کرن گھیلو: گجرات کا آخری راجپوت حکمران (گجراتی: કરણ ઘેલો) ایک گجراتی میں لکھا جانے والا تاریخی ناول ہے۔ اس کے مصنف نندشنکر مہتا تھے۔[1] اسے 1866 میں شائع کیا گیا تھا۔ خالص گجراتی زبان کے اولین ناول کے طور پر اسے کافی شہرت حاصل ہے۔ اسے سب سے پہلے 1866 میں شائع کیا گیا۔[note 1][2][3][4][5] اس کتاب کا انگریزی ترجمہ 2015 میں شائع ہوا۔

کرن گھیلو
فائل:Karan Ghelo Book Cover.jpg
انگریزی ترجمے کا سرورق
مصنفنندشنگر مہتا
اصل عنوانકરણ ઘેલો: ગુજરાતનો છેલ્લો રજપૂત રાજા
مترجمتلسی وتسل، آبن مکھرجی
ملکبھارت
زبانگجراتی
صنفتاریخی ناول، کلاسیکی ادب
محل وقوعگجرات
اشاعت
  • 1866 (گجرانی)
  • 2015 (انگریزی)
ناشر
  • گُرجر گرنتھ رتنا کاریالیہ (گجراتی)
  • بھارت (انگریزی) پینگوین بکس
طرز طباعتمطبوعہ اور ڈیجیٹل
صفحات344
کرن گھیلو[[زمرہ:مضامین جن میں gu زبان کا متن شامل ہے]] بہ گجراتی ویکی مآخذ

اس ناول میں کرن کی تصویرکشی کی گئی ہے جو گجرات کے آخری واگھیلا حکمران (1296–1305) تھے۔ وہ علا الدین خلجی کی ترک افواج کے ہاتھوں 1298 میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ ناول تعلیمی غرض سے لکھا گیا ہے۔ یہ کئی تاریخی مآخذ پر مبنی ہے۔ تاہم مصنف نے کچھ واقعات کے لکھنے میں آزادانہ موقف اختیار کیا۔ یہ ناول سماجی اور مذہبی معاملات سے جوجتا ہے۔

یہ کتاب کی کافی پزیرائی ہوئی اور اسے مراٹھی اور انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ اسی کی بنیاد پر ناٹک اور فلمیں بھی بنائے گئے۔

کہانی

ترمیم

راجپوت حکمران واگھیلا انہلواد پٹن پر راج کرتا ہے، جو شمالی گجرات میں سب سے بڑی مملکت ہے اور اس کی رہنمائی اس کا وزیر مادھو کرتا ہے۔ ایک دن واگھیلا مادھو کی اہلیہ روپ سندری کے روبرو آتا ہے (جو، سبھی شریف النسب خواتین کی پردہ کے پیچھے رہا کرتی تھی۔ راجا کو وہ بھا جاتی ہے اور کافی سوچنے کے بعد وہ فیصلہ کرتا ہے کہ شرافت و دنیاداری کی ساری سوچ کو بالائے طاق رکھ کر وہ اس عورت کو اپنے حرم میں لے لے گا۔ وہ اپنے وزیر کو کسی کام پر روانہ کردینا ہے اور اس کے غائبانے میں روپ سندری کا اغوا کرواتا ہے۔ مادھو کے بھائی کو راجا کے آخری مار ڈالتے ہیں جب وہ بہن کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی دن، متوفی بھائی کی بیوی گُنا سندری خود کو شوہر کی چِتا میں چلاکر ستی کی رسم میں جان دے دیتی ہے۔ ناچار روپ سندری، اغوا کے بعد محل لے جائی جاتی ہے، جہاں وہ راجا کی جانب سے عصمت دری سے پہلے خودکشی کر لیتی ہے۔ وہ اپنی آبرو بچاکر مر جاتی ہے اور راجا کو اپنی مذموم حرکت سے بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

راجا نے اس واقعے کے بعد خود کے لیے غیر متزلزل اور خطرناک دشمن تیار کر چکا ہوتا ہے۔ اس کا سابق وزیر اپنے خاندان کی تباہ کاری سے بچ جاتا ہے۔ وہ انہلواد پٹن کو خیرباد کہ کر دہلی کا رخ کرتا ہے۔ وہ راستے میں کئی مہموں کے تجربوں سے گزرتا ہے، جن میں کئی پرلطف بھی ہوتے ہیں جیسے کہ اپو پربت کے پاس ہونے والا طلسمی واقعہ۔ بالآخر مادھو دہلی پہنچتا ہے، جہاں وہ مسلمان حکمران علا الدین خلجی سے مل کر اسے گجرات پر حملے کی دعوت دیتا ہے اور اس غرض کے لیے وہ ہر ممکن مدد کا وعدہ کرتا ہے اور آخری میں کافی لوٹ کا ذکر کرتا ہے۔ سابق وزیر کے طور پر، مادھو بااثرورسوخ تھا۔ اس کی مدد سے خلجی گجرات پر حملہ کرتا ہے، پٹن قلعے کو تباہ کرتا ہے اور اس رجواڑے اور دیگر رجواڑوں کو لوٹتا ہے۔ دوسری جانب، راجا کرن واگھیلا میدان جنگ میں کئی بہادرانہ کارنامے انجام دیتا ہے، مگر وہ نہ صرف اپنی بادشاہت کھوتا بلکہ اپنی بیوی کولارانی بھی اس سے چھوٹ جاتی ہے۔

اس شکست کے بعد، کرن اپنے باقیماندہ خاندان اور پیروکاروں کے ساتھ جنوبی گجرات روانہ ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے دیرینہ رفیق رام دیو کے یہاں پناہ لے سکے جو دیوگڑھ کا حکمران تھا۔ کرن کے ساتھ اس کی ان بیاہی بیٹی دیول دیوی ہے، جو اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ جب جنگ کا دور ختم ہوا اور امن مذاکرات شروع ہوئے، کرن کو ایک ڈراؤنی صورت حال کا سابقہ کرنا پڑا: خلجی جس سے کرن سخت نفرت کرتا تھا، کرن کی بیٹی کو اپنے بیٹے اور ولی عہد خضرخان سے بیاہنا چاہتا تھا۔ یہ تجویز کرن کے لیے ذلت آمیز تھی اور نفرت انگیز انکار روانہ کرنے کے بعد دوسری جنگ یقینی ہو گئی تھی۔ جنگی تیاریوں کے بیچ کرن اپنی بیٹی کی حفاظت اور اس کی آبرو کو لے کر بے حد فکرمند ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی بیٹی کی منگنی شنکلدیو سے کرتا ہے، جو میزبان رام دیو کا بیٹا اور ولی عہد ہے۔ ان کی سگائی خلجی سے جنگ سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ آخرکار جنگ میں ہار کا سامنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ کرن اپنی بیٹی کو بھی کھو دیتا ہے۔ تاہم کرن واگھیلا کے لیے ناول کی رو سے بچی کھچی عزت یہی ہوتی ہے کہ وہ جنگ میں شہید ہوتا ہے اور اپنی بیٹی کے آبرو کھونے یا اپنے مادروطن کا حملہ آور کے ہاتھوں لوٹے دیکھنا نہیں ہوتا ہے۔ اس کی ہار راجپوت (ہندو) اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے اور گجرات میں مسلمانوں کی حکمرانی کے دور کا آغاز ہوتا پے۔

ماخذ

ترمیم

نندشنکر مہتا سورت کے ایک انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکول میں صدرمدرس تھے۔ بمبئی پریسیڈنسی کے برطانوی حکام مقامی بھارتیوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے کتابوں کے لکھنے کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔[3][6]

مہتا نے پہلے ایڈیشن کا دیباچہ لکھا تھا،[6]

اس (گجرات) صوبے کے زیادہ تر لوگ ان کہانیوں کو پڑھنے کے شوقین ہیں جو شعری شکل میں، تاہم ان کہانیوں کی بہت کم مثالیں نثری شکل میں موجود ہیں؛ اور جو موجود ہیں وہ معروف نہیں ہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے اور انگریزی کے مساوی گجراتی میں کہانیوں اور دیگر بیانیہ تحریروں کو رواج دینے کے لیے، اس صوبے کے سابق تعلیمی انسپکٹر جناب رسل صاحب نے مجھے ان خطوط پر ایک کہانی لکھنے کا حکم دیا ہے۔اسی بنیاد پر میں نے اس کتاب کو تقریبًا تین سال میں مکمل کیا ہے۔

مہتا نے لکھنا 1863 میں شروع کیا اور ناول کو 1866 میں مکمل کیا۔[3] اس کے بیٹے اور سوانح نگار ونایک مہتا کے مطابق وہ گجرات کی تاریخ میں کسی تاریخی واقعے پر ناول لکھنا چاہتے تھے۔ اس نے چمپانیر کی شکست اور سومناتھ مندر کے انہدام پر لکھنا سوچا مگر بالآخر علا، الدین خلجی کی ترک افواج کی جانب سے گجرات کی 1298 میں فتح کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس فتح سے گجرات میں ہندو راجپوت حکمرانی کا خاتمہ ہوا اور ریاست میں مسلمان حکمرانی کا آغاز ہوا۔ اس شکست سے کرن واگھیلا کو گھیلو (احمق) کا خطاب ملا۔[2] اس نے ناول نگاری کے دوران کہانی کے بیچ کئی دیگر افسانے کو لکھنے طرز اپنایا۔[6]

وہ تاریخ میں دلچسپی رکھتا تھا اور کئی تاریخی مواد کو بروئے کار لایا تھا، جس میں ملکی تواریخ، شعری قصہ گوئی، جین تحریریں اور فارسی زبان مآخذ شامل ہیں۔ خلجی کا حملہ، مادھو کے بدلے کی کہانی، کرن واگھیلا کی شکست اور پٹن کی ہار کوک شعرا کی زبانی روایات کے خاص موضوعات تھے، جنہیں گجرات میں بھٹ اور چرن کہا جاتا تھا۔ کئی معاصر جین وقائع جیسے کہ میروتوں گا کا پربندھ چنتاممنی (1305)، دھرمارنیا (1300 اور 1450 کے بیچ تحریرکردہ) اور جین پربھا سوری کا تیرتھ کلپتارو اس حملے کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کا احاطہ پدمنابھ کے قرون وسطٰی سے جڑے رزمیے کنہادادے پربندھ میں بھی کیا گیا ہے جو 1455 میں لکھا گیا ہے۔[6]

مہتا نے کرن واگھیلا کی مرکزی کہانی اور کئی تاریخی واقعات کو رس مالا سے اخذ کیا جو شعری قصوں، فارسی متون، جین وقائع اور گجرات کی لوک کہانیوں پر مبنی ہے؛ اس کی اشاعت ایلیکزینڈر کینلوچ فوربز نے دلپاترم کی مدد سے 1858 میں کی۔[6]

دہلی کے مناظر کے لیے مہتا نے امیر خسرو (جو خلجی کے درباری شاعر تھے) اور ضیاء الدین برنی کے بیانات / تحریروں کی فارسی متون کا سہارا لیا۔ خلجی سے کرن واگھیلا کی دوسری جنگ اور اس کی بیٹی دیول دیوی کی گرفتاری کا امیر خسرو نے اپنی مثنوی دیول دیوی خضر خان میں ذکر کیا ہے جو عرف عام میں عشقیہ کے عنوان سے مشہور ہے۔ سولہویں صدی کے مؤرخ فرشتہ نے دیول دیوی اور خضر خان کے بیچ عشق کا تذکرہ کیا ہے۔[6]

تاریخی سچائی

ترمیم

مہتا نے جب پہلا ایڈیشن لکھا، اس نے کہا:[6]

میرا ارادہ اس کتاب کے لکھنے کے پیچھے یہ ہے کہ میں حتی المقدور حالات کی عکاسی کروں کہ کہانی کے وقت حالات کیسے تھے؛ زمانے کے مردوزن کے عادات و اطوار اور ان کا تفکر؛ گجرات کے راجپوت راجاؤں اور دہلی کے مسلمان سلاطین کے اصولِ حکومت؛ راجستھان کی ذات کے آدمیوں اور عورتوں کی بہادری اور ان کا جذبۂٔ فخر؛ اور مسلمانوں کا جوش اور ان کا مذہبی جنون تھا۔

مہتا نے کئی طرح کے تاریخی ذرائع کا استعمال کیا جو اس تاریخی دور کا صحیح اور تفصیلی حال بتاتے ہیں جیساکہ ماًخذ سے پتا چلتا ہے۔ اس نے آزادانہ طور پر کرن واگھیلا کو بہادری سے لڑتے اور ہارتے ہوئے دکھایا جبکہ ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ وہ راہ فرار اختیار کر چکا تھا۔[6]

فارسی ذرائع کی رو سے گجرات کی فتح ایک ایسی مہم تھی جو زیادہ محنت کے بغیر انجام پائی۔ کنہادادے پربندھ حملے کے تباہ کن اثر کا ذکر کرتے ہوئے مادھو کو مورد الزام قرار دیتا ہے۔ راجپوت ذرائع بھی مادھو پر الزام لگاتے ہیں اور چھتری اصول کی عدم پاسبانی کی وجہ سے اسے خدائی قہر قرار دیتے ہیں۔ مہتا اس حملے کو کرن واکھیلا کی کرتوتوں کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔[6]

اجرا اور عوامی رد عمل

ترمیم

نندشنکر مہتا نے کرن گھیلو کو 1866 میں چھپوایا۔ یہ گجراتی میں خالصتًا لکھا گیا پہلا ناول تھا۔[7] اسے فوری کامیابی حاصل ہوئی جس کا اندازہ 1866 سے 1934 کے بیچ اس کی 9 بار چھپوائی سے لگایا جا سکتا ہے۔ کچھ خلا کے بعد اسے 1986 اور آخری بار 2007 میں چھاپا گیا۔ یہ مہتا کا لکھا ہوا واحد ناول تھا۔[1][3][4][6]

سیسیر کمار داس نے نوٹ کیا کہ یہ کہانی کافی مقبول اس لیے ہوئی کیونکہ اس میں سورت کے قدیم شہر کی عظمت کا تذکرہ ہے جو مہتا کی آبائی رہائش رہی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ کہانی میں کئی اچھے بیانیہ تذکرے ہونے کے باوجود یہ ایک گونہ تذکرہ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس نے اس ناول کو گجراتی تاریخی ناولوں کا سرچشمہ قرار دیا۔[2] اوپن میگزین کی عرشیہ عبد الستار نے اسے گجرات میں "نوآبادکاری کا لمحہ" قرار دیا کہ اس سے 1860 کے دہے کی عکاسی کی گئی۔[8] دی کاراوان میگزین کی رادھیکا ہرزبرگر نے انگریزی ترجمے کی کافی تعریف کی۔[9]

ہیئت میں تبدیلی اور تمثیلی پیش کش

ترمیم

للیت بحر میں لکھے گئے نغمے جو ناول سے لیے گئے ہیں، کرن راج! تو کیا ری گیو؛ نگر چھوڑینے شیڈنے رہیو؛ کرم فوتیو، پران جائے رے؛ سکھ سدا گیو، ہائے ہائے رے (گجراتی: " કરણ રાજ ! તું, ક્યાંહ રે ગયો; નગર છોડીને શીદને રહ્યો; કરમ ફૂટિયું, પ્રાણ જાય રે; સુખ સદા ગયું, હાય હાયરે") (اردو: "کرن راجا، میرے شوہر، تم نے مجھے کیوں چھوڑا، تم کہا چھپے ہو؟") موسیقی کی دھنوں کے ساتھ تیار کیے گئے اور بے حد مقبول ہوئے۔ اشاعت کے دو سال بعد ناول کو ایک ناٹک کے روپ میں پیش کیا گیا۔ اس کا عنوان گجرات نو چھیلو راجا کرن چھیلو (اردو: کرن گھیلو، گجرات کا آخری راجا) تھا جسے بمبئی کی پارسی ٹھیٹر نے پیش کیا۔ اس ناول کا مراٹھی میں ترجمہ کیا گیا اور ویویدھ جنن ویستارا میں اسے سلسلہ وار پیش کیا گیا۔[3][6]

یہی کہانی 1924 میں شری ناتھ پتنکر کی خاموش فلم کرن گھیلو کا موضوع ہے۔[1]

اس کا انگریزی ترجمہ تلسی وتسل اور آبن مکھرجی نے کیا؛ اس کی اشاعت پینگوین بکس بھارت کی جانب سے 2015 میں ہوئی۔[1][6]

وراثت

ترمیم

کرن واگھیلا کی کہائی عوامی یادداشت میں برقرار رہی ہے۔ یہ گجراتی زبان میں تاریخی فکشن کے لیے سرچشمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے گجراتی ذریعہ تعلیم میں درسی کتاب کے طور پر پڑھایا گیا ہے۔ چندراودن مہتا نے ایک ناٹک سندھا کال یہی کہانی پر مبنی ہے۔ مہاگجرات تحریک کے دو ناولوں کے لکھے جانے کا موجب بنا، جو علٰحدہ گجرات کے لیے ایک تحریک تھی؛ بھگناپادُکا (1955) جسے کے ایم منشی نے لکھا اور رائے، کرن گھیلو (1960) جسے دھوم کیتو نے لکھا۔ اس ناول کو تعلیمی حلقوں میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ گجراتی علاقائی شناخت کی جڑوں کو پہچانا جا سکے۔[3][6]

حواشی

ترمیم
  1. In 1862, Parsi author Sorabshah Dadabhai Munsafa published Hindustan Madhyeñun Jhumpadu (Gujarati:હિન્દુસ્તાન મધ્યેનું ઝૂંપડું)، a sixty nine page story as a novel. It was a Gujarati translation of The Indian Cottage or A Search After Truth (1791)، an English translation by Edward Augustus Kendall of the French work La Chaumière Indienne (1790) by Jacques-Henri Bernardin de Saint-Pierre۔ As it was a translation of a translation, its claim as the first novel in Gujarati is disputed and Karan Ghelo is considered as the first original novel of Gujarati language. See Page 386، History of Indian Literature.

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت Roshni Nair (21 جون 2015)۔ "Book Review: 'Karan Ghelo'– Gujarat's 'Game of Thrones'"۔ dna۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2016 
  2. ^ ا ب پ History of Indian Literature۔ Sahitya Akademi۔ 2000۔ صفحہ: 201, 386۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2017 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث "પહેલી ગુજરાતી નવલકથા'કરણ ઘેલો':ઉંમર વર્ષ 150"۔ NavGujarat Samay (بزبان گجراتی)۔ 31 مئی 2015۔ 19 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2016 
  4. ^ ا ب Anirudh Vohra (27 جون 2015)۔ "Gujarat's Last Rajput King Karan Ghelo: A king's life"۔ The Financial Express۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2016 
  5. Pollock, Sheldon. The Language of the Gods in the World of Men: Sanskrit, Culture and Power in Premodern India۔ Berkeley: University of California Press, 2006. p. 297.
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ Tulsi Vatsal، Aban Mukherji (15 مارچ 2016)۔ "'Karan Ghelo': Translating a Gujarati classic of love and passion, revenge and remorse"۔ Scroll.in۔ 15 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2016 
  7. Translating India۔ Routledge۔ 8 April 2014۔ صفحہ: 73–74۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2014 
  8. Arshia Sattar (18 March 2016)۔ "At the court of the foolish king"۔ OPEN Magazine۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2016 
  9. "A Fine Balance: Nandshankar's Karan Ghelo and the Downfall of Gujarat's Last Rajput Ruler"۔ The Caravan۔ 19 July 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2016 

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم