ایٹمی ماڈل کا ارتقا
ایٹم مادے کا چھوٹا ترین ذرہ ہوتا ہے جو اپنے کیمائی خواص برقرار رکھتا ہے۔ چونکہ ایٹم عام خورد بین سے نظر نہیں آتے اس لیے سائنس دانوں کو ایٹم کی ساخت دریافت کرنے میں بڑا وقت لگا۔ بہت ساری مختلف ایجادوں سے ایٹم کی ساخت آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی گئی۔
ڈالٹن
ترمیم1803 میں جوہن ڈالٹن نے نظریہ پیش کیا کہ مادہ ایٹموں سے بنا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی مادی چیز کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں تو آخر کار ایک حد آ جائے گی اور مزید تقسیم ممکن نہیں ہو گی۔
فیراڈے
ترمیم1832 میں مائیکل فیراڈے نے مختلف نمکیات کے محلولوں میں سے بجلی گزاری اور نتائج کا بغور مطالعہ کیا۔ اس نے برق پاشیدگی (electrolysis) کے قوانین وضع کیے اور بتایا کہ بجلی گزرنے سے ایٹم اور مولیکیول دو حصوں (مثبت اور منفی) میں بٹ جاتے ہیں۔
پلک کر
ترمیم1859 میں جے پلک کر نے پہلی گیس ڈسچارج ٹیوب بنائی۔ آج کل اسے پکچر ٹیوب (picture tube) یا کیتھوڈ رے ٹیوب (یا مخفف سی آر ٹی) کہتے ہیں۔ اس ٹیوب نے بعد میں الیکٹرون اور ایکس رے (x-ray) کی دریافت میں بڑی مدد دی۔
مینڈیلیف
ترمیم1869 میں مینڈیلیف نے سارے عناصر کو ان کے کیمائی خواص کی بنیاد پر سات گروپ میں تقسیم کیا۔ اس وقت تک غیر عامل گیسیں دریافت نہیں ہوئیں تھیں۔ مینڈیلیف نے بتایا کہ ایٹم جیسے جیسے بھاری ہوتے چلے جاتے ہیں ان کے خواص بدلتے چلے جاتے ہیں لیکن پھر ایک ایسا ایٹم آتا ہے جہاں سے یہی سلسلہ دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ مینڈیلیف کے بنائے ہوئے دوری جدول (Periodic Table) میں بعد میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں مگر آج بھی اس کا سہرا مینڈیلیف کے ہی نام جاتا ہے۔
میکس ویل
ترمیم1873 میں جیمز کلرک میکس ویل نے نظریہ پیش کیا کہ خالی جگہ میں برقی (الیکٹرک) اور مقناطیسی میدان موجود ہوتا ہے۔
میکس ویل نے ہی روشنی کی رفتار کا حساب لگانے کا فارمولا دریافت کیا تھا۔
کروکس
ترمیم1876ء میں سر ویلیئم کروکس نے ٹنگسٹن کے تار پر بیریم آکسائیڈ کی تہ جمانے کا طریقہ دریافت کیا جس سے کیتھوڈ (منفی برقیرہ) بنائے جاتے ہیں۔[1]
1879ء میں سر ویلیئم کروکس نے ڈسچارج ٹیوب میں کیتھوڈ ریز دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ کیتھوڈ سے نکلنے والی یہ شعاعیں ایک سیدھ میں چلتی ہیں، ان کی وجہ سے گیس چمکنے لگتی ہے، یہ جس چیز سے ٹکراتی ہیں اس پر منفی چارج آ جاتا ہے، برقی یا مقناطیسی میدان میں یہ جس طرح مڑتی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان شعاعوں پر منفی چارج ہے۔ جب یہ شعاعیں ایک بہت ہی چھوٹے سے پنکھے کے پر سے ٹکراتی ہیں تو پنکھا گھومنے لگتا ہے یعنی یہ شعاعیں مادی ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ (کئی سال بعد پتہ چلا کہ کیتھوڈ ریز اور تابکاری کی بی ٹا ریز درحقیقت تیز رفتار الیکٹرونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ )
بامر
ترمیم1885 میں Johann Balmer جو سوئزرلینڈ میں سیکنڈری اسکول میں حساب کا ٹیچر تھا، نے ہائیڈروجن گیس سے نکلنے والی طیفی خط کی وضاحت کرنے کا سادہ فارمولا دریافت کر لیا۔
گولڈسٹین
ترمیم1886 میں ای گولڈسٹین نے ڈسچارج ٹیوب میں کنال ریز دریافت کیں جن کے برقی اور مقناطیسی خواص کیتھوڈ ریز کے برعکس تھے۔
اسٹونی
ترمیم1894 میں جی جے اسٹونی نے درست خیال ظاہر کیا کہ بجلی کا گذرنا منفی ذرات کے بہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تصور کیا جاتا تھا کہ بجلی کا گذرنا مثبت ذرات کا بہاو ہے۔ اسٹونی نے ہی ان منفی ذرات کو الیکٹرون کا نام دیا۔ لیکن آج تک سرکٹ ڈایاگرام میں کرنٹ کو مثبت (positive) سمت سے بہاو دکھایا جاتا ہے۔
رونٹیگن
ترمیم1895ء میں رونٹیگن نے اتفاقی طور پر دریافت کیا کہ جب کیتھوڈ رے ٹیوب زیر استعمال ہوتی ہے تو اس کے نزدیک رکھے کچھ کیمیائی مادے (بیریئم پلاٹینو سائیانائیڈ) چمکنے لگتے ہیں۔[2] اس طرح ایکس شعاع (x ray) دریافت ہوئیں جو برقی یا مقناطیسی میدان میں نہیں مڑتیں (کیونکہ یہ فوٹون پر مشتمل ہوتی ہیں جس پر مثبت یا منفی چارج نہیں ہوتا)۔ ولہیلم رونٹیگن کو 1901ء میں طبیعیات کا پہلا نوبل انعام ملا۔
بیک کوئیریل
ترمیم1896 میں ہنری بیک کوئیریل نے معلوم کیا کہ کچھ (تابکار) مادے خود بخود ایکس ریز (گاما ریز) خارج کرتے ہیں۔
تھامسن
ترمیمجے جے تھامسن نے کیتھوڈ شعاعوں کی خصوصیات معلوم کر لیں جن سے ظاہر ہوا کہ ایٹم اپنے اجزا (الیکٹرون اور مثبت آئین) میں توڑا جا سکتا ہے۔
1897ء میں جے جے تھامسن نے الیکٹرون کے چارج اور کمیت کی نسبت (e/m ratio) معلوم کر لی۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن اس وقت بھی نہ الیکٹرون کا چارج دریافت ہوا تھا نہ اس کی کمیت۔
1906ء میں اسے فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔
تھامسن نے یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ الیکٹرون کی کمیت پروٹون سے لگ بھگ 2000 گنا کم ہے۔ اس وقت الیکٹرون کو 'corpuscles' کہا گیا تھا۔[3]
کیوری
ترمیم1898ء میں میڈم ماری کیوری نے یورینیئم اور تھوریئم کی تابکاری کا بغور مشاہدہ کیا اور ایٹم کے اس طرح خود بخود ٹوٹنے کو تابکاری کا نام دیا۔ ماری کیوری اور ان کے شوہر نے مل کر پیزوالیکٹریسٹی کی مدد سے ایک ایسا آلہ بنایا جس سے تابکاری کی پیمائش ممکن ہوئی۔[4] ماری کیوری دنیا کی پہلی شخصیت ہیں جنہیں دو بار نوبل انعام ملا۔
ردر فورڈ
ترمیم1898 میں ردر فورڈ نے تابکار یورینیئم اور تھوریئم سے نکلنے والی شعاعوں کا مطالعہ کیا اور انھیں الفا اور بی ٹا (beta) کا نام دیا۔
سوڈی
ترمیم1900ء میں ردرفورڈ کے شاگرد سوڈی نے معلوم کیا کہ تابکاری کے نتیجے میں ایک عنصر دوسرے عنصر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ کیمیائی طریقے سے ریڈیئم کے مختلف ہم جا الگ الگ کر لے مگر ناکام رہا۔ 1921ء میں سوڈی کو کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔
پلانک
ترمیم1900 میں میکس پلانک نے سیاہ جسمی اشعاع کا راز دریافت کر لیا۔ اس نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ توانائی بھی ذرات کی نوعیت رکھتی ہے۔ اُس وقت فوٹون کو quanta کہا گیا تھا۔
پلانک نے جس کوانٹم تھیوری کی ابتدا کی تھی اسے موجودہ شکل تک پہنچنے میں 25 سال لگے۔
ناکوگا
ترمیم1903 میں ناکوگا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ سیارہ زحل کی طرح ایٹم میں بھی الیکٹرون ایک مثبت ذرے کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔
ابیگ
ترمیم1904 میں ابیگ نے دریافت کیا کہ غیر عامل گیسوں میں الیکٹرون کے مدار مکمل بھر چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ گیسیں غیر عامل ہو جاتی ہیں۔
آئن اسٹائن
ترمیم1905 میں آئن اسٹائن نے بتایا کہ مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
1921 میں آئن اسٹائن کو ضیا برقی اثر پر فزکس کا نوبل انعام ملا۔ آئن اسٹائن کو پلانک کے نظریے سے بڑی مدد ملی تھی۔
گیگر
ترمیم1906 میں ہینس گیگر نے ایک ایسا الیکٹرونک آلہ بنایا جو الفا ذروں کی موجودگی پر کلک کی آواز نکالتا تھا۔
ملیکین
ترمیم1909 میں ملیکین نے کیپیسٹر کی پلیٹوں کے درمیان تیل کے قطروں کو معلق کر کے الیکٹرون کا چارج معلوم کر لیا۔ چونکہ چارج اور کمیت کی نسبت پہلے ہی معلوم ہو چکی تھی اس لیے الیکٹرون کا وزن بھی دریافت ہو گیا۔
ارنسٹ ردر فورڈ
ترمیم1911 میں ارنسٹ ردرفورڈ نے تابکار مادے سے نکلنے والے الفا ذرات کے سونے کے ورق میں سے گزرنے کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ ایٹم میں مثبت گٹھلی (positive nucleus) موجود ہوتی ہے اور ایٹم کے اندر زیادہ تر جگہ خالی ہوتی ہے۔[5]
موزلے
ترمیم1914 میں H.G.J. Moseley نے ایکس رے ٹیوب کی مدد سے بہت سارے ایٹمی مرکزوں (nucleus) کا چارج معلوم کر لیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ اب تک کیمیا دان جسے ایٹمی نمبر کہتے رہے وہ دراصل ایٹمی مرکزوں میں موجود پروٹونوں کی تعداد ہے۔ اس طرح دوری جدول (Periodic table) کو ایٹمی وزن کی بجائے ایٹمی نمبروں کے لحاظ سے ترتیب دینے میں کامیابی ملی۔
ردرفورڈ موزلے کو اپنا ذہین ترین شاگرد سمجھتا تھا لیکن بدقسمتی سے صرف 27 سال کی عمر میں موزلے جنگ عظیم اول میں مارا گیا۔[6]
ایسٹون
ترمیم1919 میں Aston نے ماس اسپیکٹروگراف کی مدد سے ثابت کیا کہ ایک ہی عنصر کے ایٹم مختلف ایٹمی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ہم جا (isotopes) دریافت ہوئے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ایسٹون کو 1922ء میں نوبل انعام ملا۔
نیلز بوہر
ترمیم1922 میں Niels Bohr نے بتایا کہ ایٹم میں مرکزے کے گرد الیکٹرون کے کئی مدار ہوتے ہیں اور جب الیکٹرون توانائی جذب کرتا ہے تو بیرونی مدار میں چلا جاتا ہے۔ الیکٹرون جب اندرونی مدار میں واپس لوٹتا ہے تو وہی توانائی خارج ہو جاتی ہے۔
ڈی بروگلی
ترمیم1923 میں de Broglie نے ریاضیات کی مدد سے ثابت کیا کہ الیکٹرون نہ صرف مادی خصوصیات رکھتا ہے بلکہ لہر یا موج کی خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ اس طرح wave particle duality کی بنیاد پڑی۔ ڈی بروگلی کے کام سے آئن اسٹائن کی تھیوری کو تقویت ملی۔
ہائزن برگ
ترمیم1927 میں Heisenberg نے غیر یقینیت کا اصول (Principle of uncertainity) وضع کیا یعنی کسی ذرے کی رفتار اور پوزیشن بیک وقت معلوم نہیں کی جا سکتی۔
کوکروفٹ اور والٹن
ترمیم1929 میں Cockcroft / Walton نے پہلا پارٹیکل ایکسیلیریٹر بنایا اور 14 اپریل 1932 میں معلوم کیا کہ جب پروٹون کو تیز رفتاری سے لیتھیئم سے ٹکراتے ہیں تو لیتھیئم کا ایٹم ٹوٹ کر ہیلیئم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس طرح پہلی دفعہ انسان نے کسی ایٹم کے مرکزے کو توڑا۔
اسی تجربے نے پہلی دفعہ آئن اسٹائن کے فارمولے E=mc2 کی تصدیق کری۔[7]
شروڈنگر
ترمیم1930 میں Schrodinger نے ریاضیات سے ثابت کیا کہ ایٹم کے اندر الیکٹرون مرکزے کے گرد ایک بادل سا بنا دیتا ہے۔ اس طرح wave mechanics کی بنیاد پڑی۔
1930ء میں Paul Dirac نے ضد ذرے کا تصور دیا۔ دو سال بعد پوزیٹرون دریافت ہوا۔ 1955ء میں اینٹی پروٹون دریافت ہوا۔
1932 میں James Chadwick نے پولونیئم کی تابکاری سے حاصل ہونے والے الفا ذروں کی مدد سے نیوٹرون دریافت کر لیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح ہم جا (آئسوٹوپ)کے وزن کی وضاحت بھی ممکن ہو گئی اور nuclear spin کا معما بھی حل ہو گیا۔ جیمز چیڈوک کو 1935 میں نوبل انعام ملا۔
انریکو فرمی
ترمیم1934 میں فرمی نے دریافت کیا کہ اگر نیوٹرون کی رفتار کم کر دی جائے تو وہ دوسرے ایٹمی مرکزوں میں زیادہ آسانی سے جذب ہو کر نیوکلیائی تعاملات کا سبب بنتا ہے۔ فرمی کو 1938 میں نوبل انعام ملا۔
بہت کم رفتار سے چلنے والے نیوٹرون "تھرمل نیوٹرون" کہلاتے ہیں اور اینٹیمنی 124 سے نکلنے والی گاما ریزکوبیریلیئم پربرسانے پر حاصل ہوتے ہیں۔ [8][9]
Otto Hahn
ترمیمجنوری 1939 میں Otto Hahn نے یورینیئم کے مرکزے میں فشن کا ہونا اور چین ری ایکشن دریافت کر لیا۔ اسے 1944 کا کیمسٹری کا نوبل انعام ملا۔
انریکو فرمی
ترمیم1942 میں Enrico Fermi نے دنیا کا پہلا ایٹمی ری ایکٹر بنایا جسے شکاگو پائیل کا نام دیا گیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی ربط
ترمیم- ایٹم کی کہانی-اردو میںآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ abbaspk.com (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Hunterian Museum Scientific & Medical Instrument Collections:GLAHM 105791[مردہ ربط]
- ↑ Tales from the Atomic Age
- ↑ Measurement of Charge-to-Mass (e/m) Ratio for the Electron
- ↑ How did the Curies Measure Radioactivity?
- ↑ "Atomic Structure Timeline"۔ 10 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2015
- ↑ Moseley's Investigation of X-rays
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 14 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2015
- ↑ Lalovic, M.، Werle, H. (1970)۔ "The energy distribution of antimonyberyllium photoneutrons"۔ Journal of Nuclear Energy۔ 24 (3): 123–132۔ Bibcode:1970JNuE...24..123L۔ ISSN 0022-3107۔ doi:10.1016/0022-3107(70)90058-4
- ↑ Ahmed, S. N. (2007)۔ Physics and Engineering of Radiation Detection۔ صفحہ: 51۔ ISBN 978-0-12-045581-2