کنزرویٹو پارٹی (برطانیہ)

(ٹوری پارٹی سے رجوع مکرر)

مملکت متحدہ کی ایک سیاسی جماعت ہے، جسے قدامت پسند پارٹی یا ٹوری پارٹی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

رہنماڈیوڈ کیمرن
شریک چیئرمینGrant Shapps and Lord Feldman
تاسیس1834
پیشروTory Party
صدر دفترConservative Campaign HQ
4 Matthew Parker Street, London, SW1H 9NP, England
یوتھ ونگConservative Future
Women's wingConservative Women's Organisation
Overseas wingConservatives Abroad
رکنیت  (2014)Increase 149,800[1]
نظریاتConservatism[2]
Economic liberalism[2]
British unionism
Euroscepticism[2]
سیاسی حیثیتCentre-right
بین الاقوامی اشتراکInternational Democrat Union
یورپی اشتراکیورپ میں قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں کا اتحاد
یورپی پارلیمان گروہEuropean Conservatives and Reformists
House of Commons
331 / 650
دارالامرا
232 / 793
لندن اسمبلی
9 / 25
یورپی پارلیمان
20 / 73
Local government[3]
8,296 / 20,565
Police & Crime Commissioners
16 / 41
ویب سائٹ
conservatives.com

ابتدا

ترمیم

سنہ سولہ سو اٹھہتر میں جب بادشاہ جیمز دوم نے اعلان کیا کہ اس نے رومن کیتھولک عقیدہ اختیار کر لیا ہے تو اس پر ملک میں ایک ہیجان برپا ہو گیا۔ امرا اور عام لوگوں کے دلوں میں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ رومن کیتھولک عقیدہ کی بنا پر بادشاہ ، پاپائے روم کے تابع ہو جائے گا اور ملک اپنی حاکمیت اعلیٰ کھو بیٹھے گا۔

چنانچہ جیمز دوم کو انگلستان، آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے تختوں سے اتارنے کے لیے ملک میں زبردست تحریک نے سراٹھایا۔ یہ تحریک تین سال تک جاری رہی۔ا س دوران ملک کے جاگیر دار طبقہ نے جو ٹوری کہلاتا تھا، بادشاہ کی زبردست حمایت کی اور پارلیمنٹ کی مخالفت کی جو فرماں روا سے معرکہ آراء تھی۔ٹوریوں کے مقابلہ میں کاروباری اور سرمایہ دار طبقہ تھا جو’وگ‘ کہلاتا تھا۔ وگ کا لفظ’ وگامور‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں مویشیوں کا چھکڑا چلانے والا۔ ٹوری کی اصطلاح آئرلینڈ کی زبان گیلیک سے ماخوذ ہے جس کے معنی ڈاکو اور رہزن کے ہیں۔ یہ نقطہ آغاز تھا ٹوری پارٹی کا جس نے بعد میں اپنے آپ کو قدامت پسند پارٹی کہلانا پسند کیا لیکن اب بھی عرف عام میں ٹوری پارٹی کہلاتی ہے۔ اسی زمانہ سے ٹوری پارٹی بنیادی طور پر شاہ پرست پارٹی چلی آرہی ہے۔

اقتدار

ترمیم
فائل:5pitt-younger.jpg
ولیم پٹ دی ینگر

قدامت پسند پارٹی کو پہلی بار اقتدار سن سترہ سو تراسی میں حاصل ہے ہوا جب ولیم پٹ دی ینگر وزیرِاعظم بنے۔ انہی کے زمانہ میں آزاد تجارت اور حکومت کی مداخلت اور پابندیوں سے مکمل طور پر آزاد کاروبار کا نظریہ پارٹی نے اپنے بنیادی عقیدہ کے طور پر اپنایا۔

ٹوری پارٹی میں پھوٹ

ترمیم

انیسویں صدی کے وسط میں ٹوری پارٹی میں ایک انقلابی تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب ایک صنعت کار رابرٹ پیل پارٹی کے سربراہ بنے انھوں نے کارن لا کے تحت کاشتکاروں کو حاصل وہ مراعات ختم کر دیں جو ان کے مفادات کی ضامن تھیں۔اس فیصلہ سے پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی اور رابرٹ پیل کے فیصلہ کے مخالفوں نے ٹوری پارٹی چھوڑ کر ایک نئی پارٹی کی داغ بیل رکھی جو لبرل پارٹی کہلائی۔شکست وریخت کے اس سلسلہ نے ایک نئی کروٹ لی جب اٹھارہ سو اٹھاسی میں آئرلینڈ کو حق خود اختیاری دینے کے مسئلہ پر لبرل پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی اور آئرلینڈ کو ہوم رول کا حق دینے کے مخالفوں نے لبرل یونینسٹ پارٹی کے نام سے اپنی الگ پارٹی قائم کر لی۔سن انیس سو بارہ میں اس جماعت نے قدامت پسند پارٹی سے باقاعدہ طور پراتحاد کا فیصلہ کیا جس کے بعد قدامت پسند پارٹی کنزرویٹو اینڈ یونینسٹ پارٹی کہلاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ٹوری پارٹی کا شمالی آئرلینڈ کے مسئلہ پر بڑا کٹّر موقف ہے اور وہ آئرلینڈ کے اس حصہ کو مستقل طور پر برطانیہ کا اٹوٹ انگ کے طور پر برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

اشرافیہ کی جماعت

ترمیم

انیسویں صدی کے آخر تک ٹوری پارٹی بڑی حد تک جاگیرداروں اور اشرافیہ کی جماعت مانی جاتی تھی اور یہ اسی طبقہ کے مفادات کی نگران اور نگہبان رہی ہے لیکن بیسویں صدی میں جب برطانیہ میں حق رائے دہی میں توسیع ہوئی اور عوام کو انتخابات میں ووٹ دینے کا حق ملا تو ٹوری پارٹی نے انتخابی مصلحتوں کی خاطر اپنے پینترے بدلے اور محنت کش طبقہ کو ریجھانے کی کوشش شروع کی۔تاہم بنیادی طور پر ٹوری پارٹی ایک طرف جاگیر داروں اور کاشتکاروں اور دوسری طرف صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ جماعت مانی جاتی رہی ہے-

سن تیس کا عشرہ ٹوری پارٹی کے لیے بحرانوں سے بھر پور عشرہ رہا ہے۔ پہلے ٹوری وزیر اعظم اسٹینلے بالڈون کے لیے ایڈورڈ ہشتم کی ایک مطلقہ امریکی خاتون ویلس سمپسن کی خاطر تخت سے دست برداری کا مسئلہ سخت ہلچل کا باعث ثابت ہوا۔ پھر ٹوری وزیر اعظم نیول چیمبرلین کی ہٹلر کے تئیں خوشنودی کی پالیسی تباہ کن ثابت ہوئی اور ملک کو جنگ کی آگ نے لپیٹ میں لے لیا-

دوسری جنگ عظیم اور چرچل

ترمیم
 
ونسٹن چرچل

یہ نئے ٹوری رہنما ونسٹنچرچل کی پرعزم اور مضبوط قیادت تھی جس نے برطانیہ کو اس دوسری جنگ عظیم میں فتح سے ہمکنار کیا۔ اس جیت میں جنگ کے دوران قومی حکومت میں لیبر پارٹی کی شمولیت اور امریکا کے فوجی اتحاد کے کردار کو بھی اہمیت حاصل تھی۔دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جب سن انیس سو پینتالیس میں عام انتخابات ہوئے تو اس میں ٹوری پارٹی کے مقابلہ میں لیبر پارٹی کی بھاری جیت نے ساری دنیا کو حیرت ذدہ کر دیا۔ خود لیبر رہنماؤں کو اتنی زبردست جیت کی توقع نہیں تھی۔پھر سنہ انیس سو اکیاون میں اس وقت لوگوں کے تعجب کی انتہا نہیں رہی جب لیبر پارٹی کی فلاحی بہبود ، بنیادی صنعتوں کو قومیانے اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے انقلابی تبدیلیوں کے دور کے باوجود اسے عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور چرچل کی قیادت میں ٹوری پارٹی پھر بر سر اقتدار آگئی۔اس دوران پارٹی کی قیادت بدلی اور چرچل کی جگہ ہیرلڈ میکملین نے سنبھالی لیکن اقتصادی خوش حالی کی بدولت ٹوری پارٹی تیرہ سال تک ملک پر حکمران رہی اورپھر جب ملک اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہوا تو ہیرلڈ ولسن کی قیادت میں لیبر پارٹی سن انیس سو چونسٹھ کے انتخابات میں فتح مند رہی۔

دائرہ

ترمیم

یہ عجیب و غریب بات ہے کہ جب ٹوری حکومت کو اقتصادی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو برطانیہ کے عوام اقتدار لیبر پارٹی کو سونپ دیتے ہیں اور جب لیبر پارٹی معیشت کو سنبھال لیتی ہے اور ملک خوش حالی کی جا نب گامزن ہوتا ہے توپھر عوام اقتدار ٹوری پارٹی کے حوالے کر دیتے ہیں۔

ولسن کی قیادت میں برطانیہ جب خوش حالی سے سرشار تھا اور اس دور کو سوئنگنگ سکسٹیز سے تعبیر کیا جا رہا تھا کہ اچانک انیس سو ستر کے انتخابات میں عوام نے لیبر پارٹی کی بساط الٹ دی اوراقتدار ٹوری لیڈر ایڈورڈ ہیتھ کے حوالہ کر دیا۔

ایڈورڈ ہیتھ کی پالیسیاں ٹوری پارٹی کی روایتی پالیسیوں کے برعکس قدرے ترقی پسندی کی سمت بڑھ رہی تھیں کہ ملک میں صنعتی تعلقات کے قانون پر بحران اٹھ کھڑا ہو گیا اور تیل کی عالمی قیمتوں میں زبردست اضافہ کے نتیجہ میں پیدا شدہ بین الاقوامی اقتصادی ہلچل نے ملک میں سیاسی حالات خراب کر دیے اور چار سال بعد ہی سن چوہتر کے انتخابات میں ہیرلڈ ولسن دوبارہ بر سر اقتدار آ گئے۔

طویل ترین دور اقتدار

ترمیم

سن انیس سو اناسی کے انتخابات میں ٹوری پارٹی ایک نئی سربراہ مارگریٹ تھیچر کی قیادت میں میدان میں اتری جن کی فتح نے برطانیہ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ ایک تو مسز تھیچر برطانیہ کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں دوسرے انھوں نے یکے بعد دیگرے تین انتخابات جیتے اور برطانیہ کی سب سے طویل عرصہ تک رہنے والی وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کیا- انھیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ انیس سو بیاسی میں جب ارجنٹینا نے برطانیہ کے جزیرہ فاک لینڈ پر قبضہ کیا تھا توانہی کی قیادت میں برطانوی فوج فاک لینڈ کی جنگ میں فاتح رہی تھی۔

انھوں نے جس انداز سے ملک میں بڑے پیمانہ پر نج کاری کی اور ٹریڈ یونینوں کی طاقت کو کچلا اسے ملک میں سوشلزم کے خلاف جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے انھوں نے اس فلاحی مملکت کی جڑیں کھود دیں جو سن پینتالیس میں لیبر پاٹی نے قائم کی تھی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام کا قلعہ تعمیر کیا۔

ناکامی

ترمیم

مغربی دنیا میں مارگریٹ تھیچر کی اس کامیابی پر زبردست جے جے کار ہوئی اور وہ بے حد مقبول ہوئیں ، لیکن ملک بری طرح سے بٹ گیا۔ عوام نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ سرمایہ دار ، کاروباری اور صنعت کار طبقہ کی خوشنودی اور ان کے فروغ کی خاطر ان کے مفادات کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ملک میں اس تیزی سے بے روزگاری بڑھی کہ اس نے لوگوں کو بدحال کر دیا پھر مارگریٹ تھیچر نے جب کونسل ٹیکس کا نظام ترک کر کے پول ٹیکس کا نظام رائج کیا تو پورے ملک میں اس کے خلاف بغاوت بھڑک اٹھی جس نے پارٹی کو ہلا کر رکھ دیا۔آخر کار پارٹی میں داخلی بغاوت نے مارگریٹ تھیچر کی قیادت کا تختہ الٹ دیا اور جان میجر پارٹی کے سربراہ بنے۔لیکن یہ دور ٹوری پارٹی پر بدعنوانیوں کے بھر پور الزامات کا دور تھا نتیجہ یہ کہ انیس سو ستانوے میں اٹھارہ سال بعد لیبر پارٹی نئی قیادت اور نئی شبیہ کے ساتھ دوبارہ بر سر اقتدار آئی۔اور آج تک اقتدار میں ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Membership of UK political parties - Commons Library Standard Note"۔ UK Parliament۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2015 
  2. ^ ا ب پ Wolfram Nordsieck۔ "Parties and Elections in Europe"۔ parties-and-elections.eu۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2015 
  3. "Local Council Political Compositions"۔ Keith Edkins۔ 24 November 2013۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2013