نانجنگ قتل عام

جاپانی فوج کی طرف سے اجتماعی قتل اور زیادتی

نانجنگ قتل عام (انگریزی: Nanjing Massacre) یا نانجنگ کی عصمت دری (انگریزی: Rape of Nanjing) (چینی: 南京大屠殺)((جاپانی: 南京事件[7]、南京大虐殺、南京虐殺事件)‏) دوسری چین-جاپانی جنگ کے دوران جاپان کی افواج کا اس وقت کے جمہوریہ چین کے دار الحکومت نانجنگ (نانکنگ) میں قتل عام اور وسیع پیمانے پر خواتین کی عصمت دری تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں انگریزی نقل حرفی کے لحاظ سے نانکنگ کہا جاتا تھا اسی لیے اس واقعے کو نانکنگ قتل عام اور نانکنگ کی عصمت دری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

نانجنگ قتل عام
Nanjing Massacre
(نانجنگ کی عصمت دری)
(Rape of Nanjing)
سلسلہ دوسری چین-جاپانی جنگ

دریائے چینہوائی کے کنارے قتل عام کے متاثرین کی لاشیں قریب کھڑے ایک جاپانی فوجی کے ساتھ
تاریخدسمبر 13, 1937 – جنوری 1938
مقامنانجنگ، چین
نتیجہ
  • 50,000–300,000 ہلاک (بنیادی ذرائع)[1][2]
  • 40,000–300,000 ہلاک (علمی اتفاق رائے)[3]
  • 300,000 ہلاک (چینی حکومت، چین میں علمی اتفاق رائے)[4][5][6]
نانجنگ قتل عام
چینی نام
روایتی چینی 南京大屠殺
سادہ چینی 南京大屠杀
جاپانی نام
کانجی 1. 南京大虐殺
2. 南京事件

یہ قتل عام 13 دسمبر، 1937ء کو جس دن جاپانی افواج نے نانجنگ پر قبضہ کیا سے شروع ہو کر چھ ہفتے جاری رہا۔ اس مدت کے دوران شاہی جاپانی فوج کے سپاہیویں نے چینی شہریوں اور غیر مسلح فوجیوں کو قتل کیا جن کی تعداد کا اندازہ 40،000 سے 300،000 تک لگایا جاتا ہے۔ [8][9] اس کے علاوہ جاپانی افواج نے وسیع پیمانے پر خواتین کی عصمت دری اور لوٹ مار کا بھی ارتکاب کیا۔ [10][11]

چونکہ جاپانی فوج کا زیادہ تر ریکارڈ مخفی رکھا جاتا تھا اور 1945ء میں جاپان کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد اسے تباہ کر دیا گیا تھا اس لیے مورخین درست طریقے سے قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ٹوکیو میں قائم ہونے والے بین الاقوامی فوجی ٹربیونل برائے مشرق بعید کا اندازہ ہے کہ اس واقعہ میں 200،000 سے زائد چینی ہلاک ہوئے۔ [12] 1947ء میں بننے والے نانجنگ جنگی جرائم ٹربیونل کے مطابق چین کا سرکاری اندازہ ہے کہ اس میں 300،000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد کا اندازہ 1980ء کی دہائی میں کئی محققین کے درمیان زیر بحث رہا ہے۔ [3][13]

یہ واقعہ چین-جاپان تعلقات میں متنازع سیاسی مسئلہ اور ایک رکاوٹ بنا رہا۔ جاپانیوں کی طرف سے قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد میں مبالغہ آرائی کا الزام لگایا جاتا رہا، [14] جبکہ کچھ تاریخی نفی پسندوں اور جاپانی قوم پرستوں نے قتل عام کا دعوے کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے من گھڑت قصہ بھی قرار دیا۔ [9][15][16][17] [18] تنازع قتل عام جاپان کا ایشیا بحر الکاہل کی دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات، خاص طور پر جنوبی کوریا کے ساتھ ایک مرکزی مسئلہ بنا رہا۔ [18]

حکومت جاپان سکوت نانجنگ کے بعد شاہی جاپانی فوج کی بڑی تعداد میں غیر عسکریت پسندوں کے قتل، لوٹ مار اور دیگر جرائم کا اعتراف کر چکی ہے، [19][20] اور جاپانی فوجیوں جو وہاں موجود تھے اس کی تصدیق کی ہے، [21] تاہم اب بھی جاپانی حکومت اور معاشرے کے اندر ایک چھوٹی اقلیت مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں اعتراض کرتی ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

خواتین برائے تسکین

حوالہ جات

ترمیم
  1. "The Nanking Atrocities: Fact and Fable"۔ Wellesley.edu۔ فروری 28, 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2011 
  2. "Nanking Atrocities – In the 1990s"۔ nankingatrocities.net۔ اکتوبر 26, 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. ^ ا ب Bob Tadashi Wakabayashi، مدیر (2008)۔ The Nanking Atrocity, 1937–38: Complicating the Picture۔ Berghahn Books۔ صفحہ: 362۔ ISBN 1-84545-180-5 
  4. "论南京大屠杀遇难人数 认定的历史演变" (PDF)۔ Jds.cass.cn۔ 22 مارچ 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2016 
  5. "近十年" 侵华日军南京大屠杀"研究述评" (PDF)۔ Jds.cass.cn۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مارچ 16, 2016 
  6. "Modern China" (PDF)۔ مارچ 6, 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی، 2014 
  7. [1],日本政府机构对南京大屠杀的正式称呼,被日本学界、新闻界等社会各方面广泛采用。
  8. Levene, Mark and Roberts, Penny. The Massacre in History. 1999, page 223–224
  9. ^ ا ب Totten, Samuel. Dictionary of Genocide. 2008, 298–299.
  10. Iris Chang, The Rape of Nanking, p. 6.
  11. Lee, Min (March 31, 2010)۔ "New film has Japan vets confessing to Nanjing rape"۔ Salon/Associated Press 
  12. "Judgement: International Military Tribunal for the Far East"۔ Chapter VIII: Conventional War Crimes (Atrocities)۔ November 1948 
  13. David B. MacDonald (December 2005)۔ "Forgetting and Denying: Iris Chang, the Holocaust and the Challenge of Nanking"۔ International Politics۔ Palgrave Macmillan۔ 42 (4): 403–27۔ doi:10.1057/palgrave.ip.8800111۔ 02 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 23, 2014 
  14. David Askew, Associate Professor, Ristumeikan Asia Pacific University, Japan۔ "The Nanjing Incident: Recent Research and Trends"۔ www.japanesestudies.org.uk 
  15. Fogel, Joshua A. The Nanjing Massacre in History and Historiography. 2000, pp 46–48.
  16. Dillon, Dana R. The China Challenge. 2007, pp. 9–10
  17. Tokushi Kasahara, "数字いじりの不毛な論争は虐殺の実態解明を遠ざける", in 南京大虐殺否定論13のウソ, ed. Research Committee on the Nanking Incident (Tokyo: Kashiwa Shobo, 1999), pp. 74–96.
  18. ^ ا ب Gallicchio, Marc S. The Unpredictability of the Past. 2007, p. 158.
  19. "Q8: What is the view of the Government of Japan on the incident known as the "Nanjing Massacre"?"۔ Foreign Policy Q&A (page content changed to "Under construction following the Statement by Prime Minister Shinzo Abe on August 14, 2015"۔ Ministry of Foreign Affairs of Japan 
  20. "I'm Sorry?". NewsHour with Jim Lehrer. December 1, 1998. Archived from the original on February 22, 2008. https://web.archive.org/web/20080222005155/http://www.pbs.org/newshour/bb/asia/july-dec98/china_12-1.html. 
  21. Kingston, Jeff, "Japan's reactionaries waging culture war", Japan Times, March 1, 2014

کتابیات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم