نرمل چندر سنہا (1911ء1997ء) بھارت سے تعلق رکھنے والے ماہر تبتیات تھے۔ وہ ایک مصنف، بانی ڈائیریکٹر[1] سکم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیبیٹالوجی، جسے موجودہ طور پر نامگیال انسٹی ٹیوٹ آف ٹیبیٹالوجی کہا جاتا ہے، [2] جو دیورالا میں واقع اور یہ گینگٹاک کے قریب واقع ہے۔[3] ان کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ وہ بدھ مت اور تبت اور وسط ایشیا کی تاریخ نگاری کے معاون تھے۔[4][5] انھیں حکومت ہند نے 1971ء میں پدم شری سے نوازا تھا جو بھارت میں چوتھا سب سے اعلٰی شہری اعزاز ہے۔[6]

نرمل چندر سنہا
معلومات شخصیت
پیدائش 1911ء
رانچی، جھارکھنڈ، بھارت
وفات 3 August 1997
سلی گوڑی، مغربی بنگال، بھارت
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کلکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ تبتیات، ماہر محقق
ملازمت جامعہ کلکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت تبتیات
اعزازات
پدم شری
پریما ڈورجی ایوارڈ

سوانح جیات

ترمیم

نرمل چندر سنہا کی پیدائش 1911ء میں رانچی میں ہوئی تھی جو موجودہ طور پر بھارت کی ریاست جھارکھنڈ میں واقع ہے۔ یہ کسی زمانے میں بہار کا حصہ تھا۔[3][5] پریزیڈنسی کالج، کلکتہ سے ماسٹرز کی سند حاصل کرنے کے بعد وہ ہوگلی محسن کالج، چنسورہ، مغربی بنگال میں تدریسی عملے کے رکن کے طور پر شامل ہوئے۔[7] وہ بعد میں بہرامپور کالج میں تاریخ کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد 1955ء میں وہ سرکاری ملازمت اختیار کیے اور ریزیڈینسی کے سیاسی دفتر پر کلچرل اٹاچی کے عہدے پر فائز ہوئے۔[3][5] کلچرل اٹاچی کے طور پر انھوں نے تبت کا 1956ء میں دورہ کیا۔ وہ اس وفد کا حصہ تھے جس نے دلائی لاما کو بلانے کے لیے تبت کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ انڈین آرکائیو کے لیے کام کرنے لگے جہاں انھیں اس بات کا موقع ملا کہ نامور ماہر تعلیم اور سابق مرکزی وزیر تعلیم تری گنا سین کے تحت کام کیا۔[3][5] 1958ء میں جب سکم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیبیٹالوجی، موجودہ طور پر نامگیال انسٹی ٹیوٹ آف ٹیبیٹالوجی (این آئی ٹی) قائم ہوا، سنہا اس کے بانی ڈائیریکٹر بنے۔[3][5] وہ وہاں پر 1987ء تک برسر خدمت رہے جب وہ وظیفہ حسن خدمت پر سبک دوش ہوئے۔ وظیفے کے بعد وہ سلی گوڑی چلے گئے جہاں پر وہ یونیورسٹی آف کلکتہ میں بین الاقوامی تعلقات کی صدسالہ یاد کے پروفیسر بنے تھے۔[3][5]

مضامین

ترمیم

یہ ان مضامین کی فہرست جنہیں سنہا نے لکھ کر بولیٹین آف ٹیبیٹالوجی میں شائع کیا تھا:[4]

  1. Historical status of Tibet
  2. Hacha for لہاسا
  3. Tibet's status during the World War
  4. On tantra
  5. The missing context of Chos
  6. Was the Simla Convention not signed?
  7. The Himalayas
  8. The Lama
  9. The grey wolf
  10. The refuge: India, Tibet and Mongolia
  11. The sKyabs mgon
  12. Chos srid gnyis-ldan
  13. Sino-Indian inroads into North India
  14. Obituary: Libing Athing
  15. The Ancient path of the Buddhas
  16. Brahmana and Kshatriya
  17. Gilgit (and Swat)
  18. The Simla Convention 1914: a Chinese puzzle
  19. Obituary Yapshi Pheunkhang
  20. Sanskrit across the Himalayas
  21. India and Tibet
  22. In memoriam
  23. Budddhasasana in Tibet
  24. Stupid barbarian / animal symbols in Buddhist art
  25. Tibetan Studies in modern India
  26. Peace and war in man's mind
  27. Aspects of Buddhism
  28. Publications through twenty years
  29. The universal man
  30. Articles of Tibet trade 1784
  31. Publications through twenty-five years
  32. Losar
  33. About Dipankara Atisa
  34. Geographical notices of India
  35. On Tibetology
  36. Ten priceless images
  37. Relics of Asokan monks
  38. Tradition and traditional sources
  39. Dharma Tantra and Atisa
  40. On names and titles
  41. What constitute the importance of Atisa
  42. Uttarukuru in Tibetan tradition
  43. Inventory of Tibetan historical literature
  44. Tantra in Mahayana texts
  45. Stupa symbol
  46. Inner Asia and India through the ages
  47. A preface to Mahayana icononography
  48. Tibetology contra Nepalese
  49. Sahasra Buddha
  50. Kalachakra Tantra
  51. Buddharupa: observation on the evolution of Buddha image
  52. Making of Dharmaraja
  53. Dharamaraja Asoka
  54. Asoka's dhamma: a testimony of monuments
  55. Asoka's Dharma

مزید مطالعات

ترمیم
  • Nirmal Chandra Sinha (2008)۔ A Tibetologist in Sikkim۔ Namgyal Institute of Tibetology۔ صفحہ: 366۔ ASIN B00CHGP3U2 
  • Nirmal Chandra Sinha, P. N. Khera (1962)۔ Indian war economy: Supply, Industry & Finance۔ Orient Longmans۔ صفحہ: 551۔ ASIN B00E1LMXWM 

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Letter from Shiv Shankar Menon"۔ Ministry of External Affairs۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 26, 2015 
  2. "Sikkim Research Institute of Tibetology"۔ Make my trip۔ 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 26, 2015 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث "Obituary" (PDF)۔ The Tibetan and Himalayan Library۔ 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 26, 2015 
  4. ^ ا ب "Bulletin of Tibetology"۔ Namgyal Institute of Tibetology۔ 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 26, 2015 
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث "Socanth obituary" (PDF)۔ Socanth۔ 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 26, 2015 
  6. "Padma Shri" (PDF)۔ Padma Shri۔ 2015۔ 15 نومبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ نومبر 11, 2014 
  7. "Hooghly Mohsin College"۔ Hooghly Mohsin College۔ 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مئی 26, 2015