پانی سے چلنے والی کار
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
پانی سے کار چلانے کا مطلب دراصل پانی کے ایک جزو، یعنی ہائیڈروجن سے کار چلانا ہے۔ پانی سے ہائیڈروجن کو الگ کرنے کا بہت ابتدائی طریقہ جو اب تک سامنے آیا ہے، وہ یہی ہے کہ پانی سے بجلی گزاری جائے تو وہ دو گیسوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہائیڈروجن ایک الیکٹروڈ پر اور آکسیجن دوسرے الیکٹروڈ پر جمع ہونے لگتی ہے اس عمل کو پانی کی برق پاشیدگی کہتے ہین۔ ہائیڈرو جن جلنے والی گیس ہے، جبکہ آکسیجن خود جلتی نہیں لیکن جلنے میں مدد دیتی ہے۔ پانی کو اس طرح دو گیسوں میں تقسیم کرنا مہنگا طریقہ ہے، اب تک بہت سے لوگوں نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن اب تک ایک بھی دعویٰ ثابت نہیں ہو سکا۔ پانی سے انجن چلانے کے لیے فی الحال صرف ایک طریقہ ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی کی جائے اور اس میں سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اسے ایندھن کی جگہ انجن میں جلایا جائے یا پھر کسی اور طریقے سے اسی ہائیڈروجن کو استعمال میں لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اس سے انجن چلایا جا سکتا ہے لیکن یہ عمل اِنتہائ مہنگا ہے حتہ کے پیٹرول سے بھی کئی گنا مہنگا پڑتا ہے اسی لیے اسے ناقابلِ عمل کہا جاتا ہے۔ اب تک لوگ پانی کا نام استعمال کرتے تھے۔ اب لوگوں نے ہائیڈروجن کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ امریکا میں ایک اور اصطلاح رائج ہوئی۔۔۔۔Hydrogen on demand ۔۔۔۔ اس کی آج کل بہت شہرت ہے۔
پانی کے ذریعے گاڑی چلانے کے کئی کامیاب تجربے ہو چکے ہیں اور انٹرنیٹ پر خاصا مواد بھی موجود ہے۔ بنی بنائی kits مل جاتی ہیں۔ یہ کوئی روکٹ سائنس نہیں ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر اور ایفی شنسی کے ساتھ قابلِ عمل نہیں ہے ورنہ امریکا، جاپان جیسے کارساز ممالک جن کے پاس بے پناہ وسائل بھی موجود ہیں اب تک اس میں کامیاب ہو چکے ہوتے۔
سائنسی جائزہ
ترمیمتوانائی کے سائنسی اصولوں کے مطابق اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پانی کی برق پاشیدگی پر جتنی توانائی خرچ ہو گی، پانی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن آگسیجن کے ساتھ جل کر اتنی ہی توانائی دے گی۔ عام طور پر پانی کی پاشیدگی کے لیے بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں فی الحال ایسے آئیڈیل حالات تیار نہیں ہوئے لہٰذا جتنی توانائی برق پاشیدگی پر لگے گی اس کا کچھ حصہ حرارتی اور دیگر توانائی کی اقسام میں تبدیل ہو جائے گا اور یوں حاصل ہونے والی ہائیڈروجن جتنی توانائی دے گی اس سے زیادہ توانائی برق پاشیدگی اور دیگر کاموں پر پہلے ہی لگ چکی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ فرض کریں کسی نے کوئی آئیڈیل حالات بنا بھی لیے ہوں (جو کم از کم زمین پر فی الحال ناممکن کے قریب تصور کیا جاتا ہے) تو پھر بھی جتنی توانائی پانی کی برق پاشیدگی پر لگاؤ گے نتیجہ میں اتنی ہی توانائی ہائیڈروجن کو جلا کر حاصل ہو گی۔ اب آپ ہائیڈروجن سے انجن چلا کر اس سے گاڑی کا پہیا گھماؤ یا پھر بجلی بنانے والی ڈینمو، یہ آپ کی مرضی مگر پانی کو توڑنے (پاشیدگی) پر جتنی توانائی لگا رہے ہو اتنی ہی توانائی حاصل کر پاؤ گے۔ اب جیسے پاشیدگی کے لیے بجلی کا استعمال ہوتا ہے تو اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پھر برق پاشیدگی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن کو استعمال کرتے ہوئے ہم اتنی ہی بجلی بنا پائیں گے جتنی کہ برق پاشیدگی پر لگائی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جتنی بجلی لگائی، اتنی ہی حاصل ہوئی۔ اسی طرح اگر ہم انجن چلانے کے لیے پانی کی پاشیدگی پر جتنی بجلی لگاتے ہیں اگر اتنی ہی بجلی سے موٹر چلائیں تو وہ بھی انجن جتنا ہی کام کرے گی۔ پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے انجن تو چل گیا مگر ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جو بجلی لگائی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ اس بجلی کی جتنی قیمت ہو گی کیا اس سے سستی ہائیڈروجن ویسے ہی مارکیٹ سے نہیں مل جائے گی؟ کیا ہائیڈروجن کی ٹرانسپورٹ موجودہ ایندھن (پٹرول اور ڈیزل) جتنی آسان ہو گی؟ کیا ہائیڈروجن سے سستا ایندھن پہلے موجود نہیں؟۔ جب ہم ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی کرنے والے طریقے پر موجودہ ایندھن کی نسبت زیادہ خرچ آتا ہے اور اس طریقے سے سستے اور آسان طریقے پہلے ہی دنیا میں رائج ہیں۔
تاریخی کا جائزہ
ترمیم- آغا وقاراحمد
گذشتہ دنوں پاکستان میں ایک ڈپلوما ہولڈر اِیجینئیر آغا وقاراحمد نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پانی سے کار چلانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ شروع شروع میں کسی نے توجہ نہیں دی، پھر توجہ دی گئی تو بہت واہ واہ ہوئی اور پھر اس کی حقیقت کی کھوج شروع ہوئی تو اس پر شکوک و شبہات کے بادل چھا گئے۔ صحافیوں اور اینکرز نے تو زیادہ تر اسے سراہنے تک محدود رکھا۔ کسی نے کوئی سائنسی سوال نہیں اُٹھایا۔ کچھ سائنس دانوں نے سائنسی سوال اُٹھائے، تو انھوں نے بھی واہ واہ تک سائنس کا اظہار کیا یا یکسر اسے ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا۔ کیوں کے پانی سے ہائیڈروجن حاصل کرنے کا عمل اِنتہائ مہنگا ہے اس لیے جونہی آغا وقار کا یہ دعویٰ سامنے آیا ہمارے ایک سائنس دان ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اسے فوری طور پر ناقابل عمل قرار دے کریکسر مسترد کر تے ہوئے کہا کے یہ سائنس کے بُنیادی اصول تھرموڈائنامکس کے پہلے قانون توانائی کی ایک حالت سے دوسری میں تبدیلی کے خلاف ہے اور ناقابلِ عمل ہے انھوں نے مزید کہا کے اس کی اچھی طرح جانچ ہونی چاہیے ۔
"اُنیس سن تریانوے ء میں گیس ویلڈنگ کا آغاز ہوا۔ دو فرانسیسیوں ایڈمنڈ فورشے اور چارلیس رکارڈ نے یہ طریقہ دریافت کیا۔ اس میں ہائیڈروجن سے ملتی جلتی گیس Acetylene استعمال ہوتی ہے اور اسے آکسیجن سے جلا کر اس کا بلند درجہ حرارت6330F حاصل کیا جاتا ہے۔"
- ڈینس کلائین
2002ءمیں ایک امریکی ڈینس کلائین نے پانی اور آکسیجن کو ویلڈنگ کے لیے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس نے اسے Aquagen کا نام دیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس سے کوئی بھی چیز چلائی جا سکتی ہے اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ہو سکتا کہ جو چیز جل سکتی ہے،وہ کسی بھی مشین کو چلا سکتی ہے۔ پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، نباتاتی تیل اور الکحل وغیرہ وغیرہ سب یہی کام دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ ان کی دستیابی، قیمت یا تیاری کا خرچہ ہے اور یہی معاملہ ہائیڈروجن کے سلسلے میں بھی ہے۔ اگر پانی سے ہائیڈروجن کے اجزاء(مالیکیولز) الگ کرنے کا کوئی سستا طریقہ دریافت کر لیا جائے تو یہ سستا ترین ایندھن ثابت ہو سکتا ہے۔ مسٹر ڈینس کلائین نے دعویٰ کیا کہ حکومت اُن کے ساتھ فوجی گاڑی Hummer کو اس ایندھن پر چلانے کے لیے بات چیت کر رہی ہے، لیکن ایسا کچھ نہ ہُوا۔ ؛
- Genesis world Energy
2002ءمیں ایک کمپنی Genesis world Energy نے ایک آلہ متعارف کرانے کا دعویٰ کیا، جس کا کام پانی سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ کرنا اور پھر دونوں کو ملا کر توانائی حاصل کرنا تھا۔ 2003ءمیں انھوں نے کہا کہ اسے کامیابی سے کاروں میں استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن یہ ایک مہنگا طریقہ کار تھا اور آغا وقار کے سلسلے میں ایک ٹی وی مذاکرے میں ہمارے ایک سائنس دان نے اسی طریقہءکار کو حوالہ بناتے ہوئے اسے مہنگا اور ناممکن العمل قرار دیا۔ کمپنی 2006ءتک کوئی آلہ مارکیٹ میں نہیں لا سکی۔ 2006ءمیں کمپنی کے مالک پیٹرک کیلی کو عدالت نے پانچ سال قید اور چار لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی۔ اُس پر الزام تھا کہ اُس نے اس آلے کے نام پر اڑھائی ملین ڈالر سرمایہ کاری کے لیے لوگوں سے ہتھیا لیے تھے۔
- Genapay water energy system
2008ءمیں ایک اور کمپنی Genapay water energy system سامنے آئی، جس نے دعویٰ کیا کہ وہ پانی اور ہوا سے کار چلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ میڈیا نے اسے water fuel car کا نام دیا۔ کمپنی نے کہا کہ وہ ابھی تک ایجاد کا اہم ترین حصہ یا اصل چیز سامنے نہیں لا رہی، لیکن اس نے اتنا ضرور بتا دیا کہ انھوں نے ایک جنریٹر بنایا ہے، جس میں وہی طریقہ استعمال ہوتا ہے جو دھات ہائیڈ راڈ سے ہائیڈروجن حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک کمپنی نے ایک Gasoline Pill یعنی پٹرول کی گولی ایجاد کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ گولی وہی چیز تھی، جو گیس ویلڈنگ میں استعمال ہونے والے ایک مادے کاربائیڈ سے بنی تھی۔ کار بائیڈ پر پانی ڈالنے سے Acetylene gas پیدا ہوتی ہے جو جلتی ہے۔ اس کے لیمپ بھی استعمال ہوتے ہیں اور اس کی اس خاصیت کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بچے اسے کسی ایئر ٹائٹ ڈبے میں ڈال کر ذرا سا پانی یا تھوک استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ ڈبہ گیس کے دباو¿ سے زور دار دھماکے سے پھٹتا ہے۔ یہ گویا آتش بازی کا کھیل ہے۔۔۔۔ Gen Pax کمپنی نے 2008ءمیں بھارت کی بنی ہوئی گاڑی Revai کو لندن میں اپنے طریقے سے چلا کر دکھایا تھا، لیکن 2009ءمیں کمپنی نے اپنی ویب سائٹ یہ کہہ کر بند کر دی کہ اس پر بہت زیادہ خرچ آ رہا ہے۔
- ڈینئیل ڈنگل
امریکا کے علاوہ فلپائن میں ایک شخص ڈینئیل ڈنگل بڑے عرصے سے دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے کوئی ایسا سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔ 2000ءمیں فارموسا پلاسٹک گروپ نے اس کے ساتھ شراکت کی، تاکہ اس ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر عام کیا جائے۔ 2008ءمیں کمپنی نے ڈنگل پر دھوکا دہی کے الزام میں مقدمہ کر دیا۔ 82 سالہ ڈنگل کو عدالت سے بیس سال قید کی سزا ہو گئی۔
- توشار پریامل ایدری سنگھا
سری لنکا میں توشار پریامل ایدری سنگھا نے پانی سے کار چلانے کا دعویٰ کیا اور کہا اُس نے پانی سے تین سو کلومیٹر گاڑی چلائی، جس پر تین لیٹر پانی خرچ ہوا۔ توشار نے اس سلسلے میں وہی پرانا طریقہ بتایا، یعنی ”برقی پاشیدگی“ کا طریقہ Electrolysis جسے ہمیشہ سے مہنگا سمجھا گیا ہے۔ توشار نے سری لنکا کے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ حکومت نے اس کے ساتھ تعاون کاوعدہ کیا اور اس کی ٹیکنالوجی کو مارکیٹ تک لانے کی ہامی بھرلی، لیکن چند ماہ بعد تو شار کو گرفتار کر لیا گیا۔ اُس پر الزام تھا کہ اُس نے”سرمایہ داری“ فراڈ کیا ہے۔
- جی ایم (جنرل موٹرز)
چند سال پہلے جی ایم نے ایک گاڑی ہائیڈروجن سیلز سے چلنے والی بنائی تھی، جس کے نیچے بہت سے ہائیڈروجن سیلز نصب کیے گئے تھے۔ لوگوں نے اسے سراہا بھی تھا، لیکن بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس گاڑی میں بیٹھنا کسی آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھنے کے مترادف ہوگا۔ یہ گاڑی چلی، لیکن قبولیت عامہ نہ حاصل کر سکی۔ اس کی بجائے بجلی سے چلنے والی ہائبرڈ گاڑیاں عام ہوگئیں۔ نیویارک شہر میں سٹی کی ساری بسیں بجلی سے چلتی ہیں۔ بجلی میں ایک خرابی ہے کہ زیادہ فاصلہ طے نہیں کرتی اور چارج ہونے میں بہت وقت لیتی ہے۔ ہائیڈرجن آن ڈیمانڈ کا مطلب ہے کہ جتنی ہائیڈروجن کی ضرورت پڑے، اتنی تیار ہو کر ساتھ ساتھ استعمال ہوتی رہے، ساتھ ساتھ تیار ہوتی رہے۔ اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دوسرا اس طریقہ کو پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے موجودہ ایندھن کے ساتھ اضافی طور پر استعمال کر کے ایندھن کی کارکردگی بڑھائی جا رہی ہے، یعنی اگر کوئی گاڑی عام پٹرول پر پندرہ میل چلتی ہے تو ہائیڈروجن کی مدد سے وہ اسی پٹرول میں دگنا، تین گنا فاصلے طے کر سکے گی۔ اس کا انحصار گاڑی کے انجن اور سڑک وغیرہ پر ہے۔ امریکا میں اس وقت ایسی کِٹس عام بِک رہی ہیں۔ ایک کمپنی ہے گلوبل انرجی ڈیوائس جو یہ کِٹ بیچ رہی ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کٹ کو چلانے کے لیے گاڑی کے آلٹر نیٹر (ڈائنمو) سے کام لیتے ہیں، کیونکہ آلٹر نیٹر80 سے 140 اے ایم پی AMP ،یعنی ایمپیئر بجلی پیدا کرتا ہے، لیکن کار کے بجلی سے چلنے والے تمام آلات بیک وقت چل کر بھی زیادہ سے زیادہ 20 ایمپیئر بجلی خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح آلٹرنیٹر سے فالتو بجلی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ جس سے خاصی مقدار میں ہائیڈروجن پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک وہ صرف ہائیڈروجن سے گاڑی چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے، لیکن وہ اس پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔
- جیری وڈآل
سائنس ڈیلی نے ایک اور انکشاف کیا ہے کہ Purdue University کے ایک پروفیسر آف الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینئری جیری وڈآل اور اس کی ٹیم نے پانی سے ہائیڈروجن الگ کرنے کا نہایت سستا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ پروفیسر وڈ آل اس طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایلومینیم کو دیگر تین دھاتوں Gallium، Indium اور Tin (قلعی) سے ملا کر کام لیا جاتا ہے۔ ایلومینیم95 فی صد، جبکہ باقی تینوں ملا کر پانچ فی صد کی نسبت ہے۔ اس پانچ فی صد میں کسی دھات کا کتنا حصہ ہے۔ یہی راز کی بات ہے جو ابھی پروفیسر صاحب نے افشا نہیں کی، ورنہ کوئی دوسرا بھی اسے اُڑالے جا سکتا تھا۔ مسٹرووڈل کے مطابق ان دھاتوں کو پگھلا کر آہستہ آہستہ ٹھنڈا کرنے پر یہ یک جان ہو جاتی ہیں، جس پر پانی ڈالا جائے تو پانی سے آکسیجن نکل کر ایلومینیم کے ساتھ مل کر ایلومینیم اوآکسائیڈبناتی ہے اور خاص ہائیڈروجن آزاد ہو کر کام میں لائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا خرچ 10 سینٹ فی کلو واٹ ہاور آتا ہے اور اس ایلومینیم کی ری سائیکلنگ ہو سکتی ہے۔ Hall Heroutt process سے اس کی ری سائیکلنگ، ایلومینیم کو کان سے نکلنے والی کیچ دھات Oauxite سے ایلومینیم حاصل کرنے کی نسبت سستا پڑتا ہے۔ اس عمل میں کاربن ڈائی آ کسائیڈ پیدا ہوتی ہے، یعنی ری سائیکلنگ کے عمل میں، لیکن یہ پٹرول سے چلنے والی گاڑی کی نسبت صرف ایک تہائی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایلومینیم کے علاوہ تینوں دھاتیں Inert ہیں، یعنی ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ انھیں دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسے استعمال کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی اینٹیں تیار کی جائیں گی۔ اس طریقے کی پیٹنٹ کی درخواست داخل کر دی گئی ہے۔ ریاست انڈیانا کی ایک کمپنی ALGALCO نے اس کی تیاری کا لائسنس حاصل کر لیا ہے۔ پیٹنٹ میں Purdue ریسرچ فاو¿نڈیشن کو پہلی حیثیت حاصل ہوگی۔ آئندہ سال فروری میں Cocoaبیچ فلوریڈا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں مسٹروڈ آل 26 فروری کو اپنی دریافت پیش کریں گے یہ کانفرنس 24 فروری سے 27 فروری تک جاری رہے گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مسٹروڈ آل کا طریقہ ہی آخری اور حتمی ہو۔ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب ہے اور سارا زور اسی پر ہے کہ کوئی سستا طریقہ ہاتھ آجائے جس سے کام لیا جاسکے۔