پستان ٹیکس
پستان ٹیکس (انگریزی: Breast Tax)، جسے مقامی ملیالم زبان میں مُلکرم یا مولہ کرم کہا جاتا تھا، ایک قسم کا محصول یا ٹیکس تھا جو نچلی ذات کے لوگوں کی ہندو عورتوں پر مملکت تراونکور (بھارت کی موجودہ کیرالا ریاست) کی جانب سے عائد ہوا تھا، اگر وہ اپنے پستانوں کو عوامی چہل پہل کے سامنے چھپانا چاہیں۔ یہ ٹیکس کا رواج 1924ء تک جاری رہا تھا۔ یہ محصول بہ طور خاص نچلی ذات کی عورتوں پر عائد ہوتا تھا، جب کہ دیگر ذات کی عورتیں بر سرعام اپنے سبھی نسوانی اعضاء بہ شمول پستانوں کے، پوشیدہ رکھتی تھیں۔ وہ عورتیں جو بر سر عام پستانوں کی نمائش نہ کریں، انھیں ایک ٹیکس دینا ہوتا تھا، جو ان کے پستانوں کے وزن اور ساخت کی مناسبت سے طے کیا جاتا تھا۔
بغاوت
ترمیمعوامی روایات کی رو سے کیرالا کے اس امتیازی ٹیکس کے خلاف سب سے پہلے بغاوت ننگیلی نام کی ایک عورت نے بلند کی۔ اس کا تعلق ایزھاوا ذات سے تھا۔ اس ذات کو بھی تھیا، نادَر اور دلت ذاتوں کے ساتھ یا تو برسر عام پستانوں کی نمائش کرنا ہوتا تھا یا پھر ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ تاہم ننگیلی نے اس امتیازی ٹیکس کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا، جو 1900ء کے ابتدائی سالوں تک ایک ناشنیدہ بات تھی۔ وہ محصول ادا کیے بغیر پستانوں کو پوشیدہ کرتی تھی۔ جب مقامی ٹیکس انسپکٹر کو اس باغیانہ روش کی اطلاع ملی، اس نے اس سے جاکر قانون شکنی کرنے کے خلاف تنبیہ کی۔ مگر اس نے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا اور پستانوں کو کاٹ دیا۔ ننگیلی بہت زیادہ خون کے اخراج کی وجہ سے انتقال کر گئی، جب کہ اس کے شوہر نے اسے سپرد آتش کرنے کے بعد اسی آگ میں چھلانگ لگا کر اپنی جان کی قربانی دی۔ اس جوڑے کی کوئی اولاد نہیں تھی۔[1] متوفیہ کے رشتہ دار اس کے آبائی مقام مولاچھی پورم سے نقل مقام کر کے قریبی شہریوں اور قصبوں میں منتقل ہو گئے۔ تاہم یہ قربانی ایک یادگار رہی اور آگے چل کر سماجی انقلاب (بغاوت چنار) کا سبب بنی۔
پسماندہ ذاتوں کی ماضی میں بد حالی
ترمیممشہور ناول نگار اروندھتی رائے جو اپنی ناول سسکتے لوگ کے لیے انگریزی ادب کا بُکر اعزاز حاصل کر چکی ہیں، اپنی کتاب میں کیرالا کے نچلی ذاتوں کی بد حالی کا تذکرہ یوں نقل کرتی ہیں:
” | ... پاراون، دیگر اچھوت ذاتوں کی طرح عوامی سڑکوں پر نہ تو چلنے کا حق رکھتے تھے، نہ وہ اپنے جسم کے اوپری حصوں کو ڈھانک سکتے تھے اور نہ چھاتا رکھ سکتے تھے۔ انھیں کسی سے بات کرتے وقت اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھنا ہوتا تھا، تاکہ اپنی آلودہ سانسیں اپنے مخاطبین کو نہ لگیں۔[2] | “ |
اس جبر و زیادتی کے عمل کی انجام دہی میں مصنفہ برہمنوں کے ساتھ ساتھ سیریائی کرسچنوں کے شامل حال ہونے کا بھی ذکر کرتی ہیں۔[2]