معرکہ جسر یعنی پل کا معرکہ یا حادثہ (عربی:موقعة الجسر۔ انگریزی:Battle of the Bridge) یہ معرکہ 23 شعبان سنہ 13ھ میں خلافت راشدہ اور فارسی سلطنت کی فوجوں کے درمیان میں ہوا تھا، اسلامی فوج فوج کی قیادت ابو عبید بن مسعود ثقفی کر رہے تھے۔

Battle of the Bridge
Battle of al-Jisr
سلسلہ the فارس کی مسلم فتوحات – Second invasion of Mesopotamia

The battle was joined on the banks of the دریائے فرات
تاریخاکتوبر 634[1][متنازع فیہ ]
مقامMarauha at the دریائے فرات near کوفہ، عراق
نتیجہ Decisive Sasanian victory[1][2]
مُحارِب
خلافت راشدہ ساسانی سلطنت
کمان دار اور رہنما
ابو عبید بن مسعود ثقفی 
Al-Hakam [3]
Jabr [3]
مثنی ابن حارثہ (زخمی)[4]
Bahman Jadhuyih
Jalinus
طاقت
6,000-10,000[5][6] 10,000[7]
Probably more than the Arabs[6]
ہلاکتیں اور نقصانات

4,000-7,000 killed

  • 1,000+ killed in action
  • 3,000+ drowned
3,000 survived or deserted[6]
unknown

ابو عبید بن مسعود ثقفی کو عمر بن خطاب نے ایران کی فتوحات کے لیے بھیجا تھا، 3 شعبان کو عراق پہنچے۔ سب سے پہلی جنگ 8 شعبان کو "نمارق" سے ہوئی، پھر 12 شعبان کو "سقاطیہ" کا معرکہ ہوا، 17 شعبان کو "باقسیاثا" کا معرکہ ہوا اور اس کے بعد پھر 23 شعبان کو یہ معرکہ جسر پیش آیا۔ بیس دنوں کی مدت کے ان چار معرکوں میں میں پہلے تینوں معرکوں میں مسلمانوں کو فتح ملی۔ یہ چوتھا معرکہ جسر میں مسلمان شکست کھا گئے، اسلامی لشکر کے قائد ابو عبید بن مسعود ثقفی نے دریائے فرات کے پل کو پار کر لیا تھا، لیکن وہاں ہاتھیوں نے انھیں روند دیا اور شہید ہو گئے۔ اسلامی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی تقریباً آدھا لشکر ختم ہو گیا اور آدھے بھاگ نکلے۔ پل کے اس سانحے کی وجہ سے اس کو معرکہ کو "معرکہ جسر" کا نام دیا جاتا ہے۔

ان کی شہادت کے بعد مثنی بن حارثہ شیبانی نے لشکر کی قیادت سنبھالی لیکن اکثر لوگ بھاگ چکے تھے، صرف دو ہزار رہ گئے تھے۔

مثنی بن حارثہ شیبانی نے شکست کی یہ خبر مدینہ منورہ بھیجی، اس وقت امیر المومنین عمر بن خطاب منبر پر تھے، آہستہ سے انھیں خبر دی تو وہ زور زور سے منبر پر رونے لگے۔ پھر فرمایا: «اللہ کی رحمت ہو ابو عبید پر، اگر وہ جنگ نہیں کر سکتا تھا تو پیچھے ہٹ جاتا تاکہ ہم ان کے لیے دوسرا لشکر بھی بھیجتے، لیکن اللہ نے جو مقدر کیا وہی ہوا»۔ اس کے بعد جنگ سے بھاگنے والے بھی مدینہ منورہ پہنچے، سب رو رہے تھے، کہہ رہے تھے: «ہم کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ ہم کیسے فرار ہو سکتے ہیں؟»

اس شکست سے بہر حال مسلمانوں کو تکلیف بھی ہوئی اور عار بھی محسوس ہوئی، چونکہ اس سے پہلے وہ کسی جنگ میں بھاگنے کی عادی نہیں تھے۔ عمر فاروق انھیں تسلی دیتے تھے کہتے تھے: «اسے فرار نہ سمجھو، میں ضرور تمھیں دوسرے محاذ پر بھیجوں گا»۔ ان کا حوصلہ بڑھاتے اور انھیں جوش دلاتے تھے۔ ان بھاگنے والوں میں معاذ بن جبل بھی تھے، جو تراویح کی امامت کرتے تھے، جب جب جنگ سے فرار کی آیات پڑھتے تو نماز ہی رونے لگتے، عمر فاروق انھیں تسلی دیتے کہتے: «آپ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں»۔

اس معرکہ میں آٹھ ہزار میں سے چار ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب electricpulp.com۔ "ʿARAB ii. Arab conquest of Iran – Encyclopaedia Iranica"۔ www.iranicaonline.org (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جولا‎ئی 2018۔ Ambushing Abū ʿObayd from the opposite bank of the Euphrates, the Persians inflicted a disastrous defeat on the Muslim forces at the Battle of the Bridge in Šaʿbān, 13/اکتوبر, 634. 
  2. Daniel W. Brown (2011-08-24)۔ A New Introduction to Islam (بزبان انگریزی)۔ John Wiley & Sons۔ صفحہ: 107۔ ISBN 978-1-4443-5772-1 
  3. ^ ا ب Biladuri 2011, p. 404.
  4. al-Tabari 2013, p. 193.
  5. al-Tabari 2013, p. 188.
  6. ^ ا ب پ Nafziger & Walton 2003, p. 22.
  7. Pourshariati 2011, p. 217.