاعر اختر شیرانی کے بیٹے ہیں۔ اس وقت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے بحیثیت ریسرچ سپروائزر وابستہ ہیں۔

حالات زندگی ترمیم

مظہر محمود شیرانی 9 اکتوبر 1935ء کو شیرانی آباد، ضلع ناگور، ریاست جودھ پور میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔ اردو کے مشہور و معروف محقق حافظ محمو دخان شیرانی کے پوتے ہیں اور اردو کے نامور شاعر اختر شیرانی کے بیٹے ہیں۔ اردو کی محبت، شعر و سخن اور تحقیق کا ذوق ورثے انھیں میں ملا ہے۔ انھوں 1952ء میں میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول شیخوپورہ سے جبکہ ایف اے اور بی اے بالترتیب 1954ء اور 1956ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کیے۔ 1958ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے (تاریخ) اور 1960ء میں اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے (فارسی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1960ء میں محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے اور ڈگری کالج مظفر گڑھ میں فارسی کے لیکچرار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ تین سال کے بعد انٹر کالج شیخوپورہ میں تبادلہ ہو گیا جہاں 1966ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1966ء سے 1969ء تک ڈگری کالج شیخوپورہ میں پڑھاتے رہے۔ ستمبر 1969ء سے 1970ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ جنوری 1970ء میں ڈگری کالج شیخوپورہ میں واپس آ گئے اور ملازمت کا بقیہ حصہ یہیں بسر کیا، 8 اکتوبر 1995ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر و صدر شعبہ فارسی سبکدوش ہو گئے۔[1]

اکتوبر 2003ء سے اب تک گورنمنٹ کالج لاہور سے بحیثیت ریسرچ سپروائزر وابستہ ہیں۔ 1987ء میں مظہر محمود نے ڈاکٹر وحید قریشی کی زیرِ نگرانی اپنے دادا حافظ محمود خان شیرانی کی علمی و ادبی خدمات پر مقالہ لکھ کر اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل۔ ان کا یہ مقالہ ایک تحقیقی شاہکار ہے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنے دادا کے مقالات کو تلاش کر کے دس جلدوں میں مرتب کیا ہے جنہیں مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا ہے۔ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد خاکہ نگاری کی طرف بھی توجہ دی اور چار مجموعے بعنوان کہاں گئے وہ لوگ، کہاں سے لاؤں انھیں، جانے کہاں بکھر گئے اور بے نشانوں کا نشاں کے نام سے لکھے اور شائع کیے ہیں۔ ان کی مرتبہ کتب اس کے علاوہ جبکہ تحقیقی مقالات کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔[1]

تصانیف ترمیم

تمام کتب شخصی خاکوں پر مشتمل ہیں،

  • کہاں گئے وہ لوگ
  • کہاں سے لاؤں انھیں
  • جانے کہاں بکھر گئے
  • بے نشانوں کا نشا‍ں
  • وہ کہاں گئے

وفات ترمیم

12 جون2020ء کو شیخوپورہ میں مختصر علالت کے بعد 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ شیخوپورہ میں ہی دفن کیے گئے، [2]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ،ادبی مشاہیر کے خطوط، قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور، 2019ء، ص 259
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 06 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جولا‎ئی 2020