پشتون

ایرانی نسلی گروہ جو افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں
(پٹھان سے رجوع مکرر)

پشتون یا پختون (فارسی: پشتون اردو:پٹھان، ہندی: पश्तून) ایک ہندوکش پامیر اور سلیمان کوہ میں رہنے والہ نسلی گروہ ہے جو زیادہ تر پاکستان اور افغانستان میں آباد ہیں۔ اکثریتی زبان پشتو ہے اور اردو، دری اور انگریزی کو بطور دوم زبان استعال کرتے ہیں۔

Pashtun
پښتانہ
Paṣ̌tun
کل آبادی
(ت 120  ملین (2023)[1])
گنجان آبادی والے علاقے
 پاکستان70,342,892 (2023)[2]
 افغانستان25,776,369 (2023)[3]
 بھارت31,000,000[4]
 متحدہ عرب امارات578,315 (2021)[5]
 ریاستہائے متحدہ538,554 (2021) (Estimate)[6]
 ایران110,000 (1993)[7]
 مملکت متحدہ200,000 (2015)[8]
 جرمنی150,800 (2021[9]
 کینیڈا60,590 (2018)[10]
 روس19,800 (2015)[11]
 آسٹریلیا81,154 (2021)[12]
 ملائیشیا5,500 (2008)
 تاجکستان4,000 (1970)[7]
زبانیں
پشتو
اردو، دری اور انگریزی دوسری زبان
مذہب
اسلام (اہل سنت حنفی)
اور اہل تشیع اقلیت (وھابی یا اہل حدیث اقلیت]])

پس منظر

ترمیم

پشتون کی اصلاح عموماً پٹھان اور افغان عموماً پشتو بولنے والے قبائل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بعض اوقات پٹھانوں اور افغانوں کے درمیان میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ افغان کی اصطلاح درانیوں اور ان متعلقہ قبائل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن یہ محض نام کا فرق ہے۔ یعنی ایرانی نام افغان قدرتی طور پر مغربی قبائل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پھٹان کا اطلاق جو مقامی نام کی بدلی ہوئی ہندی شکل ہے اور مشرقی قبائل پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پشتون سے مراد پشتو بولنے والا اور پشتون دستور پر عمل کرنے والے کے ہیں۔

محل وقوع

ترمیم

افغانستان میں دوسری نسلی اور لسانی وحدتیں بھی آباد ہیں، مگر نصف کے قریب پشتون آباد ہیں۔ ان کی اکثریت جنوبی و مشرقی افغانستان میں جلال آباد کے شمال سے قندھار اور وہاں سے مغرب کی جانب سبزوار کے علاقے میں آباد ہے۔ کابل و غزنی کے علاقے میں یہ زیادہ تر فارسی بولتے ہیں۔ اس طرح شمال و مغربی افغانستان بھی پشتون قبائل آباد ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں اکثر باشندے پشتون ہیں جو دیر و سوات سے جنوب کی جانب اور مشرق میں سبی تک جنوب و مشرق میں مستونگ تک ان کی آبادیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تقریباًً تمام افغانستان میں آباد ہیں اور اس وقت ان کی سب سے بڑی تعداد کراچی میں آباد ہے جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ پچیس سے تیس لاکھ پشتون آباد ہیں۔ جب کہ ان کی ایک بڑی تعداد بھارت اور دوسرے ملکوں میں بھی آباد ہے۔

پشتون قبائل کی جغرافیائی تقسیم

ترمیم

خلجی (غلزئی)زمین داور سے جلال آباد قندھار غزنی قلات اور کویٹہ کے جنوب و مشرقی علاقہ تک آباد ہیں۔ ان کی شاخوں میں لیلیزیئ بہ شمولیت بدن خیل سلیمان خیل خروٹی اور شبیخیل ہیں۔ خلجیوں کے بعد طاقت ور قبیلہ درانی ہے۔ اچکزیئ ان کی شاخ تھی، اب ان کی اہم شاخ پوپلزیئ ہے۔ بارکزیئ درانئ کے قریب صوابی خاص میں بارکزئی قبیلہ آباد ہیں۔ یہ قندہار سے چمن تک آباد ہیں۔ کاکڑ اور ترین بلوچستان کے اضلاع پشین اور ژوب کی طرف آباد ہیں۔ سبی کے پنی ان کے ہمسائے ہیں۔ ژوب کے شمال مغرب میں تخت سلیمان کے آس پاس شیرانی قبائل اباد ہیں۔ وزیری جو درویش خیل اور محسود میں تقسیم ہیں دریائے گومل اور دریائے کرم کے درمیانی کوہستانی علاقہ سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں۔ مشرقی جانب کی پہاڑیوں میں بٹانی اور لوہانی ملتے ہیں۔ کُروم زرین کے جنوب میں جو میدان ہیں ان میں مروت بستے ہیں۔ وادی ٹوچی میں دوری اور بنوچی آباد ہیں۔ خٹک کوہاٹ کے میدانوں میں بسے ہوئے ہیں اور ان سلسلہ آبادی اٹک تک جاتا ہے۔ دریائے کرم کی بالائی وادی میں بنگش، شیعہ توری خیل اور دیگر قبائل پائے جاتے ہیں اور سرحد کے پار افغانستان کی جانب جاجی اپنے ہمسایہ منگل اور خوست وال کے ساتھ آباد ہیں بنگش کے شمال میں اورک زئی بستے ہیں تیراہ اور خیبر و کوہاٹ کے دونوں جانب آفریدی اور ان کے شمال میں شنواری آباد ہیں۔ دریائے کابل کے شمال میں ضلع پشاور اور افغانستان دونوں طرف مہمند برائے جمان ہیں اور ضلع پشاور کے خلیل ان کے رشتہ دار ہیں۔ مہمند کے مشرق میں پشاور کے علاقے اور شمال کے پہاڑوں (بنیر، سوات، دیر وغیرہ) کے علاوہ سوات اور تانگیر کے درمیان میں واقع کوہستانی علاقے میں یوسف زئی اور ان کے حلیف منداں وغیرہ آباد ہیں۔ جو داردیوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اور اپنے اندر ملاتے چلے جا رہے ہیں۔ انھیں سواتی کہا جاتا ہے اور یہ مخلوط نسل کے لوگ ہیں۔ جنہیں یوسف زئیوں نے دریائے سندھ کے پار ہزارہ میں دھکیل دیا ہے۔ وادی کنڑ اور افغانستان کے دوسرے شمالی و مشرقی حصوں میں صافی پائے جاتے ہیں۔

پشتون

ترمیم

پشتون کی جمع پشتانہ یا پختانہ ہے، (شمال مشرق کی بولی میں پختون) لیسن نے اور اس تبع میں بعض اور لوگوں نے پشتون کا موازنہ ہیروڈوٹیس کے پکھتولیس Paktolies سے کیا ہے۔ یہ شناخت ممکن صحیح ہو اگرچہ یقینی نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کو صوتی اور یگر وجوہ کی بنا پر رد کردینا لازم ہے۔ آخر جز ’اون‘ آنہ سے مشتق ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ زمانہ قدیم کا صوتی مرکب جس کے نتیجے میں پشتو کا شت وجود میں آیا ہے۔ (بعد کی بولی میں خت) یونانی حروف سے ادا کیا گیا ہو۔ زیادہ قرین قیاس بات وہ ہے جو سب سے پہلے ماکوارٹ نے کہی تھی کہ اس نام کا تعلق بطلمیوس کے پارو فامیس کوہ بابا یا کوہ سفید میں آباد ایک قبیلہ پرسوا سے ہو۔ پشتو کا رس زمانہ قدیم کے رس سے مشتق ہو سکتا ہے اور غالباً اس کی قدیم شکل پرسوانہ تھی۔ مگر اس سے لازم نہیں آتا ہے کہ ان زیر بحث ایرانی قبیلوں کے درمیان میں کوئی رشتہ تھا۔ ہیروڈوٹسHerodatieis کے پکھتولیس اور بطلمیوس کے پرسوا سے پشتون سے تعلق اور اس کی تبدیلیوں کے بارے میں تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ یونانی عموماً ناموں کو بگاڑ کرکے لکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے ہم اس کی حقیقت کے لیے دارا اول کے کتبہ بہستون سے مدد لے سکتے ہیں۔ غالب امکان یہ ہے کہ ہیروڈوٹس کے پکتھولیسPaktolies کو باختر یا باختریا & Bectaria Bectar جس کو دارا کے کتبے میں باختریش Bectarishکہا گیا ہے اور ہیروڈوٹس Herodatieis نے اس کا پختولیس Paktolies کے نام سے تذکرہ کیا ہے۔ تاہم بعد کے یونانی ماخذوں میں اس کا تذکرہ باکترا Baktra کے نام سے ملتا ہے اور اس کے لیے رگ وید Reg Veda میں پکھتا اور پکتھ اور اوستا Avesta میں اس کا نام بختہ اور بخت آیا ہے۔ اس کے لیے رگ وید میں پکھتا اور پکھت کے علاوہ اوستا میں بختہ بخت آیا ہے۔ نہ کہ اس سے مراد کسی خاص قبیلے یا گروہ سے ہے۔ جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اس طرح رگ وید میں آنے والا کلمہ بلہہ یا بلہکا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد بلخ ہے۔ تاہم یہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اس وقت تک بلخ وجود میں نہیں آیا تھا۔ یونانی ماخذوں میں باختریہ کا نام باکتر اBaktra ملتا ہے۔ جب کہ بلخ کاتذکرہ یونانییوں کے یہاں بخپا Boxtapa کی شکل میں ملتا ہے تاہم سکندر کی مہموں میں بلخ کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ غالباً اس وقت تک یہاں کوئی شہر وجود میں نہیں آیا تھا۔ بالہک یا بالہق آریائی زبان کا کلمہ ہے۔ اس کے معنی شہر کے ہیں۔ یہ ترکوں میں ’گوا بالق‘ یعنی خوبصورت شہر۔ غز بلیغ، قر بالیغ، قربلیق، غور بالیغ آیا ہے۔ مرکورٹ نے ’غز بالیغ‘ یعنی ترکوں کا شہر کوصیح تسلیم کیا ہے۔ غزبالیق ان کی دستاویزوں میں ملتا ہے جو قرہ خانی خاندان کے متعلق ہیں۔ صدیوں کے بعد منگولوں نے ’خان بالہق‘ یعنی خان کا شہر کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ رگ وید میں آنے والا کلمہ بلہہ اور بلہکا سے مراد شہر کے ہیں نہ کہ کسی خاص شہر سے ہے۔ کیوں کہ رگ ویداور اوستا کی تدوین کے سیکڑوں سال بعد بلخ شہر وجود میں آیا ہے۔ اگر بلخ آریاؤں کے دور میں آباد ہوتا تو سکندر کی مہموں میں اس کا تذکرہ ضرور ملتا۔

بلخ کا سب سے پہلا تذکرہ یونانی نوآبادی کی حثیت سے یونانی سردار ڈیوٹس کی بغاوت کے دوران میں سنے کو ملتا ہے۔ یونانی نو آبادی سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ یونانیوں نے آباد کیا ہو۔ مگر نام سے اندازہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسے مقامی باشندوں نے آباد کیا تھا اور بعد میں یونانیوں نے اسے اپنا مستقرر بنا لیا ہو اور مقامی باشندے اس کو بالق یا بالغ یعنی کے شہر کے نام سے پکارتے ہوں گے۔ اس لیے یونانوں نے بخپا کہا ہے جو رفتہ رفتہ بلخ میں بدل گیا۔

قدیم زبانیں ابتدا میں آرامی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں۔ بعد میں اس رسم الخط میں ترمیم کرکے مقامی رسم الخط ترتیب دیے گئے۔ سامی رسم الخط میں ’پ‘ نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے عہد قدیم میں ’ب‘ اور ’پ‘ کی تمیز نہیں رکھی جاتی تھی اور مختلف کلموں میں ’ب‘ اور ’پ‘ متبادل استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ’اسب۔ اسپ‘، ’دبیر۔ دپیر‘ تب۔ تپ‘ وغیرہ ہیں۔ علاوہ ازیں پ / ب دو لبی صوتے ہیں، اس لیے ماہرین لسانیات ان کو ایک سلسلے کے صوتے تسلیم کرتے ہیں اور یہ ترتیب پاننی اور دوسرے قدیم ماہرین لسانیات سے لے کر آج دور جدید کی تحریروں میں قائم ہے۔

سنسکرت میں ’خ‘ کا حروف نہیں ہے اور یہ سنسکرت میں ’کھ‘ میں بدل جاتا ہے۔ یعنی ’ک اور خ‘ کے بین اس کی آواز ہے۔ اس لیے رگ وید میں یہ کلمہ پکھتا پکھت آئے ہیں۔ جب کہ یہ کلمات اوستا میں بخت اور بختہ آئے ہیں جو باختریہ کے ہی ہند آریائی اور ایرانی دو مختلف لہجے ہیں۔ قدیم یونانی میں ’خ‘ کے لیے X استعمال ہوتا تھا۔ جو اب ’ک اور س‘ کی درمیانی آواز دیتا ہے۔ اس لیے ہیروڈوٹس نے پکھت یا پکتھ (باختریہ) کے لیے یونانی تلفظ میں پکھتولیس سے ادائیگی کی تھی۔

رگ وید میں ’داش راجیہ‘ کے نام سے دس بادشاہوں کی لڑائی کا ذکر آیا ہے۔ یہ ایک بڑی جنگ تھی جس میں ’بھرت‘ قبیلہ کے خلاف دس قبائل نے متحدہ ہو کر جنگ لڑی۔ جس میں سیاسی اقتدار کا فیصلہ بھرت کے حق میں ہوا اور قبائلی اتحاد کو شکست ہوئی۔ ان دس شکست خوردہ قبیلوں میں ایک پکھتا بھی تھا جو دریائے کروُمو (کرم) کے منبع کے علاقہ میں رہتا ہے۔ اس پکھت کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پختون یا پٹھان ہیں۔ مگر یہ گمان غلط ہے۔ یہ قبیلہ باختریہ کے علاقہ سے تعلق رکھتا ہو اس نسبتی کلمہ مطلب ہے باختروی ہے۔ قرین ترین قیاس یہی ہے کہ کلمہ پشتون، پختون ’پار تو‘ جو داراکے کتبہ میں پارتھیا کے ’رت‘ سے پشتون کا شت وجود میں آیا ہے۔

قدیم ایرانی زبانوں میں بعض اوقت ’ر‘ کی جگہ ’ش یا س یا چ‘ استعما، ہوتا تھا اور یہ تینوں حروف ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوئے ہیں۔

پشتون

ترمیم

پشتون کی جمع پشتانہ یا پختانہ ہے، (شمال مشرق کی بولی میں پختون) لیسن نے اور اس تبع میں بعض اور لوگوں پشتون قیس عبدالرشیدکے اولاد میں سے ہیں۔

پٹھان

ترمیم

یہ اصطلاح عام طور پر شمالی مغربی اور بلو چستان کے پشتو بولنے والے قبائل کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ مگر پشتون مورخین کا دعویٰ ہے پٹھان ہیں اور صرف قیس عبد الرشید کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہی پٹھان ہیں، مزید ان کا کہنا ہے کہ قیس عبد الرشید کو اس کی بہادری پر حضور ﷺ نے اس کی بہادری سے خوش ہوکر پٹھان کا خطاب دیا تھا۔ مگر اسماء رجال کی کتابوں اور شرح صحابہ کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ فرشتہ کا کہنا ہے کہ افغانوں کو پٹھان اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے پہل سلاطین کے عہد میں ہندوستان آئے تو یہ پٹنہ میں مقیم ہو گئے تو اہل ہند انھیں پٹھان کہنے لگے۔ مگر یہ بیانات ہیں موضع اور تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں اس لیے ان کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

پروفیسر احمد حسین دانی کا کہنا ہے کہ افغان اور پٹھان میں امتیاز نہ پٹھانوں کے نذدیک صحیح ہے اور نہ ہی تاریخی طور پر درست۔ سولویں صدی سے پہلے یہ کلمہ کسی کتاب میں نہیں ملتا ہے۔ لیکن ٹھ کا استعمال بتاتا کہ یہ ہند آریائی کلمہ ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ کلمہ دو لفظوں پارت + استھان = پارٹھان سے مل کر بنا ہے۔ یعنی اس کی ابتدائی شکل پارٹھان ہوگی۔ پارت قدیم زمانی میں موجودہ خراسان کو بولتے تھے اور استھان ہند آریائی کلمہ ہے، جس کے معنی جگہ یا ٹھکانے کے ہیں۔ پارتھی جنھوں نے قدیم زمانے میں شمالی برصغیر کو پنے قبضہ میں کر لیا تھا اور انھوں نے ستھیوں کے ساتھ مل کر شمالی ہندمیں نیم آزاد حکومتیں (سٹراپی) قائم کیں تھیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ کلمہ پٹھان پارٹھان یا پارتھان سے بنا ہے اور اس کلمہ میں تکرار سے ’ر‘ خارج ہو گیا، اس طرح یہ پٹھان بن گیا۔

اکثر زبانوں میں ’ر‘ خارج ہوجاتا ہے اور اس کا کوئی قائدہ متعین نہیں ہے۔ مثلاً آذری زبان میں فعل کے صعیفے، جمع، مخاطب اور صیفعہ غائب میں ہمیشہ ’ر‘ گر جاتا ہے۔ مثلاً Dir کی جگہ Di بولا جاتا ہے۔ اس طرح سنسکرت میں بھی بعض اوقات ’ر‘ گر جاتا ہے مہا بھارت میں کوہ آبو کا نام ’آربو‘ اور ’اربد‘ آیا ہے۔ اشکانی کے بانی کا نام ارشک تھا اور اس کے نام سے یہ خاندان اشکانی مشہور ہوا۔ اس میں سے بھی ’ر‘ خارج ہو گیا۔ خود پشتو میں ’لڑکے‘ کو ’ر‘ خارج کر ’لکا‘ کہتے ہیں۔

پارتی آریائی تھے اس لیے ایرانیوں اور برصغیر کے باشندوں کے ہم نسل تھے، اس لیے ان کا مذہب اور زبان تقریباًً ایک تھی۔ صرف لہجہ کا فرق تھا کیوں کہ قدیم ایرانی کے غیر کشیدہ حروف صیح میں بدل گئے۔ اس پارتھی سے پارتی، پارتھ سے پارت اور پارتھیا سے پارتیا کہلانے لگے جبکہ یہ جگھڑالو حروف ہند آریائی میں بدستور استعمال ہوتے رہے بلکہ ان کی بندشیں بڑھ گئیں۔ بھارت ہندو دیوملائی ہیرو تھا جس کے نام پر اس ملک کا نام رکھا گیا ہے۔ رگ ویدمیں بھارت قبیلے کا ذکر ملتا ہے، جو سروتی و جمنا کے کنارے آباد ہوا تھا۔ ان بندشوں کے بڑھ جانے سے پارت ہی بھارت ہو گیا۔ اس طرح بالاالذکر کلمات بھٹی، بھاٹی، بھٹ، بھٹہ اور بھٹو میں تبدیل ہو گئے۔ ان سب کلمات کی اصل ایک ہی ہے۔

پ / پھ / ب / بھ دو لبی صوتے ہیں اور یہ سب مسودے ہیں، اس لیے ماہرین لسانیات ان کو ایک سلسلے کے صوتے تسلیم کرتے ہیں اور یہ ترتیب پاننی اور دوسرے قدیم ماہرین لسانیات سے لے کر آج دور جدید کی تحریروں میں قائم ہے۔ یہی وجہ ہے آج بھی پنجابی میں بھائی کو پرا اور بھابی کو پابی کہا جاتا ہے۔ جب کہ سنسکرت میں بھائی، بھرائی کہلاتا ہے۔ بٹ ایک کشمیری قبیلہ ہے اور ہند آریائی میں یہ بھٹ کہلاتا ہے۔ نام نہاد قیس عبد الرشید کا نام نہاد لڑکا بٹن جس کاایک تلفظ بطان بتایا جاتا ہے۔

  • پشتون (پختون)

پشتون کی جمع پشتانہ یا پختانہ ہے، (شمال مشرق کی بولی میں پختون) لیسن نے اور اس تبع میں بعض اور لوگوں پشتون قیس عبدالرشیدکے اولاد میں سے ہیں۔

اورتمام پشتون مسلمان ھیں_ شھیدخان میانی مجاھد

پشتون روایت

ترمیم

پشتون روایات کا اہم ماخذ نعمت اللہ ہراتی کی مخزن افغانی ہے۔ اس کتاب میں جو نسب نامے دیے گئے ہیں وہ تاریخی ماخذ کے طور پر قابل اعتماد نہیں ہیں۔ تاہم ان روایتوں کے سلسلے میں جو سترھویں صدی میں افغانوں میں پھیلی ہوئی تھیں قابل قدر ہے۔ ان روایات کے مطابق بیشتر افغانوں کا مورث اعلیٰ قیس عبد الرشید جو ساول یا طالوت کے ایک پوتے افغانہ کی نسل سے تھا۔ ان روایات کے مطابق پشتونوں کا مورث اعلیٰ قیس عبد الرشید حضرت خالد بن ولید کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تھا اور اس قیس کے تین بیٹے سربن یا سرابند، بُٹن یا بَٹن اور گرگشت یا غرغشت تھے۔ سرابند کے دو بیٹے شرخبون اور خرشبون تھے۔ زیادہ تر افغان قبائیل ان کی اولاد ہیں۔ باقی ماندہ قبائیل کڑلان کی نسل سے بتائے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے مصنف کو کڑرانی گروہ کے قبائیل کا علم نہیں تھا۔ اس لیے کڑلانی گروہ کے قبائیل کو صراحۃً پشتون تسلیم کیا جاتا ہے۔

یورپی محقیقین نے پشتونوں کے دعویٰ کی تائید میں چند رسومات کو پیش کیا ہے جو بنی اسرائیل میں بھی مروج تھیں۔ مگر ہم چند رسومات کی بنا پر افغانوں کو بنی اسرائیل نہیں ٹہراسکتے ہیں۔ جب کہ افغانوں میں یہ رسومات عام بھی نہیں ہیں۔ پشتونوں کی یہ نام نہاد رسومات تو آریائی قوموں میں بھی پائی جاتی ہیں۔

بیوا کی شادی دیور سے کرنے کا جٹوں میں رواج ہے۔ اس طرح ادلہ بدلہ اور لڑکی کے پسے لینا برصغیر کی دوسری اقوام بھی رواج ہے، ہندو سے مسلمان ہونے والی قوموں میں اس کا عام رواج ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً راجپوتوں میں یہ غیرت کا مسلۂ ہوتا ہے، جب کہ دوسری اقوام میں جائداد کا بٹوارہ اور جاٹوں میں یہ ادلہ بدلہ ہوتی ہیں۔

جنرل جارج میکمن کا کہنا ہے کہ پنجاب کے مسلمان راجپوتوں کے خصاص کا مقابلہ اگر پٹھانوں سے کیا جائے تو کچھ زیادہ فرق نہیں آتا ہے، ماسوائے پہاڑی ماحول کا اثر ہے اور دوسری طرف پنجاب کے میدانوں میں ایک منضبط زندگی ہے۔ پشتونوں کے نام زیادہ تر یہودانہ ہیں لیکن یہ بات شاید دوسرے مسلمانوں پر بھی صادق آتی ہے۔

جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں بحیرہ خزر سے لے کر گنگا کے کنارے ایک ہی قوم یادو یا جادو آباد تھے اور ان کی اصل اندوسیتھک ہے۔ ان یادو کی نسبت سے پشتونوں کو یہ گمان ہوا کہ وہ یہود النسل ہیں۔

پشتون نسل

ترمیم

مختلف پشتون قبائل نسلاً ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ B S Guha کے بیان کے مطابق باجوڑ کے پشتوں چترال کے کاشوں سے قریبی رشتہ رکھتے ہیں۔ غالباً اس لیے وہ افغانوں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان چوڑے سر والے پشتون اپنے بلوچ ہمسائیوں سے ملتے جلتے ہیں۔ پشاور اور ڈیرہ جات کے میدانی علاقہ میں کس قدر ہندی خون کی آمزش ہے اور بعض قبائل میں ترک منگول اثر کی علاماتیں پائی جاتی ہیں، لیکن عام طور پر کہا جا سکتا ہے پشتون بحیرہ روم کی لمبوتری کھوپڑی والی ایرانی افغانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ناک اکثر خم دار کھڑی ہوتی ہے جو سامیوں سے مخصوس سمجھی جاتی ہے۔ اس قسم کی ناک بلوچوں اور کشمیریوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ پشتونوں کے بال عموماً سیاہ ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی مستقل ایک اقلیت بھورے یا سنہرے بالوں۔ اس سے ان میں شمالی نارڈی Nordic خون کی آمزش ظاہر ہوتی ہے، ان کی ڈارھیاں گھنی ہوتی ہیں۔

آلف کیرو کا کہنا ہے کہ پشتونوں کی روایات چھٹی صدی قبل عیسوی میں بنی اسرائیل سے جلاوطنی سے شروع ہوتی ہیں۔ جو 559 ق م سائرس کی تخت نشینی کا سال تھا۔ اس خاندان کی حکومت 331 ق م میں سکندر نے ختم کردی تھی۔ اس دوران میں کی صدیوں میں افغانستان صوبہ سرحد اور پنجاب کا کچھ حصہ ایران کی سلطنت کا حصہ رہے اور ان اقوام پر ایرانی تاریخ و تہذیب کے اثرات اسلام کے اثرات سے گہرے اور پرانے ہیں۔

پشتون، ایرانیوں اور آریاؤں اور برصغیر کے ہم نسل ہیں یعنی آریا نسل۔ گو پشتون قبائیل ایک دوسرے سے مختلف ہیں تاہم تاہم ان میں اس کی وجہ دوسری نسلوں کا اختلاط ہے اور برصغیر کے آریاؤں کی نسبت ان میں میل کم ہوا ہے۔ جب کہ برصغیر کے باشندوں میں کثرت سے میل ہوا ہے، اس لیے یہ برصغیر کی آریا اقوام سے مختلف ہیں۔ تاہم یہ کشمیریوں اور راجپوتوں کی ان کی نسلی خصوصیات ملتی ہیں۔ ایران، افغانستان اور برصغیر کی اکثر اقوام کا تعلق مشترک نسلی سرچشمہ سے ہے جو اب علاحدہ علاحدہ نسلی تشخص کی دعویٰ دار ہیں۔ قدیم حملہ آوار اقوام جو اس علاقہ میں حملہ آور ہوئی اور پھر اس علاقہ میں آباد بھی ہوئیں لیکن اب ان کا نام ہی صرف تاریخ کے صفحوں پر رہے گیا ہے اور وہ بظاہر نست و نابود ہوگئیں ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ اقوام فنا نہیں ہوئیں ہیں بلکہ نئے ناموں کے ساتھ وجود میں آگئیں ہیں۔ اگرچہ وقت کے فاصلوں نے ان کے نام ہی مختلف نہیں کر دیے اور اب ان کی مذہبی اور لسانی صورتیں بھی بدل گئیں ہیں۔ کیوں جب مختلف نسلی اور لسانی گروہ کسی جغرافیائی خطہ میں آباد ہوتے تو رفتہ رفتہ ان کے مفادات بھی مشترک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ان کے صدیوں کے میل جول سے یک نسلی اور لسانی قوم وجود میں آگئی۔

برصغیر پر جو قومیں حملہ آور ہوئیں ان کی باقیات افغانستان میں بھی آباد ہوئیں۔ ان میں آریا سے لے کر ترکوں تک کی وہ تمام اقوام شامل ہیں۔ برصغیر کی آباد اقوام جن میں راجپوت، گوجر اور جاٹ وغیرہ اور دوسری اقوام کی باقیات افغانستان سے لے کر برصغیر میں آباد ہیں۔ اگرچہ الگ خطہ، الگ لسان، الگ ثقافت اور الگ مذہب اور صدیوں کی گرد نے ان کی شکل مختلف ہوگئیں ہیں۔ افغانوں کے وضح کیے ہوئے شجرہ نسب میں ان کے مورث قیس (کش) سربنی، بٹن، غرغشت، کڑران، خر، لو اور دوسرے ناموں کا تعلق بھی اور برصغیر کی روایتوں سے ہے۔ بیلیو کا کہنا ہے کہ پشتونوں کی تین شاخیں اپنے کو قیس کی اولاد بیان کرتے ہیں۔ ان کی ایک شاخ سرابند کے نام سے موسوم ہے۔ یہ کلمہ پشتو زبان میں اس نام کا ترجمہ ہے جو پرانے زمانے مین سورج بنسی کا نام تھا۔ اس طرح سربن کے لڑکے کرشیون، شرخیون اور اس کے پوتے شیورانی (شیرانی) کے نام راجپوتوں اور برہمنوں کے عام نام کرشن، سرجن اور شیورانی کی تبدیل شدہ صورتیں ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ پشتون یہودیوں کی نسبت راجپوتوں سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔

قومیت کی تشکیل

ترمیم

بارہویں صدی میں منگولوں کا حملہ قدتاً تبدیلوں کا سبب بنا۔ کیوں کہ اس حملے کی بدولت جہاں سیاسی تبدیلیاں واقع ہوئیں، وہیں یہ پشتون یا پٹھان قومیت کی تشکیل کا پیش خیمہ بنا۔ کیوں کہ منگولوں کے حملے کی باعث مقامی حکومتیں ختم ہوگیں اور مختلف نسلی گروہ منتشر ہو گئے اور وہ آپس میں اختلاف رکھنے کے باوجود قومی اور مقامی سطح پر اتحاد کے لیے مجبور ہو گئے۔ وہاں کے مختلف نسلی گروہ جو مسلمان ہو چکے تھے نے متحد ہو کر منگولوں کے خلاف مزاحمت کی۔ اس طرح قدرتاً منگولوں کا حملہ پشتونوں کی قومیت کی تشکیل کا سبب بنا۔ اس طرح مختلف نسلی اور لسانی گروہ جن کی روایات اور شناخت مختلف تھیں اس اتحاد کی بدولت مشترک ہوگئیں اور انھوں نے رفتہ رفتہ یک جدی یا پشتون کا روپ دھار لیا۔

افغانستان میں آباد ہونے والی اقوام مسلمان ہوگئیں۔ برصغیر میں آباد ہونے والے گروہ بت پرست ہونے کی وجہ سے باآسانی مقامی اقوام میں جذب ہوکر مقامی مذہبی اساطیر کا حصہ بن گئے اور اپنا نسلی تشخص کو بھلا اپنی نئی پہچان اپنا لی اور یہی کچھ پشتونوں نے کیا، انھوں نے مسلم روایات کو اپنایا اور ان سے نسلی تعلق برتری کے لیے مختلف دعویٰ کیے گئے ہیں اور ان کی صداقت کے لیے مختلف فسانے گھڑے گئے۔ مگر اس کے باوجود برصغیر میں آباد کی قوموں کی روایات پشتونوں کی روایات بہت ملتی ہیں اور ان کا مطالعہ کریں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا نسلی سرچشمہ ایک ہی ہیں۔

قبول اسلام

ترمیم

کیرو کا کہنا ہے کہ اس قوم پر ایرانی اثرات اسلام کے اثرات سے زیادہ گہرے اور پرانے ہیں۔ مزید اس کا کہنا ہے کہ سفید ہنوں کے خاتمہ اور محمود غزنوی کا زمانہ (چارسو سال) ایران کی مشرقی سرحد تاریخی لحاظ سے گمنام اور تاریک ہے۔ صرف چند سکوں سے کچھ حالات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ عرب چارسو سال تک افغانستان و گندھارا کو فتح نہیں کر سکے۔ جب کہ عرب مکمل طور پر کابل و غزنی کو مکمل طور پر فتح نہیں کرسکے اور وہ کوہ سلیمان تک تو بالکل پہنچ نہیں سکے۔ اسلام کی ابتدائی دو صدیوں میں عربوں کا اثر صرف سیستان تک رہا۔ وہ ہرات اور بست سے آگے مشرق کی طرف نہیں بڑھے۔ زاابلستان اور کابل پر بدستور ہندو شاہی حکومت کر رہے تھے۔ اس لیے گندھارا اور اس کی ملحقہ آبادی مسلمان نہیں تھی۔

پشتونوں نے چوتھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اسلام پہلی صدی ہجری بلکہ دور نبوت میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر یہ تمام روایات موضوع ہیں اور وضع کی گئیں ہیں۔ چوتھی صدی ہجری تک اس علاقہ میں مسلمانوں اور مقامی باشندوں میں لڑائیاں ہورہی تھیں۔ اس وقت زابل، کابل، بست جروم اور دوسرے علاقوں کے مقامی حکمران غیر مسلم تھے۔ ابن کثیر لکھتا ہے کہ افغانستان کے بڑے بڑے شہروں میں گو اسلام تھا، مگر خود پشتون ابھی تک مسلمان نہیں تھے اور کافر سمجھے جاتے تھے۔ یہ علاقہ صفاریوں کے دور میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئے تھے اور افغانستان کے اکثر قبائل محمود غزنوی کے دور میں مسلمان ہونا شروع ہوئے تھے۔ ابن حوقل چوتھی ہجری میں غور کے علاقے میں آیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ یہاں کچھ مسلمان پائے جاتے ہیں باقی کافر ہیں۔ محمود غزنوی نے غور پر حملہ کیا اور محمد بن سوری کو گرفتار کر کے لے جارہا تھا کہ اس نے راستے میں وفات پائی۔ العتبی اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ اپنے نام کے باوجود مسلمان نہیں تھا۔ حدود العالم میں ہے کہ یہ ہندو تھا۔ محمود غزنوی نے اس کے بیٹے ابو علی کوحکمران بنا دیا جو راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔ صاحب حدود العالم قندھار شہر کو برہمنوں اور بتوں کی جگہ، لمغان کو بت خانوں کا مرکز، بنیہار کو بت پرستوں کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس وقت بست، رخج اسلامی شہر تھے اور کابل کی نصف آبادی مسلمانوں کی اور نصف ہندوں کی تھی۔ الاصطخری غور کو دارلکفر قرار دیتا ہے جہاں مسلمان بھی رہتے ہیں۔ منہاج سراج لکھتا ہے کہ امیر سوری کے عہد میں بعض علاقے مثلاً ولشان بالا و زیر ابی شرف اسلام نہیں ہوئے تھے اور ان میں باہم جھگڑے ہونے لگے۔ صفاریوں نے نیمروز سے بست و زمند کا قصد کیا۔ یعقوب لیث نے تگین آباد (رخج) کے امیر لک لک (لویک) پر حملہ کر دیا۔ غوریوں کے مختلف گروہ سنگان کی سرحد پر پہنچ گئے (غالباً حملے کی وجہ سے) اور وہاں سلامت رہے۔ لیکن ان کی لڑائی جھگڑے جاری رہے اور یہ لڑائی اہل اسلام اور اہل شرک کے درمیان میں تھے۔ چنانچہ گاؤں گاؤں میں جنگ جاری تھی۔ چونکہ غور کے پہاڑ بہت اونچے تھے اس لیے کسی غیر کو ان پر تسلط پانے کا شرف نہیں ملا۔

البیرونی لکھتا ہے کہ ہندوستان کے مغربی کوہستان میں افغانستان میں افغانوں کی بہت سی قومیں رہاش پزیر ہیں اور وہ سندھ تک پھلی ہوئی ہیں۔ وہ ان کے متعلق لکھتا ہے کہ کہ جنگ جو وحشی قبائل ہندوستان کی سرحد سے کابل تک آباد ہیں اور یہ ہند المذہب ہیں۔ سبکتگین نے پہلے پہل کابل و گندھارا سے ہندوئں کو نکالنے کی کوشش کی۔ اس نے دو دفعہ جے پال کو لمغان اور ننگرباد میں شکست دی اور انھیں وادی کابل کے بالائی علاقے سے نکال باہر کیا اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے بھی خالی کرالیے، بلکہ ہندوستان پر بھی حملے کیے۔

غوری قبائل چوتھی صدی ہجری تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ محمود غزنوی کے دور سے پہلے تک اس اطراف میں نہ اسلامی درسگاہیں تھیں نہ ہی اسلامی تعلیم کا رواج تھا اور نہ ہی مسلمان علما یہاں پھیلے تھے۔ چوتھی صدی ہجری میں محمود غزنوی کے دور میں یہاں کے قبائل نے اسلام قبول کیا تھا۔

پشتون ولی

ترمیم

پشتون قبائل کا معاشرتی آئین و دستور یا ضابطہ اخلاق جو پشتون ولی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ضابطہ اخلاق (معیار) سے واقفیت نظم و نسق کے نقطہ نظر سے کم اہم نہیں ہے۔ یہ ماضی میں بھی رائج تھا اور ہنوز اکثر لوگوں کے اعمال و افعال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ چند تبدیلوں کے ساتھ تمام پشتون قبائل میں رائج رہا ہے۔ اگرچہ رفتہ رفتہ اس کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ پشتون ولی یہ درج ذیل کیا جارہا ہے۔

  1. خون کا بدلہ۔ (بدل)
  2. پناہ لینے والے کے لیے آخری دم تک لڑنا۔
  3. سپرد کردہ جائداد کی آخری دم تک حفاظت کرنا۔
  4. مہمان نوازی اور مہمان کے جان و مال کی حفاظت کرنا۔
  5. ہندو، کمین، عورت اور کم سن بچے کو قتل کرنے سے پر ہیز کرنا۔
  6. مجرم کے خاندان کی کسی عورت کی درخوات پر لڑائی بند کرنا۔
  7. اس آدمی کو مارنے سے گریز کرنا جو کسی پیر کی زیارت میں داخل ہو گیا ہو۔
  8. جو ہتھیار ڈال دے یا منہ میں گھاس ڈال کر پناہ مانگے اس کی جان بخشنا۔ (ننواتے)
  9. ملا، سیّد اور عورت سر پر قران رکھ کو آئے تو لڑائی بند کردینا۔
  10. سیاہ کار کو موت کے گھات اتارنا۔

یہ ضابطہ پشتونوں میں بہت اہم رہے ہیں۔ زن، زر اور زمین بالخصوص آخری الذکر افغانوں میں ہمیشہ کشت و خون کے محرکات رہے ہیں اور ان ضوابط کی بنا پر ہمیشہ پشتون قبائل کے درمیان میں کشت و خون جاری رہا ہے۔

پشتونوں کے ضابطہ معاشرت نہ صرف پشتونوں میں بلکہ برصغیر کی دوسری قوموں خاص کر بلوچوں، جٹوں اور راجپوتوں میں چند تبدیلوں کے ساتھ رائج رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بطور ضابطہ کے مروج نہیں تھے۔ مگر وہ اس سے رد گردانی کا سوچ نہیں سکتے ہیں۔ گویا یہ آریائی دستور ہیں اور انھیں باقیدہ ضابطہ کے تحت بلوچوں اور پشتونوں میں ارتقائی شکل اختیا ر کی۔

جرگہ

ترمیم

قبائیلی علاقوں میں ہر یا قبیلے کی ایک نمائندہ مجلس یاپنچایت جرگہ کہلاتی ہے۔ قبائیلی جرگہ کے علاوہ علاقائی جرگہ بھی ہوتا ہے جو عموماً مختلف قبائل کے درمیان میں تنازع کو طہ کرانے کے لیے مصالحت کروانے والے قبائل فریقین کا جرگہ میڈیا، عدالتیں، حکومت اور دیگر ادارے، سب کے سب آج تک ہر اس آواز کے خلاف استعمال ہوتے آئے ہیں، جس نے اس ملک میں دستور اور قانون کی بالادستی کی بات کی ہے اور جسے عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ خود سے پوچھیے کہ اگر منظور پشتین واقعی ایجنٹ ہوتا، تو کیا اس وقت تمام ادارے، حکومت، عدلیہ اور میڈیا صرف الزامات لگا رہے ہوتے؟ کیا اب تک وہ اس طرح کھلے عام مظاہرے کر پاتا؟ کیا اسے اب تک ختم نہ کر دیا جاتا؟ ہیں اور اس میں خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ علاقائی جرگہ ہوتا ہے۔ قبائیلی علاقہ میں پولیٹکل احکام بھی بلواتے ہیں۔اس طرح مفرور، شورش پسند اور بغاوت کے مرتب افراد کے خلاف تعزیاتی کارروائیاں اور علاقہ بدر کیا جاتا ہے۔ اس طرح جرگہ کی بدولت حکومت قبائیلی معملات میں دخل دیے بغیر باآسانی ناپسندہ افراد کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔ اس لیے ان جرگوں کے فیصلوں کو عدالتیں بھی تسلیم کرتی ہیں۔

پشتون قبائل سخت انفرادیت پسندی، خود پسندی اور شورش پسند ہونے کی وجہ سے ان پر حکم چلانا ممکنات میں شامل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے یہ ایک سردار کے ماتحت میں نہیں ہوتے ہیں۔ یہ اپنے معتبر خود منتخب کرتے ہیں جو کوئی خاص اختیارات کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ انھیں بھی فیصلے کرنے کااختیار نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے انھیں اپنے فیصلے منوانے کے لیے اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے دوسرے الفاظوں میں اپنی معتبری محفوظ رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہیں۔ ان میں اثر و رسوخ، سازش، پشت پناہی اور مال و دولت کا استعمال شامل ہے اور جرگہ کے ذریعے قبائیلی عمائدین کو مٹھی میں رکھا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظوں میں اپنی معتبری کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس طرح جرگہ کے فیصلے بھی عموماً طاقت کے توازن کے مطابق ہوتے ہیں۔ ایک عام جرگہ کے فیصلے عموماً تین طرح سے نافذ کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے دوغہ کہلاتے ہیں۔

  1. نیکہ = یہ عموماً قتل یا تور (بدنامی) کے بدلے جرگہ کے فیصلہ سے مجرم سے ایک بھاری رقم لیجاتی ہے۔ لیکن مدعی خلاف ورزی کرے تو رقم واپس کردی جاتی ہے۔
  2. سورہ = اس کے معنی بدلے کی لڑکی کے ہیں۔ یہ عموماً کسی لڑکی کے اغوا یا مرضی کی شادی ہونے کی صورت میں بدلے میں لڑکی لی جاتی ہے۔
  3. (شڑونے = یہ کلمہ شڑل جس کے معنی بھگانا، دھتکارنا، دیس سے نکال نا اور شہر بدر کرنے کے ہیں اور شڑونے کے معنی نکلنے والے کے ہیں اور یہ کلمہ قندھار کے علاقہ میں کشندہ یا کشنوندہ بھی کہلاتا ہے۔

افغانستان میں لوئی جرگہ جو طالبان کے بعد حکومت کی تشکیل کے لیے اتحادیوں نے بلوایا تھا۔ لوئی کے معنی بزرگ کے ہیں اس طرح لوئی کے معنی بزرگ جرگہ کے ہیں۔ یہ سب سے پہلے احمد شاہ ابدالی نے اس لیے بلوایا تھا کہ افغانوں کو ایک علحیدہ ملک اور حکومت کے تحت منظم کیا جائے۔ اس جرگہ نے احمد شاہ ابدالی کو افغانستان کا پہلا بادشاہ مقرر کیا تھا۔ پاکستان کی آزادی کے وقت ایک قبائیلی جرگہ نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔

جرگہ کی راویت صرف پٹھانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے قبائیل میں بھی ہے۔ آزادی سے پہلے قلات کا شاہی جرگہ ہوا تھا جس نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ جرگہ کا طریقہ کار صرف پتھانوں سے ہی تعلق نہیں رکھتا ہے، بلکہ اس کا رواج وسط ایشیا اور منگولوں میں بھی تھا۔ چنگیز خان نے منگولوں کی قیادت سمھالنے سے پہلے منگولوں کی ایک نماندہ مجلس بلائی تھی جس نے اسے باقیدہ خان منتخب کیا۔ اس طرح تیمور کو امیر منتخب ایک قبائیلی مجلس نے کیا تھا جس میں قبائیلی سردار، عمائدین اور علما تھے۔

چنگیز خان اور تیمور منتخب ہونے سے پہلے طاقت ور ہو چکے تھے اور دور دور تک ان کا کوئی مد، قابل نہیں تھا۔ مگر انھوں نے باقیدہ ایک اجلاس بلا کر خود کو منتخب کرا یا۔ یہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جرگہ ان کی قدیم روایت میں سے ہے اور اس کی منظوری کے بغیر ان کا تقرر قانونی نہیں ہوتا ہے۔ غرض جرگہ کی روایات کی جڑیں قدیم زمانے سے آریاؤں اور وسط ایشیاء میں ملتی ہیں، اگرچہ اس وسیع پیمانے پر مقبولیت اور طاقت حاصل نہیں کرسکی، جس قدر پٹھانوں میں ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ جرگہ کو جہاں یا جس علاقے میں مقبولیت حاصل ہوئی وہاں جنگل کا قانون کے علاوہ کسی اور قانون کی عملدراری نہیں رہی ہے اور اس کو روکنے کا موثر طریقہ جرگہ ہی ثابت ہوا ہے۔

مذہب

ترمیم

تمام پشتون مسلمان ہیں اور ان کی اکثریت سنی اور حنفی فقہ سے تعلق رکھتی ہے البتہ ایک قلیل تعداد شیعہ ہے۔

ثقافت

ترمیم

پشتو زبان کی ادبی اصناف پاک و ہند کی دوسری زبانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اس علاقے کے باشندوں کی زندگی قدرتی طور پر پھولوں کی طرح سیج نہیں ہے۔ اس لیے اس کے کتنے پہلو ہیں جو سنگین بھی اور نرم و نازک بھی ہیں، ان کا عکس ان کی موسیقی بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان میں مردانگی کی روایات بھی، رومان کی جھلکیاں بھی، زندگی کے میلے و نفیس بہاریں، رنگینیاں اور رعانیاں بھی ہیں۔ جو شادی بیاہ، رسموں ریتوں اور تہواروں میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ راگ و رنگ کے شوقین ہیں۔ ان کی زندگی میں حجرہ کو خاص دخل ہے۔ جہاں گاؤں کے لوگ جمع ہوکر مختلف معملات پر گفت و شندد کرتے ہیں۔ کوئی حجرہ ایسا نہیں ہے جہاں اسباب طرب یعنی رباب، گھڑا اور ڈھول نہ ہو۔ یہیں موسیقی کا اہتمام ہوتا ہے اور رقص کا بھی۔ یہ حقیقت ہے ہر پشتون دل و جان سے موسیقی کا دلدادہ ہوتا ہے۔

ایک ایسی قوم جس کی زندگی ہی رزم کے لیے وقف ہو ایسے میں زندگی کے اس اہم پہلو سے ربط کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے ابتدا میں ہی لمبی چوڑی نظموں میں جنگ و جدل کے معرکوں اور لڑائیوں کی داستانیں قلمبند کی جاتی تھیں اور انھیں فخریہ مجلسوں، حجروں، میلوں اور تہواروں میں سنایا جاتا تھا۔ گویا شروع میں شاعری اور موسیقی کے ڈانڈے ملتے تھے۔ گیت اور نظمیں خود بخود خاص قسم کے ناچوں میں ڈھلتے چلے گئے۔ جن میں زندگی کے واقعات اور تاریخ کی رفتار اور چال دھال بھی تصرف اور رنگ آمیزی پیدا کرتی چلی گئی۔ تاآنکہ اس کی نمایاں اقسام یا اصناف مقرر ہوگئیں جو آج سنڈے، ٹپہ، لوبہ، رباعی، لہکتی، بدلہ، چار بیت اور غزل کے نام سے نمایاں ہیں۔ چنانچہ جو سات اصناف پشتو شاعری کی ہیں وہیں موسیقی کی بھی۔ گویا دونوں کی کائنات ایک ہی ہے۔

پشتونوں میں بجائے جانے والے ساز عموماً قدیم ساز ہیں۔ ان سازوں کی خوبی یہ ہے کہ ان کی آواز سخت اور کڑخت ہے اور اس کو بجانے میں خاصہ زور لگانا پرھتا ہے اس لیے یہ جنگی ساز کہلاتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کے مزاج جس میں ایک قسم کا کڑخت پن آگیا کے مزاج کے مطابق ہیں۔ اس علاقہ میں جو ساز رائج ہیں ان میں رباپ (رباب) سریندہ، سرنا، زنگہ اور زیر بغلئی ہیں۔ یہ ساز اصل میں قدیم زمانے میں برصغیر میں بھی رائج تھے۔ مگر مسلمانوں نے نئی نئی جدتیں اور اختراع کیں اور نہ صرف ان میں تبدیلیاں کیں بلکہ نئے ساز بھی ایجاد کیے۔ صوبہ سرحد میں رائج سازوں دھنوں کو بجانے کے لیے موزوں ہیں، لیکن یہ راگ اور راگنیاں بجانے بجانے کے لیے یہ موزوں نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں صلاحیت ہے۔ پشتو دھنوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ سادی اور جوش سے بھری ہوئی ہے اور ان میں والہانہ پن ہے جو بے اختیار دل کو جھنجور دیتی ہیں۔

پٹھانوں میں جو ناچ مروج ہیں وہ زیادہ تر ملی ناچ ہیں۔ ان میں بہت سے افرد ایک دائرے میں رقص کرتے ہیں، جس کے بیچ میں عموماً ڈھول نفری بجانے والے ہوتے ہیں۔ یہ بھنگڑا سے ملتے جلتے ہیں۔ بعض رقص میں نوجوان تلواریں ساتھ رقص کرتے ہیں اور بعض رقصوں میں چھڑیاں اور بعض رقصوں میں رومال استعمال کرتے ہیں اور ساتھ تالیاں بجاتے ہیں۔ اس طرح بعض جگہوں پر عورتیں اور مرد مخلوط ہوکر رقص کرتے ہیں اور کہیں صرف عورتیں ہی رقص کرتی ہیں۔ ان کے نام اتن، ، گڈا ۔ سرخا ۔ تاویدا وغیرہ ہیں۔

اس طرح کے دراصل صوبہ سرحد سے لے کر شمالی علاقوں، کشمیر، پنجاب، بلوچستان، راجپوتانہ میں عام ملتے ہیں، یہ دراصل ایک طرح کی قدیم زمانے کی جنگی مشق ہیں، جو فراغت کی وقت کی جاتی تھیں، تاکہ چاق وچوبن رہیں اور انہیوں نے رفتہ رفتہ رقص کی صورت اختیار کرلی ہیں اور اس میں عورتیں بھی حصہ لینے لگیں ہیں۔ یہ رقص برصغیر کی جنگی قوموں میں یا برصغیر پر حملہ آور قوموں میں قدیم زمانے سے عام رائج ہیں۔[13]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Ethnologue
  2. The History, Antiquities, Topography, and Statistics of Eastern India: In Relation to Their Geology, Mineralogy, Botany, Agriculture, Commerce, Manufactures, Fine Arts, Population, Religion, Education, Statistics, Etc.، by Robert Montgomery Martin, Cambridge University Press. [1]، pg. 145. "Of the Pathans, there are above 6,000 families , chiefly settled in نوادہ، شیخ پورہ، and پٹنہ۔" Link here
  3. "United Arab Emirates: Demography" (PDF)۔ Encyclopædia Britannica World Data۔ دائرۃ المعارف بریطانیکا Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2008 
  4. 42% of 200,000 Afghan-Americans = 84,000 and 15% of 363,699 Pakistani-Americans = 54,554. Total Afghan and Pakistani Pashtuns in USA = 138,554.
  5. ^ ا ب "Ethnologue report for Southern Pashto: Iran (1993)"۔ SIL International۔ ایتھنولوگ: Languages of the World۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مئی 2012 
  6. William Maclean (10 جون 2009)۔ "Support for Taliban dives among British Pashtuns"۔ Reuters۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2009 
  7. Relations between Afghanistan and Germany آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bmz.de (Error: unknown archive URL): Germany is now home to almost 90,000 people of Afghan origin. 42% of 90,000 = 37,800
  8. "Ethnic origins, 2006 counts, for Canada"۔ 2.statcan.ca۔ 2006۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2010 
  9. "Perepis.ru"۔ perepis2002.ru (بزبان روسی)۔ 16 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2014 
  10. "20680-Ancestry (full classification list) by Sex – Australia"۔ 2006 Census۔ Australian Bureau of Statistics۔ 06 جنوری 2019 میں اصل (Microsoft Excel download) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2008  Total responses: 25,451,383 for total count of persons: 19,855,288.
  11. * معین انصاری ماخذ : افغان۔ معارف اسلامیہ پ معارف اسلامیہ سلم معارف اسلامیہ بلخ معارف اسلامیہ آذری زبان معارف اسلامیہ فارسی۔ معارف اسلامیہ ترک معارف اسلامیہ مولانا عبد القادر، پشتو معارف اسلامیہ غوری معارف اسلامیہ افغانستان معارف اسلامیہ عبد الحئی حبیبی تقلیمات طبقات ناصری جلد دوم ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دوم ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی ڈاکٹر ابولیث صدیقی۔ ادب و لسانیات ہیرالڈیم۔ سکندر اعظم نعمت اللہ ہراتی، مخزن افغانی ابو القاسم فرشتہ۔ تاریخ فرشتہ، جلد اول، جلد دوم سدھیشورورما، آریائی زبانیں یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور مفتی ولی اللہ فرح آبادی۔ عہد بنگیش۔ احمد یحیٰ سرہندی تاریخ مبارک شاہی۔ آبو۔ معلومات شہکار انسایئکلوپیڈیا سر جارج فریزر۔ شاخ زرین۔ جلد اول سیّد انوار الحق جیلانی۔ پشتو نامہ ویمرے۔ تاریخ بخارا جیمزٹاڈ۔ تاریخ راجستان جلد اول۔ جلد دوم بھارت۔ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا ڈاکٹر شیر بہادر پنی۔ تاریخ ہزارہ میر گل خان نصیر۔ بلوچستان تیمور۔ تزک تیموری ابن بطوطہ۔ سفرنامہ ابن بطوطہ، جلد اول مرزا غلام محمد قادیانی۔ مسیح ہندوستان میں علامہ سیّد سلیمان ندوی۔ عرب و ہند کے تعلقات سیّد مناظر حسین گیلانی۔ ایک ہزار سال پہلے لیفتنٹ جنرل جارج میکمن۔ شمال مغربی پاکستان اور برطانوی سامراج بلوچستان گزیٹیر شیر محمد گنڈا پور۔ تاریخ پشتون ہیرالڈلیم۔ منگول اور ان کا سردار سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ولیم ایل لینگر۔ انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم جلد دوم جی لی اسٹریج۔ خلافت شرقی احمد یار خان آف قلات۔ مختصر تاریخ قوم بلوچ منو، منو ساشتر چودہدری وہاب الدین امرتسری۔ تاریخ کمبوہان مصتنسر حسین تاڑر۔ کے ٹو کہانی عاصمہ حسین۔ مغربی پاکستان کے لوک گیت اشفاق احمد۔ ہفت زبانی لغت سیّد جمال الدین افغانی۔ الافغان