نصر پور
نصر پور ، قدیم تہذیب وتمدن کا حامل شہر ہے ، ’’مٹالوئی‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ ضلع مٹیاری میں شامل ہے، حیدرآباد سے مشرقی سمت میں محض45 کلومیٹر اور تالپور دور حکومت میں بسائے گئے شہر ٹنڈو الہ یار سے11 کلومیٹر، جب کہ اس شہر کے نواحی علاقوں میں مٹیاری( متعلوی) پلی جانی، اڈیرو لال ، گوٹھ اللہ ڈنو ساند، تاج پور، ٹنڈو سموں واقع ہے۔یہ شہر صنعت و حرفت ، کاشی گری اور کپڑا سازی کی صنعت کی وجہ معروف ہے ۔ ماضی میں اسے ’’سندھ کے مانچسٹر‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ پیاز کی نصرپوری قسم بہت مشہور ہے۔ نصرپور اور مٹیاری کے دیگر علاقوں میں ہونے والی پیاز کی فصل برآمد بھی ہوتی ہے
نصر پور | |
---|---|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان |
تقسیم اعلیٰ | سندھ |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 25°19′N 68°22′E / 25.31°N 68.37°E |
بلندی | 42 میٹر |
مزید معلومات | |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
درستی - ترمیم |
نصرپور بلدیاتی ، حلقہ بندی کے تحت 8 وارڈوں پر مشتمل ہے۔ ان وارڈز کے محلوں میں نہ صرف مختلف برادریاں آباد ہیں بلکہ ہنرمندوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی متعدد محلے خاصے معروف ہیں۔ یہاں متعدد محلے، مارکٹیں، درگاہیں واقع ہیں ۔ ان میں سید محمود شاہ جیلانیؒ، ہاشم شاہ المعروف گل پیر اور معروف شاعر مصری شاہ کی درگاہ ہے، جس کے نزدیک 150 سالہ قدیم کنواں واقع ہے جہاں سے ریاست جے پور کے راجا کے لیے بذریعہ ٹرین میٹھا اور شفاف پانی جب کہ حیدرآباد سے سبزیاں، پھل اور اناج لے جایا جاتا تھا۔ اس ٹرین کو آج بھی ’’راجا کی ٹرین‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تاریخ کے اوارق بتاتے ہیں ’17 ویں صدی عیسوی میں سیدوں کے کئی خاندان جو شہاب الدین شاہ جیلانی کی اولاد میں سے ہیں، وہ بغداد سے ٹھٹھہ اور بعد ازاں نصر پور میں آکر آباد ہوئے اور ’’ حسینی سید‘‘ کہلائے۔ 13ویں صدی عیسوی میں اس شہر میں اہل تشیع بھی آکر آباد ہوئے۔ شاہ عنایت اللہ رضوی، نصر پور کے معروف سندھی شاعر تھے، جن کی زندگی کا بڑا حصہ اسی شہر میں گذرا۔ ان کا مقبرہ نصرپور کے صوفی شاعر، مصری شاہ کے مزار کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ1361-62 کے دوران سندھ کو مکمل طور پر فتح کرنے والے سلطان فیروز شاہ تغلق نے سندھ کی باگ ڈور اپنے ایک نائب نصیر خان کو سونپی۔
نصیر خان نے یہاں جام خیر الدین سمہ کو اپنا حاکم مقرر کیا۔وہ ’’ نصر‘‘ تھا اور 2 ہزار سوار اس کی کمان میں تھے ، اس لیے اسے ’’ فوجدار سندھ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈی اینول کے مطابق نصر پور شہر نصیر خان نے دریائے سندھ کے کنارے آباد کیا تھا۔ اس شہر کو ترخان نے اپنی رہائش گاہ کے لیے نا صرف پسند کیا بلکہ اپنے کنبہ کو یہاں بسایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں لہلاتے باغ اور سر سبز گلستان تھے۔ لیکن جب دریائے سندھ نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو سارے باغ اجڑ گئے، حتیٰ کہ یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے وسیع و عریض شہر سے چھوٹی سی بستی میں تبدیل ہو گیا۔
کپڑے کی صنعت و تجارت کے حوالے سے یہ دنیاکا اہم ترین مرکز تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’ حضرت عیسیٰ‘‘ کو صلیب پر چڑھانے کے بعد انھیں جس کپڑے میں لپیٹا گیا وہ سندن کپڑا تھا جو نصر پور میں تیار ہوتا تھا،ل یکن اس روایت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔نصرپور ماضی میں مختلف جدید شہروں کا ہم عصر رہا ۔ یہ شہر ٹھٹھہ کے مقابل بھی اپنی منفرد شناخت قائم رکھنے میں کام یاب تھا ۔ فتح محمد سہوانی نے بھی نصرپور کو امر کوٹ کا ہم عصر شہر قرار دیا تھا۔ محمد یوسف شاکر ابڑو کے مطابق عرب دور کے جدید شہر منصورہ سے ہندووں کی کثیر تعداد نقل مکانی کرکے نصرپور میں آباد ہوئی ۔ یہ شہر دہلی اور سندھ کے درمیان ایک تجارتی مرکز بھی تھا۔
شمس العلماء مرزا قلیج بیگ کے مطابق نصرپور از سر نو 720 سے 1320 کے درمیان سمہ حکمرانوں نے آباد کیا۔ وہ اپنی تصنیف’’ قدیم سندھ ان جا مشہور شہر ’’ ماٹھو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1520 کے بعد’’ جب سندھ پر سومروں کا راج تھا اور دودوکی حکومت تھی، اس وقت محمد طور خان نکلا اور نصرپور تک اپنی حکومت کو وسعت دی۔ 1638ء کے دوران نادر شاہ سندھ آیا تو میاں نور محمد کلہوڑو اس کے استقبال کے لیے لاڑکانہ گیا ۔ میاں نور محمد کی وفات کے میاں محمد مراد یاب مسند نشین ہوا۔ 1759ء کے دوران میاں غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ گڑھ سے نصرپور تک کا علاقہ حاصل کر لیا 1786ء کے دوران میاں عبدالنبی نے قلات کے خان کی مددیہ علاقہ فتح کر لیا۔ بعد ازاں یہ تالپوروں اور انگریزوں کی حکومت کا اہم ترین مرکز رہا‘‘۔
نصرپور صنعت و حرفت کا مرکز رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی یہاں انتہائی نفیس سوتی کپڑا تیار ہوتا تھا جب کہ کاشی گری کے کام میں بھی یہ ایران کے بعد دوسرا بڑا شہر بن گیا۔ بعض محققین کے مطابق ،یہاں کی ململ کا ذکر توریت میں ’’سندن‘‘ یا ’’سندس‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں بابل کا بادشاہ جو سوتی لباس زیب تن کیا کرتا تھا، وہ سندن ہی سے تیار کراتا تھا۔ روم کا بادشاہ [[اگسٹوس ، قسطنطنیہ اور روم کی شہزادیاں سندن سے تیار کردہ لباس شوق سے پہنا کرتی تھیں۔
9ویں صدی عیسویں کا عرب سیاح سلیمان تاجر اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ ’’یہاں کا سوتی کپڑا، اتنا نفیس اورملائم ہوتا ہے کہ ایک مٹھی میں آجائے‘‘۔ بدھ مت دور میں سندھ خصوصاً ہالا اور اس کے اطراف میں تیار کردہ ململ، راجا کی اجازت کے بغیر باہر لے جانا ممنوع تھا۔ 18ویں صدی عیسوی میں سندھ کا خطہ تاج برطانیہ کے زیرنگین ہواتو انگریز سندھ بھر سے کپڑے کی خریداری کیا کرتے تھے۔نصرپور اس حوالے سے سرفہرست تھا۔ سندھ کے عظیم صوفی بزرگ شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے’’ سر کا پاٹی‘‘ میںاسی صنعت کی ترجمانی کی ہے، بھٹ شاہ نصرپور سے چند کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔
قدیم دور میں نصرپور میں کپڑے کی صنعت کے لیے کچا ریشم چین، ایران اور ترکمانستان سے منگوایا جاتا تھا، ریشمی کپڑوں پر سونے اور چاندی کے دھاگوں سے شان دار بھرت کا کام کیا جاتا تھا، جسے ’’کم خواب‘‘ کہتے تھے، نصرپور کے 30 مربع کلومیٹرعلاقے میں ساڑھے 3 ہزار سے زائد کارخانے تھے، جن میں سوتی و ریشمی کھیس، لنگی، پنج پٹو، موڑرا، اونی کپڑا، کھادی، سوسی، شوہی، جوڑی شوہی، اجرک تیار ہوتی تھیں۔ قیام پاکستان کے وقت سوت کا کوئی بھی کارخانہ نصرپور سمیت سندھ میں نہیں تھا، صرف احمد آباد اور کلکتہ میں یہ کارخانے موجود تھے اور وہیں سے تیار کردہ سوت نصرپور منگوایا جاتا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے نصرپور میں کپڑے کی بڑی مارکیٹ قائم کی۔ یہاں کی جفا کش خواتین گھروں میں بیٹھ کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں، جس کی وجہ سے گھریلو صنعتوں اور دست کاری کو فروغ حاصل ہوا۔کپڑے کی صنعت سے وابستہ مرد و خواتین کو معقول اجرت ملتی تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نصرپور کی کپڑا سازی کی صنعت دم توڑ گئی ہے۔ 1986ء میں نصرپور کی کھیس سازی کی صنعت کو زندہ رکھنے کے لیے محکمہ ثقافت نے ’’تحفظ کھیس وہنر‘‘ نامی پروگرام شروع کیا تھا،