سدھنوتی ریاست جموں کشمیر کی سابقہ دس پہاڑی قبائلی ریاستوں میں سے ایک تھی جس کا پہلا نام بھان تھا ریاست بھان جس کی تاریخ کم و پیش ہزار بارہ سو سال تک پرانی ہے یہ ریاست موجودہ پاکستان کے زیر اہتمام آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی (پلندری) ضلع پونچھ مکمل اور نصف ضلع کوٹلی اور باغ کے کچھ علاقوں پر مشتمل 2500 مربع کلومیٹر تھی مورئخین کے مطابق 900ء یا اس سے قبل سدھنوتی سابقہ بھان پر باقاعدہ بھان ہندو برہمنوں کی حکومت قائم تھی برہمنوں کے بعد بارہویں صدی عیسوی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک بھاگڑوں نے سدھنوتی سابقہ بھان پر حکمرانی کی اس کے بعد افغان نواب جسی خان سدوزئ نے چودھویں صدی عیسوی میں[1] سدھنوتی سابقہ بھان پر لشکر کشی کی اور یہاں بھاگڑوں کو شکست دے کر بھان ریاست کا نام سدھنوتی رکھا [2] اور سدھنوتی پر 1407ء سے لے کر سقوط سدھنوتی1832ء تقریبا 427 سال تک نواب جسی خان کے سدوزئی خاندان نے اپنی حکومت قائم کیے رکھی[3][4] [5] [6] [7]


سدھنوتی ریاست
سدھنوتی ریاست
ریاست سدھنوتی * is located in آزاد کشمیر
ریاست سدھنوتی *
ریاست سدھنوتی
ریاست سدھنوتی * is located in پاکستان
ریاست سدھنوتی *
ریاست سدھنوتی
  • متناسقات: 33°42′55″N 73°41′10″E / 33.71534°N 73.6861°E / 33.71534; 73.6861
    ملک پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر میں کشمیر کی سابقہ پہاڑی قبائلی ریاست
    پرچم سدھنوتی
    حکومت
     • قسمپختون قبائلی نظام حکومت(1407ء–1832ء)
    رقبہ
     • کل2,500 کلومیٹر2 (1,000 میل مربع)
    منطقۂ وقتپ۔م۔و (UTC+5)
    Nawab Jassi Khan Saduzai
    پہلا بانی پشتون حکمران ریاست سدھنوتی
    Portrait of Nawab Jassi Khan
    • بانی سدھنوتی ریاست
    پیدائش1370 غزنی افغانستان
    وفاتمارچ 1417ء
    سدھنوتی آزاد کشمیر
    قومیتافغان
    نسلپشتون سدوزئی سدھن[8]
    مذہباسلام

    سدھنوتی نام کی وجہ تسمیہ ترمیم

    سدھنوتی جس کا اولین نام بھان تھا اس کی معلوم تاریخ 830ء سے شروع ہوتی ہے ، تاریخ سدھنوتی کے معروف مورئخ اقبال درویش تاریخ سدھنوتی میں لکھتے ہیں کہ آٹھویں صدی عیسوی میں سدھنوتی پر باقاعدہ ہندو برہمنوں کی حکومت قائم تھی جس پر یارویں صدی عیسوی میں پہاڑی پنجاب کے بھاگڑ راجپوت حملہ آور ہوئے اور بھان پر قبضہ کیا جس کے بعد برہمنوں کی حالت بد سے بدتر ہو گئی۔ نمبردارفضلالہی تاریخ سرداران سدھنوتی میں لکھتے ہیں کہ ہمارے سینہ بہ سینہ چلنے والی معلومات آگاہی سے معلوم ہوتا ہے جب تیرویں صدی عیسوی میں بیشتر افغان سرداروں نے ہندوستان پر طبع آزمائی کی غرض سے ہندوستان کا رخ کیا تو ان میں افغان نواب جسی خان سدوزئ بھی اپنے قبائل کے تین سو جنگجووں اور دو سو عورتوں سمیت ہندوستان کہ مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے جب راولپنڈی میں خیمہ زن ہوئے تو بھان سدھنوتی کے برہمن جو ایک طویل عرصے سے بھاگڑ راجپوتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے ہوئے تھے انھوں نے اس افغان نواب کو اپنے ملک پر قابض بھاگڑوں اور گھگھڑوں پر حملے کے لیے آمدا کیا چنانچہ افغان نواب جسی خان نے (بھان سدھنوتی) پر حملہ کیا اور بھاگڑوں اور گھگھڑوں کو شکست دی جس کے بعد برہمنوں نے (بھان سدھنوتی) پر افغان نواب جسی خان سدوزئ کی حکومت کی تاج پوشی پر افغان نواب جسی خان سدوزئ کو سدھن کا خطاب دیا جس کے معنی بہادر انصاف والا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد افغان نواب جسی خان نے بھان پر حکومتی کنٹرول حاصل کرتے ہی اس کا نام بھان سے تبدیل کر کے سدھنوتی رکھا جس کا مطلب سدو کے ٹھہرنے کی جگہ بنتا ہے چنانچہ اس معروف نام سدھنوتی کا ریکارڈ 1881ء کی پہلی ہندوستانی مردم شماری میں بھی ملتا ہے کہ سدھنوتی کا نام کب اور کیوں اور کس وقت کس نے رکھا 1881ء کی پہلی ہندوستانی مردم شماری جس پر ہندوستان کی تمام

    • ہندو ،
    • مسلم،
    • سکھ
    • عیسائی
    • جین،

    اقوام پر انگریزوں نے ان اقواموں کی تاریخ کی کتب لکھی چنانچہ پنجاب کے مسلم اقوام کی تاریخ انگریز افسر لیفٹیننٹ کرنل جے ایم وکلے نے لکھی اس وقت پونچھ برطانوی صوبہ پنجاب کا حصہ تھا اور پونچھ کا جسٹس کوٹ بھی پنجاب لاہور تھا اس وقت لیفٹیننٹ کرنل جے ایم وکلے نے برطانوی صوبہ پنجاب کی مسلم اقوام پر 1881ء کی مردم شماری سے حاصل کردہ معلومات سے دو جلدوں پر مشتمل کتب پنجابی مسلم لکھی جس میں اس نے سدھنوتی کے نام کو نواب جسی خان سے منصوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں برہمن کی حکومت تھی جن سے بھاگڑوں اور گھگھڑوں نے ان کی حکومت چھین کر ان کے ملک پر قبضہ کر رکھا تھا چنانچہ برہمنوں نے افغان نواب جسی خان سدوزئ کو بھاگڑوں پر حملہ کے لیے آمدا کیا جس کے بعد افغان نواب نے بھاگڑوں پر حملہ کیا اور انھیں شکست دے کر یہاں اپنی حکومت قائم کی جس کے بعد برہمنوں نے نواب جسی خان سدوزئ کی حکومت کی تاج پوشی پر انھیں سدھن کا خطاب دیا جس کے معنی بہادر انصاف والا ہے، چنانچہ اس کے بعد افغان نواب جسی خان سدوزئ نے بھان پر حکومت سنبھالتے ہی اس کا نام تبدیل کر کے سدھنوتی رکھا جس کا مطلب سدو کے ٹھہرنے کی جگہ بنتا ہے[9]

    ریاست سدھنوتی کا دستور نظام حکومت ترمیم

    سدھنوتی کا دستور نظام حکومت افغانوں کے نظام حکومت کی طرح تھا سدھنوں نے سدھنوتی کو پندرہ اکائیوں پر مشتمل 15 سرداروں میں تقسیم کر رکھا تھا ان پندرہ سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں دپلیاں بنا رکھی تھی اس زمانے میں دپلی کو علاقی ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل ہوتی تھی[10] دپلی ہمشیہ تین کنال یا اس سے زیادہ کے وصی ارض میدان کے چاروں اطراف بارہ سے پندرہ فیٹ اونچی اور ایک سے ڈیڑھ میٹر چوڑی دیواروں کے اندر مضبوط چھاؤنی میں پچیس تیس کمروں پر مشتمل قلعہ طرز دپلی تعمیر ہوتی جسے علاقی ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل ہوتی جہاں لوگوں کو جرگہ عدالت لگا کر عدل و انصاف فراہم کیا جاتا ہر ایک دپلی میں جیل خانہ جات اور مالیہ جات کے وصول کا باقاعدہ اہتمام و نظام موجود ہوتا سدھنوتی کی ان پندرہ دپلیایوں میں سے سالانہ پچس فیصد مالیہ مرکز منگ بھیجا جاتا اور باقی پچھتر فیصد مالیہ علاقی مقامی سردار دپلی کے اخراجات و دیگر علاقی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتا اس کے علاوہ ہر ایک دپلی کا سردار سالانہ مرکز منگ لوئی جرگے میں حاضری کا پابند ہوتا[11]

    ثقافتی ورثہ سدھنوتی ریاست ترمیم

    دیوان خاص ریاست سدھنوتی ترمیم

    دیوان خاص تڑالہ ، کوٹلی ، آزاد کشمیر میں ہے جہاں پہلی پشتون سدھنوتی حکومت نواب جسی خان سدوزئ نے 1360ء میں قائم کی، زیر تصویر نظر آنے والی جگہ وہ مقام ہے جہاں نواب جسی خان سدوزئ بیٹھ کر لوگوں کے فیصلے کیا کرتے اور ان کی گذارشات سنا کرتے تھے[12] [13]

    مقامسدھنوتی، ریاست
    تعمیر1360ء دیوان خاص (d)

    | locmapin = Iran | map_caption = کوٹلی تڑالہ | visitation_num = | visitation_year = | built_for = نواب جسی خان سدوزئ }}

    ریاست سدھنوتی میں نواب کے چناؤ کا طریقہ کار ترمیم

    ریاست سدھنوتی میں نواب سدھنوتی کے انتخاب کے چناؤ کا طریقہ کار انتہائی قدیم بنی اسرائیل کے دور کا طریقہ استعمال کیا جاتا جب بھی سدھنوتی مرکز کا کوئی نواب فوت ہو جاتا تو اگر اس کا ایک ہی بیٹا ہوتا تو اسے بلا مقابلہ نواب کا جانشین منتخب کر لیا جاتا ورنہ دوسری صورت ریاست سدھنوتی کی پندرہ اکائیوں میں سے تمام سردار مشترکہ مرکز منگ جرگے کا اہتمام کرتے جس میں مرکزی نواب کے بیٹوں کو بلا لحاظ چھوٹے بڑے کی تمیز کیے تمام بیٹوں کا مرکزی نواب کے چناؤ کے لیے منتخب کیا جاتا اگر چناؤ میں مرکزی نواب کا نابالغ بیٹا منتخب ہوتا تو اس کے بالغ ہونے تک نواب کے فرائض اس کا بڑا بھائی سر انجام دیتا اگر بڑا بھائی بھی نابالغ ہو تو اس کے بالغ ہونے تک مرکزی نواب کا کوئی بھائی منتخب نواب کے بالغ ہونے تک نواب کے فرائض سر انجام دیتا ورنہ مرکزی نواب کے بھائیوں کو نواب کے چناؤ کے لیے منتخب ہونے کا کوئی جواز نہیں ہوتا سوائے نواب کے بیٹوں کے اگر مرکزی نواب کا کوئی بیٹا بھی نہ ہو تو مرکزی نواب کے چناؤ کے انتخاب کا حق 26 سو مربع کلومیٹر سدھنوتی کی پندرہ اکائیوں پر حکمرانی کرنے والے پندرہ دپلیایوں کے سرداروں کو ہوتا جس کے لیے مرکزی (نواب سردار) کے چناؤ کا طریقہ کار مرکزی قلعہ منگ کی بند عمارت کے اندر تین گڈیاں گاس یعنی جسے ہم پہاڑی میں پولا بھی کہتے ہیں انھیں ایک ایک گڈی کر کہ جلایا جاتا جس کے چاروں اطراف مرکزی نواب کے بیٹوں کو بیٹھایا جاتا اگر نواب کے چار بیٹوں سے کم تعداد ہے تو بڑے بیٹے کو قبلہ کی طرف بیٹھایا جاتا دوسرے دو کو مشرق مغرب کی جانب تین تین میڑ کے فیصلہ پر بیٹھایا جاتا اگر دو ہیں تو مشرق مغرب کی سمت بیٹھا کر تین گڈیاں گاس کو الگ الگ ایک ایک کر کہ جلایا جاتا پھر ان تینوں گڈیاں گاس کا دھواں تینوں مرتبہ جس بیٹے کی طرف رخ کرتا وہیں سدھنوتی مرکز کا نواب کہلاتا [14]اسی طرح مرکزی نواب کا اگر کوئی بھی بیٹا نہ ہو تو سدھنوتی کی پندرہ اکائیوں پر حکمرانی کرنے والے پندرہ سرداروں کو قلعے کی بند عمارت ميں چاروں اطراف تین تین میڑ فیصلہ پر بیٹھایا جاتا اور تین مرتبہ گاس کی گڈیاں جلائی جاتی دھواں جس سردار کی طرف رخ کرتا وہیں مرکزی نواب سردار کہلاتا بعض مرتبہ نواب کے چناؤ کا یہ طریقہ کار ہفتوں جاری رہنے کے بعد جلائی گئی آگ کا دھواں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتا اور بعض مرتبہ بعض خوش نصیب چند منٹوں میں نواب کہلاتے[15]

    ریاست سدھنوتی کا جنگی طریقہ کار ترمیم

    سدھنوتی میں سدوزئیوں کا جنگ لڑنے سے پہلے قرآن اور تلوار پر جنگ میں فتح حاصل کرنے تک لڑنے مرنے کا حلف اٹھا کر لڑنے کا عام رواج رہا ہے جس کی مثال گھگھڑوں اور بھگڑوں سے جنگ اور 1819ء اور بیس کی جنگ 1832ء کی جنگ جس میں تیس ہزار سدوزئ مارے گئے مگر قرآن اور تلوار پر حلف اٹھا کر لڑنے مرنے والوں میں کسی ایک نے بھی مرتے دم تک جنگ کے میدان میں ہتھیار نہیں ڈالے پھر 1947ء کی جنگ میں چوراسی ہزار چار سو اکہتر مربع میل ریاست جموں کشمیر میں سب سے پہلے سدوزئیوں نے ضلع سدھنوتی تحصیل بلوچ کی پولیس چوکی کے نیچے جو یادگار ہے وہاں 2 ستمبر 1947ء کو دس ہزار سدوزئیوں نے قرآن اور تلوار پر ڈوگرہ سے لڑنے مرنے کا حلف اٹھایا پھر منگ سدھنوتی میں 20 ستمبر کو ہزاروں سدوزئیوں نے قرآن اور تلوار پر مہاراجا کشمیر سے جنگ لڑنے مرنے کا حلف اٹھایا پھر 25 ستمبر کو راولاکوٹ میں تیس ہزار سدوزئیوں نے مہاراجا کشمیر کے خلاف جنگ لڑنے مرنے کا قرآن و تلوار پر حلف اٹھایا جنگ سے پہلے قرآن اور تلوار پر سدوزئیوں کے حلف اٹھانے کا مقصد میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے تک لڑانا ہوتا یا دوسری صورت میدان جنگ میں مر مٹ جانا ہوتا[16]

    نواب حکمران ریاست سدھنوتی ترمیم

    نام 1 نواب جسی خان سدوزئ 5 مارچ 1407ء 1 مئی 1417ء ریاست سدھنوتی
    2 سیل خان سدوزئ 3 مئی 1417ء 2 دسمبر 1490ء ریاست سدھنوتی
    3 سلطان شیر سدوزئ 2 دسمبر 1490ء 18 مئی 1435ء ریاست سدھنوتی
    4 جہانان خان سدوزئ 18 مئی 1435ء 21 جون 1450ء ریاست سدھنوتی
    5 میرک خان سدوزئ 21 جون 1450ء 30 مئی 1470ء ریاست سدھنوتی
    6 ربنواز خان سدوزئ 30 مئی 1470ء 8 ستمبر 1499ء ریاست سدھنوتی
    7 عین پنوں خان سدوزئ 8 ستمبر 1499ء 13 اپریل 1525ء ریاست سدھنوتی
    8 خاندیروپ سدوزئ 13 اپریل 1525ء 30 اپریل 1550ء ریاست سدھنوتی
    9 علیا جان سدوزئ 1 مئی 1550ء 7 اگست 1580ء ریاست سدھنوتی
    10 سعید خان سدوزئ 7 اگست 1580ء 7 اکتوبر 1620ء ریاست سدھنوتی
    11 کہالہ خان سدوزئ 7 اکتوبر 1620ء 30 اکتوبر 1650ء ریاست سدھنوتی
    12 شیر خان سدوزئ 30 اکتوبر 1650ء 16 اپریل 1700ء ریاست سدھنوتی
    13 سر بلند خان سدوزئ 16 اپریل 1700ء 5 جون 1760ء ریاست سدھنوتی
    14 بلوچ خان سدوزئ 5 جون 1760ء 30 اکتوبر 1790ء ریاست سدھنوتی
    15 ہیبت خان سدوزئ 30 اکتوبر 1790ء 1 فروری 1800ء ریاست سدھنوتی
    16' شمس خان سدوزئ 1 فروری 1800ء 29 جولائی 1832ء ریاست سدھنوتی

    پرچم ریاست سدھنوتی ترمیم

      یہ ریاست جموں کشمیر کی سابقہ قبائلی پہاڑی سدھنوتی ریاست کا جھنڈا ہے جسے افغان اپنے ساتھ سدھنوتی پر حملہ آور ہوتے وقت اپنے ساتھ افغانستان سے لائے تھے یہ جھنڈا 1360ء سے لے کر 1832ء تک سدھنوتی کی پندرہ اکائیوں کا قومی پرچم رہا ہے بعض مرتبہ سدھنوتی کے بغض دپلی سرداروں نے مرکز منگ سے بغاوت کر کے اس جھنڈے کو بدلنا چاہا مگر وہ ناکام بغاوت میں مارے جاتے رہے[17] سدھنوتی کے اس جھنڈے پر بغض برہمنوں کے چکی نامہوں اور لوک گیت شعار و شاعری کا ذکر بھی ملتا ہے،

    مثلا

    • جوگی بھگت رام دے بھگتاں تے جو جو ظلم ان گھگھڑہاں بھگڑاہاں نے ڈھائے
    • وہ تاریخ انسانی وچ نی کسے اور قوم کمائے
    • پر پرمہاتما بہو ڈھاڈی جس انا ظلماء دے مقابلے افغان لائے
    • افغان جدہاں انا پہاڑہاں تے کالے جھنڈے نال آئے
    • انا کٹ کے رکھ دتے گھگھڑہاں بھگڑاہاں دے وہ سارے سائے
    • جہیڑے انا ظلماء نے معصوم بھگتاں تے کمائے
    • اج نس گئے گھگھڑ بھگڑ سارے مائے مائے
    • ہون انا پہاڑہاں تے عدل و انصاف دے پیکر چھائے
    • جہیڑے افغان کالے جھنڈے نال آئے[18]

    سقوط سدھنوتی ترمیم

    900ء سے لے کر 1832ء تک مکمل اپنا ایک الگ تشخص رکھنے والی ریاست سدھنوتی کا تیسری سکھ سدوزئ جنگ جس میں تیس ہزار سدوزئ جن میں چھ ہزار خواتین اور بچے بھی شامل تھے کی خون ریزی کے بعد سدھنوتی حکومت کا خاتمہ پانچ جولائی 1832 کو ہوا [19]'سردار شمس خان سدوزئ آخری نواب حکمران سدھنوتی'

     
    Portrait of Sudhan tribal chief, Shams Khan in the Sameet-e-Sudhozai

    پہلی سکھ سدوزئ جنگ ترمیم

    سکھ خالصہ حکومت نے اپنے عروج زمانہ حکومت میں جب پنجاب سے خیبر پختون خواہ جمرود تک جمرود سے سائل سندھ تک اپنی حکومت کو توسیع دینا شروع کی تو اسی دوران سکھ خالصہ نے سب سے پہلے 1جموں پر حملہ کیا پھر 2کشمیر اور 3پونچھ، 4راجوری، 5بھمبر ، 6 مظفرآباد پر حملہ کر کے ان 6 ریاستوں کو چالیس دنوں میں فتح کر کے ریاست سدھنوتی پر 4 دسمبر 1919ء کو حملہ کیا ریاست سدھنوتی ریاست پونچھ کے انتہائی شمال میں بلند و بالا پہاڑی ریاست ہے جس کا 50 فیصد حصہ گھنٹے جنگلات اور 90 فیصد پہاڑی علاقہ جات جیسی مشکل ترین جغرافیائی ریاست میں جب پنجاب کے سکھوں کو ایک ماہ تک سدھنوتی میں پے در پے سدوزئیوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تو مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کی ان چھ ریاستوں کی فتح کو ہی غنیمت جانتے ہوئے ریاست سدھنوتی سے مزید کسی قسم کی کوئی جنگ کیے بے غیر لاہور خالصہ کی راہ لی چنانچہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے لاہور سکھ خالصہ دربار پہنچ کر اپنی فتح کا جشن منایا اور اسی جشن میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ اپنے جرنیل میاں گلاب سنگھ اور ریاست پونچھ گلاب سنگھ کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو بطور انعام جاگیر عطاء کی [20]

     
    عکس بندی پہلی سکھ سدوزئ جنگ

    دوسری سکھ سدوزئ جنگ ترمیم

    مہاراجا رنجیت سنگھ کی طرف سے ڈوگرہ میاں گلاب سنگھ اور اس کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو جب جموں اور پونچھ جیسی دو جاگیریں ملی تو ڈوگرہ برادران پر لازم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ریاست سدھنوتی کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹائیں تاکہ مستقبل میں ریاست سدھنوتی بھی ان کی جاگیر بن کر سکھ خالصہ حکومت کے زیر اہتمام آ جائے جس سے ان کی جاگیریں بھی ہمشیہ کے لیے محفوظ ہو جائیں چنانچہ ان ہی حالات و خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈوگرہ برادران نے مہاراجا رنجیت سنگھ کو ریاست سدھنوتی پر دوسری مرتبہ چڑھائی کرنے کے لیے کاہل کیا[21][22][23] چنانچہ سکھ خالصہ نے ایک سو پچاس پہاڑی توپوں بہم بیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ 12 جنوری1820ء کو ریاست سدھنوتی پر دوسرا حملہ کیا تو سکھ خالصہ فوج کی توپوں نے سدوزئیوں کو تمام میدانی علاقوں میں شکست دی جس کے جواب میں سدوزئیوں نے پہاڑیوں پر مورچہ بند دفاعی جنگ لڑنا شروع کر دی یوں سکھ خالصہ کی فتح شکست میں بدل گئی سدوزئیوں کی پہاڑوں پر مورچہ بند گوریلا کارروائیوں نے سکھ خالصہ کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ جنگ کو بھی طویل تول دینا جب شروع کیا تو سکھ خالصہ کو مجبوراً سدوزئیوں سے معاہدہ امن کرنا پڑھا جسے نواب سدھنوتی نے منظور کر لیا یوں ریاست سدھنوتی اور سکھ خالصہ پنجاب کی جنگ بندی معاہدہ امن میں تبدیل ہو گئی [24]

    سدھن بغاوت1832ء ترمیم

    سکھ خالصہ اور ریاست سدھنوتی کے معاہدہ امن میں یہ تہ پایا تھا کہ سدھنوتی کا دار الحکومت منگ سدھنوتی کی بجائے لاہور خالصہ دربار میں ہو گا جسے لاہور سکھ خالصہ حکومت میں باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گی .[25] سدھنوتی کے حکمران نواب شمس خان لاہور خالصہ دربار سے ہی ہمور ریاست سدھنوتی چلا گا اس لیے نواب سدھنوتی کو سکھ خالصہ میں ہی رہنا پڑتا تھا نواب سدھنوتی عرصہ بارہ سال سکھ خالصہ میں ولی سدھنوتی کے فرائض سر انجام دیتے رہے چنانچہ وہاں سے وہ سکھ خالصہ کی ہر طاقت و کمزوری سے بڑی اچھی طرح واقف ہو چکے تھے چنانچہ جب سکھ خالصہ نے وادی سوات کے یوسفزئیوں سے جنگ شروع کی تو شاہ اسماعیل شہید نے بھی سکھ خالصہ پر پے در پے حملے شروع دیے ان حالات میں سکھ خالصہ کو دو دو طاقتوں سے لڑنا پڑا چنانچہ نواب سدھنوتی نے یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے سدھنوتی میں بھی سکھ خالصہ سے بغاوت کر دی جو کامیاب ثابت ہوئی[26] شمس خان سدوزئ نے اس بغاوت میں آٹھ سو سکھ فوجیوں کے قتل عام کے ساتھ ہی نہ فقط ریاست سدھنوتی بلکہ ریاست پونچھ کے بیشتر حصوں پر بھی قبضہ کر کے 22 مئی 1832 کو منگ سدھنوتی پر حکمرانی کا اعلان کر دیا [27]

     

    تیسری سکھ سدوزئ جنگ ترمیم

    ریاست سدھنوتی کے نواب شمس خان سدوزئ کی بغاوت کامیاب ثابت ہوئی شمس خان نے سدھنوتی سمیت ریاست پونچھ کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا ایسے حالات دیکھتے ہوئے سکھ خالصہ نے ریاست سوات اور امیر شریعت شاہ اسماعیل شہید سے ترک جنگ کر کے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ریاست سدھنوتی سے اخری فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کر لی[28][29] سکھ خالصہ اس وقت کی سپر پاور تھی جس کی سالانہ دو کروڑ 46 لاکھ نانک شاہی سکہ آمدن تھی جبکہ ریاست سدھنوتی کے پاس پندرہ قلعے چار ہزار فوج اور سالانہ 45000 آمدن والی انتہائی مختصر پہاڑی ریاست جس نے ہر مرتبہ سکھ خالصہ کو ایسے زخم دیے جسے سکھ خالصہ برسوں تک چاٹتے رہے چنانچہ اسی انتقام میں سکھ خالصہ نے چالیس ہزار فوج اور آٹھ سو توپوں کے ساتھ ریاست سدھنوتی پر 22 مئی 1832 کو تیسرا بڑا حملہ کیا [30] حملہ اتنا شدید تھا جس نے ریاست سدھنوتی میں سدوزئیوں کی ایٹ سے ایٹ بجا دی اس جنگ میں تیس ہزار سدوزئ مارے گئے جن میں چھ ہزار بچے اور خواتین بھی شامل تھے پانچ ہزار سدوزئ جنگی قیدی بنے 27 سدوزئ جرنیلوں کی زندہ جسم سے کھال تک اتار دی گئی پانچ ہزار قیدیوں میں بھی سیکڑوں سدوزئیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انھیں مار دیا گیا چنانچہ تیس ہزار سدوزئیوں کی اس خون ریزی کے بعد ریاست سدھنوتی سے 478 سال بعد سدوزئ اقتدار کا خاتمہ ہوا [31]

    ریاست سدھنوتی سے تحصیل پونچھ ترمیم

    1832 کی تیسری سکھ سدوزئ جنگ کے بعد ریاست سدھنوتی سکھ خالصہ حکومت کے زیر اہتمام چلا گیا مگر 14 سال بعد معاہدہ امرتسر کے سکھوں کا سدھنوتی سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ 1846 کے بعد سدھنوتی ریاست پونچھ کے زیر اہتمام چلا گیا ریاست پونچھ جو سکھوں نے میاں دھیان سنگھ کو 5 مارچ 1919 کو جاگیر دی تھی اس کا راجا دھیان سنگھ زیادہ تر پنجاب میں ہی رہا کرتا تھا دھیان سنگھ نے پونچھ میں اپنے جانشین مقرر کر رکھے تھے جو مالیہ وغیرہ پونچھ سے لے کر میاں دھیان سنگھ کو پنجاب پہنچایا کرتے تھے مگر 1846 کے بعد جب ریاست سدھنوتی کو ریاست پونچھ کی تحصیل بنا کر راجا پونچھ نے سدھنوتی سے مالیہ کا مطالبہ کیا تو 1832ء کی خون ریزی سے بچے کھچے سدوزئیوں کی اولادیں اب جواں ہو رہی تھی جنھوں نے راجا پونچھ کو مالیہ دینے سے انکار کر دیا چنانچہ راجا پونچھ کو خود پونچھ آنا پڑا راجا پونچھ نے یہاں آ کر سب سے پہلے پانچ سو افراد پر مشتمل ایک فوج کھڑی کی کیونکہ اس سے پہلے راجا پونچھ کے پاس باقاعدہ سے کوئی ریگولر فوج وغیرہ نہیں تھی راجا پونچھ پانچ سو افراد کی فوج لے کر 1855 میں سدھنوتی سے بذت خود ٹیکس مالیہ وغیرہ لینے سدھنوتی آئے مگر راج ہ پونچھ کی آمد سے پہلے ہی سدھنوتی کے پھٹانوں کو اس حملے کی خبر ہو گئی اس لیے سدوزئیوں نے بھی مالیہ دینے کی بجائے جنگ لڑنے کی تیاری کر لی چنانچہ سدوزئ راجا پونچھ کے اس حملے کے جواب میں پہلے سے مسلح انتظار میں تھے کہ راجا پونچھ کا لشکر جب بارل میں داخل ہوا تو ہزاروں سدوزئیوں نے بھی پلندری سے بارل کی طرف رخ کیا ایسے حالات دیکھتے ہوئے راجا پونچھ حیران رہ گیا کیونکہ کہا راجا پونچھ کی معمولی سی پانچ سو افراد کی فوج اور کہاں دوسری طرف ہزاروں مسلح افراد اسی لیے راجا پونچھ نے بڑی دانشمندی سے کام لیتے ہوئے سدوزئیوں کو مخاطب کیا کہ میں یہاں نہ آپ سے لڑنے آیا ھوں نہ ہی کوئی اور مطالبہ لے کر آیا ہوں بلکہ میں تو راجا جہلم کی ایک مہم پر جا رہا ہوں اس لیے اگر آپ نے کسی غلط اطلاع پر مجھ سے کوئی ایسا ویسا سلوک کیا تو سدھنوتی کو راجا جہلم کے اتحادی کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں لہٰذا مجھے جہلم جانے کا راستہ دیا جائے چنانچہ سدوزئیوں نے بھی راجا پونچھ کو جہلم جانے کے لیے راستہ فراہم کر دیا یوں راجا پونچھ کی اس لڑائی کا اختتام زبانی جمع خرچ پر ہوا اس کے بعد راجا پونچھ نے بڑی شاطرانہ چال چل کر سدھنوتی کے کئی بڑے خانوں کی دعوتیں کی پھر دوستیاں قائم کر کے خانوں کو ہزاروں روپے قرضے دے دے کر ہر سدھنوتی کے گاؤں گاؤں میں ایک ایک خان کو چالیس پچاس مسلح افراد کا سربراہ بنا کر ان سے معاہدے کیے کہ خان اپنے اپنے گاؤں کا مالیہ انتظامی امورات کے نام پر لیں جس کے بدلے راجا پونچھ سدھنوتی کے تمام خانوں کو ہر ممکن مالی مدد کی فراہمی کرے گا مگر اس مالیہ سے سدھنوتی کے خان سو میں آٹھ روپے راجا پونچھ کو دیں گے یوں سدھنوتی کے بڑے بڑے خانوں نے راجا پونچھ کی سازشوں میں آ کر 1866 سے سدھنوتی کے خان اپنے اپنے گاؤں سے مالیہ وصول کرتے اور سو میں 8 روپے راجا پونچھ کو دیتے باقی خان خود اپنے لیے رکھتے اس کے علاوہ بھی خان راجا پونچھ سے اس اتحاد پر دیگر کئی مالی وسائل بھی لیتے رہتے دوسری طرف سدھنوتی کے عوام نے ان خانوں کے اس ظالمانہ نظام سے تنگ آ کر کئی افراد نے نقل مکانی تک کرنا شروع کر دی [32]

    سدھنوتی کی پونچھ سے علیحدگی ترمیم

    انگریزوں نے جب برصغیر کی زمینوں کی پیمائش شروع کی تو اس کی دیکھا دیکھی ریاست جموں کشمیر اور ریاست پونچھ نے بھی اپنی اپنی ریاستوں کی پیمائش کا بندوبست انگریزوں سے کرانا شروع کر دیا پہلے پہل ریاست جموں کشمیر نے اپنی ریاست کا پیمائش و بندوبست کرایا اس بندوبست میں ریاست جموں کشمیر کی زرعی و صحرائی جنگلات سمیت ساری زمینیں ریاست جموں کشمیر کے مہاراجا کے نام منتقل ہو گئی جبکہ عوام مالکان زمین سے ماہزین بن گے کیونکہ ڈوگرہ خاندان کا بیانیہ تھا کہ ہم نے کشمیر انگریزوں سے پیسے دے کر خریدا ہے لہذا جموں کشمیر کی ساری زمین بھی ہماری ہیں جبکہ ریاست پونچھ کا بیانیہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا اسی لیے ریاست پونچھ نے بھی پونچھ کی پیمائش و بندوبست میں ریاست پونچھ کی زمینیں راجا پونچھ کے نام منتقل کرانا شروع کر دی مگر جب انگریز افسر ریاست پونچھ کی زمینیں پیمائش و بندوبست کرتے کرتے سدوزئ علاقہ جات میں داخل ہوئے تو سدوزئیوں نے اپنی زمینیں پیمائش و بندوبست کرانے سے انکار کر دیا کیونکہ انھیں معلوم تھا پیمائش و بندوبست کے بعد سدوزئیوں کی زمینیں قانونی طور پر راجا پونچھ کے نام منتقل ہو جائیں گی اس لیے سدوزئ زمین کی پیمائش سدھنوتی میں روک کر بغاوت پہ اتر آئے راجا پونچھ نے ان حالات میں سدھنوتی کے کئی خانوں کو بڑی بڑی رشوتیں دینے کی آفر کی مگر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی چنانچہ ان ہی دنوں ان سدوزئ خانوں میں سے ایک خان بہادر علی خان سردار نے راجا پونچھ پر انگریزوں کی سب سے بڑی عدالت لاہور جسٹس کوٹ میں مقدمہ حقوق ملکیت ارضی بھی درج کرا دیا مقدمہ جسٹس کوٹ میں چلا جس میں راجا پونچھ نے ریاست پونچھ کے وہ تمام سرکاری دستاویزات جو سکھ خالصہ حکومت نے میاں دھیان سنگھ کو ریاست پونچھ بطور جاگیر دیتے وقت خالصہ حکومت سے فراہم کیے تھے وہ تمام سرکاری ریکارڈ لاہور جسٹس کوٹ میں پیش کیے جس میں ریاست پونچھ تو میاں دھیان سنگھ کے جانشینوں نام ثابت ہو گئی مگر راجا پونچھ ریاست سدھنوتی کو ریاست پونچھ کا حصہ ہونا ثابت نہیں کر سکے کیونکہ راجا پونچھ کو سکھ خالصہ نے 1819 میں ریاست پونچھ جاگیر الاٹ کیا تھا اور اس جاگیر کی تمام سرکاری دستاویزات راجا پونچھ کے پاس تھی جبکہ سدھنوتی سیکڑوں سالوں سے پونچھ سے الگ ایک ریاست تھی اسی لیے راجا پونچھ کے پاس سدھنوتی سے ایسا کوئی معاہدہ یا کوئی سرکاری دستاویزات نہیں تھی جو ریاست سدھنوتی کو پ ونچھ کا حصہ ثابت کر سکتی اس لیے راجا پونچھ مقدمہ ہار گیا جس کے بعد 1832ء سے پہلے والی ریاست سدھنوتی جس میں موجودہ ضلع سدھنوتی اور مکمل ضلع پونچھ نصف ضلع باغ اور کوٹلی، و حویلی، کے علاقے ملا کر 36 سو مربع کلومیٹر ریاست سدھنوتی کی حدود سدوزئ سردار نوازش علی خان کی سربراہی میں انگریز وفد نے ریاست پونچھ سے جدا کی اس کے بعد پیمائش ارض سدھنوتی کا بندوبست سدھنوتی کی عوام کے نام منتقل کیا گیا جبکہ باقی پونچھ جاگیر کی زمینیں راجا پونچھ کے نام ہی 1940 تک رہی جبکہ انگریز حکومت ہند کے جسٹس کوٹ کے فیصلہ حقوق ملکت ارضی 1906 کے بعد سدھنوتی قانونی و آئینی لہٰذ سے پونچھ سے علاحدہ ریاست تسلیم کیا گیا [33]

    دوسری سدھن بغاوت ترمیم

    1940 میں ریاست جموں کشمیر نے ریاست پونچھ پر قبضہ کر لیا جس کے بعد سدھنوتی بھی پونچھ کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کے زیر تسلسل آ گئی اس پہلے پونچھ و سدھنوتی کی تحریک آزادی سدوزئیوں نے راجا پونچھ کے ساتھ مل کر چلائی مگر ریاست جموں کشمیر انگریز حکومت ہند کے معاہدہ امرتسر جس آرٹیکل 8 کے تحت ریاست جموں کشمیر کے خلاف اندرونی یا بیرونی کسی بھی حملہ آور کا دفاع انگریز حکومت کی ذمہ تھا نے آزادی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کی حکومت کا سوج غروب نہیں ہوتا تھا تقریبا نصف دنیا پر اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی اس لیے کسی ایک قبائل کے چند ہزار افراد کا انگریزوں سے مقابلہ ناممکن تھا اس لیے سدوزئیوں کی تحریک آزادی وقتی طور پر دب کر رہ گئی مگر قدرت خدا 18 جون 1947ء کو آئین تقسیم ہند کے ساتھ ہی انگریزوں کے تمام معاہدات جو برصغیر کی دیسی ریاستوں کے ساتھ انگریز حکومت ہند نے کیے تھے وہ ختم ہو گئے چنانچہ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سدوزئیوں کے ایک خان سردار ابراہیم خان نے پہلے پہل قرارداد الحاق پاکستان مہاراجا کشمیر کے جموں راج محل پیش کی مگر مہاراجا کشمیر نے الحاق پاکستان سے انکار کر دیا تو سدوزئیوں نے مہاراجا کشمیر سے بغاوت اختیار کر لی جو کامیاب ثابت ہوئی کیونکہ سدوزئیوں کی بغاوت کے چند دنوں بعد ہی سدوزئیوں نے سدھنوتی کو ریاست جموں کشمیر سے آزاد کرا کر 4 اکتوبر 1947ء سدھنوتی چنچل ہل کے مقام پر اپنی باغی حکومت کا اعلان کر دیا[34][35]اس بغاوت میں 3280 سدوزئ مارے گئے چھ ہزار دو زخمی یا ناکارہ ہوئے مگر اس کے باوجود 13 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ڈوگرہ اور بھارتی تسلسل سے آزاد کرا لیا [36]

    حوالہ جات ترمیم

    1. Pirzada Irshad Ahmad (2003)۔ A Hand Book on Azad Jammu & Kashmir (بزبان انگریزی)۔ Nawa Sons Publication۔ ISBN 978-969-530-050-3 [مردہ ربط]
    2. سدھنوتی کی وجہ تسمیہ جانے کے لیے ہندوستان کی پہلی مردم شماری 1881ء سے حاصل کردہ رپورٹ لیفٹیننٹ کرنل جے ایم وکلے کی کتب پنجابی مسلم کے اس لنک کو اوپن کریں https://books.google.com.sa/books?redir_esc=y&id=4MMGAQAAIAAJ&dq=book+punjabi+muslim&focus=searchwithinvolume&q=Sudhan+
    3. J. M. Wikeley (1991)۔ Punjabi Musalmans (بزبان انگریزی)۔ Manohar۔ ISBN 978-81-85425-35-1 
    4. رشید بلوچ، غزنی سے کشمیر تک، ص 46
    5. ‪ نواب جسی خان کی آمد سے لے کر اٹھارویں صدی تک سدھنوتی حکومت قائم رہی اس سے پہلے جتنے بھی بیرونی حملے ہوئے سدھنتی میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاریخ کشمیر ملک فتح https://drive.google.com/file/d/1IYGh1Cg-B1pY8D8YD3eYD0j6RZ5aSVUX/view?usp=drivesdk
    6. ‪ سدھنوتی کا تاریخی پس منظر / سمیط سدوزئ صفحہ 113 https://drive.google.com/file/d/1V7I43pt95svWhcLn1YVtg8Ky7IGVCGVb/view?usp=drivesdk
    7. تاریخ ڈوگرہ دیش ‪ سدوزئیوں کی سدھنوتی میں حکومت صفحہ 342 https://www.google.com.sa/books/edition/T%C4%81r%C4%ABkh_i_%E1%B8%8Cograh_des/BkVXAAAAMAAJ?hl=ur&gl=SA
    8. name="SUDHAN">{{cite book|author1=J. M. Wikeley|title=Punjabi Musalmaans|url=https://books.google.be/books?redir_esc=y&hl=nl&id=lig-AAAAMAAJ&focus=searchwithinvolume&q=
    9. سدھنوتی کی وجہ تسمیہ جانے کے لیے ہندوستان کی پہلی مردم شماری 1881ء سے حاصل کردہ رپورٹ لیفٹیننٹ کرنل جے ایم وکلے کی کتب پنجابی مسلم کے اس لنک کو اوپن کریں https://books.google.com.sa/books?redir_esc=y&id=4MMGAQAAIAAJ&dq=book+punjabi+muslim&focus=searchwithinvolume&q=Sudhan+
    10. محمد دین فوق /تاریخ اقوام پونچھ
    11. پروفیسر عاظم مختار /پہاڑی ریاستیں
    12. J. M. Wikeley (1991)۔ Punjabi Musalmans (بزبان انگریزی)۔ Manohar۔ ISBN 978-81-85425-35-1 
    13. Sudhir S. Bloeria (2000)۔ Pakistan's Insurgency Vs India's Security: Tackling Militancy in Kashmir (بزبان انگریزی)۔ Manas Publications۔ ISBN 978-81-7049-116-3 
    14. نمبردارفضلالہی ، تاریخ سرداران سدھنوتی،
    15. صوفی اقبال درویش، تاریخ سدھنوتی ،
    16. Christopher Snedden (2015)۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India۔ ISBN 9781849043427 
    17. تاریخ سدھنوتی، یوسف خان آباخیل سدوزئی
    18. اقبال درویش، پہاڑی چکی نامہ لوگ گیت ،،
    19. سید بشیر حسین جعفری، تاریخ سدھن سدوزئ ریاست جموں کشمیر
    20. عارف سدوزئ، تاریخ سدھ ن سدھن قبائل،
    21. Khan Sardar MuhammadIbrahim (1990)۔ The Kashmir Saga۔ Verinag۔ صفحہ: 17 and 78 [مردہ ربط]
    22. http://www.pbase.com/hgharib/yaadgar
    23. Diwan Kirpa Ram (1977)۔ Gulabnama of Diwan Kirpa Ram۔ Light & Life Publishers۔ صفحہ: 161 [مردہ ربط]
    24. صابر حسین صابر، سمیط سدوزئی،
    25. Iffat Malik (2002)، "Jammu Province"، Kashmir: Ethnic Conflict International Dispute، Oxford University Press، صفحہ: 62، ISBN 978-0-19-579622-3، The Sudhans claim their origin from Afghanistan and they consider themselves to be descendants of a common ancestor Jassi Khan, 
    26. Pizada Irshad Ahmad (2003)۔ A Hand Book on Azad Jammu & Kashmir۔ Nawab Sons Publication۔ صفحہ: 152۔ ISBN 9789695300503 
    27. Manohar Lal Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ Kashmir History۔ صفحہ: 52  النص "location" تم تجاهله (معاونت)
    28. Manohar Lal Kapur، Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 52 
    29. Arjun Nath Sapru (1931)۔ The Building of the Jammu and Kashmir State۔ India۔ صفحہ: 5 
    30. Muhammad Yusuf Saraf (1977)۔ Kashmiris Fight for Freedom۔ India: Ferozsons۔ صفحہ: 88 
    31. محمد دین فوق، تاریخ اقوام پونچھ،
    32. سید محمودآزاد، تاریخ پونچھ،
    33. Lahore High Court، 1906 ، ص 46
    34. Manohar Lal Kapur، Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 52 
    35. Arjun Nath Sapru (1931)۔ The Building of the Jammu and Kashmir State۔ India۔ صفحہ: 5 
    36. Em. Naẕīr Aḥmad Tishnah، چنار کشمیر، ص