کاپی رائٹ ہدایات برائے ڈیجیٹل مشترک منڈی

کاپی رائٹ ہدایات برائے ڈیجیٹل مشترک منڈی 2016/0280(COD) وہ تجاویز ہیں جنہیں یورپی اتحاد نے کاپی رائٹ کے تمام پہلوؤں کو یورپی اتحاد کی ڈیجیٹل سنگل مارکٹ میں ہم آہنگ کرنے کے لیے متعارف کروایا ہے۔[1][2][3] مؤلفین کو مزید تحفظ فراہم کرکے انٹرنیٹ کے کاپی رائٹ قانون کو مرتب کرنے کی یہ ایک کوشش ہے۔ اس تجویز کو یورپی پارلیمانی کمیٹی برائے قانونی امور نے پوری پارلیمان سے قانون بننے کے لیے ضروری ووٹنگ کرا کر 20 جون 2018ء کو منظوری دے دی۔[3][4] 5 جولائی 2018ء کو یورپی پارلیمان میں اس تجویز کو مسترد اور ستمبر 2018ء تک اسے ملتوی کر دیا گیا۔

ہدایات
یورپی اتحاد کی ہدایات
Text with EEA relevance
عنوانکاپی رائٹ ہدایات برائے ڈیجیٹل مشترک منڈی
زیرِ دفعہدفعہ 53(الف)، 62 اور 114
مجوزہ

اس تجویز میں اخبار کے ناشروں کو اپنی خبروں کے خلاصے پر نیوز اگریگیٹر اور اس جیسی تمام اشاعتوں کو انٹرنیٹ پر کنٹرول کا حق فراہم کرنا (دفعہ 11)، وہ ویب سائٹ جہاں صارفین اپنا مواد شائع کرتے ہیں ان پر کاپی رائٹ کے غیر منظور شدہ مواد پر لگام کسنے کے لیے موثر اور مناسب اقدامات کرنا یا پھر صارفین کے تئیں ذمہ دار ہونا (دفعہ 13) اور سائنسی تحقیقی اداروں کو متن اور مواد پر دقیق تحقیق کے لیے کاپی رائٹ کی رعایات دینا شامل ہیں۔ یورپی اتحاد کی تمام تجاویز کی طرح اجازت نامہ اور رعایتوں کو بیک وقت قومی سطح پر لاگو کیا جائے گا۔

مجوزہ قانون کی دفعہ 11 اور 13 پر مختلف تنظیموں نے زبردست تنقید کی۔ انفرادی طور پر نیوز اگریگیٹر کو ہدف بنانے والے کاپی رائٹ کے اثرات پر سوال اٹھایا گیا ہے کیونکہ یہ آن لائن اشاعتوں کے قارئین کو بہت زیادہ متاثر کرے گا۔[5] ناقدین نے دفعہ 13 کو صارفین کی جانب سے شائع کردہ کاپی رائٹ شدہ مواد کو فعال اور خودکار طریقے سے فلٹر کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ اور ممکن ہے کہ یہ تجویز پیروڈی کی طرح قابل اجازت منصفانہ معاملہ کو حل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو۔[6]

ٹم برنرز لی اور ونٹ کارف وہ افراد ہیں جنھوں نے ذاتی طور پر اس تجویز کی مخالفت کی۔ انھوں نے آن لائن آزادی گفتار پر منفی اثر پڑنے اور اپلوڈ فلٹروں کی قیمتوں اور اثرات سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ 4 جولائی 2018ء تک چینج ڈاٹ آرگ پر اس تجویز کی مخالفت پر مشتمل ایک محضر پر 758,400 افراد نے اپنے دستخط کیے۔ اس توجیہ کے حامیوں - جن میں زیادہ تر میڈیا گروپ، ناشرین اور مصنفین ہیں- نے ان دلیلوں کو یہ کہہ کر سرے سے مسترد کر دیا ہے کہ یہ ایک باضابطہ مہم ہے جسے گوگل -جس نے ان اصلاحات کی مخالفت میں 5.5 ملین یورو کی لابی کی ہے- جیسے اداروں نے تلبیس معلومات کی خاطر چلائی ہے۔ گوگل اس تجویز کے دوسرے اہم  مخالفین کو مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس تجویز کی حمایت کرنے والوں میں معروف فنکار پال مکارٹنی اور انیو موریکون شامل ہیں۔

تاریخ

ترمیم

اس تجویز کو ابتدائی طور پر 14 ستمبر 2016ء کو یورپی پارلیمان میں قانونی پہل کرنے کا درجہ رکھنے والی یورپی کمیشن نے متعارف کروایا تھا۔[2] یورپی پارلیمان نے اپنی ہی ایک پہل جسے ریڈا رپورٹ کہتے ہیں، [7] کے ساتھ ایسی ہی کسی پیشکش کا مطالبہ کیا تھا۔ 2012ء میں یورپی کمیشن گول[8] نے اور 2013ء میں مشاورت، [9] 2014ء میں جنکر امیدواری، [10] كروئس کی اپیل، [11] اوتینگر کی تائید[12] اور ڈیجیٹل ایجینڈا انٹرگروپ[13] اور 2015ء میں یورپی کمیشن[14][15] مواصلات نے یورپی اتحاد کی کاپی رائٹ اصلاحات کا مسلسل مطالبہ کیا۔

کونسل برائے یورپی اتحاد نے اس کے متن کو 25 مئی 2018ء کو منظور کیا اور اب یہ مسودہ یورپی پارلیمان[16] میں سہ رخی مذاکرات کے لیے جائے گا تاکہ اسے حتمی شکل دی جا سکے۔ تاہم اس مسودے کو جرمنی، فن لینڈ، نیدرلینڈز، سلووینیا، بیلجئم اور ہنگری کی تائید حاصل نہیں ہے۔[17]

دفعہ 11 اور 13 کو مصنفین، ناشرین، خبر رساں ایجینسیوں، قانونی اسکالر، انٹرنیٹ ماہرین، ثقافتی اداروں، صارفین، شہری حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے انسانی حقوق، قانون دانوں اور یورپی اتحاد کے مطالعات نے متنازع قرار دیا ہے۔

20 جون 2018ء کو یورپی پارلیمانی کمیٹی برائے قانونی امور نے یورپ کے کاپی رائٹ کے قانون میں بڑی تبدیلیاں منظور کی ہیں جن پر جولائی میں یورپی پارلیمان کے تمام اراکین کی تصدیق لازمی ہے۔[6]

موجودہ صورت حال

ترمیم

نومبر 2017ء (مجوزہ تجویز پیش ہونے سے قبل) کے مطابق مواد کے معصوم فریق ثالث میزبان (قریب ترین مداخلت کرنے والے) کے خلاف حکم امتناعی کا استعمال کر کے کاپی رائٹ کا قانون نافذ کرنا کسی بھی طریقے سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ کاپی رائٹ کے مالکان حکم امتناعی کے خلاف قومی عدالت میں ڈومین اور یو آر ایل کو بلاک کروانے کا مقدمہ کر سکتے ہیں۔ نیز اس مسودہ قانون میں مناسب کارروائی کے فقدان، غیر متعلق فریق ثالث پر لاگت کے نفاذ اور یورپ کے بنیادی انسانی حقوق کو مناسب اہمیت نہ دینے کی وجہ سے اس پر بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔

مجوزہ ہدف میں اٹرنیٹ ویب گاہ اور مصنفین کے درمیان میں کمائی ہوئی رقم کو متوازن کرنا اور متن مالکان اور آن لائن پلیٹ فارموں کے درمیان میں تعاون کروانا ہے۔[18]

دفعہ 3

ترمیم

دفعہ 3 سائنسی تحقیق کی خاطر ڈاٹا اور متن کی دقیق تحقیق کی لیے کاپی رائٹ رعایت فراہم کرتا ہے۔[19] کوریپر COREPER ورژن میں لازمی اور اختیاری وسعتیں موجود ہیں۔[16]

قدیم نظام کے بر عکس  اطلاعات اور حقیقت کی دائرہ عام کی حالت کو تسلیم کرنے کی بنیاد پر  دفعہ 3 پابندی میں اضافہ یا کمی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔[20]

دفعہ 4

ترمیم

دفعہ 4 ڈیجیٹل اور سرحد پار تعلیمی سرگرمیوں کے لیے کاپی رائٹ کے استعمال میں رعایت کو لازمی قرار دیتا ہے۔ یہ دفعہ نافذ ہونے پر یہ واضح کر دے گا کہ تعلیمی ادارے وضاحت طلب امور کے لیے  کاپی رائٹ کا غیر تجارتی استعمال کر سکتے ہیں۔

حالانکہ تعلیمی اداروں کی طرف سے یہ تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ دفعہ 4 میں دی گئیِ رعایت بہت محدود ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعبہ تعلیمی اداروں میں ثقافتی اور وراثتی اداروں کو بھی شامل کرنے کی  تجویز پیش کرتا ہے۔ اس دفعہ کا سب سے زیادہ بحث کیا جانے والا حصہ 4(2) ہے جس کی رو سے اگر منڈی میں مناسب اجازت نامہ موجود ہے تو رعایت موقوف کردی جائے گی۔[21]

کوریپر COREPER ورژن میں  تعلیمی شعبہ کی دلیل کے لیے تبدیلی کی گئی ہے مگر بحث شدہ دفعہ 4(2) اب بھی موجود ہے۔

دفعہ 11

ترمیم

دفعہ 11 کاپی رائٹ تجویز 2011 میں وسعت دیتے ہوئے پبلسشرز کو اپنے آن لائن پریس پبلیکیشن کو انفارمیشن سوسائیٹی سروس پرووائڈرز کے ذریعے استعمال کرنے کے لیے  کاپی رائٹ فراہم کرتا ہے۔ موجودہ یورپی اتحاد قانون کے مطابق پبلشر کو  کاپی رائٹ حاصل کرنے کے لیے  مصنفین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور ہر ایک کام کے لیے اانفرادی طور پر اپنی ملکیت ثابت کرنی ہوتی ہے۔

یہ پیشکش حقوق سے متعلق کئی نئی شروط کا اضافہ کرتی ہے۔ جیسے ایک سال کے بعد میعاد کا ختم ہو جانا اور کسی بھی مواد کی  معمولی حصہ کی کاپی اور تعلیمی اور سائنسی تحقیق کے لیے کاپی رائٹ کی رعایت بھی دیتا ہے۔  یہ دفعہ جرمنی میں سنہ 2013 ء میں جاری ہونے والا پریس پبلشرز کے لیے اضافی کاپی رائٹ سے اخذ کیا گیا ہے۔  پریس پبلشنگ ( جس کا مقصد عوام کو با خبر کرنا ہوتا ہے اور یہ وقتا فوقتا یا با قاعدہ اپڈیٹ ہوتا رہتا ہے) تعلیمی اور سائنسی پبلشنگ سے یکسر مختلف ہے (ریسائیٹل 33)۔

اپنے وضاحتی بیان میں کونسل  آن لائن پریس پبلیکیشن کے استعمال کے تئیں موجودہ حقوق کے نفاذ کو " پیچیدہ اور ناکافی" بتاتا ہے اور" نیوز ایگریگیٹر اور میڈیا مانیٹرینگ سروسز" کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے تئیں خبری مضامین کے استعمال  اور پبلشرز کو اپنے کاموں کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کے دوران میں آئی مشکلات کی طرف   خاص طور پر توجہ دلاتا ہے۔  جرمنی اور ہسپانیہ میں ایسی تجویز کو جانچنے کے لیے یورپی کمیشن کی ایک تحقیق نے پایا کہ بڑھے ہوئے ایکسپوژر سے اخباروں کو نیوز ایگریگیٹ پلیٹ فارمز کو اپنے آن لائن مضامین کی طرف متوجہ کرنے کا  فائدہ ہوا ہے (ٹریفک سے اشتہاری آمدنی جو ہوئی سو الگ)۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ "جرمنی اور ہسپانیہ کے مطالعے سے پتہ لگتا ہے کہ قانون ایک حق ثابت کر سکتا ہے" مگر منڈی کے ٹھیکیداروں نے اس حق کو صفر پیسے کی ایمیت دی ہے۔ "

تعلیمی اداروں نے یہ کہتے ہوئے اپنی تشویش ظاہر کی ہے کہ دفعہ 11 خبر کو تقسیم کرنے کے برتاو کو بدل کر  "معلومات پہنچانے کی آزادی پر روک لگا دے گا"۔

دفعہ 13

ترمیم

جن ویبسائٹوں پر صارفین کے ذریعے مواد شائع کیا جاتا ہے دفعہ 13 ان پر یہ ذمہ داری لاگو کرتی ہے کہ وہ ایسی مشینیں استعال کرے جو اپلوڈ کیے ہوئے مواد کر فلٹر کرے تاکہ کاپی رائٹ مالک کے علاوہ کوئی اور اس کے مواد کو شائع نہ کر سکے۔ اس ویب گاہ کو اختیار ہوگا آیا خود بخود اس مواد کو منسوخ کر دے یا پھر اس سے ہوئی آمدنی کاپی رائٹ کے مالک کو ادا کرے۔ پہلے اس دفعہ میں "مواد کو پہچاننے والی ٹکنالوجی" جیسی اصطلاح استعمال پوی لیکن پھر اس کو "کافی اور مناسب اقدامات" سے بدل دیا گیا۔  اس ویب گاہ پر یہ بھی ذمہ داری ہوگی کہ مستقبل میں بھی وہ مواد کبھی شائع نہ ہو۔

غیر تجارتی آن لائن انسائکلوپیڈیا، غیر تجارتی پلیٹ فارم برائے ترقی، اوپن سورس سافٹویئ، غیر تجارتی تعلیمی اور سائنسی مراکز، مواد جمع کرنے والی وہ ویب گاہ جہاں صارفین یا تاجر حضرات اپنے استعمال کے لیے  مواد اپلوڈ کرتے ہیں، انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کرنے والے اور آن لائن کھردرا باذار پر  دفعہ 13  ثر انداز نہیں ہوگا۔ (دفعہ2(5))۔

یہ دفعہ ممبر ریاستوں  کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ فراہم کرتا کے حجم، اپلوڈ کیے گئے مواد کی مقدار اور ٹکنالوجی کے ذریعے کی گئی پیمائش پر نظر رکھیں۔

دفعہ 13 پر بہت زیادہ تنقید کی گئی ہے۔ اس کے مخالفین کا ماننا ہے کہ یہ دفعہ آن لائن اظہار خیالات پر اثر انداز ہوگا۔ حالانکہ یہ دفعہ  صرف "حتی الامکان کوشش" ہی کی ہدایت دیتا ہے،   لیکن یہ مانا گیا کہ مستقبل میں مواد کی فراہمی کے تحفظ کی ضروریات کے لیے بڑی کمپنیاں یوٹیوب کے مواد ملاپ کی طرح ٹکنالوجی "کونٹینٹ آئی ڈی" Content ID کا استعمال کریں گی۔  حالانکہ اس دفعہ کی تائید کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ یوٹیوب ایک دہائی سے کونٹینٹ آئی ڈی ٹکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے اور پھر بھی ہر طرح کے مواد کے لیے ایک کامیاب پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں مشین فلٹر کرنے میں موثر ثابت  نہیں ہوگی۔

ایک اور تنقید جو اس دفعہ پر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مواد کو فلٹر کرنے والی مشین بہت مہنگی ہوتی ہے،  امریکا کی چند کمپنیوں کے پاس ہی ایسے مصادر ہیں کہ وہ ان کو بنا سکے۔

دفعہ 15

ترمیم

اگر مصنفین کو دیا جانے والا معاوضہ مایوسی کی حد تک کم ہے تو دفعہ 15 ان کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ یہ ان کو اپنا معاوضہ بڑھانے کی اجازی دیتا ہے۔ مجوزہ دفعہ 14-16 مصنفین اور اداکاروں کے مول بھاو کے نظام کو بہتر بنائے گا۔

دوسرے دفعات

ترمیم

دوسرے دفعات لاوارث کاموں اور کتب خانوں کے جیسی سرگرمیوں کی قانونی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔

کچھ یورپی پارلیمان نے جن تبدیلیوں  کی تصدیق کی ہے وہ دائرہ عام اور پینوراما کی آزادی جیسے معاملات پر بحث کرتے ہیں۔

تنقید

ترمیم

تائید

ترمیم

ان تجاویز کو ناشرین، نامی موسیقی کمپنیاں، مصنفین کا طبقہ، بینڈز، مولفین، تخلیق نگاروں اور فنانوں نے سراہا ہے۔ یورپی گروپنگ برائے مصنفین اور کمپوژرس سماج نے اس کی حمایت میں ایک مہم چلائی جس پر  ڈیوڈ گریٹا، اینیو موریکون، جین-میشیل جارر اور بینڈ ایئر سمیت 32000 لوگوں نے دستخط کیے۔ دوسرے حامیوں میں پال مکارٹنی، جمیز بینٹ، مصنف فلپ پلمین(مصنف سماج کے صدر)، انڈیپینڈینٹ موسیقی یمپنی ایسوسی ایشن اور جرمن ناشر ایکسیل اسپرنجر شامل ہیں۔

یورپی پارلیمان میں ایکسیل ووس نے اس کی تائئد کی قیادت کی، وہ  اور یورپین عوامی پارٹی گروپ، جس کے وہ ممبر ہیں، نے یورپی پارلیمان میں اس تجویز کے سب سے پیش کیا ہے۔  ووس مخالفین کی تمام دلائل کو مسترد کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر  سنسرشب کو ناحق، ضرورت سے زیادہ، غلط اور بے ایمان کہنے کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان دلیل ہے کہ کونٹینٹ فٹرنگ ٹکنالوجی ایک دہائی سے یوٹیوب کے زیر استعمال ہے اور کبھی شسرشپ کے خلاف کوئی مہم نہیں چھیڑی گئی۔ وہ انٹرنیٹ کے بڑے ناموں پر غلط خبر پھیلانے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔

تجارتی نشریاتی کمپنیاں بھی الزام لگا رہی ہیں کہ بد قسمتی سے گمراہ کن مہم، جس کو 'غلط معلومات پر مبنی" مہم بھی کہتے ہیں، چلائی جارہی ہے۔

وہ لوگ ویکی پیڈیا اور گوگل کا نام خاص طور پر لیتے ہیں کہ ان دونوں کا اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ ویکی پیڈیا اور اس جیسے دوسرے پلٹ فارموں نے ایک ناقابل قبول تحریک چلائی جو مکمل گمراہ کن ہے۔ اور گوگل نے 2016 کے دوران یورپ میں ترغیب کاری میں 5۔5 ملین یورو خرچ کیے ہیں۔  یہ ایک دوسرے نامی  مخالف الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے اسپانسروں میں سے ایک ہے، اوراسے اپنے شراکت داروں کو اصلاح کے خلاف  ترغیب کاری پر اکساتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ناشرین کی دلیل ہے کہ اجازت یافتہ مواد فراہم کردہ جیسے اسپوٹی فائی اور نیٹ فلکس پر موجودہ کاپی رائٹ قانون سے بہت منفی اثر پڑا ہے جبکہ صارفین کے ذریعے شائع کیے جانے واکے پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب اور فیس بک کا بڑا فائدہ ہوا ہے۔ جن اخباروں نے اس تجویز کی حمایت کی ہے ان میں دی گارڈین اور فائینینشیل ٹائمز ہیں۔  بڑے انٹرنیٹ ناشرین جیسے یوٹیوب اور فیس بک اس تجویز کے خلاف بلین ڈالر خرچ کرنے کو نکار رہے ہیں۔

اطالوی اخبار Corriere della Sera میں 3 جولائی 2018 کو ایک مضمون چھپا ہے جس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ تجویز غیر تجارتی انسائکلوپیڈیا یا دوسری غیر تجارتی تنظیموں پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

مخالفین

ترمیم

دفعہ 11 اور 13 کی بہت وسیع پیمانے پر مخالفت کی گئی ہے۔ تقریباً 200 سے  زیادہ تعلیمی ادارے، 25 سے زیادہ تحقیقی مراکز، مصنفین، نگارنامے، صحافی، ناشرین، نیوز ایجنسیاں، قانوں داں، انٹرنیٹ ماہرین، ثقافتی ادارے، صارفین، شہری حقوق تنظیمیں، اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے انسانی حقوق، قانونی اسکالرس اور یورپی اتحاد کی تحقیق و مطالعہ، یہ تمام وہ ہیں جنھوں نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔

مہم کاروں کا ماننا ہے کہ دفعہ  11ایک ربط جزیہ ہے۔ جو ویب گاہ ناشرین پر کسی خبر کے  ربط دینے پر بھی اجازت نامہ لازمی قرار دیتا ہے۔ اور دفعہ 13 میں مضحکہ خیز پابندی ہے۔ کیونکہ کونٹینٹ میچینگ ٹیکنالوجی پیروڈی وغیرہ کی شناخت کرنے سے قاصر ہے۔ یوٹیوب کے سرپرست گوگل نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اپنے ساتھیوں کو اس کے خلاف لابی کی ترغیب دی ہے۔

دوسرے مہم کار جیسے کاپی رائیٹ فار کریٹی ویٹی کاپی رائٹ کے دورانیہ کو بہت طویل بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیشکش بہت پرانی ہیں، ہم آہنگی سے بعید ہیں، اوراویک بے جان  قانون کا نفاذ ہے۔

تعلیمی اداروں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دفعہ 11 آن لائن پبلیکیشن کے قارئین پر اثر انداز ہوگا جبکہ دفعہ 13 خدمت فراہم کرنے والوں پر لگام لگائے گا جس سے بڑی کمپنیوں کو فائدہ ہوگا۔ وہ افراد جنھوں نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں: مزاح نگار اسٹیون فرائی، نیل گائیمین، ٹم برنرزلی (ورلڈ وائڈ ویڈ کے خالق)، ونٹ سرف (انٹرنیٹ پروٹوکول سوٹ کے شریک خالق)، جیمی ویلز(ویکی پیڈیا کے شریک خالق)، انھوں نے اپلوڈ فلٹرس کی قیمت اور اس پر اثر انگیزی اور آزادی گفتار پر منفی اثر کی بھی تشویش ظاہر کی ہے۔

نگہبان حقوق انسانی اور  نامہ نگار بلا سر حدیں نے بھی آزادی گفتار پر منفی اثر پڑنے سے متعلق اپنی آوازیں بلند کی ہیں۔

اسپارک یورپ نے یہ کہتے ہوئے دفعہ 11 کو ہٹانے کی مانگ کی ہے کہ یہ گذشتہ دو دہائی کی خبریں اور مضامین تحقیق نگاروں کی پہنچ سے دور ہو جائیں گے۔جس سے گذشتہ واقعات سے متعلق عوام کی جانکاری کم ہو جائے گی اور اگر تعلیمی اداروں کو بھی دفعہ 11 کے دائرہ میں لایا گیا تو قارئین اور محققین سے ان مواد کو پڑھنے کے لیے رقم مانگی جائے گی جس کی ادائگی ناشرین کے ذریعے  ان مواد کوعوام کے لیے مفت فراہم کرنے کی خاطر  پہلے ہی کی جا چکی ہوگی۔

چینگ ڈاٹ آرگ پر ایک درخواست پر5 جولائی تک  850000 دستخط ہو چکے تھے۔ ووٹ سے چند دن قبل ویکیپیڈیا نے بھی تجویز کے خلاف اپنی مہم شروع کردی تھی۔

آسٹریا، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اطالیہ، پولینڈ، ہسپانیہ اور سلوواکیہ کے بڑی اخباروں میں اس تجویز کی کھلم کھلا اور وسیع پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔ انسانی اور ڈیجیٹل حقوق، آزادی میڈیا، نشر و اشاعت، کتبخانہ، تعلیمی ادارے، سافٹ ویئر ڈولپر اور انٹرنیٹ فراہم کنندہ وغیرہ کی 145 تنظیموں نے مجوزہ قانون کاری کے خلاف ایک خط پر 26 اپریل 2018 کو دستخط کیے ہیں۔ ان میں سے جنھوں نے مخالفت کی ہے ان میں الیکٹرانک فرنٹیئر فاونڈینشن، کری اے ٹو کا منز، یورپی ڈاٹا حقوق، میکس پلینک سوسائٹی، متعدد ویکی میڈیا مضامین اور ویکی پیڈیا کی سرپرست ویکی میڈیا فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ بعد میں ہسپانوی، استونیائی، لیٹویائی، پولش، فرانسیسی اور پرتگالی ویکی پیڈیاوں نے بھی مخالفت کی اس مہم میں حصہ لیا اور2-5 جولائی کو  اپنے صفحے سیاہ کردیے۔ جب کہ انگریزی ویکیپیڈیا نے اپنے قارئین کے لیے ایک بینر لگایا تھا کہ وہ یورپی پارلیمان میں اپنے نمائندوں سے آواز اٹھانے لے لیے کہیں۔

اوپن سائنس کے متعدد حامیوں، جن میں وینیسا پراوڈمین، اسکالرلی پبلشنگ اینڈ اکیڈمک ریسورسیز کالیشن یورپی ڈائریکٹر، ساتھ ہی ساتھ یوروڈوک آرگنائیزیشن نے اس کی قانون کاری کی مخافت کی ہے کیونکہ یہ سائنٹفک مواصلات کو متاثر کرے گا۔ اور اس کا منفی اثر باب التحقیق ResearchGate تک بھی جا سکتا ہے جو تحقیقی مضامین کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔

یورپی پارلیمان میں جنھوں نے اس کی مخالفت کی ہے ان میں جولیا ریڈا، ہیڈی حاوٹالا اور ڈان ڈالٹن ہیں۔  جن سیاسی جماعتوں نے مخالفت کی ہے ان میں یورپی گرین پارٹی شامل ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. European Commission۔ "The EU copyright legislation"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جولائی 2018 
  2. ^ ا ب European Commission (14 ستمبر 2016)۔ "Proposal for a Directive of the European Parliament and of the Council on copyright in the Digital Single Market"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2018 
  3. ^ ا ب "Everything you need to know about Europe's new meme-ending war"۔ CNET۔ 22 جون 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2018 
  4. "Controversial Copyright Directive Approved by EU Legal Affairs Committee"۔ euronews۔ 20 جون 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2018 
  5. ^ ا ب
  6. "European Parliament resolution of 9 جولائی 2015 on the implementation of Directive 2001/29/EC of the European Parliament and of the Council of 22 مئی 2001 on the harmonisation of certain aspects of copyright and related rights in the information society (2014/2256(INI))"۔ 9 جولائی 2015۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2018 
  7. "Battle on EU copyright law re-opened by Commission"۔ POLITICO۔ 5 دسمبر 2012۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  8. Directorate General Internal Market and Services Directorate D – Intellectual property D1 (جولائی 2014)۔ "Report on the responses to the Public Consultation on the Review of the EU Copyright Rules" (PDF)۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2018 
  9. "My priorities | Jean-Claude Juncker"۔ Jean-Claude Juncker۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  10. "European Commission – Press release – Our single market is crying out for copyright reform"۔ Europa (web portal)۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  11. "Oettinger: convincing if not enthusiastic"۔ POLITICO۔ 29 ستمبر 2014۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  12. "European Parliament agrees on new intergroups"۔ euractiv.com۔ 11 دسمبر 2014۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  13. "Communication from the Commission to the European Parliament, the Council, the European Economic and Social Committee and the Committee of the Regions – A Digital Single Market Strategy for Europe"۔ eur-lex.europa.eu۔ COM/2015/0192۔ 6 مئی 2015۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  14. "Communication from the Commission to the European Parliament, the Council, the European Economic and Social Committee and the Committee of the Regions – Towards a modern, more European copyright framework"۔ eur-lex.europa.eu۔ COM/2015/0626۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  15. ^ ا ب "Proposal for a directive on copyright in the Digital Single Market" (PDF)۔ 25 مئی 2018۔ صفحہ: 26 
  16. "EU Council agrees Copyright Directive position"۔ CREATe۔ 29 مئی 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جون 2018 
  17. "Copyright Reform: Help Us Ensure an Effective TDM Exception! – LIBER"۔ LIBER۔ 25 ستمبر 2017۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 جون 2018 
  18. "24 organisations urge Rapporteur Axel Voss MEP to strike a more ambitious deal on TDM – European Alliance for Research Excellence"۔ European Alliance for Research Excellence۔ 8 جون 2018۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2018 
  19. https://www.communia-association.org/wp-content/uploads/2018/02/FINAL-180205-Communia-Joint-Letter-Educators-ask-for-a-better-copyright.pdf