کرار نوری
اردو کے ممتاز شاعر اور صحافی
کرار نوری (پیدائش: 30 جون، 1916ء - وفات: 8 اگست، 1990ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی تھے۔
کرار نوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 30 جون 1916ء دہلی ، برطانوی ہند |
وفات | 8 اگست 1990ء (74 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | عزیزآباد (کراچی) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مترجم ، صحافی |
شعبۂ عمل | نظم ، غزل ، نعت |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمکرار نوری 30 جون، 1916ء میں دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔[1][2] ان کا اصل نام سید کرار میرزا تھا۔ وہ اسد اللہ خان غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پر پوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ کرار نوری کا شعری مجموعہ میری غزل کے نام سے شائع ہو چکا ہے اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ میزان حق کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پزیر ہوا۔[2]
تصانیف
ترمیم- میری غزل
- میزان حق
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
ہر چند اپنا حال نہ ہم سے بیاں ہوا | یہ حرف بے وجود مگر داستاں ہوا | |
جو کچھ میں کہہ چکا ہوں ذرا اس پہ غور کر | جو کچھ بیاں ہوا ہے بہ مشکل بیاں ہوا | |
اب تم کو جس خلوص کی ہم سے امید ہے | مدت ہوئی وہ نذر دل دوستاں ہوا | |
طوفان زندگی میں ضرورت تھی جب تری | مجھ کو ہر ایک موج پہ تیرا گماں ہوا | |
آداب قید و بند نے بدلا عجیب رنگ | کنج قفس کا نام بھی اب آشیاں ہوا | |
آنسو نکل پڑے ہیں خوشی میں ترے حضور | کس تمکنت کے ساتھ یہ دریا رواں ہوا[3] |
غزل
تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے | شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے | |
یہ کون سا مقام رہ و رسم ہے کہ وہ | اتنے ہوئے قریب کہ بیزار ہو گئے | |
منزل کی سمت تجھ کو نہ لے جائیں گے کبھی | وہ راستے جو آپ ہی ہموار ہو گئے | |
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا | اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے | |
نوریؔ ہمیں جہاں میں مسرت کی تھی تلاش | آخر ہر ایک شخص کے غم خوار ہو گئے[4] |
شعر
اعتراف اپنی خطائوں کا میں کرتا ہی چلوں | جانے کس کس کو ملے میری سزا، میرے بعد |
وفات
ترمیمکرار نوری 8 اگست، 1990ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2]