مفتی محمد نور اللہ نعیمی (1914ء تا 1983ء) محدث بصیر پوری معروف عالم دین اور شاعر تھے۔

ولادت ترمیم

ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی 22 جون 1914ء کو دیپالپور (ساہیوال) کے ایک مشہور قصبے سوجیکے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ارائیں خاندان کے ایک علمی و روحانی گھرانے سے ہے،

تعلیم ترمیم

ابتدائی تعلیم قرآن پاک، فارسی، صرف اور نحو کی تعلیم اپنے والد ابوالنور محمد صدیق اور مولانا احمد دین سے حاصل کی، پھرعلوم متداولہ کی تحصیل کے لیے مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم گھمنڈ پور میں داخل ہوئے۔ جہاں چھ سال کا عرصہ فتح محمد صاحب محدّث بہاول نگری سے اکتسابِ فیض کر کے متعدد علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔سید محمد دیدار علی شاہ اور علامہ ابو البرکات سیّد احمد قادری سے فیض حاصل کیا۔

درس و تدریس ترمیم

آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے فرمایا دیبال پور میں مدرسہ فریدیہ کے نام سے ایک دار العلوم کی بنیاد رکھی، 1945ء میں دار العلوم فریدیہ، فریدپور سے بصیر پور منتقل ہو گیا اور یہاں یہ دار العلوم ’’دار العلوم حنفیہ فریدیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔

بیعت ترمیم

سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی سے بیعت کی۔ اور ان کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی خاطر نمایاں کردار ادا کیا۔

تصانیف ترمیم

درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور سیاسی مصروفیات کے باوجود آپ نے میدانِ تحریر میں معتد بہ حصّہ لیا، چنانچہ آپ کی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:

  • تعلیم الکتابتہ النسا
  • الادب المفرد
  • فتاویٰ نوریہ (6 جلدیں)
  • حدیث الحبیب،
  • نغمائے بخشش (نعت)
  • نور نعیمی
  • مکبّر الصوت۔
  • فئی الزوال (عربی)۔
  • نور القوانین (مجموعہ قواعد منظوم بزبان پنجابی)
  • حُرمتِ زاغ۔
  • مسئلہ سایہ۔
  • روزہ اور ٹیکہ
  • ابداء بشریٰ بقبول الصّلوٰۃ فی الفحوۃ الکبریٰ۔
  • غیر مطبوعہ میں ایک نعتیہ دیوان عربی، فارسی، پنجابی اور اُردو پر مشتمل ہے اس کے علاوہ بخاری شریف اور مسلم شریف پر حواشی لکھے۔[1]

وفات ترمیم

فقیہ اعظم نور اللہ نعیمی نے 1 رجب المرجب 1403ھ / 15 اپریل 1983ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار بصیر پور میں مرجع خلائق ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. محمد منشا تابش قصوری ’’تعارف فقیہِ اعظم‘‘ فتاویٰ نوریہ جلد دوم، انجمن حزب الرحمان بصیر پور