چار ایشیائی شیر (انگریزی: Four Asian Tigers) یا چای ایشیائی ڈریگن ایشیا کی چار بڑھتی ہوئی معیشتوں ہانگ کانگ، سنگاپور، جنوبی کوریا اور تائیوان کو کہا جاتا ہے جہاں صنعت نے 1960ء کی دہائی سے لے کر 1990ء کی دہائی تک برق رفتاوی سے ترقی کی۔
21ویں کے آغاز تک یہ چاروں عالمی بینک اعلیٰ آمدنی معیشت میں جگہ بنا چکے تھے۔ سنگاپور اور تائیوان دنیا کے بڑے مالی ادارے بن چکے تھے۔تائیوان اور جنوبی کوریا نے برقیات اور آلات کی صنعت میں اپنا مقام بنایا۔ ان کی معشیتی ترقی کی وجہ سے دنیا کے کئی ترقی پزیر ممالک کے لیے راہ ہدایت ثابت ہوئیں جن میں جنوب مشرقی ایشیا کی ٹائیگر کلب معیشتیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔[1][2][3]
ایشیا میں معاشی بحران، 1997ء سے قبل چار ایشیائی شیر معیشتیں ایشائی معجزہ کے طور پا جانی جاتی تھیں۔ انھوں نے درآمد اور ڈولپمنٹ پالیسیوں کی مدد سے ایسی ترقی کی کہ باقی ملکوں کو عجوبہ سا لگنے لگا تھا۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ان پالیسیوں میں مکیرواکونومک مینیجمینٹ کا انضمام تھا۔[5]
ان چاروں میں سب سے پہلے صنعت کاری کا تجربہ کانے والا ملک ہانگ کانگ تھا جہاں 1950ء کی دہائی میں کپڑے کی صنعت لگائی گئی، کپڑوں کے علاوہ الیکٹرانکس اور پلاسٹک کی جملہ مصنوعات تیار جانے لگیں اور عالمی بازار میں درآمد کی جانے لگیں۔[6]ملائیشیا سے آزادی ملنے کے بعد سنگاپور میں اکانومک ڈولپ مینٹ بورڈ بنایا گیا اور ملک کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بہت سی اکانومک پالیسیوں کو نافذ کیا گیا۔[7] خارجی سرمایہ کاری کو لبھانے کے لیے ٹیکس میں کمی کر دی گئی۔ تائیوان اور جنوبی کوریا میں صنعت کاری کا آغاز 1960ء کی دہائی میں شروع ہوا اور حکومت سے خوب مدد ملی۔ حکومت نے صنعت کاری کی زبردست پالیسیاں بنائیں اور دونوں ملکوں نے ہانگ کانگ اور سنگاپور کی طرح درآمد پر خوب توجہ دی۔[8] چاروں ملک جاپان کی ترقی سے متاثر تھے اور جاپان کی طرح تعلیم اور بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کر کے اس کی طرح ترقی کرنا چاہتے تھے۔
↑Jinyong Leea، LaPlacab, Peter، Rassekh, Farhad (2 September 2008)۔ "Korean economic growth and marketing practice progress: A role model for economic growth of developing countries"۔ Industrial Marketing Management۔ 37 (7): 753–757۔ doi:10.1016/j.indmarman.2008.09.002