نواب سدھنوتی سردار شمس خان سدوزئ
سردار شمس خان سدوزئ ریاست جموں کشمیر کی سابقہ قبائلی ریاست سدھنوتی کے آخری سولہویں نواب سدھنوتی تھے [1] آپ نے سکھ خالصہ سے تین جنگیں لڑی پہلی سکھ سدھنوتی جنگ میں آپ نے سکھ خالصہ کو شکست دی دوسری سکھ سدھنوتی جنگ کے نتیجے میں آپ سے سکھ خالصہ نے معاہدہ امن کیا [2] آپ کی تیسری اور آخری سکھ سدھنوتی جنگ 1832ء تھی[3]
نواب سدھنوتی شمس خان سدوزئ | |
---|---|
سردار نواب شمس خان سدوزئ
جو تیسری سکھ سدھنوتی جنگ میں اپنے قبائل کے پچس ہزار سدوزئیوں سمیت میدان جنگ کام آئے[4] جس کے بعد سدھنوتی پر سکھ خالصہ کو فتح حاصل ہوئی |
نواب سردار شمس خان سدوزئ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | یکم جنوری 1780 پاکستان کشمیر |
وفات | 29 جولائی 1832ء آزاد کشمیر |
قومیت | سدھن پٹھان |
درستی - ترمیم |
تاریخی کتب سے ثابت ہوتا ہے کہ 1818 میں مہارجہ رنجیت سنگھ اور سدھنوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ امن ہوا تھا جس کی فضا مہاراجا کے وزیر اعظم عزیز الدین نے ہموار کی تھی۔ بمطابق معائدہ امن پونچھ میں سدھنوں کی ہی آپ راجی بحال رہے گی۔ اور ضامن کے طور پر شمس خان کو دھیان سنگھ کا خاص مشیر مقرر کر کے رضا کارانا طور پر لاہور لے جایا گیا۔ دھیان سنگھ نے راجا پونچھ دیوان دلباغ راےُ کو ہدایت کی کہ وہ پونچھ کے معاملات شمس خان کی مشاورت سے طے کرے. لیکن بعد میں شمس خان نے راجا پوبچھ کی بے جا مداخلت اور ظلم و ستم سے تنگ آکر اعلان بغاوت کر دیا.. اور ایک تاریخی جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں واقع منگ بھی پیش آیا جس سے کشمیر کا بچہ بچہ واقف ہے تاریخی ریکارڈ کی درستی اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے نہایت مختصر الفاظ میں کچھ غیر جانبدار مورخین جن میں انگریز اور دیگر غیر مسلم مصنفین کی تاریخی کتب سے چند حوالاجات درج ہیں۔ کوشش ہے شمس خان کے ہم عصر مورخین نے کتب لکھی ہیں زیادہ ان کے ہی حوالہ جات دئے جائیں جن سے انکار کسی بھی ذی شعور کے لیے ممکن نہیں
*THE PUNJAB CHIEPS (1865) by " Sr LEPEL HENRY GRIFFIN AND CHARLES FRANCIS MASSY “۔
Page # 365
There country had been made over to Gulab Singh and when he had reduced Yousufzai to smoothing like order he marched with twenty thousand men with regular and irregular to crush the revolt in the Muree and Hazara hills. At first they insurgents were successful, under the leadership of shamas khan a Sudhan. Who had been confidential follower of Raja Dhian singh.
. . . . . . . . . . .
* Archaeological survey of India(1871) by “Sr Alexander Cunningham”.
Page 12
Of the other hill tribe Called Satti, Dund and Sudhan. I know very little. The Dund and Satties occupy the hills on the west bank of the jehlam above Gakars, and the Sudhan tribe holds the district punch districton the east of the jehlam. The gallant resistance which Shamas khan, chief of the Sudhan tribe of pounch, offered for a long time to all the power of Galab Sing.
. . . . . . . . .
*” FOUR REPORTS MADE DURING THE YEARS”1862-63-64-65 (1871) by “Sr Alexander Cunningham”.
Page 13
The gallant resistance which Shamas Khan, chief of Sudhan tribe of poonch, offered for a long time to all the power of Gulab Sing, was however quite worthy of a Rajput. This memory is still Fondly cherished by all these wild people who glory in telling how nobly he opposed Gulab singh untill he was betrayed by a dastard follower
الیگزینڈر گاردنر شمس خان کا واحد ہم عصر مصنف تھا جو اسے ذاتی طور پر جانتا تھا وہ رنجیت سنگھ کے توپ خانے کا کمانڈر رہا. الیگزینڈر نے اپنی کتاب مین لکھا ہے کہ بغاوت پونچھ کے جنوب مغرب حصے میں ہوئی یعنی سدھن علاقوں مین. رنجیت سنگھ کی وافات کے بعد ایگزینڈر لاہور رہا پھر سیکھ برٹیش کلیش کی وجہ سے اسے لاہور چھوڑنے کا کہا گیا تو وہ لدھيانہ اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔ جہاں اس کے دوستوں میں ایک دوست جی سی سمتھ بھی تھا۔ ان دنوں سمتھ اپنی کتاب لکھنے اور اس کی معلومات اگٹھی کرنے میں مصروف تھا۔ سمتھ نے الیگزينڈر سے بھی بہت سی معلومات لی ہو۔ پھر الینگزنڈر جموں گلاب سنگھ کے پاس آ گیا یہ بھی قوی امکان ہے کہ سمتھ بھی ساتھ آیا اسی لیے سمتھ نے اپنی کتاب میں گلاب سنگھ کی ریاست پونچھ میں سُدھن بغاوت کے نام سے ایک پورا چپٹر اپنی کتاب میں لکھا۔ اور ساتھ گلاب سنگھ کے کارنامے بھی لکھے۔ الیگزینڈر پھر ڈوگرہ دربار سے ہی منسلک رہا اور مرتے دم تک پنشن لیتا رہا۔ اس کا اِنتقال 1877 میں 92 سال کی عمر اور سری نگر میں ہوا۔ سمتھ کی کتاب اور الیگزینڈر گاردنر کی کتاب سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پونچھ میں بغاوت کہاں ہوئئ کس نے کی اور شمس خان کون تھا ۔
. . . . . . . . . . .
*The History of Reigning Family of Lahore W. Thcker.(1847) by “George Carmchale Smyth”.
Page 206
Shamas Khan, One of the head men of the Sudhan tribe when it submitted to the dogras, was Shamas Khan. This men as a hostage for the fidelity of his clan and family, was kept about the person of Raja dhian Sing, whom he acually served as a private Gorechar trooper.
ميجر جی سی سمتھ نے اپنی کتاب میں چار سے زاہد مرتبہ شمس خان کو سدھن قبیلے کا سردار لکھا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر کےایم پانیکر کی گلاب سنگھ کے بارے میں کتاب جو 1930میں شائع ہوئی انھوں نے سمیتھ کو اپنی تحققی کتاب کے اہم ماخد میں شامل کیا۔
سمتھ نے لکھا ہے کہ ڈوگرا نے شمس خان کی گرفتاری کا حکم منگ کے تھانیدار )میاں چین سنگھ ہنسیالی( کو دیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے شمس خان منگ تھانے کے آس پاس کا ہی رہاشی تھا۔ اگر وه پونچھ شہر کے کسی اور ایریا کا رہاشی ہوتا تو ڈوگرا گرفتاری کا حکم پونچھ تھانہ میں کرتا نہ کہ وہاں کے مقامی تھانے میں۔
. . . . . . . . .
*The history of sikhs VOL-5 (1978) by “Hari Ram Gupta”
Page 136
Sudhan tribe,, Shamas khan was taken as a hostage, and he sereved raja dhian sing as a Ghorcharha trooper.
. . . . . . . . . .
*History of jammu and Kashmir state(1980) by “ Manohar Lal Kapur”.
Page 51
The authority of Dogra brother is the hill region of poonch was however, seriously threadened in 1837 by one Shamas khan. He was the chief of sudhan tribe. But had submitted to the dogras and taken service with Dhyan Singh.
. . . . . . . . . .
* History of Jammu and Kashmir Refles 1820—1956, (1990) by K. Brahma Sing.
Page 12
The leader of the insurgents was shamas Khan. One of the headmen of the Sudhan tribe. He had been kept obout the person of Raja Dhyan sing as sort of hostage to insure the fidelity of his clan and family.
. . . . . . . . .
گلاب نامہ فارسی میں شمس خان کو زمیندار لکھتے ہوۓ لاہور دربار کا نمک حرام لکھا. لاہور دربار میں شمس خان سدھن ہی تھا باقی کوئی اور شمس نامی بندے کی لاہور دربارمیں رکنے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی اور نہ ہی پونچھ بغاوت میں کسی اور قبیلے یا کسی اور نامی بندے کا ذکر کسی تاریخ میں ملتا ہے. اسلئے گلاب نامہ فارسی میں جس شمس کو نمک حرام لکھا گیا وہ سدھن شمس ہی تھا کیونکہ سدھن شمس نے ہی لاہور دربار کا نمک کھایا ہوا تھا.
گلاب نامہ فارسی کا ترجمہ 1977 مصنف دیوان کرپا رام ۔
شمس خان کے ایک ہم عصر غیر جانبدار اور عینی گواہ بھی مصنف بھی جن کا شمار شمس خان کے مخالفین میں بھی کیا جاتا ہے جناب ديوان کرپا رام جو شمس خان کو بہت قریب سے جانتا تھا وہ پونچھ کے راجہ دیوان دلباغ رائے کا بیٹا تھا. جسے والی پونچھ دھیان سنگھ نے پونچھ کے امور چلانے کے لئے سردار شمس خان سے صلاح مشورے کے لئے پابند کیا ہوا تھا.. دیوان کرپا رام نے گلاب سنگھ کی سوانح عمری پر لکھی گئی اپنی مشہور کتاب گلاب نامہ جس کا ترجمہ 1977 میں شائع ہوا کے صفحہ نمبر 158 پر لکھا ہے کہ “شمس خان پونچھ کے زمینداروں میں سے ایک تھا”۔ آگے حاشیہ میں لکھا ہے کہ شمس خان سُدھن تھا۔ جس کی عبارت درج ذیل ہے۔
Shamas khan one of the headmen of the Sudhan tribe when submitted to the dogras was shamas khan. This man as a hostage for the fidelity of his clan and family was kept about the person of raja Dehan singh ,
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گلاب نامہ" مطبوعہ 1907 صفحہ 23 پر سالگرام کول نے شمس خان کو سدھن لکھا ہے۔
. . . . . . . . . . . .
BIRTH OF TRAGEDY. BY ALASTAIR LAMB.
Page # 55
POONCH REVLOT (پونچھ بغاوت)
کی جنگ 1832 کی تفصیل میں شمس خان کو سدھن لکھا گیا ہے.
. . . . . . . . .
سید محمود آزاد اپنی کتاب "تاریخ کشمیر" کے صفحہ 573 پر لکھتے ہیں۔ "سدهرون کے راجہ شیر باز خان نے سدھن سردار شمس خان اور راجولی خان کے سر کاٹ کر گلاب سنگھ کو پیش کیے تھے۔ لیکن جب گلاب سنگھ کا اقتدار قائم ہوا تو اس نے راجہ شیر باز کو قید کر کے جموں بھیج دیا۔ اس نے جموں میں ہی وفات پائی"۔
. . . . . . . . . . .
*PUNJAB UNIVERSITY DEPARTMEN OF PUNJAB HISTORICAL STUDIES 1985.
کی رپورٹ
Proceeding Punjab History Conferince issues 22-24
شائع ہوئی اس میں لکھا ہے
Shams Khan the HERO of the second ballad was one the head man of the Sudhan tribe.
. . . . .
*THE QUARTELY REVIEW HISTORICAL STUDIES, VOL-29 by Institute of Historical studies CALCUTTA India.
Page 146
Shamas Khan the hero of the second bellad was one of the head man of the Sudhan tribe. He served as a private trooper(Gorechar) to Raja Dhyan Sing brother of Gulab Sing.
.
*Hastings Donnan, Marriage Among Muslims: Preference and choice in northern Pakistan.
Page 41
Under tbe leadership of Shamas khan, a Sudhan who had been a confidential follower of Raja Dehan Sing, the whole country lead them, and all the hill forts of the Jammu Raja had fallen into there hands.
.
"PROCEEDING PUNJAB HISTORY CONFERINCE ISSUES 22-24" published by 'DEPARTMENT OF PUNJAB HISTORICAL STUDIES 1985'
Shamas khan the hero of the second ballad was one of the headman of the Sudhan tribe.
. . . . . . . . .
* PUNJABI MUSLIMS by Lef.. J. Vekley.
لکھتے ہیں کہ 1838 میں جس مجاہد کمانڈر کا مہاراجہ نے سر کاٹ کر بھمبر کے مقام ادھ ٹیک کے چوراہے پر لٹکا رکھا تھا وہ سدھن گوریلہ لیڈر سردار شمس خان تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پنجاب یونیورسٹی کے نصاب HISTORICAL STUDIES 1985 میں لکھا ہے.
SHAMAS KHAN THE HERO OF SECOND BALLAD WAS ONE OF THE HEADMAN OF THE SUDHAN TRIBE.
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"HISTORY OF THE AZAD KASHMIR REGIMENT" VOL-1 by AK Regimental History cell. 1947-1949
Page no 13
مکمل ریسرچ کے بعد اس پیج پر لکھا ہے کہ "پونچھ کے جس شمس خان کو یرغمالی کے طور پر لاہور دربار میں لے جایا گیا تھا وه سدھن قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس کے اعلی صلاحیتوں کے پیش نظر دھیان سنگھ نے اسے اپنا مشیر خاص مقرر کر لیا تھا۔ دھیان سنگھ ریاستی امور شمس خان کی مشاورت سے طے کیا کرتا تھا۔
. . . . . . . . . . .
ایک اور قدیم تاریخ حیات افغانی کے صفح 130 پر 1832 کے کی تفصیل میں اس تحریک کا قائد شمس خان کو سدھن قبیلے کا سردار لکھا ہے..
- - - - - - - - - - - - - - -
یگانہ کشمیر کے مصنفین برگیڈیر صادق ستی اور ڈاکٹر غلام حسین اظہر نے صفح نمبر 19 پر شمس خان کو سدھن سردار لکھا گیا ہے.
- - - - - - - - - - - - - -
تاریخ کشمیر " مصنف ، پروفیسر نذیر احمد تشنہ, اپنی کتاب کے صفحہ 415 پر لکھا ہے ' مفتوح پونچھ قبائل میں اطاعت قبول کرنے والے سدھن قبیلہ کا ایک نوجوان شمس خان بھی تھا راجا دھیان سنگھ اسے اپنا مصاحب بنا کر لاہور لے گیا تاکہ شمس خان کا قبیلہ فرمانبردار رہے۔
. . . . . . . . . . .
عبدالله صدیقی کی کتاب تاریخ کشمیر 1819 تا 1947 جو ایم اے تاریخ کے نصاب میں شامل ہے کے صفحہ 75 – 171 میں پڑھایا جا رہا ہے کہ شمس خان کا تعلق سدھن قبیلے سے تھا جس کو بطور یرغمالی راجہ دھیان سنگھ کی ملازمت میں دیا گیا تھا۔
اس کے علاوه
PUNJAB CHIEFS HISTORICAL AND BIOLOGICAL NOTICE* by Sr lepal Henri Graphen. اور Sukh Dev Singh, اور تاریخ سدھن قبائل میں شمس خان کو سدھن ہی لکھا گیا۔
نریندر کرشن سہنا نے اپنی مشہور تصنیف .ًرنجیت سنگھ.ً میں شمس خان کو سدھن لکھا ہے.
عسکری ادارے ، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ اور آزاد کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ و تحقیق نے راجہ دھیان سنگھ کے مشیر شمس خان کو سدھن ہی لکھا ہے.. اس کے علاوہ بھی تاریخ کی کئی درجنوں کتب کے مستند حوالہ جات موجود ہیں جن کے لئے طویل مضمون کی ضرورت ہے.
تحقیق میں 1871 سے قبل شائع ہونے والی مصنفین کی تصانیف میں سے ہر ایک نے شمس خان کو سدھن قبیلے کا سردار لکھا۔ ان تمام مصنفین کا تعلق عہد شمس خان سے ہے۔ عہد شمس خان کے کسی ایک مصنف نے بھی اگر شمس خان کو غیر سدھن لکھا ہوتا تو مزید تحقیق کی جاتی۔ مگر ایسا کوئی ایک حوالہ بھی نہیں مل سکا۔ ان تمام حوالاجات کے بعد کسی ثبوت کی چنداں ضرورت نہیں رہی کہ مزید حوالے پیش کیے جائییں۔ یہ بات ثابت ہے کہ سمش خان سدھن قبیلے کا ہی قابل فخر سپوت تھا
شمس خان پہلی سکھ سدھنوتی جنگ
ترمیمپہلی سکھ سدھنوتی جنگ کا آغاز سکھ خالصہ حکومت نے سدھنوتی سے اپنے عروج زمانہ حکومت میں اس وقت کیا جب سکھ پنجاب سے خیبر پختون خواہ جمرود تک جمرود سے سائل سندھ تک اپنی حکومت کو توسیع دینے میں کامیاب ہوئے[5] اسی دوران سکھ خالصہ نے سب سے پہلے ریاست جموں پر حملہ کیا پھر 2 کشمیر اور 3 ریاست پونچھ، 4 ریاست راجوری، 5 ریاست بھمبر ، 6 ریاست مظفرآباد پر حملہ کر کے ان 6 ریاستوں کو چالیس دنوں میں فتح کر کے جموں کشمیر کی ساتویں ریاست سدھنوتی پر 4 دسمبر 1919ء کو حملہ کیا ریاست سدھنوتی پونچھ کے انتہائی شمال میں بلند و بالا پہاڑی ریاست ہے جس کا 50 فیصد حصہ گھنٹے جنگلات اور 96 فیصد علاقہ مشکل ترین پہاڑی جغرافیائی حدود پر مشتمل ہے جہاں پنجاب کے سکھوں کو ایک ماہ تک پے در سدھنوتی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا [6] جس کے باعث مہاراجا رنجیت سنگھ نے سدھنوتی سے مزید کسی قسم کی کوئی جنگ کیے بے غیر جموں کشمیر کی ان چھ ریاستوں کی فتح کو ہی غنیمت جانتے ہوئے لاہور خالصہ کی راہ لی [7] چنانچہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے لاہور سکھ خالصہ دربار پہنچ کر اپنی فتح کا جشن منایا اور اسی جشن میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ اپنے جرنیل میاں گلاب سنگھ اور ریاست پونچھ گلاب سنگھ کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو بطور انعام جاگیر عطاء کی
دوسری شمس خان سکھ سدھنوتی جنگ
ترمیمدوسری سکھ سدھنوتی جنگ کا پس منظر دراصل یہ تھا کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی طرف سے ڈوگرہ میاں گلاب سنگھ اور اس کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو جب جموں اور پونچھ جیسی دو جاگیریں ملی تو ڈوگرہ برادران پر لازم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ریاست سدھنوتی کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹائیں تاکہ مستقبل میں ریاست سدھنوتی بھی ان کی جاگیر بن کر سکھ خالصہ حکومت کے زیر اہتمام آ جائے جس سے ان کی جاگیریں بھی ہمشیہ کے لیے محفوظ ہو جائیں چنانچہ انھی حالات و خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈوگرہ برادران نے مہاراجا رنجیت سنگھ کو ریاست سدھنوتی پر دوسری مرتبہ چڑھائی کرنے کے لیے کاہل کیا [8]چنانچہ سکھ خالصہ نے ایک سو پچاس پہاڑی توپوں بہم بیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ 12 جون 1820ء کو ریاست سدھنوتی پر دوسرا حملہ کیا تو سکھ خالصہ فوج کی توپوں نے سدوزئیوں کو تمام میدانی علاقوں میں شکست دی جس کے جواب میں سدوزئیوں نے پہاڑیوں پر مورچہ بند دفاعی جنگ لڑنا شروع کر دی جس کے باعث سکھ خالصہ کی فتح شکست میں بدل گئی سدوزئیوں کی پہاڑوں پر مورچہ بند گوریلا کارروائیوں نے سکھ خالصہ کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ جنگ کو بھی جب طویل تول دینا شروع کیا تو سکھ خالصہ کو مجبوراً سدوزئیوں سے معاہدہ امن کرنا پڑھا جسے نواب سدھنوتی نے منظور کر لیا سکھ خالصہ اور ریاست سدھنوتی کے معاہدہ امن میں یہ تہ پایا کہ سدھنوتی کا دار الحکومت منگ سدھنوتی کی بجائے لاہور خالصہ دربار میں ہو گا جسے لاہور سکھ خالصہ حکومت میں باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گی اور سدھنوتی کے حکمران نواب شمس خان لاہور خالصہ دربار سے ہی ہمور ریاست سدھنوتی چلائیں گے چنانچہ اس طرح ریاست سدھنوتی اور سکھ خالصہ پنجاب کی یہ دوسری لڑائی جنگ بندی ہو کر معاہدہ امن میں تبدیل ہو گئی [9][10]
بغاوت شمس خان سدوزئ 1832ء
ترمیمسکھ خالصہ اور ریاست سدھنوتی کے معاہدہ امن میں یہ تہ پایا تھا کہ سدھنوتی کا دار الحکومت منگ سدھنوتی کی بجائے لاہور خالصہ دربار میں ہو گا جسے لاہور سکھ خالصہ حکومت میں باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گی .[11] اس لیے نواب شمس خان کو لاہور خالصہ دربار سے ہی ہمور ریاست سدھنوتی چلانا پڑتے تھے اسی لیے نواب سدھنوتی کو سکھ خالصہ میں ہی رہنا پڑتا تھا نواب سدھنوتی عرصہ بارہ سال سکھ خالصہ میں ولی سدھنوتی کے فرائض سر انجام دیتے رہے چنانچہ وہاں سے وہ سکھ خالصہ کی ہر طاقت و کمزوری سے بڑی اچھی طرح واقف ہو چکے تھے چنانچہ جب سکھ خالصہ نے وادی سوات کے یوسفزئیوں سے جنگ شروع کی تو شاہ اسماعیل شہید نے بھی سکھ خالصہ پر پے در پے حملے شروع کر دیے ان حالات میں سکھ خالصہ کو دو دو طاقتوں سے لڑنا پڑا چنانچہ نواب سدھنوتی نے یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے سدھنوتی میں بھی سکھ خالصہ سے بغاوت کر دی جو کامیاب ثابت ہوئی[12] شمس خان سدوزئ نے اس بغاوت میں آٹھ سو سکھ فوجیوں کے قتل عام کے ساتھ ہی نہ فقط ریاست سدھنوتی بلکہ ریاست پونچھ کے بیشتر حصوں پر بھی قبضہ کر کے 22 مئی 1832 کو منگ سدھنوتی پر حکمرانی کا اعلان کر دیا [13]
تیسری شمس خان سدوزئ سکھ سدھنوتی جنگ
ترمیمریاست سدھنوتی کے نواب شمس خان سدوزئ کی بغاوت کامیاب ثابت ہوئی شمس خان نے سدھنوتی سمیت ریاست پونچھ کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا ایسے حالات دیکھتے ہوئے سکھ خالصہ نے ریاست سوات اور امیر شریعت شاہ اسماعیل شہید سے ترک جنگ کر کے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاست سدھنوتی سے اخری فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کر لی[14][15] یوں بھی سکھ خالصہ اس وقت کی سپر پاور تھی جس کی سالانہ دو کروڑ 46 لاکھ نانک شاہی سکہ آمدن تھی جبکہ ریاست سدھنوتی کے پاس پندرہ قلعے چار ہزار فوج اور سالانہ 45000 آمدن والی انتہائی مختصر پہاڑی ریاست جس نے ہر مرتبہ سکھ خالصہ کو ایسے زخم دیے جسے سکھ خالصہ برسوں تک چاٹتے رہے چنانچہ اسی انتقام میں سکھ خالصہ نے چالیس ہزار فوج اور آٹھ سو توپوں کے ساتھ ریاست سدھنوتی پر 22 مئی 1832 کو تیسرا بڑا حملہ کیا [16] حملہ اتنا شدید تھا جس نے ریاست سدھنوتی میں سدوزئیوں کی ایٹ سے ایٹ بجا دی اس جنگ میں پچس ہزار سدوزئ مارے گئے جن میں چھ ہزار بچے اور خواتین بھی شامل تھے پانچ ہزار سدوزئ جنگی قیدی بنے 27 سدوزئ جرنیلوں کی زندہ جسم سے کھال تک اتار دی گئی پانچ ہزار قیدیوں میں بھی سیکڑوں سدوزئیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں مار دیا گیا چنانچہ پچس سے تیس ہزار سدوزئیوں کی اس خون ریزی کے بعد ریاست سدھنوتی سے 478 سال بعد سدوزئ اقتدار کا خاتمہ آخری نواب شمس خان سدوزئ کی بعد شہادت ہوا [17]
- ↑ J. S. Grewal, The Sikhs of the Punjab, Volumes 2–3, Cambridge University Press, 8 Oct 1998, p.120
- ↑ Charles E. Buckland (1999)۔ Dictionary of Indian Biography۔ Cosmo Publication۔ صفحہ: 128–۔ ISBN 978-81-7020-897-6۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2018
- ↑ History of the Punjab Hill States by Hutchison and Vogel, reprinted edition, 2 volumes in 1 Chapter XXIV. 1933 AD
- ↑ "Michael Madhusudan Dutta"۔ Calcuttaweb۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2018 [self-published source]
- ↑ Sir Alexander Cunningham, Four Reports Made During The Years 1862-63-64-65, (The Government Central Press, 1871), Volume I, Page 13.[1]
- ↑ Hastings Donnan, Marriage Among Muslims: Preference and Choice in Northern Pakistan, (Brill, 1997), 41.[2]
- ↑ Manohar Lal Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 51
- ↑ Christopher Snedden۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India
- ↑ Christopher Snedden۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India
- ↑ Iffat Malik (2002)، "Jammu Province"، Kashmir: Ethnic Conflict International Dispute، Oxford University Press، صفحہ: 62، ISBN 978-0-19-579622-3
- ↑ Iffat Malik (2002)، "Jammu Province"، Kashmir: Ethnic Conflict International Dispute، Oxford University Press، صفحہ: 62، ISBN 978-0-19-579622-3،
The Sudhans claim their origin from Afghanistan and they consider themselves to be descendants of a common ancestor Jassi Khan,
- ↑ Pizada Irshad Ahmad (2003)۔ A Hand Book on Azad Jammu & Kashmir۔ Nawab Sons Publication۔ صفحہ: 152۔ ISBN 9789695300503
- ↑ Manohar Lal Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ Kashmir History۔ صفحہ: 52 النص "location" تم تجاهله (معاونت)
- ↑ Manohar Lal Kapur، Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 52
- ↑ Arjun Nath Sapru (1931)۔ The Building of the Jammu and Kashmir State۔ India۔ صفحہ: 5
- ↑ Muhammad Yusuf Saraf (1977)۔ Kashmiris Fight for Freedom۔ India: Ferozsons۔ صفحہ: 88
- ↑ محمد دین فوق، تاریخ اقوام پونچھ،