مالک بن انس
مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 179ھ)
امام مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی ہیں اور ابوعامر اصبحی دادا ان کے صحابی جلیل القدر ہیں۔ سوائے جنگ بدر کے اور سب غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ مسلمانوں میں "امام مالک" اور "شیخ الاسلام" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علما میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے، نے ایک بار کہا کہ "علما میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
امام | |
---|---|
مالک بن انس | |
(عربی میں: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْأَصْبَحِيُّ الْحِمْيَرِيُّ الْمَدَنِيّ) | |
مالک بن انس، اسلامی خطاطی
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 711[1][2] مدینہ منورہ[3][4] |
وفات | 795 عیسوی/179 ہجری (عمر 83-84) مدینہ منورہ مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
نسل | عرب لوگ |
عملی زندگی | |
استاذ | نافع مولی ابن عمر[3][5]، ابن شہاب زہری، جعفر الصادق[6]، عبد الرحمٰن اوزاعی، ایوب سختیانی، ابراہیم بن ابی عبلہ، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن قاسم، ربیعہ بن فروخ، ہشام بن عروہ |
تلمیذ خاص | محمد بن ادریس شافعی، محمد بن حسن شیبانی[7]، سفیان ثوری، عبد الرحمٰن اوزاعی، ابو حنیفہ، حماد بن زید، اسماعیل، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ ابن مبارک، ابن علیہ، عبد الرحمٰن بن قاسم عتقی، عبد الرحمن بن مہدی، عبد اللہ بن عمرو بن وہب، ولید بن مسلم، يحيىٰ القطان، ابوداؤد طیالسی، فضل بن دکین، یحییٰ بن یحییٰ لیثی، الواقدی |
پیشہ | محدث، فقیہ، عالم |
پیشہ ورانہ زبان | عربی[8] |
شعبۂ عمل | فقہ، علم حدیث |
کارہائے نمایاں | موطاء امام مالک |
مؤثر | جعفر الصادق ابو حنیفہ ابو سہیل النافع ہشام بن عروہ ابن شہاب زہری |
متاثر | شافعی |
درستی - ترمیم ![]() |
حالات زندگیترميم
آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام موطا امام مالک تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔
وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انہیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ نو سو شیوخ سے استفادہ حدیث فرمایا اور فتوی نہ دیا۔ یہاں تک کہ ستر اماموں نے گواہی دی اس امر کی وہ قابل ہیں افتا کے اور اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ حدیث لکھیں اور سترہ برس کے سن میں درس حدیث شروع کیا اور جب حدیث پڑھانے بیٹھتے غسل کرتے اور خوشبو لگاتے اور نئے کپڑے پہنتے اور بڑے خشوع خضوع اور وقار سے بیٹھتے سفیان بن عیینہ نے کہا کہ رحم کرے-اللہ جل جلالہ مالک پر خوب جانچتے تھے راویوں کو اور نہیں روایت کرتے تھے مگر ثقہ سے اور عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ امام مالک پر کسی کو مقدم نہیں کرتا ہوں میں صحت حدیث میں اور مالک امام ہیں حدیث اور سنت میں اور کافی ہے امام مالک کی فضیلیت کے واسطے یہ امر کہ امام شافعی ان کے شاگرد ہیں اور امام احمد ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ اور امام محمد جو شاگرد ہیں امام اعظم کے وہ بھی شاگرد ہیں امام مالک کے، امام شافعی نے کہا جب ذکر آئے عالموں کا تو مالک مثل ستارہ کے ہیں اور کسی کا احسان میرے اوپر علم خدا میں مالک سے زیادہ نہیں ہے اور کہا سفیان بن عیینہ نے مراد اس حدیث سے کہ قریب ہی لوگ سفر کریں گے واسطے طلب علم کے پھر نہ پائیں گے زیادہ جاننے والا کسی کو مدینہ کے عالم سے امام مالک ہیں اور اوزاعی جب امام مالک کا ذکر فرماتے تو کہتے کہ وہ عالم ہیں علما کے اور عالم ہیں اہل مدینہ کے اور مفتی ہیں حرمین شریفین کے اور ابن عیینہ کو جب امام مالک کی وفات کی خبر پہنچی تو کہا نہ چھوڑا انہوں نے اپنا مثل زمین پر اور کہا کہ مالک حجت ہیں اپنے زمانے کی اور مالک چراغ ہیں اس امت کے جب امام مالک نے اس کتاب کو مرتب کیا اس وقت لوگوں کے پاس کوئی کتاب نہ تھی بسوا کتاب اللہ کے اور موطا اس کا نام اس لیے ہوا کہ امام مالک نے اس کتاب کو ستر فقیہوں پر پیش کیا سب نے اس پر موافقت کی امام شافعی نے فرمایا کہ آسمان کے نیچے بعد کتاب اللہ کے کوئی کتاب امام مالک کے موطا سے زیادہ صحیح نہیں ہے اور ابن عربی نے کہا کہ موطا اصل اول ہے اور صحیح بخاری اصل ثانی اور ہزار آدمیوں نے اس کتاب کو امام مالک سے روایت کیا۔ اب یہ جو نسخہ رائج ہے یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کی روایت سے ہے جس سال امام مالک کی وفات ہوئی اسی سال یحییٰ بن یحیی نے موطا کو امام مالک سے حاصل کیا سب احادیث اور آثار موطا کے ایک ہزار ستائیس ہیں ان میں سے چھ سو حدیثیں مسند اور دو سو بائیس مرسل اور چھ سو تیرہ موقوف اور دو پچاسی تابعین کے اقوال ہیں وفات امام مالک کی اتوار کے روز دسویں ربیع الاول 179ھ میں ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر ستاسی برس کی تھی اور بعض کے نزدیک نوے برس کی ۔عبداللہ بن المبارک روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام مالک رحمہ اللہ نے درسِ حدیث شروع کیا تواثناءِ درس میں آپ کا رنگ بار بار متغیر ہوجاتا تھا؛ مگرآپ نے نہ درسِ حدیث بند کیا نہ آپ سے حدیث کی روایت کرنے میں کسی قسم کی لغزش واقع ہوئی، فارغ ہونے کے بعد میں نے مزاجِ مبارک دریافت کیا توفرمایا کہ اثناءِ درس میں تقریباً دس بار بچھونے ڈنک مارا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے یہ صبر اپنی شجاعت واستقامت جتنے کے لیے نہیں کیا؛ بلکہ صرف حدیثِ پیغمبر کی تعظیم کے لیے کیا ہے۔ [9] یافعی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے عشق تھا؛ حتی کہ آپ اپنے ضعف وپیری کے باوجود مدینہ میں سوارنہ ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ جس شہر میں آپ کا جسدِ مبارک مدفون ہو اس میں، میں ہرگز سوار ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ایک مرتبہ ہارون رشید مدینہ طیبہ آیا اس کویہ معلوم ہوچکا تھا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کتاب مؤطا تالیف فرمائی ہے اور آپ لوگوں کواُس کی تعلیم بھی دیتے ہیں، ہارون رشید نے اپنے وزیرجعفر برمکی کوآپ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ سلام عرض کریں اور یہ عرض کریں کہ آپ مؤطا لاکر مجھے سنادیں، برمکی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امیرالمؤمنین کا سلام پہنچا کراس کی درخواست پیش کی، امام نے جواب دیا میرا اُن سے سلام کہنا اور کہدینا کہ علم خود کسی کے پاس نہیں آیا کرتا، لوگ اس کے پاس آیا کرتے ہیں، جعفر واپس آیا اور امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان عرض کردیا، اتنے میں امام عالی مقام بھی خود تشریف لے آئے اور سلام کرکے بیٹھ گئے، ہارون رشید نے کہا: میں نے آپ کے پاس ایک پیغام بھیجا تھا آپ نے میرا حکم نہیں مانا؟ امام مالک رحمہ اللہ نے سند کے ساتھ وہ روایت سنائی جس میں زید فرماتے ہیں کہ نزولِ وحی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زانوئے مبارک میرے زانو پرتھا صرف کلمہ غیراولیٰ المضرر نازل ہوا تھا کہ اس کے وزن سے میرا زانو چور چور ہوجانے کے قریب ہوگیا تھا، اس کے بعد فرمایا کہ جس قرآن کا ایک حرف حضرت جبرئیل علیہ السلام پچاس ہزار سال کی مسافت سے لے کر آئے ہوں (حضرت استاد مرحوم فرماتے تھے کہ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کی مسافت کا پچاس ہزار سال کی مدت ہونا ائمہ کے درمیان بھی مشہور تھا) کیا میرے لیے زیبا نہیں کہ میں بھی اس کی عزت واحترام کروں، اللہ تعالیٰ نے آپ کوعزت وبادشاہت سے نوازا ہے؛ اگرسب سے پہلے آپ ہی اس علم کی مٹی خراب کریں گے توخطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں آپ کی عزت برباد نہ کردے، یہ سن کروہ مؤطا سننے کے لیے آپ کے ساتھ ہوگیا، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے ساتھ اس کومسند پربٹھالیا، جب مؤطا پڑھنے کا ارادہ کیا تواس نے کہا: آپ ہی مجھے پڑھ کرسنائیے، امام نے فرمایا: عرصہ ہوا میں خود پڑھ کرسنانا چھوڑچکا ہوں اس نے کہا اچھا تواور لوگوں کوباہرہی نکال دیجئے تاکہ میں خود آپ کوسنادوں، امام نے فرمایا علم کی خاصیت یہ ہے کہ اگرخاص لوگوں کی رعایت سے عام لوگوں کواس سے محروم کردیا جاتا ہے توپھرخواش کوبھی اس سے نفع نہیں ہوتا، اس کے بعد آپ نے معن بن عیسیٰ کوحکم دیا کہ وہ قرأت شروع کردیں، جب انھوں نے قرأت شروع کی توامام نے ہارون رشید سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اس شہر میں اہلِ علم کا دستور یہ ہے کہ وہ علم کے لیے تواضع کرنا پسند کرتے ہیں، ہارون یہ سن کرمسندسے اُترآیا اور سامنے آبیٹھا اور مؤطا سننے لگا۔ایک مرتبہ جعفر بن سلیمان سے کسی نے شکایت کردی کہ امام صاحب آپ کی خلافت کے مخالف ہیں، اس نے آپ کے سترکوڑے لگانے کا حکم دیدیا، اس کے بعد آپ کی عزت اور بڑھتی گئی گویا یہ کوڑے، آپ کا زیور بن گئے، منصور جب مدینہ آیا تواس نے انتقام لینے کا ارادہ کیا، امام مالک رحمہ اللہ نے قسم کھا کرفرمایا میں تواس کا ایک ایک کوڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کی خاطر معاف کرچکا ہوں، مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ سزا آپ کواس جرم میں دی گئی تھی کہ آپ نے کوئی فتویٰ ان کی غرض کے موافق نہیں دیا تھا۔ [10]ذہبی کا بیان ہے پانچ باتیں جیسی امام مالک رحمہ اللہ کے حق میں جمع ہوگئی ہیں، میرے علم میں کسی اور شخص میں جمع نہیں ہوئیں: (۱)اتنی دراز عمراور ایسی عالی مسند (۲)ایسی عمدہ فہم اور اتنا وسیع علم (۳)آپ کے حجت اور صحیح الروایۃ ہونے پرائمہ کا اتفاق (۴)آپ کی عدالت، اتباعِ سنت اور دینداری پرمحدثین کا اتفاق (۵)فقہ اور فتویٰ میں آپ کی مسلمہ مہارت۔ [11]ائمہ اربعہ میں صرف ایک آپ ہیں جن کی تصنیف فنِ حدیث کے متعلق امت کے ہاتھ میں موجود ہے، بقیہ جوتصانیف دوسرے ائمہ کی طرف منسوب ہیں وہ ان کے شاگردوں کی جمع کردہ ہیں؛ حتی کہ مسند امام احمد بھی گواس کی تسوید خود امام موصوف نے کی ہے؛ مگراس کی موجودہ ترتیب خود امام کی نہیں ہے۔ [12] ہارون رشید کے نام بیس صفحات پرآپ کا جوخط ہے قابل دید ہے، افسوس ہے کہ یہاں اس کا خلاصہ بھی درج نہیں کیا جاسکتا اور جوخود ہی خلاصہ ہو اُس کا خلاصہ اور کیا کیا جاسکتا ہے، مطرف بن عبداللہ منجملہ آپ کے نصیحت آمیز کلمات کے نقل کرتے ہیں کہ بیکار اور غلط باتوں کے پاس پھٹکنا بربادی ہے، غلط بات زبان پرلانا سچائی سے دوری کی بنیاد ہے؛ اگرانسان کا دین ومروت بگڑنے لگے تودنیا بہت بھی جمع ہوجائے؛ پھربھی کس کام کی ہے، ابن وہب کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ علم آئندہ اور گھٹے گا بڑھے گا نہیں اور ہمیشہ انبیاء علیہ السلام اور کتب سماویہ کے نزول کے بعد گھٹا ہی کرتا ہے، سلف میں علم ہدایت کے علوم ہی کا نام تھا، اس لحاظ سے اس مقولہ کے صدق میں کیا تردد ہے۔ [13] قعبنی نقل کرتے ہیں کہ میں مرض الوفات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا سلام کرکے بیٹھ گیا دیکھا توامام رورہے تھے، میں نے سبب دریافت کیا توفرمایا کیسے نہ روؤں اور مجھ سے زیادہ رونے کا اور کون مستحق ہوسکتا ہے؟ میری آرزو ہے کہ جومسئلہ بھی میں نے اپنی رائے سے بتایا ہے ہرمسئلہ کے بدلہ میرے ایک کوڑا مارا جائے، کاش میں نے اپنی رائے سے ایک مسئلہ بھی نہ بتایا ہوتا، مجھے گنجائش تھی کہ اس کے جوجوابات مجھ سے پہلے دیئے جاچکے تھے اُن ہی پرسکوت کرلیتا، ماہِ ربیع الاوّل میں آپ کا انتقال ہوا اور جس تمنا میں عمرگذاری تھی آخروہ پوری ہوئی یعنی دیارِ حبیب کی خاک پاک نے ہمیشہ کے لیے آپ کواپنی آغوش میں لے لیا، آپ سرزمینِ مدینہ ہی میں آسودۂ خواب ہیں۔
فقہ مالکیترميم
امام مالک رحمہ اللہ کی فقہ میں اہلِ مدینہ کے تعامل کوخاص اہمیت حاصل ہے، اُن کے نزدیک مدینہ مہبطِ وحی ہے، اس کا تعامل حجت ہونا چاہیے، حافظ ابوعمردراوردی سے نقل کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ جب یہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر کا عمل اسی مسئلہ پردیکھا ہے تواُس سے اُن کی مراد ربیعۃ بن ابی عبدالرحمٰن اور ابن ہرمز ہوتے ہیں۔ [14] فقہ مالکی کا زیادہ چرچا اہلِ مغرب اور اندلس میں ہے، ابنِ خلدون اس کی وجہ یہ لکھتا ہے کہ اہلِ مغرب اور اندلس کا سفراکثر حجاز ہی کی جانب ہوا کرتا تھا اس زمانہ میں مدینہ طیبہ علم کا گہوارہ بن رہا تھا؛ یہیں سے نکل کرعلم عراق پہنچا ہے، ان کے راستہ میں عراق نہ پڑتا تھا اس لیے ان کے علم کا ماخذ صرف علماءِ مدینہ تھے، علماءِ مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا رتبہ معلوم ہے اس لیے مغرب اور اندلس کے اصحاب کا علم امام مالک رحمہ اللہ علیہ اور اُن کے بعد اُن کے تلامذہ میں منحصر ہوگیا تھا، ان ہی کے وہ مقلد تھے اور جن کا علم انھیں نہیں پہنچا ان کے وہ مقلد بھی نہیں تھے۔
وفاتترميم
امام مالک کی وفات بروز اتوار 14 ربیع الاول 179ھ مطابق 7 جون 795ء کو ہوئی۔ آپ کو جنت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔
حوالہ جاتترميم
- ↑ http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12190972t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ ربط : کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2017 — ناشر: کتب خانہ کانگریس
- ^ ا ب عنوان : Малик ибн Анас
- ↑ عنوان : Малик
- ↑ عنوان : Нафи ибн Хурмуз
- ↑ عنوان : Джафар ас-Садик
- ↑ عنوان : Шейбани Мухаммад ибн Хасан
- ↑ Abū ʿAbd Allâh Mālik ibn Anas al-Aṣbaḥī (0711?-0796) — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ (بستان المحدثین)
- ↑ (شذرات الذہب)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ)
- ↑ (بستان المحدثین)
- ↑ (تذکرہ)
- ↑ (جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)
ترتیب | نام امام | مکتبہ فکر | سال و جائے پیدائش | سال و جائے وفات | تبصرہ | |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ابو حنیفہ | اہل سنت | 80ھ ( 699ء ) کوفہ | 150ھ ( 767ء ) بغداد | فقہ حنفی | |
2 | جعفر صادق | اہل تشیع | 83ھ ( 702ء ) مدینہ | 148ھ ( 765ء ) مدینہ | فقہ جعفریہ، کتب اربعہ | |
3 | مالک بن انس | اہل سنت | 93ھ ( 712ء ) مدینہ | 179ھ ( 795ء ) مدینہ | فقہ مالکی، موطا امام مالک | |
4 | محمد بن ادریس شافعی | اہل سنت | 150ھ ( 767ء ) غزہ | 204ھ ( 819ء ) فسطاط | فقہ شافعی، کتاب الام | |
5 | احمد بن حنبل | اہل سنت | 164ھ ( 781ء ) مرو | 241ھ ( 855ء ) بغداد | فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل | |
6 | داود ظاہری | اہل سنت | 201ھ ( 817ء ) کوفہ | 270ھ ( 883ء ) بغداد | فقہ ظاہری، |