ملک محمد جائسی (1464ء – 1542ء) ہندوستانی صوفی شاعر اور پیر تھے۔[2] انھوں نے اودھی زبان اور فارسی خط نستعلیق دونوں میں لکھا۔[3] ان کی شاہکار تخلیق رزمیہ پدماوت (1540ء) ہے۔[4]

ملک محمد جائسی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1477ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1542ء (64–65 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت (1526–)
سلطنت دہلی (1477–1526)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اودھی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

سوانح

ترمیم

اودھ کے جائس نامی قصبہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی مشہور تصنیف، "پدماوت" 1540ء میں تحریر کی گئی۔ اس کتاب کے آخر میں کوی نے بتایا ہے کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ پدماوت کے شروعات میں انھوں نے شاہ وقت شیر شاہ سوری (زمانہ حکومت 1540ء–1545ء) کی مدح لکھی ہے۔[5] کہا جاتا ہے کہ جائسی کے پیر شاہ مبارک بودلے اور شاہ کمال تھے۔ بعض لوگ اشرف جہانگیر سمنانی کو بھی ان کی مرشد مانتے ہیں۔ بہرحال جائسی صوفی سَنتوں کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ جامعہ عثمانیہ اور سالار جنگ کے کتب خانے کی قلمی کتابوں میں جائسی کی ایک تصنیف چتراولی یا چتروت (چتر ریکھا کے نام سے شائع ہوئی۔) بھی موجود ہے۔ جائسی نے بول چال کی اودھی کا استعمال کیا ہے۔ یوں تو تلسی داس نے رام چرت مانس (راماین) بھی اودھی میں لکھی ہے۔ لیکن اس میں اودھی کا وہ فطری روپ نہیں ہے جو جائسی یا دوسرے مثنوی نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔[6] جائسی نے صوفی روایتوں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے شاعری کی ہے۔ ان کی شاعری نے انسانیت کا جذبہ پیدا کرنے میں بڑی مدد دی۔ یہ اتفاق نہیں کہ جائسی نے ہی نہیں بلکہ سبھی صوفی کویوں نے اپنی مثنویوں کے لیے ہندو کرداروں کو ہی چنا۔ جائسی نے پدماوت میں علاء الدین خلجی کو اعلیٰ کردار کے روپ میں پیش نہیں کیا بلکہ چتوڑ کے راجا رتن سین، گورا، بادل وغیرہ کے کردار کو اعلیٰ کردار بنا کر پیش کیا ہے۔[7]

کسی واقعہ یا کہانی کو لے کر اچھے ڈھنگ سے پیش کرنے والے ہندی کے شاعروں میں جائسی بہت بلند مقام کے حامل تھے۔ پدماوت ایک اونچے درجے کی عشقیہ تصنیف ہے۔ اس میں عشق مجازی عشق حقیقی میں بدل جاتا ہے۔ جائسی نے اپنی شاعری کے لیے دوہا اور چوپائی کی صنف پسند کی۔ یہ دونوں اصناف اب بھرنش کے ادب میں بہت رائج تھیں۔ "چوپائی" فارسی کی "مثنوی" کے بہت قریب ہے۔[8]

تخلیقات

ترمیم

ان کی اہم تصانیف ہیں :

  • پدماوت
  • اکھراوتی
  • آخری کلام
  • مہری جائسی
  • چتر ریکھا
  • کہرا نامہ
  • مسلا نامہ۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb131735009 — بنام: Malik Muhammad Jayasi — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. "Padmini's poet: The man behind the first known narrative of Rani Padmavati is known more as a peer"۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 26 نومبر 2017 
  3. Ramya Sreenivasan 2007, p. 30.
  4. Gaṅgā Rām Garg (1992)۔ Encyclopaedia of the Hindu World (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 73۔ ISBN 9788170223740 
  5. "Absurdity of epic proportions: Are people aware of the content in Jayasi's Padmavat?" 
  6. کملی میں بارات، عرش صدیقی، مقبول اکیڈمی، لاہور، نومبر 1991ء، ص 45
  7. Aditya Behl 2012, pp. 166–176.
  8. اردو دوہے کا ارتقائی سفر، جلد اول