موسی زئی شریف
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
موسی زئی شریف (انگریزی: Mussa Zai Sharif)پاکستان کی ایک یونین کونسل جو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے۔[1]
قصبہ and union council | |
سرکاری نام | |
ملک | پاکستان |
پاکستان کی انتظامی تقسیم | خیبر پختونخوا |
ضلع | ضلع ڈیرہ اسماعیل خان |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت |
موسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان سے تقریباً 65 کلومیٹر(40 میل انگریزی) کے فاصلے پر جنوب مغربی سمت میں ہے اور تحصیل درابن سے جنوب کی جانب 7 کلومیٹر پر واقع یونین کونسل ہے اس گاؤں کی ابادی تقریباً 20000کے قریب ہے اور موسیٰ زئی شریف کی یونین کونسل میں چھوٹے بڑے گاؤں درج ذیل ہیں جن کے نام یہ ہیں گرہ میر عالم۔کوٹ شاہنواز۔ککری۔شیخ گرہ۔ بستی دوست محمد( مسکوٹہ ) گرہ جت۔مہربان۔گرہ کھوکھر۔ وٹو۔گرہ بھنڈ گرہ دستی۔ ہیں۔۔
اس گاؤں کی بنیاد سب سے پہلے موسیٰ خان میانخیل نے تقریب30_ 1720کے قریب رکھی تھی اس کی اولاد موسیٰ زئی کے نام سے جانی جاتی ہے جو مشہور و معروف ہے اور پھر موسیٰ زئی شاخ مزید مختلف شاخوں میں تاجو خیل محمدزی مہرخانخیل مدی خیل میں تقسیم ہے یہ گاؤں نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کی مشہور اور قدیم خانقاہ احمدیہ سعیدیہ کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے جس کی بنیاد پیر خواجہ دوست محمد قندھاری نے 1850میں رکھی جو آپ کی وفات کے بعد خواجہ عثمان دامانی نقشبندی مجددی اور اس کے بعد حضرت خواجہ محمد سراج الدین نقشبندی مجددی خواجہ محمد ابراھیم سراجی نقشبندی مجددی اور اس کے بعد خواجہ محمد اسماعیل نقشبندی مجددی خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف کے جانشین بنے اور موجودہ سجادہ نشین خواجہ محمد نعمان جان نقشبندی ہیں اس کے علاؤہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی مجددی خواجہ علاؤ الدین نقشبندی مجددی عارف زاہد صاحبزادہ ظاہر صاحبزادہ دوست محمد جان شمس الدین نقشبندی مجددی خواجہ سعید کے مزارات بھی خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف میں ہیں اور شہر کے چاروں اطراف بھی بزرگ دین کے مزارات ہیں جن کے نام یہ ہیں ابا گڑندے آخوند زادہ۔ اکبر شھید
۔عاشق خان فقیر جلوالہ فقیر شیخ حسن۔ نادر شاہ۔ ہیں شاید گاؤں کی آبادی کی شروعات اس پہاڑی نالے کی وجہ سے ہوئی جو مغرب میں واقع پہاڑوں سے آتا ہے۔ گاؤں کی قدیم آبادی قوم میانخیل تاجوخیل، مدی خیل۔میرخانخیل محمدزی۔ مچن خیل(شیخ ) درانی اچکزئی (حضرات۔پیر۔صاحبزادہ گان۔خواجگان ) حبیبانی فقیر شیخ خویشگی( آخوند زادہ گان) اعوان سیال۔ ڈھڈی بلوچ۔پلیار۔ استرانہ۔ شیرانی آرائیں۔ بھٹی سیدبخاری کھوڑ۔گنڈہ پور ملانہ۔ راں۔شجرا۔مسات۔ بھنڈ۔ سگو۔مڑھل۔۔پر مشتمل ہے اوراس کے علاؤہ بھی اور اقوام آبا دہیں جبکہ اس گاؤں کو شہرت خانقاہ احمہ سعیدیہ سے حاصل ہوئی جس میں صاحبزادہ گان حضرات خواجگان پیران کا فیض جاری وساری ہے موسیٰ زئی شریف میں ایک ہائی اسکول بوائز اور ایک گرلز کیلے ہے اور 3 پرائمری اسکول اور ایک مڈل اسکول گرلز کیلے ہے اور 5 پرائمری اسکول بوایز کے ہیں اور ایک بیسک ہیلتھ یونٹ ہے
گاؤں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر کاشت کاری، حکومتی خدمات اور مزدوری ہے مختصر حالات۔ پیران موسیٰ زئی شریف۔۔۔
1. خواجہ دوست محمد قندھاری نقشبندی مجددی
آپ کی پیدائش قندھار کے قریب اپنے آبائی گاؤں میں1801عیسوی کو ہوئی۔ اپ آخوند ملا علی کے فرزند تھے۔ آپ جب سن شعور کو پہنچے تو ابتدائیییی تعلیم میں قرآن کریم باتجوید حفظ کیا اور پھر عربی اور فارسی زبان میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ علم کا شوق آپ کو کابل لے گیا جہاں جید علما سے علم فقہ، حدیث اور تفسیر کی کتب کا درس لینا شروع کیا۔ ایام جوانی میں ایک روز ہم عمر دوستوں کے ساتھ بابا ولی کے مزار شریف کی زیارت کو جا رہے تھے کہ راستے میں ایک پریشان حال مجذوب درویش سے ملاقات ہوئی جو ہر طالب علم سے متعلق کوئیییی نہ کوئیییی بات یا اشارہ فرماتے۔ جب میں سامنے ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”یہ طالب علم بڑا صاحب کمال اور صاحب حال اولیاء اللہ میں سے ہوگا اور ولی کامل بنے گا، کیونکہ اس کی پیشانی میں اسرار معرفت ہویدا ہیں۔“
بزرگان دین سے محبت:
ایک رات اسباق کے مطالعہ کے دوران میں آپ کے دل میں شاہ نقشبند ثانی شاہ عبد اللہ المعروف شاہ غلام علی دہلوی کی زیارت کا شوق پیدا ہوا آپ واپس عازم قندھار ہوئے اور وہاں سے غزنی و کابل کے راستے پشاور پہنچے تو یہ خبر سنی کہ جناب کا وصال ہو گیا ہے مجبوراً تعلیم کا سلسلہ موقوف کرکے مختلف بزرگان دین کی خدمتوں میں حاضری دی۔ اسی دوران میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی خواب میں زیارت ہوئی، تو آپ عازم بغداد ہوئے اور مرقد اطہر پر فاتحہ پڑھ کر بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ الٰہی میرے درد کی دوا فرما۔ مگر وہ بے چینی و اضطراب اور درد کی کیفیت آپ کے لیے وجہ آزمائش بنی رہی تو آپ کردستان کے شہر سلیمانیہ پہنچے اور یہاں شیخ عبد اللہ ہرانی کی تعریف سن کر آپ کی بارگاہ میں حاضری دی، مگر اضطراب باطنی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ شیخ عبد اللہ ہرانی نے شاہ ابو سعید دہلوی کی خدمت میں حاضری کا حکم دیا۔
ڈیراسماعیل خان آمد:
خواجہ دوست محمد قندھار ی کا قافلہ افغانستان پہنچا تو لوگوں نے والہانہ استقبآل کیا اپ اپنے قافلے اور مریدوں سمیت گرمیوں میں قندھار کے نواح اور سردیوں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے موضع موسیٰ زئی شریف اور موضع چودھواں کے پاس رہتے تھے۔ جیسے ہی حضرت حاجی صاحب کا خیمہ استادہ ہوا تو قافلے والوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں حضرت حاجی صاحب یہاں سے چلے نہ جائیں، اس خدشے کے پیش نظر اپنی قوم کی انتہائی پارسا لڑکی کی شادی حضرت حاجی صاحب سے کردی اور ساتھ ہی پانچ چھ شامیانے بھی بنادیئے۔ ایک نماز باجماعت کے لیے، دوسرا آپ کے گھر اور تیسرا آپ کے خلوت خانہ کے لیے اور دو شامیانے ذاکرین اور درویشانِ طالبانِ حق کے لیے تاکہ انھیں رہائش میں آسانی ہو۔
جب اس علاقہ میں دعوت و ارشاد کا کام نہایت وسیع ہو گیا تو قندھار کے مضافاتی علاقہ غنڈہں کے صاحب اثر افراد جو آپ کے مریدین صادق تھے اور جن میں ملا عبد الحق اور حاجی محمد صدیق کے نام قابل ذکر ہیں نے ایک خانقاہ تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی اور اجازت ملتے ہی لوڑگئی کے مقام پر چند کمروں پر مشتمل ایک عمارت کھڑی کردی گئی جو آج تک خانقاہ غنڈہں کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت حاجی صاحب نے ایک عرصہ تک یہاں قیام فرمایا اور مخلوق خدا آپ کے فیض سے سیراب ہوئی۔ ذکر الٰہی کے کئیییی چشمے یہاں سے جاری ہوئے۔ حضرت صاحب کے حلقۂ ارادت میں عوام الناس کے علاوہ خواص کا طبقہ بالخصوص علما اور سجادہ نشین کافی تعداد میں داخل ہوئے۔ افغانستان قندھار کے علاقے میں سردی بہت زیادہ پڑتی ہے۔ چونکہ اہل اللہ ہمہ وقت مخلوق خدا کی خدمت پر کمربستہ ہوتے ہیں اور شدید سردیوں میں تکلیف بڑھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لیے جیسے ہی موسم سرما شروع ہوتا آپ افغانستان سے علاقہ دامان موسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان آپنے مریدوں اور قافلے کے ہمراہ تشریف لے آتے۔ آپ کے ورود مسعود سے علاقہ دامان میں نیکیوں کی بہار آجاتی۔ لوگ جوق در جوق آپ کی مشفقانہ راہنمائی کے طالب ہوتے۔ اس علاقہ کے میانخیل تاجوخیل قوم اور موسیٰ زئی شریف کی دوسری اقوام کے لوگ آپ کی مسحور کن شخصیت سے متاثر ہوکر شروع میں ہی آپ کے حلقۂ بیعت میں داخل ہو گئے تھے اور فیضان الٰہی سے دلوں کی کھیتیوں کو سیراب کرتے جب حضرت حاجی صاحب قبلہ وہاں رونق افروز ہوتے تھے، انہی دنوں علاقے کا ہندو تحصیلدار وہاں دورے پر آیا تو مخالفین نے یکجا ہوکر اس کو کہا کہ ایک فقیر نے یہاں اپنی حکومت قائم کرلی ہے، ان کے ساتھ ایک کثیر جماعت ہے، یہ سب ہمارے نالے کا پانی خراب کرتے ہیں۔ اگر آپ انھیں یہاں سے نکال دیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ تحصیلدار نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے، میں ابھی جاتا ہوں اور انھیں یہاں سے بے دخل کرتا ہوں۔ وہ بڑی آن بان کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر مخالفین کے ہمراہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں پہنچا اور نہایت متکبرانہ طریقے سے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ حضرت حاجی صاحب نے نہایت نرمی سے ارشاد فرمایا شیخ صاحب! ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ تحصیلدار اپنے لیے لفظ شیخ سن کر طیش میں آگیا۔ اس نے انتہائی درشت لہجے میں کہا کہ آپ کو یہاں سے جانا ہوگا۔ آپ نے بھی ارشاد فرمایا شیخ صاحب ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ دوبارہ شیخ کا لفظ سن کر اس کی ہندوانہ عصبیت عود کر آئی اور اس نے کہا کہ میں آپ کو زبردستی یہاں سے بے دخل کر دوں گا۔ تحصیلدار کے اس گستاخانہ رویہ نے درویشانہ جمال کو جلال میں بدل دیا اور حضرت حاجی صاحب نے نہایت جلال سے فرمایا ”شیخ صاحب کسی کی مجال نہیں جو فقیر کو یہاں سے ہٹاسکے“ اس کے ساتھ ہی ایک نگاہ پر جلال جو اس پر ڈالی تو وہ گھوڑے سے نیچے گر کر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ یہ دیکھ کر مخالفین بہت پریشان ہوئے اور اسے اٹھاکر ڈیرے پر لائے۔ جیسے ہی تحصیلدار کو ہوش آیا تو کہنے لگا کہ مجھے حضرت کے پاس لے چلو۔ چنانچہ اسے حضرت قبلہ کی بارگاہ میں لایا گیا۔ جیسے ہی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فورًا ہی آپ کے قدموں پر گرگیا اور اپنی گستاخی کی معافی مانگنے لگا۔ اس کے بعد آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ اور یوں ایک درویش عارف باللہ کی زبان سے نکلے لفظ شیخ کی عملی تفسیر ظاہر ہوئی۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری بیوی کے لیے بھی دعا فرمائیں کہ وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائے اور حضور کی دعا سے میری جائداد اور ملازمت بھی محفوظ رہے۔ اپ کی توجہ عالیہ اور دعا کی برکت سے اس کی یہ سب خواہشیں پوری ہوئیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس نے عرض کیا کہ حضور مسلمان ہونے کے بعد میں اپنی قوم سے کٹ گیا ہوں اس لیے آپ میرے لیے کوئیییی پہچان مقرر فرمادیجئے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا آج سے تمھارا نام فقیر عبد اللہ رکھا جاتا ہے، اب تمھاری اولاد بھی فقیر کے نام اور لقب سے جانی پہچانی جائے گی۔“ آپ کی دعا کی برکت سے آج بھی اس کی اولاد فقیر کے لقب سے پہچانی جاتہے ں پشتو اوسرائیکیبی تہذیب کے اس سنگم پر اسلامی تعلیم و تہذیب ایک عظیم الشان مرکز وجود میں آگیا۔ علاقہ دامان کے شہر چودھواں کی بڑی شخصیتوں خان غلام نبی خان، قاضئ شہر مولوی فتح محمد صاحب اور کلاچی کے بڑے خان نورنگ گنڈہ پور کا ارادہ تھا کہ کلاچی میں آنحضور قبلہ کے لیے آپ خانقاہ بنائیں گے۔ مگر ”ایں سعادت بزور بازو نیست۔“ جس کے نصیب ازلی سعادت ہو یہ حصہ اس کو عطا ہوتا ہے۔ ان صاحبان سے پہلے ہی 1266ھ میں آپ کے مرید سردار خان میر عالم خان قوم تاجول میانخیل نے موسیٰ زئی شریف میں ایک خانقاہ بنانا شروع کردی۔ اس وقت قبلہ حاجی صاحب افغانستان میں رونق افروز تھے۔ جیسے ہی موسم سرما شروع ہوا، حاجی صاحب نے موسیٰ زئی شریف کو رونق بخشی تو آپ کی آمد سے قبل ہی خانقاہ تیار ہو چکی تھی۔ جس کے ساتھ ایک فراخ مسجد اور گھوڑوں کے لیے اصطبل بھی تھا
خواجہ دوست محمد قندھار ی کے موسیٰ زئی شریف میں مستقل قیام سے یہاں فیض کے جشمے جاری جاری ہاور بیت بڑی تعداد میں لوگوں نے فیض حاصل کیا اور حلقہ ارادت میں داخل ہوئے میں عوام الناس کے علاوہ خواص کا طبقہ بالخصوص علما اور سجادہ نشین کافی تعداد میں داخل ہوئے۔ آپ نے اپنے خلیفۂ حضرت خواجہ
مولانا محمد عثمان دامانی نقشبندی مجددی کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور خانقاہ شریف اور کتب خانہ و دیگر اسباب آپ کو ودیعت فرما دیے۔ اور اپنے مقربین خلفاء کو جمع فرماکر سب سے مولانا محمد عثمان دامانی کی نیابت کی تائید لی
سلسلہ شیوخ:
حضرت شیخ حاجی دوست محمد قندھاریؒ
حضرت شیخ احمد سعید مہاجر مدنیؒ
حضرت شیخ ابو سعید ذکی القدرؒ
حضرت شیخ شاہ عبد اللہ غلام علی دہلویؒ
حضرت شیخ مرزا مظہر جان جاناں شہید ؒ
حضرت شیخ سید نور محمد بدایوانیؒ
حضرت شیخ حافظ محمد محسنؒ
حضرت شیخ سیف الدینؒ سرہندی
حضرت شیخ محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ ؒ
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ
وفات:
23 شوال المکرم 1284ھ کی تاریخ وصال ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر 68 سال تھی وصیت کے مطابق محمد عثمان دامانی نے غسل دیا، کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کی کوئیییی نسبی اولاد نہیں تھی آپ کا مزار آج بھی خانقاہ موسیٰ زئی شریف میں تشنگان معرفت کے لیے وجہ تسکین و طمانیت ہے۔ آپ کی تصنیفات میں سوائے آپ کے مکتوبات کے اور کسی تحریر کا علم نہیں ہو سکا
2: خواجہ پیر محمد عثمان دامانی نقشبندی مجددی
خواجہ محمد عثمان دامانی سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے عظیم بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
خواجہ حاجی محمد عثمان دامانی کی ولادت باسعادت 1244 ھجری بمطابق 1828کو کوی آپ درانی قبیلہ کی اچکزئی شاخ سے تعلق رکھتے تھے آپ کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے قاضی قضاة قندھار قاضی مولانا شمس الدین سے جا ملتا ہے۔ اپ غازی احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت میں قاضی القضاة کے منصب جلیلہ پر فائض تھے خواجہ عثمان دامانی نقشبندی مجددی کی والدہ کا تعلق سید گیسو دراز کے خاندان سے تھا۔حاجی دوست محمد قندھاری تک رسائی اپنے ماموں مولانا نظام الدین صاحب جو حاجی صاحب کے سرپرست تھے کے ذریعے ہوئی۔
تعلیم و تربیت:
آپ دو بھائیییی تھے۔ محمد عثمان دامانی اور محمد سعید۔ آپ کی عمر ابھی بمشکل پانچ چھ برس ہوئی کہ آپ کے والد محمد جان راہی عالم بقا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے اپنی مکمل توجہ ان دو بچوں کی پرورش کے لیے وقف کردی اور کفالت کا ذمہ آپ کے ماموں صاحبان نے اٹھایا۔ جب سن شعور کو پہنچے تو ایک دینی مدرسہ میں آپ کو داخل فرمادیا گیا۔ یہاں آپ نے قرآن حکیم اور مروج ابتدائیییی دینی علوم صرف نحو، اصول فقہ اور تفسیر کی کتابیں پڑھیں۔ جب کہ آپ کے چھوٹے بھائیییی محمد سعید اپنے ماموں جو قوم استرانہ میں قاضی و مفتی تھے کے زیر سایہ حصول علم میں مشغول تھے۔
حاضری مرشد:
ایک بار اپنے چھوٹے بھائیییی کو پہننے کے کپڑے دینے کی غرض سے کھوئے بہارہ جہاں آپ کے ماموں مدرس تھے، تشریف لے گئے۔ واپسی میں ماموں صاحب نے کہا کہ چودھواں کا قصبہ تمھارے راستے میں پڑتا ہے، یہاں میرے پیر و مرشد حاجی دوست محمد قندھاری قیام پزیر ہیں، تم ان کی خدمت میں میرے نیاز مندانہ تسلیمات عرض کرنا اور یہ بھی عرض کرنا کہ آپ کے درویش جس کام کی غرض سے میرے پاس آئے تھے وہ کل واپس خدمت اقدس میں حاضر ہوجائیں گے۔ قصبہ چودھواں میں مقیم حاجی صاحب کی خدمت میں ایک راہ چلتے مسافر کی طرح حاضر ہوئے اور اپنے ماموں کا پیغام گوش گزار کرکے واپس اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اگرچہ اس حاضری کا مقصد صرف پیغام رسانی تھی نہ کہ عقیدت و ارادت مندی اور اخلاص و زیارت، مگر یہ مختصر سی حاضری بھی وہ رنگ لائی کہ دنیا دنگ رہ گئی چنانچہ آپ واپس مدرسہ تشریف لاکر حصول علم میں مشغول ہو گئے۔ لیکن نگاہ ولی کامل کی تاثیر رنگ لائی اور آپ کا علم ظاہری سے دل اچاٹ ہو گیا۔ ذوق و شوق الٰہیہ نے آپ کو گھیر لیا اور ہر وقت استغراق کی حالت طاری ہونے لگی کہ کتاب و مطالعہ یکسر ختم ہو گئے۔ اس حالت میں آپ اپنے استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا عرض کر دیا اور یہ بھی عرض کر دیا کہ اب مجھ سے تحصیل علم نہیں ہو سکتی۔ محبت الٰہیہ کا بہت غلبہ ہے، میں نے مصتمم ارادہ کر لیا ہے کہ کسی اہل اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوجاؤں۔ استاد صاحب نے فرمایا کہ ہدایہ ابھی تھوڑا باقی ہے، کچھ دن توقف کر لیں کہ کتاب ہدایہ ختم ہوجائے تو پھر دونوں اکٹھے چلیں گے اور ایک ساتھ ہی ایک ہی شیخ کے دست حق پرست پر بیعت کریں گے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ہدایہ ختم ہونے میں کچھ دیر ہے اور مجھ میں یارائے صبر نہیں۔ میرا اضطراب حد درجہ بڑھ چکا ہے، ہر وقت استغراق اور محویت طاری رہتی ہے، میں کل بفضلہ تعالیٰ روانہ ہوجاؤں گا۔اس گفتگو کے بعد سبق اور درس چھوڑ کر دوسرے دن آپ بیعت کے ارادے سے چودھواں کی جانب روانہ ہوئے۔ جب موسیٰ زئی شریف کی نہر کے کنارے پہنچے تو نسبت باطنی کا اتنا شدید غلبہ ہوا کہ سارے جسم میں بسبب حرارت ذکر سخت گرمی پیدا ہو گئی جو ناقابل برداشت تھی۔ جوں ہی نہر پر پہنچے تو کپڑوں سمیت نہر میں کود پڑے اور کافی دیر تک نہر کے پانی میں بیٹھے رہے تاکہ کچھ ٹھنڈا ہوکر چودھواں تک چلنے کے قابل ہوجائیں۔ بالآخر 8 جمادی الثانی سنہ 1266ھ بوقت عصر حاجی دوست محمد قندھاری کی خدمت میں پہنچے۔ قدمبوسی کے بعد بیعت کی درخواست کی۔ آپ قبلہ نے انکار فرمایا کہ فقیری اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن پھر ان کے مسلسل اصرار پر بعد نماز مغرب آپ کو بیعت فرمایا۔ بیعت کے وقت آپ پر عجیب و غریب حالت طاری ہوئی کہ زبان بیان سے قاصر ہے۔ بیعت سے پہلے اگرچہ آپ مروجہ علوم سے فارغ ہو چکے تھے مگر پھر بھی بیعت کے بعد آپ نے اپنے پیر و مرشد سے علم حدیث میں مشکواة اور صحاح ستہ، علم اخلاق میں احیاء العلوم کامل، علم تصوف میں مکتوبات امام ربانی اور مکتوبات حضرت عروة الوثقیٰ خواجہ معصوم کی تینوں جلدیں اور دیگر تصوف کی مستند اور مروج کتابیں بھی کماحقہ اور اجازت کامل کے ساتھ حاجی دوست محمد قندھاری ہ سے پڑھیں۔
خلافت و اجازت:
حاجی صاحب کے خدا شناس خلفاء کی کمی نہ تھی لیکن حاجی صاحب کا قلبی تعلق اور روحانی اعتماد اور باطنی رسوخ آپ سے اس قدر زیادہ تھا کہ علم حدیث و علم تفسیر اور علم اخلاق و علم سیر اور علم تصوف کی مخصوص کتابیں خصوصی تربیت کے ساتھ آپ کو پڑھائیں اور ساتھ ہی ان کی سند اپنی مہر خاص سے مزین فرماکر حضرت دامانی کو دی۔ سلوک اور تصوف کے تمام مقامات تفصیل و تحقیق کے ساتھ خصوصی عنایت سے طے کروائے اور فیوضات و برکات سے مالامال فرمایا اور تمام مشہور اور سلسلہ ہائے طرق عالیہ میں اجازت مطلقہ عنایت فرماکر خلافت کے بلند ترین اعزاز سے مشرف فرمایا۔
سفر حرمین شریفین:
22 شوال المکرم سنہ 1284ھ کو حاجی دوست محمد قندھاری اس عالم فانی کو الوداع کہہ کر عالم جاودانی کی جانب روانہ ہوئے تو خواجہ عثمان دامانی مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوئے۔ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہونے کے تین سال بعد ہی آپ کے دل میں حرمین شریفین کی زیارت اور حج مبارک ادا کرنے کا شوق دامنگیر ہوا۔ چنانچہ تقریبًا 1288ھ میں دامانی چند رفقا سمیت عازم زیارت حرمین شریفین ہوئے۔
شریعت کی پابندی:
سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی بنیاد ہی شریعت مطہرہ کی کمال پابندی اور سنت نبویہ کی پیروی کامل پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ عثمان دامانی نے شریعت پر کمال پابندی اور سنت نبویہ کے کمال اتباع کو اپنا نصب العین اور دستور زندگی ایسا بنایا کہ کردار و گفتار، نشست و برخواست اور خور و نوش، وضع قطع اور لباس وغیرہ غرض کی زندگی کے ہر شعبہ میں شرعی احکام اور سنت نبویہ کی پابندی اور کامل اتباع کو لازم قرار دیا، یہاں تک کہ بال بھر بھی انحراف کو حرام سمجھتے اور اس سے تجاوز نہ فرماتے۔
خلفاء:
آپ کے خلفاء میں آپ کے فرزند خواجہ سراج الدین نقشبندی مجددی سا خواجہ غلام حسن پیر سواگ مولانا سید لعل حسین شاہ ہمدانی بلاولی، مولانا محمود شیرازی، قاضی عبدالرسول انگوی، مولانا قاضی قمرالدین محدث چکڑالہ، مولانا غلام حسین کانپوری، مولانا عبد الرحمان بگھاروی، بگھار شریف، مولانا عبد الرحمان پشاوری اور سید امیر شاہ گیلانی گنجیال شریف، وغیرہ ہیں اور اس کے علاؤہ بھی بے شمار آپ کے خلفاء ہیں جو آپ کے فیضان کے امین ہیں اور اس سلسلے کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔
وصال :- عثمان دامانی کئیییی امراض کے دائمی مریض تھے۔وصال سے ایک سال پہلے جو احباب و مریدین زیارت و ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو ان سے اکثر فرماتے ”فقیر کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھو، کیونکہ حیات مستعار پر کوئیییی اعتبار نہیں۔ آپ صاحبان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اوقات کو ذکر و فکر، اطاعت و عبادت میں صرف کرو۔22 شعبان سنہ 1314ھ کو منگل کے روز بوقت اشراق عثمان دامانی اس عالم ناپائیدار سے تعلق توڑ کر خالق حقیقی کی جانب عازم سفر ہوئے آپ کا مزار موسیٰ زئی شریف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے
2: خواجہ پیر محمد سراج الدین نقشبندی مجددی
کامل مرشد صادق سراج السالکین خواجہ محمد عثمان دامانی کے گھر 1297ھ بمطابق 1879ع میں خانقاہ موسیٰ زئی شریف میں تولد ہوئے
آپ کے والدین کریمین نہایت صاحب تقویٰ اور سنت و شریعت کے پابند، محبت و معرفت الٰہیہ کے پیکر تھے، پھر کیوں نہ آپ میں بھی وہی آثار ظاہر ہوتے۔ آپ نے کچھ ہوش سنبھالا تو آپ کو قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیم کے لیے ملا شاہ محمد کے پاس بٹھایا گیا۔ قرآن ناظرہ و حفظ کے بعد علم قرات، نثر و نظم، صرف و نحو، منطق، علم عقائد و فقہ، علم تفسیر و علم حدیث وغیرہ آپ نے مولانا محمود شیرازی سے پڑھیں اور ان میں کمال حاصل کیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد آپ نے علم التفسیر کامل، صحاح ستہ اور علوم عقلیہ و نقلیہ کی باقی کتابیں خانقاہ عالیہ موسیٰ زئی شریف آکر والد قدر خواجہ محمد عثمان دامانی سے پڑھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ علم تصوف کی تکمیل میں بھی مشغول ہوئے۔ اکتساب فیض کے ساتھ ساتھ آپ نے کتب تصوف و مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی، مکتوبات معصومیہ بھی اپنے والد سے تفصیلًا پڑھیں۔ خداوند قدوس نے آپ سے دین متین کا کام لینا تھا، اس لیے آپ پر خاص رحمت کی نظر تھی کہ آپ نے مختصر عرصے میں علوم مروجہ نہ صرف حاصل کرلیے بلکہ عرفان و سلوک میں بھی کمال حاصل کر لیا۔ چودہ برس کی مختصر عمر میں نہ صرف آپ کی دستار بندی ہوئی بلکہ عارفان حق کے جلو میں خواجہ حاجی الحرمین دوست محمد قندھاری کے مزار مبارک کے قرب میں خلافت و اجازت مطلقہ بھی مل گئی۔ خلافت سے قبل حضرت خواجۂ خواجگان محمد عثمان دامانی مرشد مربی کے مزار پر مراقب ہوئے اور کافی دیر تک محویت کے عالم میں مزار شریف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور بعدہ صاحبزادہ صاحب کی طرف متوجہ رہے پھر کافی دیر تک دعا و مناجات میں مشغول رہے، جس پر بہت سے اہل قرب پر جذب و گریہ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کے بعد تمام خلفاء کرام کی موجودگی میں 3 محرم الحرام سنہ 1311ھ کو پیران کبار کے طریقۂ عالیہ کے مطابق خلافت نامہ تحریر کیا گیا۔ کارکنان قضا و قدر نے جس کو روز ازل سے اس اعزاز کا مستحق قرار دیا تھا اسی کو نصیب ہو گیا۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف چودہ برس تھی۔ بروز پیر مؤرخہ 7 ربیع الاول سنہ 1314ھ کو والد و مرشد مربی نے علالت کے باعث آپ کو خلفاء کرام اور متعلقین کی موجودگی میں حلقۂ ذکر و مراقبہ کا امر فرمایا۔ پہلے ہی حلقۂ ذکر و مراقبہ میں برکات و فیوضات کی وہ بارش برسی کہ ہر صاحب دل کے قلب پر انوار کی بارانی تھی۔ جذب و مستی، گریہ زاری، محویت و بیخودی کی کیفیت ہر سالک پر طاری تھی۔ چونکہ خواجہ محمد عثمان دامانی شہباز لامکانی عوارضات کے باعث فقراء و سالکین کو زیادہ وقت نہ دے پاتے تھے اس لیے حضرت صاحبزادہ صاحب ہی حلقۂ ذکر و مراقبہ کراتے رہے تاوقتیکہ والد محمد عثمان دامانی ر واصل بحق ہوئے۔ والد و مرشد گرامی کی وفات حسرت آیات کے بعد جملہ خلفاء و مریدین نے آپ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت فرمائی۔ اس طرح پوری جماعت میں ایک فرد بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوا اور آپ کے دم سے مسند رشد و ہدایت میں از سر نو بہار آئی۔ مسند خلافت یا سلسلہ عالیہ کی باقاعدہ اشاعت پر جب آپ مامور ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک صرف سترہ برس تھی۔ اس مختصر سی عمر میں تمام علوم نقلیہ و عقلیہ کا حصول اور مقامات سیر و سلوک طے کرنے اور پھر مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہونا یہ صرف عطیۂ خداوندی پیران کبار اور حاجی محمد عثمان دامانی کی قوی توجہ کا کمال ہے۔ گو کہ تاریخ عالم میں ایسے کم ہی نظر آتے ہیں جو ظاہری علوم و فنون سے آراستہ تھے، مگر باطنی کمال میں شاذ شاذ نظر آتے ہیں۔ آپ نے تصوف اور سلسلہ عالیہ کی وہ خدمت و اشاعت فرمائی کہ آفتاب نقشبنداں کے مبارک لقب سے موسوم ہوئے۔ مسند رشد و ہدایت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کا شہرہ چہار دانگ عالم میں کر دیا تھا کہ مخلوق خدا کا جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اس کا بین ثبوت تھا۔ جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خانقاہ پر خواجہ عبیداللہ احرار کی خانقاہ کا گماں ہوتا تھا۔ بڑے بڑے علما کرام و فضلا عظام آپ سے اکتساب فیض کرنا سعادت دارین سمجھتے تھے۔ آپ کے خوشہ چینوں میں مولانا محمود شیرازی صاحب اور مولانا محمد امیر صاحب جھنڈیروی تھے جن سے آپ نے علوم نقلیہ و عقلیہ پڑھے تھے۔ یہ سب نہ صرف آپ سے مستعفیض ہوئے بلکہ خلافت سے بھی مشرف ہوئے۔ جب آپ ڈیپ شریف وادئ سون کی خانقاہ میں موسم گرما گزارتے تو یہ علما کرام و مشائخ عظام خانقاہ کی حدود میں کبھی جوتیاں پہن کر نہ چلتے اور جب واپسی ہوتی تو کئیییی میل لمبا راستہ اختیار کرتے، مبادہ کہ پیر خانہ کی طرف پیٹھ نہ ہوجائے۔ اسی طرح خانقاہ شریف پر جس سمت پیر خانہ ہوتا سوتے ہوئے ادھر پاؤں نہ کرتے۔ یہ سب آداب شیخ میں شامل ہے۔ ممکن ہے کہ بعض افراد اسے شخصیت پرستی قرار دیں، لیکن حقیقت میں یہ شخصیت پرستی نہیں ہے بلکہ ہمارے اسلاف اور بزرگوں کا طریقہ رہا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ اس طرف پاؤں نہ پھیلاتے جس طرف ان کے استاد حماد کا گھر تھا۔ اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی سوتے وقت دہلی کی طرف اپنے پاؤں نہ پھیلاتے، کیونکہ اس طرف ان کا پیر خانہ تھا۔ اسی طرح ہمارے کئیییی مشائخ عظام کا یہ معمول تاحیات رہا۔ بقول شخصے ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ایک بار مجلس ذکر لگی ہوئی تھی، محبت الٰہیہ کے پروانے تشنگانِ معرفت چاروں طرف موجود تھے کہ ایک فقیر نے عرض کیا کہ حضور ہر شیخ کا یہ دستور رہا ہے کہ ایک خاص وقت گوشہ نشینی کے لیے مقرر کرتے ہیں، جبکہ آپ کا یہ معمول نہیں۔ آپ نے یہ سن کر جوش میں فرمایا کہ تم لوگ معرفت اور عرفان کو خلوت اور گوشہ نشینی پر منحصر سمجھتے ہو، مگر یہ بات عنایت خداوندی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر آپ نے ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ محبوب خود بخود آکر اپنا دیدار کراتا ہے اور محبوب کی جلوہ گری نہ کسی کے زور سے میسر آتی ہے اور نہ زاری و زر سے۔ ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو صاحب درد نہیں وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔ یہ سن کر ایک خلیفہ حضرت مولانا عبد الاحد نے عرض کیا کہ حضور یہ تو کوئیییی بات نہیں ہے۔ آپ نے جوش میں ارشاد فرمایا کہ مولانا جیسے حصول دنیا کے لیے وسائل تلاش کرتے ہو اسی طرح حصول درد کے لیے بھی وسائل اور ذرائع تلاش کرو۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئیییی خلوص نیت سے مثنوی مولانا رومی اور دیوان حافظ کا مطالعہ کرے اور شیخ کامل کے ساتھ رابطہ بھی رکھے تو انشاء اللہ فیوض و برکات سے ہرگز محروم نہیں رہے گا۔ ایک مرتبہ جب آپ ایبٹ آباد میں رونق افروز تھے تو آپ کے عقیدت مند مولوی محمد جی کے ہمراہ ایک غیر مقلد شخص بھی آپ کی محفل میں حاضر ہوا۔ مولانا محمد جی نے موقع پاکر عرض کیا یہ میرا ساتھی غیر مقلد ہے، حضور براہ کرم ایسی توجہ فرمائیں کہ یہ مسلک اہل سنت و جماعت حنفی اختیار کرلے۔ آپ نے فقیر کی گزارش پر اس کے ساتھی کو اپنے سامنے بٹھایا اور توجہ دیتے ہوئے حقّ حقّ حقّ کے ورد کا امر فرمایا۔ دوسرے روز جب فقیر محمد جی نے رخصت لے کر واپسی کا قصد فرمایا تو دوران میں سفر محمد جی کے ساتھی نے انھیں بتایا کہ مولوی صاحب حضرت شیخ کی قوی توجہ سے میرے لطائف گرمی کی شدت سے پارہ پارہ ہو رہے ہیں، بے شک یہ بزرگ ولی کامل ہیں اور میں آئندہ سے غیر مقلدی سے تائب ہوتا ہوں، خداوند کریم مجھے پکا سنی اور حنفی بنائے۔ ایک مرتبہ ضلع ژوب کے رہنے والے ایک فقیر مولوی صالح محمد مندوخیل آپ کی خدمت میں موسیٰ زئی شریف حاضر ہوئے۔ کئیییی دن رہنے کے بعد رخصت کی اجازت لی، ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے ادب سے عرض کیا کہ حضور عاجز کے پاس نہ زاد سفر ہے اور نہ گھوڑے کی خوراک جبکہ منزل بہت دور ہے، میں گھر کیسے پہنچوں گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا مولوی صاحب تم کل اپنے گھر پہنچو گے۔ آپ کا یہ فرمان سنکر میں بہت حیران ہوا کہ میرا گھر تو موسیٰ زئی شریف سے تین دن کی مسافت پر ہے، میں یہ راستہ کل تک کیسے طے کروں گا۔ اسی تردد میں اپنی کمزور گھوڑی پر منزلیں طے کرنے لگا اور قدرت خدا کی کہ مجھے فاصلے کا احساس ہی نہ ہوا اور میں دوسرے روز اپنے گھر پہنچ گیا۔ یہ اللہ والوں کا کمال تصرف ہے۔ ایک طالب علم جو فقراء کے خاندان سے تھا، ہندوستان گیا تو وہاں پنجاب میں اس نے قادیانی مذہب اختیار کر لیا۔ اس کے عزیزوں، رشتہ داروں نے اسے بہت سمجھایا حتیٰ کہ علما کے ساتھ بحث و مباحثہ بھی ہوا مگر وہ واپس نہ پلٹا۔ آخر فقیروں نے آپ سے عرض کیا کہ حضور ہمارا لڑکا قادیانی ہو گیا ہے، بہت سمجھایا مگر کسی کی بات نہیں مانتا، اب حضور کی قوی توجہ کی بدولت ہی واپس اسلام میں پلٹ سکتا ہے۔ چنانچہ فقراء کی استدعا پر آپ نے اس طالب علم کے لیے دعا فرمائی۔ چند روز گذرے کہ حضور کی دعا کی برکت سے وہ طالب علم گھر آیا اور اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کرکے ان کے سامنے مذہب قادیانیت سے توبہ تائب ہوکر اسلام میں داخل ہو گیا۔
مولانا عبد الحکیم فرماتے ہیں ایک روز میں حضرت قبلہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب کوئیییی حالت بھی اس حالت کی برابری نہیں کرسکتی جس میں بندہ خدا تعالیٰ کا ہوکر رہے، خواہ ایک لمحے کے لیے ہی۔ مجلس ذکر قائم ہے اور علم معرفت کے پیاسے سیراب ہو رہے ہیں کہ دوران مجلس آپ نے ارشاد فرمایا کہ پیر کے حقوق سب حقداروں سے زیادہ ہیں چاہے والدین ہوں یا استاد ظاہری، اپنے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، پیر کے حقوق کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ ولادت ظاہری اگرچہ والدین کی طرف منسوب ہے مگر ولادت حقیقی روحانی پیر ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ پیر ہی تو ہے جس کی توجہات سے مرید کی پوشیدہ نجاستیں دور ہوجاتی ہیں اور ماسوی اللہ کی آلائشوں سے پاک ہوکر خدائے عزوجل تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ ایک فقیر آپ کی قدم بوسی و صحبت کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ راستے میں مایوسی و اضطراب کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ خیال ہوا کہ جب بندہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگا تو عرض کرے گا کہ حضور بندہ مدت دراز سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا ہے، محبت و سلوک نقشبندیہ فقیر کو حاصل نہیں ہوا، شاید حضور کی شفقت بندے پر نہیں ہے۔ انھیں خیالوں میں گم وہ موسیٰ زئی شریف پہنچا اور آپ کی دست بوسی کی۔ چار پانچ روز کے بعد واپسی کی اجازت لینے کے لیے آپ سے عرض کیا تو آپ نے شفقت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب نجات کے لیے صرف اولیاء اللہ کی محبت رکھنی بھی کافی ہے، سلوک اور سلوک کی کارروائی ترقی درجات کا موجب بنتی ہے اور یہ حدیث شریف پڑھی کہ ”و ہم قوم لا یشقیٰ جلیسہم“ یعنی اولیاء اللہ کا ہم نشین بدبخت نہیں ہو سکتا۔ اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ خبردار اولیاء کرام کے محبین ناامید نہیں ہوا کرتے۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ میرے دل سے تمام خطرات رخصت ہوئے اور میرا دل مسرت و شادمانی سے بھر گیا۔ ایک فقیر نے ایک واقعہ میں دیکھا کہ بندہ امام ربانی مجدد الف ثانی کی زیارت کو گیا اور وہاں مراقب ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ خواجہ محمد سعید بندے کو ایک کاغذ عطا فرماتے ہیں جس میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ محمد سراج الدین اس زمانے کے قیوم ہیں۔ 1324ھ کو آپ قافلے کی شکل میں حج بیت اللہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ 36 افراد تھے۔ اس سفر مبارک میں آپ پر بے انتہا فیوض و برکات کا نزول ہوا اور مقربین آپ کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہوئے۔ مدینہ منورہ میں آپ کی سخا کا عجب عالم تھا۔ مدینہ کے فقراء و مساکین آپ کو دعائیں دے رہے تھے۔ حج سے واپسی کا سفر بھی عجیب تھا کیونکہ جس بحری جہاز سے آپ واپس آئے اس میں مساکین اور غرباء کی تعداد زیادہ تھی جو جہاز کی خوراک حاصل کرنے کے متحمل نہ تھے۔ کپتان نے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاز کے سرکاری گودام سے ہمیں سرکاری قیمت پر غذا دی جائے۔ اس کے بعد آپ نے جہاز ہی میں لنگر عام کا اعلان فرمایا اور دو وقت کی غذا ہر فرد کو لنگر سے حاصل ہوتی رہی اور یہ سلسلہ بمبئی تک جاری رہا۔ آپ کے فیوض و برکات سے ایک عالم فیضیاب ہوا۔ ہندوستان، کشمیر، بخارا و سمرقند، عرب و خراسان وغیرہ ممالک میں آپ کے فیض کے ڈنکے بجے۔ آپ نے تقریبًا 34 افراد کو خلافت عطا فرمائی جن سے اس سلسلے کی مزید اشاعت ہوئی، مگر خلفاء کرام میں جو شہرت دام شیخ العرب و العجم پیر فضل علی قریشی کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آئی۔ہوئے تقریبًا 17 برس ہی ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ 17 برس کی عمر مبارک میں آپ نے سلسلہ عالیہ کی اشاعت کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا تھا۔ ابھی آپ کی عمر مبارک 35 برس ہی تھی کہ مسلسل مجاہدات اور انتھک محنت پے درپے تبلیغی اسفار جسمانی قوت مدافعت پر اثر انداز ہوئے اور آنتوں کی سوزش آپ کو لاحق ہوئی۔ کافی علاج معالجہ کرایا۔ حکیم اجمل خان نے بھی اپنی حکمت کے جوہر دکھائے۔ وقتی افاقہ ہوا، مگر شاید قدرت خداوندی کچھ اور ہی فیصلہ کرچکی تھی اور عشق و محبت کے متوالے اب بغیر حجاب شربت پینے کے لیے بے قرار تھے۔ اس لیے ایک روز آپ نے اپنے بڑے بیٹے مولانا حافظ محمد ابراہیم کو فرمایا کہ کافی دوست و احباب، فقراء و مساکین خانقاہ پر موجود ہیں۔ جو رخصت ہونا چاہیں ہماری دستار پہن کر انھیں رخصت کردو۔ جمعہ کی رات کو آپ پر بخار اور ذات الریہ کا شدید حملہ ہوا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے اور بروز جمعہ بوقت اشراق 25 ربیع الاول سنہ 1333ھ 36 برس کی عمر مبارک کو آپ واصل بحق ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کے وصال پرملال کی خبر اہل محبت کے دلوں پر بجلی بن کر گری۔ جس تک خبر پہنچی وہ فورًا خانقاہ موسیٰ زئی شریف پہنچا۔ یوں خلفاء کرام، علما عظام اور عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر جمع ہو گیا۔ ہر آنکھ تر اور ہر دل ملول۔ ان تمام اہل محبت و اہل درد حضرات کے جلو میں آپ کا جنازہ تیار ہوا اور خانقاہ موسیٰ زئی شریف ہی آپ کی آخری آرامگاہ قرار پائی۔ آج بھی اہل عقیدت آپ کے مزار پرانوار سے فیوض و برکات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ و تحمل الکل وتکسب المعدوم و تقرئ الضیف و تعین علیٰ نوائب الحق۔ ”خدا کی قسم! خدا تعالیٰ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ (صلّی اللہ علیہ وسلم) رشتیداروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، بے روزگاروں کو کمانے کے قابل کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر کرتے ہیں اور لوگوں کی جائز مصیبتوں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔“
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Mussa Zai Sharif"
|
|