تھامس والپی فرنچ پادری پیٹر فرنچ کے بڑے بیٹے وہ 1825ء میں نوروز کے دن پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ کا کنوار پن کا نام پنیلوپ آربیلا والپی (Penelope Arabella Valpy) تھا اس واسطے اُن کا نام والپی رکھا گیا۔ اُن کی پیدائش کا مقام آئبی واقع برٹن اپون ٹرینٹ تھا۔ جہاں اُن کے والد مسیحی خادم الدین تھے۔ وہ وہاں پر چودہ برس کے سن تک رہے۔

معظم
تھامس والپی فرنچ
لاہور
فائل:Thomas Valpy French.jpg
ہندوستان، پاکستان اور ایران کی طرف مشنری
اسقفی علاقہلاہور
مقرر1877
ختم1887
پیشروپہلا
ذاتی تفصیلات
پیدائش25 جنوری 1825(1825-01-25)
برٹن اپون ٹرینٹ، سٹیفورڈشائر، انگلستان
وفات14 مئی 1891(1891-50-14) (عمر  66 سال)
مسقط، عمان
تدفینمسقط، عمان
فرقہانگلیکان کمیونین
والدینمعظم پیٹر فرنچ
مادر علمییونیورسٹی کالج، آکسفورڈ

حالات زندگی

ترمیم

فرنچ کی طبیعت لڑکپن ہی سے دین مسیحیت کی خدمت کے کام کی طرف راغب تھی۔ چنانچہ جب وہ چھوٹا لڑکا تھا وہ اپنے باپ کے ساتھ اُن جلسوں میں جو اشاعتِ مسیحیت کے لیے منعقد ہوتے تھے، نہایت خوشی سے جایا کرتا تھا۔ اور جوتقریریں اُن جلسوں میں ہوتی تھیں اُن کا اثر اُس کے دل پر بہت ہوتا تھا۔ فرنچ نے پہلے ایک سال تک گرامر اسکول واقع ریڈنگ میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد رگبی اسکول چلا گیا۔ جس کا ہیڈماسٹر ڈاکٹر آرنلڈ تھا۔ اس نے ہیڈماسٹر سے وہاں تعلیم پائی۔ ڈاکٹر آرنلڈ کے انتقال کے بعد فرنچ رگبی میں قریب ایک سال اور رہا۔ 1846ء میں فرنچ نے امتحان میں اول ہونے کی عزت حاصل کی۔ دو برس کے بعد لاطینی زبان میں ایک مضمون کے صلے میں اُس کو چین سلر کا انعام ملا اور وہ اپنے کالج کا ایک فیلو ہونے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اسی سال اُس کا تقرر ڈیکن کے درجہ پر کیا گیا۔ اور وہ برٹن میں اپنے باپ کا اسسٹنٹ بنا۔ 1849ء میں اُس کا تقرر قسیس کے عہدہ پر ہوا۔

مشنری زندگی

ترمیم

فرنچ نے زمانہ مابعد میں بتایا کہ خاص بات جس کے سبب سے اُس نے اشاعتِ انجیل کی خدمت اختیار کی یہ تھی کہ "بشپ ولبرفورس کی ایک تقریر نے مجھے اس بارہ میں قطعی فیصلہ کرنے میں مدد دی۔ اس تقریر میں اہل اوکسفورڈ سے بڑے زور کے ساتھ اس امر کی درخواست کی گئی تھی۔ کہ غیر ممالک میں اشاعت انجیل کی خدمت کرنی چاہیے"۔ فرنچ نے اپنے دوست وارڈ ہم کالج کے آرتھر لی سے اس امر میں صلاح و مشورہ کیا۔ دونوں نے مسیحی مبلغ بننے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد سی نے فرنچ کو یہ روح فرسا خبر دی کہ تمھارے دوست مسٹر آرتھر لی ریل کا ایک حادثہ واقع ہونے کے باعث قریب المرگ پڑا ہے۔ وہ فوراً اُس کے پاس گیا۔ اوراُس کے انتقال کے وقت تک اُس کے پاس رہا۔ اس پر ملال واقعہ سے فرنچ کا ارادہ اور بھی قوی ہو گیا۔ اپنے دوست کی وفات کے بعداپریل 1850ء میں اس نے اپنی درخواست چرچ مشنری سوسائٹی کو روانہ کردی اور وہ ہندوستان کی خاطر اوکسفورڈ سے دست بردار ہو گئے۔ سوسائٹی نے اُس کی درخواست منظور کی اور آگرہ میں جو مشن کالج قائم ہونے والا تھا۔ اُس کا پرنسپل مقرر کر دیا۔ ایک ماہ کے بعد کریگ اسٹوارٹ ڈبلن یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ اُن کے نائب مقرر کیے گئے یہ دونوں پادری صاحبان ماہ ستمبر 1850ء میں جہاز پر سوار ہو کر ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے اور تخمیناً چار مہینے کا سفر طے کر کے 2 جنوری کے روز کلکتہ پہنچے۔

13 ماہ فروری 1851ء کے روز فرنچ اور اسٹوارٹ آگرہ پہنچے۔ یہاں فرنچ نے آٹھ برس تک کام کیا۔ فرنچ میں ایک بات نہایت قابلِ تعریف یہ تھی کہ وہ کبھی اپنے وقت کو ضائع نہیں کرتے تھے۔ بعد کے زمانہ میں اُن کو غیر زبانوں میں مہارت رکھنے کے سبب "ہفت زبان پادری" کا لقب دیا گیا۔ نئی زبانوں کے سیکھنے میں اُن کو وہی دقتیں پیش آئی تھیں۔ جو عموماً اور پادریوں کو آتی ہیں۔ زبانوں کے سیکھنے کی قابلیت تو اُس میں ضرور تھی لیکن صرف سخت محنت کی وجہ سے اُس کو ایسی اعلیٰ لیاقت حاصل ہوئی۔ جس کے باعث وہ بہت مشہور ہوا۔ چنانچہ خود اُس کا بیان ہے کہ "میں ہرروز صبح چار بجے اٹھتا ہوں اور دس گھنٹے کام کرتا ہوں۔ پر اُس کے بعد میں کسی کام کے لائق نہیں رہتا۔ مجھے اس بات کی بہت خواہش ہے۔ کہ یہاں کی زبان سے پوری واقفیت حاصل کروں۔ لیکن چونکہ اب معجزے کے طور پر زبانوں کی نعمت نہیں ملتی اس لیے میں اُس کو دوسرے لوگوں کی طرح صرف صبر سخت محنت اورمشقت کے وسیلہ سے ہی حاصل کر سکتا ہوں" چنانچہ ان ایام میں فرنچ نے پانچ مختلف زبانیں سیکھ لیں۔ وہ تحریر کرتا ہے کہ "اب ایک نیا مُنشی مجھے ہر ہفتے تین چار گھنٹے تک اردو اور فارسی پڑھانے آتا ہے۔ اورایک پنڈت بھی ہر روز دو گھنٹے ہندی پڑھاتا ہے۔ اس کے علاوہ میں ہر ہفتے میں تین روز اسکول میں چار گھنٹے کے واسطے جاتا ہوں۔ اور طلبہ بھی کبھی کبھی میرے مکان پر آجاتے ہیں۔ چنانچہ جو تین چار جو ان طلبہ مجھ سے تعلیم پاتے ہیں اُن میں سے ایک دو شام کے وقت اکثر آیا کرتے ہیں۔ پھر میں وہ کام کرتا ہوں جس کو میں ان دنوں نہایت ضروری سمجھتا ہوں۔ یعنی اردو اور ہندی کو آپ پڑھتا ہوں۔"

فرنچ نے دیسی زبان سے جو واقفیت اس محنت سے حاصل کی کہ آگرہ میں پہنچنے کے بعد ہی استعمال میں لے آیا۔ چنانچہ 1851ء کو جمعہ کے روز اُس نے بیس لڑکوں کو سیدنا یسوع مسیح کی اذیت پر اُن کی اپنی زبان میں تعلیم دی۔ فرنچ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتا تھا کہ طلبہ کو دین مسیحیت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انجیل جلیل کی تعلیم بھی ملے جس طرح وہ بازاروں میں منادی کرتے تھے اُسی جوش کے ساتھ وہ کالج کے طلبہ کو مسیحیت کا پیغام دیتے تھے۔

فرنچ نے ایسے ایک مباحثہ میں میزان الحق کے مصنف ڈاکٹر فینڈر کی جو فنِ مناظرہ کے سبب مشہور ہے، مدد کی۔ آگرہ کے مسلم علما دہلی کے بڑے مولویوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ بائبل اور کتبِ مباحثہ کے مطالعہ میں مشغول رہتے تھے۔ چنانچہ مولوی رحمت اللہ دہلوی نے فرنچ سے کہا۔ "ہم چاہتے ہیں کہ ایک مباحثہ کیا جائے۔" یہ مباحثہ دو دن متواتر ہوتا رہا اور شہر کے اکثر مسلمان عالم اُس میں شریک ہوئے تھے۔ اس مباحثہ میں یورپین ملاحدہ کی کتب کے جواب فرنچ ہی دیا کرتے تھے۔ دوشخص جواس مباحثہ میں مسلمان علما کے مددگار تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد مسیحی ہو گئے۔ اُن میں ایک مولوی صفدر علی سرکاری عہدہ دار تھا اور دوسرا عماد الدین لاہز تھا جنھوں پنجاب میں کتب مناظرہ تحریر کیں۔ جب فرنچ لاہور کے پہلے بشپ مقرر ہوئے تو اُن کو اس بات سے بڑی خوشی حاصل ہوئی کہ مولوی صاحب کو اُن کی وساطت سے ڈی۔ ڈی کا درجہ حاصل ہوا۔

اس کے علاوہ کئی افراد کو بپتسمہ دینے کے بعد فرنچ انگلستان آ گیا وہ وہاں پہنچنے کے بعد خوش نہ تھا۔ اور نلاس کو یہاں آرام بھی نہیں ملا۔ وہ 7 ماہ فروری 1862ء کو اپنی بیوی سے رخصت ہوکر ہندوستان کو ایک دفعہ پھر آنے کے واسطے لندن سے روانہ ہوئے۔ ہندوستان کو واپس آنے کے بعد جو کام فرنچ نے اختیار کیا وہ آگرہ کے کام سے بالکل مختلف تھا۔ کرنیل رنیبل ٹیلر نے بڑی فیاضی کے ساتھ کہا کہ میں دس ہزار روپے یکمشت دونگا اورجب تک ہندوستان میں رہوں گا سوروپیہ ماہوار چندہ کے طور پر دیتا رہوں گا۔ یہ وعدہ کرکے اُس نے چرچ مشنری سوسائٹی کوڈیرہ جات میں کام شروع کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ سر رابرٹ منٹمگری (Sir Robert Montgomery) نے بھی ایک ہزار روپے سالانہ دینے کا وعدہ کیا۔ پس فرنچ کو چرچ مشنری سوسائٹی کی طرف سے یہ خدمت سپرد ہوئی کہ اس سرحدی ضلع میں مشن کا کام شروع کرے۔ وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں عید القیامت کے دوسرے دن پہنچا اور اس گرم مقام میں ماہ اگست تک رہے بعد ازاں شيخ بودین کے پہاڑ کو جو کوہ سلیمان پر سمندر سے چار ہزارفٹ اُونچا واقعہ ہے گرمی سے بچنے کے لیے چلے گئے۔ یہاں اُس کا وقت نئی زبانوں (بالخصوص پشتو زبان) کو حاصل کرنے اور انجیل کی منادی میں صرف ہوتا تھا۔ فرنچ ماہ ستمبر میں ایک لمبا دور کرنے کے واسطے میدان مروات میں اُتر آئے۔ اُن یہ خواہش تھی کہ جہاں تک ہو سکے یورپین لوگوں سے ملے اور افغانوں میں افغان بن کر رہے۔ فرنچ نے اس ضلع میں تھوڑا عرصہ کام کیا۔ ماہ دسمبر میں اتفاقاً ڈاکٹر فیرود نے اُن کو ایک رتیلے گاؤں میں جہاں وہ منادی کرنے گئے تھے لُو لگنے کے سبب سے بے ہوش پڑا پایا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ ڈاکٹروں نے اُس کو انگلستان جانے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہا کہ اس بات کی امید نہ رکھیں کہ آپ آئندہ انجیل کی منادی کے واسطے کسی گرم ملک میں بھیجے جاسکیں گے۔

ماہ فروری میں فرنچ پھر انگلستان پہنچ گیا۔ لیکن ماہ اپریل 1865ء ہی میں اُن کے دل میں پھر ہندوستان میں کام کرنے کا جوش پیدا ہونے لگا۔ ماہ اگست 1866ء میں اُس کے خیالات نے ایک خاص صورت پکڑلی اُس نے ایک مضمون میں تحریر کیا کہ ہندوستان کے شمالی مغربی اضلاع اور پنجاب کے واسطے مبشروں گلہ بانوں اور اُستادوں کی تربیت کے لیے ایک کالج قائم ہونا چاہیے۔ یہ مضمون ستر خادمانِ دین کے ایک جلسہ میں پڑھا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار لاہور میں سینٹ جانز ڈیونٹی کالج (St. John’s Divinity College) یعنی مدرسہ علم الہٰی کی بنیاد پڑی۔ 1868ء کے شروع میں چرچ مشنری سوسائٹی نے فرنچ کی تجویز منظور کرکے اُن سے یہ یہ درخواست کی کہ آپ ہی اس کالج کو قائم کریں۔ پادری نوٹ (Rev. Knott) کو اُن کا مددگار مقرر کیا گیا۔ فرنچ اور نوٹ بمبئی میں 1869ء کے شروع میں آئے۔ اور ایک ہفتہ کے بعد جہاز پر سوار ہو کر کراچی کو روانہ ہو گئے۔ اس بندرگاہ سے فرنچ بذریعہ ریل کوٹری کوگیا اور وہاں سے پھر جہاڑ پر دریائے سندھ اور چناب کی راہ طے کرکے سترہ دن کے بعد ملتان پہنچا۔ 14 ماہ مارچ 1869ء کے روز آخر کار دونوں لاہور پہنچے۔ وہ لاہور میں ماہ جون تک رہے۔ کالج کا کام یکایک شروع نہیں ہو سکتا تھا۔ پس انھوں نے اپنا وقت متلاشیانِ دین کے ساتھ بات چیت کرنے او رشہر کے دروازوں پر اور باغات اور قُرب وجوار کے دیہات میں انجیل کی منادی کرنے میں صرف کیا۔ ماہِ جون میں دونوں مشنری کوہ مری گئے تاکہ سخت گرمی کے دن وہاں بسر کریں۔ فرنچ کی طبعیت علیل ہو گئی تھی۔ تاہم وہ کام کرنے سے باز نہ رہا۔ وہاُکثر ان دیہات میں جو پہاڑوں میں واقع تھے جایا کرتا تھا۔ اور تمام رات وہیں رہا کرتا تھا۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے: "23، 24 اگست کو بوقت شام دیہات میں گیا۔ تین گھنٹے بمشکل پیدل چلا اورایک توشے یاتوکھے میں سویا۔ چپاتی اور دودھ کھانے کو ملا۔ دوچھوٹے بچے ایڈتھ اور ولفریڈ (Edith & Wilfred) صنبوبر کی لکڑی کے فلیتے لیے کھڑے رہے۔ ان فلیتوں کی روشنی میں کلامِ الہٰی پڑھتا اوربیان کرتا تھا۔ صبح کے پانچ بجے اٹھ کر چلا اور کئی دفعہ رستہ بھول گیا۔ یہ دشواری پہاڑ پر چڑھتا ہوا اُس گاؤں میں پہنچا جومیرے مکان کے تلے واقع تھا۔ اُس سے اُوپر چڑھتے ہوئے مجھے بہت گرمی اور تھکن محسوس ہوئی۔ میں قریب گیارہ بجے کے لارنس اسالیم (Lawrence Asylum) پہنچا اور یہاں سناکہ میری تلاش میں بہت شوروغل مچا تھا۔ 31 اگست کی رات اس گاؤں میں جو توچا پہاڑی کے نیچے واقع ہے گزاری گاؤں کے لوگوں نے بہت ناخوشی ظاہر کی لیکن جب میں نے اپنا تھیلا اور چھاتا اٹھایا اور کہا کہ میں جنگل میں جاکر رہوں گا۔ تووہ نرم ہو گئے اُن کا سب سے بڑا زمیندار آیا اور ایک گھنٹہ بیٹھا باتیں کرتا رہا۔ یہ ایک نہایت متعصب مسلمان تھا۔ میں نے دوکھ یعنی گائے خانہ میں یا یوں کہو ایسے مکان میں رات کاٹی جس میں گائے، بھینس، کسان اور اُس کا سارا گھرانہ سب اکٹھے رہتے تھے۔"

جب مشنری کوہِ مری پر ٹھہرے ہوئے تھے تو فرنچ نے ایک گشتی خط شمالی ہند کے سب مشنوں کے نام بھیجا جس میں مدرسہ علمِ الہٰی کے پلان کا بیان تھا۔ اور یہ ارادہ ظاہر کیا کہ یکم جنوری کو مدرسے کا کام شروع کرینگے لیکن چونکہ ایسی مشکلات پیش آئیں جن کا پہلے خیال نہ تھا۔ اور اُن کے خط کے جواب بھی قدرے ناموافق تھے اس لیے مدرسے کے کھولنے میں تقریباً ایک سال کا اور توقف ہو گیا۔

فرنچ 1870ء کے شروع میں ملتان گئے۔ اگرچہ یہاں ہمیشہ مسیحی کام کی سخت مخالفت ہوتی رہی تاہم اُس کو کبھی کبھی ایسے آدمی بھی ملتے تھے جن سے اُن کا حوصلہ بندھ جاتا تھا۔ ماہ جولائی میں فرنچ پھر پہاڑ پر آب وہوا کی تبدیلی کے واسطے گئے۔ جب وہ کسولی پر تھا اُس نے یہ غمناک خبرسنی کہ اُس کا ہمخدمت نوٹ انتقال کر گیا ہے۔ اب فرنچ کالج کی عمارت کے لیے روپیہ جمع کرنے اور کُل کام کا انتظام کرنے کے واسطے اکیلے رہ گئے۔ وہ ایک قطعہ زمین کا دیکھ چکے تھے۔ جو اُس کے مطلب کے موافق تھا۔ اور جب تک وہ نہ ملا۔ اُس کے حاصل کرنے کے واسطے برابر کوشش کرتا رہا۔ آخرکار بہت مشکلات کے بعد اُس نے 5 نومبر 1870ء کے روز اپنے روزنامچہ میں لکھا: "مہاں سنگھ کا باغ جس میں مدرسے علمِ الہٰی تعمیر ہوگا آج خرید لیا گیا ہے۔ خدا اپنے فضل سے اُس کو اپنا لے اوراُس کی آنکھیں اور اُس کا دل ہمیشہ اُس پر لگے رہیں۔ اس قلیل کوشش کا ثمرہ یہ ہو۔ کہ اُس کا جلال ظاہر ہوا اوراُس کی صداقت اوراُس کی بادشاہت ترقی پائیں۔ خدا اُس پر برکت دے اوریہ بخشے کے جو نیاکا اب شروع کیا گیا ہے۔ اُس کے لیے خدا کی خدمت کے واسطے لائق آدمی ہمیشہ ملتے رہیں"۔ 21 نومبر 1870ء کے روز چار طالب علم امتحان کے بعد مدرسے میں داخل کیے گئے۔ کالج چار طالب علموں سے شروع کیا گیا۔ اُن کا شمار جلدی سات ہو گیا۔ تیسرے برس طالب علم بیس ہو گئے۔ جتنے طالب کالج میں داخل کیے گئے اُتنے ہی اور بھی آئے مگر وہ داخل نہ کیے گئے۔ کیونکہ فرنچ صرف اعلیٰ ترین لائق شخصوں کوہی دینی خدمت کے لیے تربیت دینی چاہتے تھے۔ کالج میں عبرانی اور یونانی زبانیں۔ علم الہٰیات۔ اسلام اور ہندومت کی تعلیم۔ مباحثہ اور مناظرہ کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ کالج کے طلبہ دُور دراز مقامات سے آئے تھے۔ اورمختلف اقوام سے تھے چنانچہ پٹھان، راجپوت، پنجابی اورکشمیری اُن میں شامل تھے۔ اُن میں سے بعض مسلمانوں میں سے مسیحی ہوئے تھے اوربعض ہندوؤں میں سے اور ایک سکھوں میں سے مسیحی ہوا۔ فرنچ کا خیال تھا کہ نوجوان مسیحیوں کو انگریزی طور وطراز اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس واسطے ایک شرط یہ مقرر کی گئی تھی۔ کہ کالج کے طلبہ دیسی لباس پہنیں۔ ڈاکٹر عماد الدین لاہز لکھتا ہے کہ "ایک دن ایک کاٹی کسٹ انگریزی لباس پہنے ہوئے دہلی سے کالج میں پڑھنے کے واسطے آئے۔ فرنچ نے اُس کو ایک ہفتے کی مہلت دی کہ وہ دیسی لباس پہن لے۔ لیکن اُس نے نہ پہنا۔ فرنچ نے اُن کو جماعت سے اٹھا دیا اور فوراً دہلی واپس بھیج دیا" کالج کے اُستاد بھی یہ کوشش کرتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے وہ سادہ طرز زندگی اختیار کریں۔ اور ہندوستانی خوراک کھائیں۔

فرنچ کی لاہور کے رہنے والے سخت مخالفت کرتے تھے۔ چنانچہ فرنچ لکھتے ہیں "میں بعض اوقات دل شکستہ اور پژمردہ خاطر ہوکر منادی سے واپس آتا ہوں"۔ تاہم بازاری تبلیغ کے بعد مولوی اکثر اوقات اُن کے گھر بحث کرنے آیا کرتے تھے۔ جن صاحبان نے بہ حیثیت کالج کے اُستاد ہونے کے فرنچ کی مدد کی وہ سب پنجاب میں نامی شخص تھے۔ اُن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ پادری کلارک، پادری بیٹمن (Rev Bateman)، پادری ویڈ (Rev.Wade)، پادری گورڈن (Gordon) جوملک ایران سے قحط کے کام کرنے کے بعد آئے تھے۔ پادری ہوپر (Hooper) اور پادری شرف جوبیس برس سے زیادہ لاہور میں مقیم رہے اور فرنچ ہی کے زیرِ اثر مشنری ہوئے تھے۔ چنانچہ فرنچ نے لکھا "ایسا معلوم ہوتاہے کہ جو تقریر میں نے پانچ برس ہوئے آکسفورڈ میں کی تھی اُس کے باعث اُن کے دل میں مشن کے کام کی نسبت جوش پیدا ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ میں کسی جگہ جانے سے کبھی اس قدر ناخوش نہ تھا جیسا اُس موقع پر آکسفورڈ کوجانے سے ناخوش تھا۔ کون جان سکتا ہے کہ خدا اُس سے کیا کا کب لینا چاہتاہے"۔

1872ء کے شروع میں بیماری کے سبب سخت مصیبت پڑی۔ فرنچ خان پور کو دورہ کے لیے گیا تھا اور وہاں مرض اسہال میں مبتلا ہو گئے۔ پادری بیٹمن اُس کے ہمراہ تھا۔ لیکن فرنچ نے اُس کے چلے جانے پر اصرار کیا۔ کیونکہ کالج کے درس اور دوسرے کام 15 جنوری کو شروع ہونے والے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس سے بدتر کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ طالب علموں کو یہ خیال ہو جائے کہ اُن کی پڑھائی سب باتوں پر مقدم نہیں ہے۔ جب پادری بیٹمن نے بھی دیکھا کہ اُس کی موجودگی سے فرنچ کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اور اُس سے اُن کو اتنا نقصان پہنچتا ہے جتنا عدم موجودگی سے نہ پہنچے گا تو وہ لاہور چلا گیا۔ 15 ستمبر 1872ء کا روز کالج کی تاریخ میں بڑی خوشی کا دن تھا۔ کیونکہ اُس روز بشپ بیٹمن نے کالج کے دوطالب علموں کو پہلی دفعہ خادم دین بنایا۔ یہ جان ولیم اور امام شاہ تھے جو ٹانک اور پشاور کے خادمانِ دین مقرر ہوئے۔ کالج کا کام نہایت خُوش اصلُوبی سے چل رہا تھا۔ لیکن فرنچ کی صحت خراب ہو گئی تھی۔ وہ گاؤں گاؤں میں منادی کرتا تھا۔ جب وہ بہت بیمار ہو گیا تووہ اُسی حالت میں دھرم سالہ لایا گیا۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق اُن کو انگلستان واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد اُس کا چرچ مشنری سوسائٹی سے اور مہاں سنگھ باغ سے قطع تعلق ہو گیا۔ ماہ مئی 1877ء میں فرنچ مشنری کی حیثیت میں ہندوستان پھر آنے کا ارادہ کیا۔ بشپ فرنچ صاحب 16جنوری 1878ء انگلستان سے روانہ ہوا۔ لیکن اُس کی اہلیہ وہیں رہی۔ ارادہ یہ تھا کہ وہ بھی سال کے آخر تک ہندوستان میں اُس سے آملیں۔ اپنے علاقے میں پہنچتے ہی بشپ فرنچ یہ سوچنے لگا کہ لاہور میں ایک ایسا گرجا تعمیر ہونا چاہیے جو پنجاب میں مسیحی دین کی شان کے لائق ہو۔ اُس کے نزدیک یہ بڑی شرم کی بات کی تھی کہ لاہور میں صرف ایک ہی گرجا ہو۔ اور وہ بھی ایک مسلمان عورت کی قبر ہو چنانچہ اُس نے لاہور پہنچ کر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد لکھا "دس بارہ آدمی پبلک لائبریری میں گرجا گھر کی تعمیر کے بارہ میں غور کرنے کو جمع ہوئے۔ اور یہ تجویز قرار پائی کہ دولاکھ روپیہ چندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ میں بیس منٹ تک تقریر کرتا رہا یہ کام اشد ضروری ہے۔ اور کہ ہم کو مستقبل کا خیال رکھ کر ایسی عمارت تعمیر کرنی چاہیے جواُن نامور لوگوں کی یادگار ہونے کے لائق ہو جوہم سے پہلے پنجاب میں گذرچکے ہیں اوراس خیال کو دل میں پھٹکنے بھی دینا نہ چاہیے کہ کسی طرح اس کام سے جلد فراغت پائیں۔ اوراس وقت ہم صرف اشد ضرورت کو ہی رفع کر دیں گے گویا ہم وہ کرتے ہیں جس کو ہم دل سے پسند نہیں کرتے۔ بلکہ ہم کو دلیری، اُمید ثابت قدمی اور دانائی کے ساتھ ایثار کو کام میں لاکر فیاضی اور دریادلی سے اس کارِ خیر کے لیے چندہ دینا چاہیے۔" اُس نے تیس ہزار پونڈ فراہم کیے۔ اس رقم کا خاصہ حصہ اُس نے اپنی گرہ سے دیا۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس گرجا میں کوئی ایسی کھڑکی یا کونہ ہو جس میں تصاویر ہوں تاکہ اہلِ اسلام کو کسی قسم کی ٹھوکر نہ لگے۔ اس بڑے گرجا کی تقدیس 1887ء میں ہوئی۔ جس کے لیے مسیحیوں کی ایک بڑی جماعت چاروں طرف سے فراہم ہوئی۔ اس بڑے گرجا کی تقدیس کی جوبلی نومبر 1937ء میں منائی گئی جس میں ہزاروں مسیحی پنجاب، دہلی، سندھ اور صوبہ سرحد کے گوشہ گوشہ سے حاضر تھے۔

20 ماہ دسمبر 1882ء کے دن بشپ فنچ نے تقدس کا عرضہ یعنی روز ماقبل تھا۔ ایک تحریری سند لندن کے بشپ کی طرف سے بشپ فرنچ کے پاس پہنچی۔ یہ چرچ مشنری سوسائٹی کی درخواست کے بموجب اس غرض سے بھیجی گئی تھی کہ بشپ فرنچ ملک ایران میں جاکر اُن کی طرف سے سوسائٹی مذکور کے مشنوں کا ملاحظہ فرمائیں۔ ایران کے مسیح کی بادشاہت کی اشاعت کی وہاں کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کے دلوں کو بڑھائیں۔ بشپ صاحب نے یہ تحریر کیا "اب میں مجبور ہوں۔ جانے سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس کو میں ایک بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔ لیکن اُس کے سبب مجھے شاید اُن سے زیادہ سخت تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھانی پڑیں گی جو میں نے اب تک اٹھائی ہیں۔" چرچ مشنری سوسائٹی کا مشن ملک ایران میں تب قائم ہوا تھا۔ جب پادری ہنری مارٹن نے 1811،12ء میں دس مہینے شیراز میں گزارے تھے لیکن اُس وقت سے جب تک پادری بروس ایران میں 1869ء میں نہ گئے کچھ کام نہیں کیا گیا تھا۔ بروس پہلے چرچ مشنری سوسائٹی کی طرف سے ڈیرہ جات میں مشنری تھے۔ جب اُن کی رخصت انگلستان میں تمام ہوئی۔ تو اُس نے ہندوستان آنے سے پہلے ملک ایران جانے کا ارادہ کیا۔ تاکہ فارسی زبان سے کامل واقفیت حاصل کریں۔ اُن کا ارادہ تھا کہ کچھ عرصہ وہاں ٹھہر کر پھر ہندوستان اپنے مشن کو واپس چلے جائیں گے۔ لیکن قحط اور دیگر وجوہات کے سبب مستقل کام کی صورت نظر نہ آئی۔ انجام کار سوسائٹی نے جلفہ میں ایک مشن کا قائم ہونا منظور کیا۔ اس کام کو اب جاری ہوئے تیرہ برس کا عرصہ گذرچکا تھا۔ امریکن مشنریوں نے بھی بروس کے آنے کے ایک برس بعد کام شروع کیا تھا اگرچہ یہ کام مسلمانوں میں ہوتا تھا تاہم کچھ دقتیں پیش آئی تھیں کیونکہ وہاں پہلے سے آرمینی کلیسیا کے مسیحی موجود تھے۔ اور ایک چھوٹا رومن کیتھولک مشن بھی تھا۔ بشپ فرنچ کراچی سے جہاز پر سوار ہوکر 20 مارچ 1882ء کے روز مسقط پہنچے۔ (اسی شہر مسقط میں آٹھ سال کے بعد فرنچ نے انتقال کیا تھا)۔ 6 ماہ اپریل کے روز بشپ فرنچ شیراز پہنچا اور وہاں 18 اپریل تک رہے۔

ماہ جولائی 1886ء میں بشپ فرنچ نے اپنے اُسقفی عہدہ سے مستعفی ہونے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے کنٹربری کے آرچ بشپ اور وزیر ہند کو لکھا۔ کہ صحت کی خرابی اوردیگر وجوہ کے باعث میں استعفا دیتا چاہتا ہوں۔ اور میری خواہش یہ ہے کہ آرچ ڈیکن میتھیو میری جگہ بشپ مقرر ہوں۔ مگر بعض مشکلات آرچ ڈیکن کو اس عہدہ کے قبول کرنے سے باز رکھتی تھی۔ 17 ستمبر 1887ء کو بشپ فرنچ نے ایک خط میں پادری بیٹمین کو لکھا کہ "آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ آرچ ڈیکن صاحب نے بہت عرصہ تک تامل کرنے کے بعد اُسقفی عہدہ قبول کر لیا ہے۔ میں نے ابھی انے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا۔ پس اس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں اور نہ لکھ سکتا ہوں۔ میں اپنے دوستوں سے منت کرتاہوں کہ وہ حتیٰ المقدور اپنے خطوں میں میرے مستعفی ہونے کا ذکر نہ کریں۔ بلکہ خدا سے دعا مانگیں کہ جو شخص جاتاہے۔ خدا اپنے فضل سے اُسے معافی بخشے اور جو یہ بوجھ اٹھا رہاہے۔ اُسے اُس کے اٹھانے کے لیے زوراور طاقت بخشے"۔ بشپ فرنچ 22 دسمبر کو اُسقفی عہدہ سے درست بردار ہو گیا اور پورے دس سال اس عہدہ پر مقرر رہا۔ 6 جنوری 1888ء کے روز صاحب ممدوح کراچی سے جہاز پر سوار ہوکر روانہ ہو گئے۔ اورہندوستان سے اُن کا تعلق منقطع ہو گیا۔

جب فرنچ صاحب انگلستان میں تھا تو اُس کو اشاعتِ انجیل کا کام کرنے کی ایک اور صورت نظر آئی۔ لیکن یہ کام چرچ مشنری سوسائٹی سے متعلق نہ تھا۔ 1890ء کے موسم خزاں میں اُس نے لکھا "میرا یہ ارادہ ہے۔ کہ چند ہفتوں کے لیے یا زیادہ عرصے کے واسطے میں مصر کو ٹیونس کی راہ جاؤں تاکہ عربی زبان میں زیادہ مہارت حاصل کروں اور معلوم کروں کہ ان اطراف میں اہل اسلام کے درمیان مسیحی دین کے پھیلانے کے واسطے کیا کوشش ہو رہی ہے۔" پس 3 ماہ نومبر 1890ء کو وہ آخر بار بیوی اور وطن سے رخصت ہوا۔ 7 نومبر کو اُس نے ٹیونس سے خط لکھا۔ وہاں وہ کچھ عرصہ تک ٹھہرے اور منادی کرنے میں مشغول رہا۔ لیکن وہ مسقط پہنچنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اُس نے چرچ مشنری سوسائٹی کے ارباب بست وکشاد سے درخواست کی کہ جن نئے مشنوں کے قائم کرنے کا وہ ارادہ کر رہے ہیں اُن میں وہ مسقط کا مشن بھی شامل کریں۔ بشپ صاحب کا منشا تھا کہ وہ خود وہاں جائے۔ اور وہاں کے حالات سے چرچ مشنری سوسائٹی کو مطلع کریں۔ 8 ماہ فروری وہ کراچی سے ہوتے ہوئے مسقط پہنچا۔ کراچی میں بشپ فرنچ پر نے اپنے قدیم رفیق رابرٹ کلارک سے ملاقات کی۔ زمین پر ان دونوں کی آخری ملاقات تھی۔

وفات

ترمیم

بشپ فرنچ کی ہمیشہ یہی آرزو رہی کہ وہ عرب میں مشنری ہوکر جائے اور اہلِ عرب کو انجیل کا جانفزا پیغام دے۔ اب جو وہ عرب میں آ گیا تو بڑھاپا اور جسم کی کمزوری اُس کے ارادے میں سدِ راہ ہو گئے لیکن اُس نے یہ مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہعرب نہ چھوڑے گا۔ وہ 6 مئی کو 11 بجے دن کے کشتی میں بیٹھ کر انجیل کا پیغام دینے کے لیے روانہ ہوا۔ اور اُسی دن آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے سیب میں پہنچے۔ روانہ ہونے سے چند روز پہلے وہ بخار میں مبتلا ہونے کے سبب بہت کمزور ہو گیا تھا۔ کشتی سے اُترنے کے وقت بھی گرمی سخت تھی۔ اس واسطے وہ درختوں کے سایہ میں آرام کرنے کے بعد اُس مکان کو گیا جو کنارے سے پون میل کے فاصلے پر اُن کو سکونت کے واسطے مل گیا تھا۔ دُوسرے روز صبح کے وقت 7 مئی عیدِ صعود کے روز تھوڑا سا دودھ پی کر تین میل کے فاصلہ پر وہاں کے حاکم سے ملنے کے لیے گیا۔ جب وہ واپس آیا تو گرمی بہت تھی۔ گھر پہنچنے تک اُن کی طبعیت علیل ہو گئی۔ 8 تاریخ کو صبح کے وقت وہ چند کتابیں لے کر باہر گیا۔ دس بجے کے قریب چند آدمیوں نے اُس کے نوکر کو خبردی کہ تمھارے آقا کھجور کے درختوں میں پڑے سو رہے ہیں جب نوکر اُس کے پاس آیا تو اُسں نے اُسے واپس گھر بھیج دیا۔ جب وہ خود گھر پہنچا۔ تو نیچے گڑی ہوئی بلیوں کے درمیان میں لیٹ گیا۔ نوکر نے اُس کو پکارتے اور تالی بجاتے سنا پس وہ دوڑ کر اُس کے پاس گیا۔ لیکن انھوں نے بے ہوش پایا۔ اُس نے اُس کے سر پر پانی ڈالا اورپندرہ منٹ کے بعد بشپ فرنچ کو ہوش آیا۔ بعد میں اُس نے کھانا پکوایا لیکن کھا نہ سکے۔ دُوسرے دن یعنی نویں تاریخ ہفتے کے روز مسقط کو واپس آنے کاارادہ کیا۔ لیکن جب کشتی تیار ہوئی۔ تو وہ جانہ سکا۔ دس تاریخ کو بوقت شام وہ روانہ ہوا۔ مسقط میں 11 مئی کو دن نکلے پہنچا اور اُس کمرے کو گئے جو اُس نے ریذیڈنسی کے پاس کرایہ پر لیا تھا۔ اُس نے نوکر کوحکم دیا کہ کسی سے ہمارے واپس آنے کا حال نہ کہنا مگر نوکر نے حکم کی تعمیل نہ کی۔ 13 مئی کو ڈاکٹر صبح ساڑھے سات بجے اُن کو دیکھنے کو آئے۔ اُس نے بشپ فرنچ کو بیہوش پایا۔ تھوڑی چاء کے پینے سے اُن کی طبعیت کسی قدر بحال ہو گئی۔ ریذیڈنٹ نے سمجھا بجھا کر اُن کو تھوڑا شوربا پلایا۔ ڈاکٹر رات کے نوبجے آیا اور تین بجے تک اُس کے پاس رہا۔ بشپ فرنچ کے بدن کی حرارت اُس وقت 104 درجہ پر تھی۔ وہ آہست آہستہ "اے خداوند۔ اے خداوند" کہتا رہا۔ اس کے علاوہ کوئی اور لفظ منہ سے نہ نکلا۔ 14 مئی کو دوپہر کے بعد ساڑھے بارہ بجے وہ وفات پاگیا۔

لاہور کے اُسقفی گرجا میں ایک پیتل کی تختی پر یہ عبارت کندہ ہے: "تھامس والپی فرنچ ڈی۔ ڈی۔ آپ یونیورسٹی کالج آکسفورڈ کے سابق فیلو اور اُسقفی گرجا کے بانی تھے۔ 1851ء سے جب وہ ہندوستان میں آئے تو خدا کی کلیسیا کی دینی خدمت کرتے رہے۔ اول صبر و کوشش کے ساتھ شمال مغربی صوبوں اورپنجاب میں بحیثیت مشنری ہونے کے اوراس کے بعد دس برس بحیثیت اُس علاقہ کے پہلے بشپ ہونے کے 1877ء سے 1887ء تک رہے۔ بشپ صاحب ممدوح الصدر نے مسقط واقع ملک میں عرب مسیح کی بادشاہت کا ایک تنہا شاہدین بن کر بتاریخ 14مئی 1891ء انتقال کیا"۔

حوالہ جات

ترمیم
  • Life of Bishop French 2Vol by Herbert Briks
  • Tazkira-e-Bishop French, by Tara Chand.