نصیر الدین نصیر ہنزائی

علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی روحانیت کے میدان میں عالمی شہرت کے حامل ایک معروف دینی اسکالر، صوفی شاعر اور ماہرِ لسانیات تھے۔ اسماعیلیوں کی دانشگاہ خانہ حکمت گروپ کے سربراہ نصیر الدین نصیر ہنزائی 1335ھ/مئی 1917ء میں ریاست ہنزہ کے گاؤں حیدرآباد میں پیدا ہوئے، نصیر الدین نصیر ہنزائی کسی اسکول سے باضابطہ تعلیم حاصل کیے بغیر علم و حکمت کے بارے میں ایک سو سے بھی زیادہ ایسی نادر کتابیں اپنی زبان بروشسکی اور اردو زبان میں تحریر کیں جن کا مرکزی موضوع قرآن کے باطنی علوم اور روحانیت رہا، بعد ازاں ان کتابوں میں سے کئی کتابوں کو ہنزہ کے معروف اسکالر ڈاکٹر فقیر محمد ہنزائی اور رشیدہ ہنزائی نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جبکہ دیگر اسکالروں نے ان میں سے متعدد کا عربی، فارسی، فرانسیسی، سویڈنی، اطالوی اور ترکی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ روحانیت کے موضوع پر یہ کتابیں اوکسفرڈ سمیت مغرب کی یونورسٹیوں تک پہنچ گئیں تو محققین نے ان تخلیقات کو روحانیت اور تصوف کی دنیا میں عجیب انکشافات سے تعبیر کیا اور ان کتابوں پر ریسرچ شروع کی ہے۔ کلیات نصیری ان کی شاعری کا مجموعہ ہے جس میں روحانیت، تصوف، تطہیرِ نفس اور عشقِ حقیقی کی تجلّیات ہیں جو ہر تہذیب و ثقافت کے لوگوں کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔ یہ شاعری اردو، فارسی، ترکی اور بروشسکی چار زبانوں پر مشتمل ہے۔ علامہ نصیر الدین کی منفرد کتابوں میں وحدتِ اسلامی، وحدتِ انسانی، محبت، امن و آشتی اور اسلام کے ہر مکتبِ فکر کے لیے محبت اور خیر خواہی کی تعلیمات ملتی ہیں۔ ان کا خاص موضوع اسماعیلیت سے متعلق تھا۔ ان میں اسماعیلیوں کے لیے اسماعیلی امام شناسی کی کتاب بھی بہت منفرد ہے۔ اس کے علاوہ بھی خاصی مذہبی معلومات ان کی کتابوں سے ملتے ہیں۔[1]

نصیر الدین نصیر ہنزائی

معلومات شخصیت
پیدائش 15 مئی 1917ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 جنوری 2017ء (100 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آسٹن   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فرہنگ نویس ،  ماہرِ لسانیات ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

علاقائی زبان کے لیے خدمت

ترمیم

نصیر الدین ہنزائی نے پہلی بار 1940ء میں دنیا کی قدیم ترین زندہ زبانوں میں سے ایک ”بروشسکی” کے حروفِ تہجی ترتیب دیے۔ وہ اس زبان کے پہلے صاحبِ دیوان صوفی شاعر ہیں۔ یہ ان کا بروشسکی زبان اور بروشو قوم پر احسان ہے کہ اس قدیم خطرہ زدہ زبان کی پہلی لغت تشکیل دی، جس میں تقریباََ چالیس ہزار الفاظ محفوظ ہیں۔ کراچی یونورسٹی نے بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے تعاون سے اس لغت کو تین جلدوں میں شائع کیا ہے۔ نصیر ہنزائی نے پہلی بروشسکی جرمن لغت کے لیے حقیقی الفاط مہیّا کیے اور جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے شائع شدہ لغت کے شریک مصنف قرار پائے۔ نیز وہ ہنزہ پرورب کتاب کے بھی شریک مصنف ہیں جسے کینیڈا کے اسکالر پروفیسر ٹیفو نے شائع کیا ہے۔ رموز روحانی ان کی تصنیف ہے۔

اعزازات

ترمیم

نصیر الدین الدین نصیر ہنزائی کو بروشسکی زبان کی بہترین خدمت کی وجہ سے گلگت بلتستان کی حکومت نے 1993ء میں حکیم القلم اور سماجی اداروں نے لسان القوم اور بابائے بروشسکی کے اعزازات سے نوازا۔

علاوہ ازیں ہنزائی کی حکمتِ قرآن کے میدان میں چشم کشا تحقیقات اور علم کی لازوال خدمت کے اعتراف میں 2001ء میں صدر مملکت پرویز مشرف کے زمانے میں وفاقی حکومت نے انھیں ستارہ امتیاز کے اعزاز سے بھی نوازا۔

بیرونی ممالک کا سفر

ترمیم

نصیر الدین نصیر ہنزائی نے پہلی بار 1943ء میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ جس کا مقصد اسماعیلی امام سلطان محمد شاہ سے ملاقات تھی جو 1946ء میں ہوئی۔ انھوں نے اس ملاقات کو اپنی روحانیت کی چابی یعنی کلید بابِ روحانیت کی عطائی قرار دیا ہے۔ پھر 1949ء کے اوائل میں علامہ نصیر کو چین جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں کئی روحانی معجزے ان کے ساتھ ہوئے اور علامہ نے ایک دفعہ انٹرویو میں یوں بھی کہا تھا کہ جب وہ چین گئے تو ان کے پاس نورانی مظہر عجائب بھی آ گیا تھا۔ اور یہ روحانیت میں زمان خصر علیہ السلام کی صورت میں ممکن بھی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مغرب کے تین بڑے ملکوں کینیڈا، انگلستان اور امریکا کا سفر کیا۔ ایک دفعہ وہ روس کے جہاز میں لندن جا رہے تھے کہ جہاز معمول کے مطابق ماسکو میں اتر گیا۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ تقریباً ایک گھنٹے تک مسافروں کو بس پر سیر کرائی گئی۔

تصانیف

ترمیم
  • نور علی نور
  • روح کیا ہے؟
  • سو سال
  • رموز روحانی
  • چہل کلید نورانی تاویل
  • روحانی سائنس اور مادی سائنس کا سنگم
  • ذکر الہٰی
  • قرآنی سائنس

وفات

ترمیم

نصیر الدین نصیر ہنزائی نے 15 جنوری 2017ء کو امریکا کے شہر آسٹن میں ایک سو سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کے جسد خاکی کو ان کی خواہش اور وصیت کے مطابق آبائی علاقہ ہنزہ میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم