کشمیر میں تاراج ِشیعہ

(کشمیر میں تاراج شیعہ سے رجوع مکرر)


کشمیر کی تاریخ میں تاراج ِشیعہ سے مراد سنہ 1548ء،  1585ء، 1636ء،  1686ء، 1719ء، 1741ء، 1762ء، 1801ء، 1831ء، میں علاقائی اور بیرونی شدت پسند سنی طاقتوں کے ہاتھوں شیعوں کے قتل عام اور لوٹ مار کی مہمات ہیں کہ جن میں شیعہ بستیوں کو لوٹا، ان کے باسیوں کو قتل کیا گیا، عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور بچوں کو ذبح کیا گیا۔ شیعوں کی مقدس کتابیں جلائی گئیں، لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اور شیعوں کے مقدس مقامات کو نذر آتش کیا گیا۔ [1][2][3][4] اندریاس رایک کے مطابق مرزا حیدر دوغلات کی حکومت اور اس کے بعد مغل، سکھ اور ڈوگرا راج کے دوران میں کئی مرتبہ فرقہ وارانہ تصادم ہوا جس کے نتیجے میں اب وہاں ایک چھوٹی سی شیعہ اقلیت ہی باقی بچی ہے۔[5]

تاراج شیعہ
مقامسری نگر
توضیحشیعہ مسلمانوں کی نسل کشی
تاریخ1548 عیسوی کے درمیان
حملے کی قسمنسل کشی، جبری تبدیلی مذہب
ہلاکتیںنامعلوم
مرتکبینمذہبی رہنما
مقصدشیعہ دشمنی

پس منظر

ترمیم
 
میر شمس الدین عراقی کا مقبرہ

1381 عیسوی میں، تیمور کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد، ایک ایرانی صوفی میر سید علی ہمدانی، بڑی تعداد میں شاگردوں کے ساتھ کشمیر پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ انھوں نے اہل بیت سے محبت کو نو مسلموں کے دلوں میں بسایا اور کچھ کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ لیکن کشمیر میں شیعیت کا باقاعدہ تعارف میر شمس الدین عراقی [6] نے کرایا جن کے دادا سید محمد نور بخش میر سید علی ہمدانی کے صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور ایران، قندھار، کابل اور کشمیر میں ان کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ میر شمس الدین 1481 عیسوی میں پہلی بار کشمیر پہنچے اور پھر ایران واپس چلے گئے۔ بیس سال بعد سن 1501 عیسوی میں، وہ 700 شیعہ صوفیا، اسکالرز اور مشنریوں کے ساتھ دوبارہ کشمیر آئے۔ سنہ 1505ء میں، شاہ میر خاندان کے بادشاہ نے شیعہ مذہب قبول کر لیا اور اسی طرح کشمیر کے چک قبیلے نے بھی قبول کیا۔ میر شمس الدین عراقی نے ہمالیہ کی وادیوں میں سفر کیا اور سکردو سے تبت میں شیعہ مذہب پھیلایا اور ہزاروں ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو شیعی اسلام میں داخل کیا۔ [7] اس تبلیغ کے ساتھ ساتھ کشمیر میں شیعہ چک سلطنت قائم ہوئی۔[8] 1586 عیسوی میں، کشمیر مغل سلطنت کے ساتھ مل گیا۔ مغلوں نے باصلاحیت افسران کو مقرر کیا اور کشمیر کی ثقافتی اور معاشی زندگی میں بہت حصہ ڈالا۔ [9] 1753 عیسوی میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر فتح کیا، [10] جس کی اولاد نے کشمیر پر حکومت کی یہاں تک کہ 1819ء میں اسے سکھوں نے فتح کر لیا۔[11] انگریز اور مہاراجا گلاب سنگھ کے درمیان میں جموں کے سنہ 1846ء میں معاہدہ امرتسر کے ساتھ وادی کشمیر ڈوگرہ حکمرانی کے تحت آیا۔[12]

کشمیر کے 1873ء کے برطانوی گزٹیر کے مطابق:

سنیوں کی تعداد شیعوں سے کہیں زیادہ ہے، یہاں تک کہ آخر الذکر کے گھروں کی تعداد صرف ایک ہزار کے لگ بھگ ہے، یعنی ان کی آبادی پانچ سے چھ ہزار افراد پر مشتمل ہے، شیعہ  سرینگر کے شمال میں واقع نند پور کے علاقے زیڈی بل میں ڈل جھیل کے آس پاس اور حسن آباد میں رہتے ہیں۔ اگرچہ تعداد میں اتنے ہی کم ہیں، اس فرقے کے لوگ مسلمان آبادی کا سب سے زیادہ فعال، محنتی اور نیک کام طبقہ ہیں۔ سری نگر میں اچھے معیار کا کاغذ اور شال تیار کرنے والے بہترین کاریگر شیعہ ہیں اور شہر کے کچھ سب سے مالدار آدمی اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔[13]

واقعات

ترمیم

پہلا تاراج

ترمیم

1532ء میں کاشغر کے سلطان سعید خان نے مرزا حیدر دوغلات کی سربراہی میں ایک فوج روانہ کی جس نے کشمیر پر حملہ کیا۔[14] جلد ہی اسے ایک فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ سعید خان کی وفات کے بعدآگرہ میں مغل بادشاہ ہمایوں کے پاس بھاگ گیا۔ وہ 1540ء میں مغل فوج کے ایک دستے کے ہمراہ کشمیر میں مستقل طور پر اقتدار کے لیے بر سر پیکار دو حریف دھڑوں میں سے ایک کی دعوت پر واپس آیا۔ اس نے چک حکمرانی کو ختم کر دیا۔ اس کا دور خوف اور دہشت کا راج تھا اور شیعوں کے پاس تقیہ پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ [15]اس نے سنی علما سے سید محمد نور بخش کی کتاب فقہ احوط کے بارے میں فتویٰ طلب کیا اور انھوں نے اس کتاب پر گمراہ کن ہونے کا حکم لگایا۔ مرزا حیدر دغلات اپنی کتاب ”تاریخ رشیدی “میں لکھتا ہے:

”کشمیر کے ان لوگوں میں سے جو اس کفر میں مبتلا تھے، بہت سوں کو میں بخوشی یا زبردستی سے صحیح عقیدے پر واپس لایا اور اکثر کو میں نے قتل کر دیا۔کچھ نے تصوف میں پناہ لی لیکن وہ صحیح صوفی نہیں، صرف نام کے صوفی ہیں۔ “[16]

1550ء میں سنی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ایڈی رینا اور حاجی بانڈے اور مولوی قاضی ابراہیم اور قاضی عبد الغفور کی سفارش پر اس نے شیعہ محلوں کو تباہ کر دیا۔ میر شمس الدین عراقی کی قبر کھودی اور ان کی لاش کو نذر آتش کیا اور میر دانیال، میر شمس الدین عراقی کے بیٹے سمیت سیکڑوں افراد کو قتل کر دیا۔ میر دانیال کو اس نے ایک سال قبل کارگل اور اسکردو کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ شیعوں کے ہاں اس قتل کا موازنہ واقعات کربلا سے کیا گیا۔ [17] اس قتل کا انتقام لینے کے لیے نے شیعوں نے قیام کیا اور اسی سال کے آخر میں مرزا دغلات کو قتل کرکے چک سلطنت بحال کر دی۔[2]مرزا کواپنی متعصبانہ حکمت عملی کی قیمت اپنے اقتدار اور جان سے ہاتھ دھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔[18]

یہ تاراج کاشغر اور خوتان سلطنت کے علاقوں میں شیعوں پر ہونے والے ظلم کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ تاریخی منابع کے مطابق کاشغر (موجودہ سنکیانگ) میں شیعہ مسلمانوں کو ’غالچہ‘ کے نام سے پکارا جاتا اور غلام اور لونڈیاں بنا کر بیچا جاتا تھا۔ [19] خوتان کے علاقے میں بھی شیعوں کو گھریلو غلاموں کے طور پر رکھا جاتا تھا۔[20]

دوسرا تاراج

ترمیم

1554ء میں ایک شیعہ فوجی یوسف مانڈیو اور ایک سنی مولوی حبیب اللہ میں تکرار ہوئی اور نوبت زد و کوب تک جا پہنچی۔ مولوی صاحب کو شدید زخم آ ئے۔ [21]بات عدالت تک پہنچی تو قاضی نے یوسف کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا جس پر جلدی سے عمل درآمد کروایا۔ دوسری طرف مولوی حبیب اللہ صحت یاب ہو گیا۔ اب شیعوں نے قاضی سے قصاص لیے جانے کا مطالبہ کر دیا۔ اکبر کے سفیر مرزا مقیم نے یوسف مانڈیو کے تکلیف دہ قتل میں ملوث ہونے پر قاضی موسیٰ اور ملا یوسف کو سزائے موت دے دی- اس پر شیعہ و سنی میں کافی جھگڑا ہوا۔ [22]

1585ء میں مرزا قاسم خان نے کشمیر کو مغل سلطنت میں شامل کرنے کے لیے حملہ کیا۔ جب چک فوج مغل فوج کا مقابلہ کرنے باہر نکلی توسرینگر میں بغاوت پھوٹ پڑی اور سنیوں نے زاڈی بل کے شیعہ محلے کو آگ لگا دی۔ ان کا سامان لوٹ لیا اور شیعہ خواتین کی عصمت دری کی۔ اس کے بعد وہ پونچھ کے راستے مغل فوج میں شامل ہونے کے لیے چلے گئے۔ [23] چک حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔[16]

تیسرا تاراج

ترمیم

1588ء میں شیخ احمد سرہندی نے اہل تشیع کے خلاف ایک کتاب” ردِ روافض “ لکھی جو برصغیر میں اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ اس میں لکھتے ہیں:

”علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکم خداوندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے جائز و روا ہے “۔[24]

جہانگیر کے دور میں کشمیر کا گورنر اعتقاد خان عام عوام پر ظلم وستم روا رکھتا تھا- اس نے شیعہ شہریوں کو بہت بے دردی سے کچل دیا۔ [25] اسی زمانے میں نقشبندی صوفی خواجہ خاوند محمود اور شیخ احمد سرہندی کے کچھ شاگرد بھی کشمیری شیعوں کے خلاف مہم چلائے ہوئے تھے-[26]1636ء میں جب لوگ پھل چن رہے تھے، تو ایک شیعہ اور سنی کے مابین مذہبی بحث ہوئی جس سے عام بلوا شروع ہو گیا اورسنی لوگ شیعہ محلوں پر حملہ آور ہو گئے۔ زاڈی بل کا شیعہ محلہ تباہ ہو گیا۔ رہائشیوں کو ذبح کیا گیا اور میر شمس الدین عراقی کا مقبرہ جل کر زمین بوس گیا۔ [27]یہ بلوہ گورنر ظفر خان کے پہلے دور حکومت میں ہوا۔ [28]

چوتھا تاراج

ترمیم
 
امام باڑہ زاڈی بل :سلطان محمد کے وزیر کاجی چک نے سن 1518 میں وادی کشمیر میں تعمیر کیا۔ یہ برصغیر میں تعمیر کیا جانے والا پہلا امام باڑہ ہے۔

1684ء میں چوتھے تاراج کا آغاز شیعہ تاجر عبد الشکور اور ایک سنی گاہک کے مابین مناقشے سے ہوا۔ عبد الشکور پر الزام تھا کہ انھوں نے صحابہ کرام کی توہین کی تھی اور ایک مقامی عالم نے ان کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا۔ گورنر ابراہیم خان نے انھیں سلامتی کی پیش کش کی اور صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کی، لیکن سنی علما باہر سے پشتون قبائلیوں کا لشکر لانے میں کامیاب ہو گئے جس کی سربراہی الف خان، فرید خان اور مرزا مقیم وغیرہ کر رہے تھے۔ انھوں نے گورنر کومجبور کیا کہ وہ شیعہ تاجر کو ہجوم کے حوالے کرے جس نے تشدد کر کے اس کو قتل کیا۔ اس کے بعد سنی لشکر نے حسن آباد کے شیعہ محلے پر حملہ کیا، جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک سنی عالم دین، مولا محمد طاہر مفتی نے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی، لیکن ان کے گھر کو بھی آگ لگا دی گئی۔ ایک اور معروف سماجی شخصیت بابا قاسم، جو شیعہ تھے، حملہ آوروں کے ہاتھ لگ گئے۔ انھیں خوب ذلیل کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ گورنر نے فسادات پر قابو پانے کے بعد کچھ مجرموں کو سزا دی، لیکن مغل شہنشاہ اورنگزیب نے ان کو رہا کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ [29][30]اس واقعے کو اورنگزیب کے دور کا بدترین فرقہ وارانہ فساد کہا جا سکتا ہے۔ [31]

پانچواں تاراج

ترمیم

1719ء میں ایک عالم ملا عبد النبی، جنہیں مہتوی خان بھی کہا جاتا ہے، دہلی میں شہنشاہ کے ہاں شیخ الاسلام کی خلعت حاصل کرنے کے بعد کشمیر آگئے۔انھوں نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں ہندوؤں پر گھوڑوں کی سواری، سر ڈھکنے اورقابل احترام لباس پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور ساتھ ہی ان پر اپنے بچوں کو اسلامی مدرسہ بھیجنا بھی لازمی قرار دیا اور ان پر جزیہ بھی نافذ کر دیا۔ گورنر نے اس فتویٰ کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے دوسرے علما کی رائے کی حمایت حاصل تھی۔فسادات پھوٹ پڑے اور ان کے جنونی قسم کے سنی مریدوں نے ہندو املاک پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ پولیس کو ان کی حفاظت کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ گورنر نے ملا عبد النبی کی گرفتاری کا حکم دیا، جس کے جواب میں ملا کے حامیوں نے فوج پر حملہ کر دیا۔ اسی دوران ملا عبد النبی مارے ہو گئے اور یہ افواہ پھیل گئیں کہ ان کو فوج کے شیعہ اہلکار نے قتل کیا ہے۔ ملا عبد النبی کے بیٹے شرف الدین کی سربراہی میں ان کے حامیوں نے زاڈ یبل کے شیعہ محلے پر حملہ کیا اور اسے آگ لگا دی۔ لوگوں کو قتل کیا گیا اور خواتین کولونڈیاں سمجھ کر ان کی آبرو ریزی کی۔کچھ خواتین اور بچوں نے میر شمس الدین عراقی کے مقبرے میں چھپنے کی کوشش کی، لیکن جب سنیوں کا ہجوم وہاں پہنچا تو مقبرہ کو آگ لگا دی گئی اور اندر چھپے ہوئے افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ مغل گورنر کو اتار دیا گیا اور ڈیڑھ سال تک کشمیر میں لا قانونیت رہی۔ 1721 عیسوی میں مغل فوج کشمیر میں داخل ہوئی اور نظم و ضبط بحال کیا۔ [32][33] شرف الدین سمیت پچاس افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔[2]نارمن ہولسٹر لکھتے ہیں:

”مسلمان خون کا بدلہ چکانے دوبارہ زاڈی بل پر چڑھ دوڑے۔ یہ شیعہ آبادی تھی۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو باندھنا، قتل کرنا اور جلانا شروع کیا۔ شروع کے دو دن مقامی افراد نے مزاحمت کی لیکن حملہ آور وں کو ہٹانے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد دو سے تین ہزار افراد، جن میں کچھ مغل سیاح بھی شامل تھے، خاندان والوں سمیت قتل کر دیے گئے۔ لاکھوں کی مالیت کا سامان لوٹا گیا اور یہ جنگ مزید دو سے تین دن جاری رہی۔ “[31]

یہ تاراج دہلی میں خواص کی بیچ جاری تناؤ کے دوران میں ہوا۔ عماد الملک نے صفدر جنگ کو نیچا دکھانے کے لیے اس کے خلاف سنی علما سے فتویٰ لیا۔ اس سے صفدر جنگ کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن سنی علما کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف خطبے اور لوگوں کو شیعوں کے خلاف جہاد پر اکسانے سے کشمیر اور پنجاب میں کئی مقامات پر عام شیعوں کا قتل عام ہوا۔[34]

چھٹا تاراج

ترمیم

سنہ 1741ء اور 1745ء میں مغل سلطنت کے خلاف ایک اور بغاوت ہوئی۔ گورنرکے نائب ابو برکات خان نے آزاد سلطنت کا اعلان کر دیا۔ مغل شہنشاہ نے اسد یار خان کو نیا گورنر تعینات کیا تو کشمیر کی فوج کے ایک شیعہ افسر دیر اللہ بیگ نے نئے گورنر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ابو برکات خان نے اس کا غصہ شیعہ آبادی پر حملہ کر کے نکالا۔ [35]صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ سنیوں نے شیعہ مسلمانوں پر مظالم ڈھائے۔ ان کے گھروں پر حملہ کیا گیا اور انھیں بھاری بھتہ اور جرمانے ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ [36]

ساتواں تاراج

ترمیم

سنہ 1762ء تا 1764ء عیسوی میں کشمیر کے افغان گورنر بلند خان بامزئی کے دور میں یہ افواہ پھیل گئی کہ کچھ شیعوں نے ایک صوفی بزرگ حبیب اللہ نوشیری کے بارے میں منفی تبصرے کیے ہیں۔ مشتعل سنی ہجوم نے زاڈی بل پر حملہ کیا اور شیعوں کے مکانات کو نذر آتش کر دیا۔ بلند خان نے توہین صحابہ کے الزام میں شیعوں کی گرفتاری کا حکم دیا[37]۔ ان کے ناک اور کان کاٹ کر انھیں ذلیل کیا گیا اور ان پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ [38]

1765ء میں ایک شیعہ عالم حافظ عبد اللہ کا سر اپنے مسلک کی تبلیغ کرنے کے جرم میں قلم کیا گیا۔ [39] 1788ء میں جب گورنر جمعہ خان شہزادہ تیمور کی مدد کرنے کابل گیا تو طاقت کے خلا کا فایدہ اٹھا کر فرقہ پرست گروہوں نے اپنا کام دکھا دیا۔[40]

آٹھواں تاراج

ترمیم

1803ءمیں دوبارہ فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔[41] مقامی سنی اور انتہا پسند پشتون شیعہ محلے پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے سامان لوٹ لیا اور خواتین کی عصمت دری کی۔ [42] برطانوی گزٹیرکے مطابق:

” افغانوں کے زمانے میں شیعوں کو محرم کا سوگ منانے کی اجازت نہیں تھی ۔عبد اللہ خان کے زمانے میں، جس نے اپنے آپ کو کابل کے تخت سے آزاد کر لیا تھا، شیعوں نے محرم کا سوگ منانے کی کوشش کی۔ ان پر حملہ کیا گیا، لوٹ مار کی گئی اور ان کے گھر جلائے گئے۔ ان میں سے تقریباً 150 لوگوں کو ( اس دن شہر میں بہت کم لوگ تھے) اکٹھا کیا گیا، ان کے ناک کاٹے گئے اور ایک رسی سے باندھ کر بازاروں میں گھمایا گیا۔“ [13]

نواں تاراج

ترمیم

1819ء میں سکھوں نے کشمیر فتح کر لیا۔[11] یہ وہ زمانہ تھا جب اودھ، بہار اور بنگال میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی جہادی لشکر کی تیاری کے ساتھ ساتھ عزاداری پر حملے کر رہے تھے۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:

” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:

’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔

سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“۔[43]

شہنشاہ اورنگ زیب کے دور سے شیعوں پر سنیوں کی جامعہ مسجد سری نگر کے لیے ہر سال نئے قالین مفت فراہم کرنا لازم قرار دیا گیا تھا۔ 1831 عیسوی میں انھوں نے مبینہ طور پر قالینوں کی فراہمی میں تاخیر کی اور امام باڑہ زاڈی بل میں محرم کی مجلس میں استعمال شدہ قالین سنی مسجد کو دیے۔جب یہ خبر شہر تک پھیل گئی تو ایک ہجوم نے شیعہ محلے پر حملہ کر دیا۔ قیمتی سامان لوٹ لیا گیا اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ کچھ سنی مردوں نے شیعہ خواتین کے جنسی اعضاکو چاقو سے کاٹ دیا۔ [44] برطانوی گزٹیر میں بھی اس دور کے ایک واقعہ کا ذکر آیا ہے:

”گورنر باما سنگھ کے زمانے میں شیعوں نے محرم الحرام کی رسومات ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن مشتعل سنی ہجوم ان پر ٹوٹ پڑا۔ ان میں سے پندرہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔  اس ظلم کی وجہ سے دو سے تین سو کے قریب ایرانی تاجر کشمیر چھوڑ کر چلے گئے اور پھر کبھی پلٹ کر نہیں آئے۔“ [45]

1831ء تک پشاور پر سید احمد بریلوی کی حکومت ختم ہو چکی تھی اور مئی کے مہینے میں وہ کشمیر کی طرف فرار کرتے ہوئے بالا کوٹ کے مقام پر سکھوں کے ہاتھوں مارے گئے۔[46]

دسواں تاراج

ترمیم

سنہ 1872ء میں ایک سنی صوفی بزرگ سید محمد مدنی کے مزار پر سالانہ اجتماع ( عرس ) کے دوران میں، سنیوں نے شیعہ مسجد کے ایک حصے کو منہدم کر دیا۔ شیعوں نے اکٹھا ہوکر حملہ آوروں کو زدوکوب کیا۔ یہ خبر شہر میں پھیل گئی اور سنی ہجوم نے فجر کے وقت شیعہ محلے پر حملہ کیا۔ حکومت نے تیزی سے کام کیا اور 1000 کے قریب افراد کو گرفتار کیا۔ تفتیش کے بعد کچھ مشتعل افراد کو 2 سے 3 سال قید کی سزا سنائی گئی۔نقصانات کا تخمینہ دو لاکھ اسی ہزار روپے لگایا گیا تھا اور حملہ آوروں کو یہ ادائیگی کرنے کا پابند بنایا گیا۔ [47][48]برطانوی گزٹیر نے فسادات کو اس طرح بیان کیا:

”یہ فسادات ایک ہفتے تک جاری رہے  اور یہ اتنے شدید تھے  کہ گورنر کی طرف سے فوج کی کئی نفریاں بھیجی گئیں۔  کئی شیعہ محلوں کو کھنڈر کا ڈھیر بنا دیا گیا  اور لمبے عرصے تک بازار مکمل طور پر بند رہے۔    شہر کا ایک بہت بڑا حصہ ویران ہو چکا تھا۔  شیعوں نے علاقے سے ہجرت کر لی۔    کچھ نے قریبی پہاڑو ں میں  پناہ اختیار کی اور کچھ  شہر میں دوسرے مقامات چھپ گئے۔  بہت سی شیعہ خواتین  اور بچوں کو اپنے ہم مذہبوں کے مشتعل ہجوم سے جان بچانے کے لیے ہندو آبادیوں اور ان کے گھروں میں پناہ لینی پڑی۔  جب حالات کچھ قابو میں ہوئے توہزاروں کی تعداد میں حملہ آور اور فسادی گرفتار ہوئے اور انھیں سزائیں سنائی گئیں۔“ [49]

پیر غلام حسن کوئیہامی کا اسلوب

ترمیم

نسل کشی کی مہم میں متاثرین کو اکثریت کے عقائد و رسوم سے مطابقت نہ رکھنے والے ایک جارح اور کم تر انسان کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔اس طرح ان پر ہونے والے ظلم کا اخلاقی جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کتاب ”تاریخ حسن“ میں پیر غلام حسن کوئیہامی ”شیعہ تاراج“ کے عنوان سے قائم کیے گئے باب کے آغاز میں اس مسلسل اور ظالمانہ قتل عام کی وکالت کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ کشمیری شیعہ تعصب اور کینہ رکھنے میں معروف ہیں اور یہ کہ ہر تیس چالیس سال بعد ان کا قتلِ عام  اصل میں مکافاتِ عمل ہے۔ [1] وہ اس بات پرکوئی اعتراض نہیں کرتے کہ اکثر واقعات میں متاثرین کو انصاف کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ البتہ جب 1871ء کے تاراج کے بعد رنبیر سنگھ کی حکومت نے بلوائیوں کو گرفتار کیا اور  جرمانہ عائد کیا تو مصنف نے اس اقدام کو سنیوں کے خلاف ہندوؤں کا تعصب قرار دیا اور گرفتار شدگان کو ”محبوسانِ مظلوم“ قرار دیا۔ [47] یہی انداز ہمیں اکبر دور کے  ملا عبد القادر بدایونی کی کتاب ”منتخب التواریخ“ میں ملتا ہے جب وہ لاہور میں ایک شیعہ عالم حکیم ملا احمد نصر اللہ ٹھٹوی کے قتل اور ان کی قبر کو آگ لگانے کے واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ  لکھتے ہیں کہ ملا احمد ٹھٹوی کو شیعہ طریقے پر غسل دیتے وقت ان کے مقعد میں کیل ڈالے گئے اور ان  کو کئی بار دریا میں غوطے دیے گئے اور یہ کہ موت کے بعد ان کا منہ خنزیر  جیسا ہو گیا تھا۔ [50] اس وقت لاہور میں شیعوں کی اچھی خاصی تعداد بستی تھی اور شیعہ فقیہ قاضی نور اللہ شوشتری  بھی وہاں موجود تھے،   لہٰذا  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملا عبد القادر بدیوانی شیعہ فقہ میں تدفین کے آداب سے نا واقف تھے۔ یہ سب لکھنے سے بدایونی کا مقصد مقتول کو قتل کا حقدار قرار دیناتھا۔ وہ شہنشاہ اکبر کی طرف سے قاتل کو سزا دینے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی اسلوب ہمیں سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں شیخ احمد سرہندی کے ہاں نظر آتا ہے۔[24] جدید دور میں بھی  پاکستان میں شیعہ مخالف تشدد کی میڈیا کوریج  کے انداز  میں زیادہ تبدیلی نہیں  آئی  ہے۔ عبّاس زیدی نے اپنے تحقیقی مقالے میں   پاکستانی میڈیا کے ان رویوں کا تجزیہ کیا ہے۔[51]

جدید دور

ترمیم

1990 کی دہائی میں کشمیر جہاد کے دوران میں بھارت نے جہادیوں سے شیعوں کے تحفظ کا بہانا بنا کر بڑے شہروں، جیسے سرینگر، میں عزاداری پر پابندی لگا دی۔ نائن الیون کے بعد فرقہ وارانہ تشدد میں تیزی آئی ہے۔ کشمیر میں شیعہ مسلمانوں پر ہونے والے کچھ حملوں کا ذکر درج ذیل ہے:

  • 28 دسمبر 2009: مظفر آباد میں شیعہ مجلس پر خودکش حملہ، سات ہلاک، پینسٹھ شدید زخمی[52]
  • 15 فروری 2017: مقامی شیعہ رہنما مولانا تصور جوادی پر قاتلانہ حملہ[53]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحہ 479، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  2. ^ ا ب پ Zaheen, "Shi'ism in Kashmir, 1477–1885"، International Research Journal of Social Sciences, Vol. 4(4)، 74–80, اپریل (2015)۔
  3. seyed (2017-06-13)۔ "Shias of Kashmir: Socio-political dilemmas"۔ IUVMPRESS (بزبان انگریزی)۔ 06 جون 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2020 
  4. تاریخ کشمیر مطبوعہ از راہ اسلام آرگنائزیشن
  5. Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan"، p. 3, Oxford University Press, (2016)۔
  6. S. A. A. Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India"، Vol. 1, pp. 168–169, Mar'ifat Publishing House, Canberra (1986)۔
  7. تاریخ کشمیر مطبوعہ از راہ اسلام آرگنائزیشن
  8. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, pp. 362-363, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  9. Christopher Snedden, "Understanding Kashmir and Kashmiris Oxford University Press, p. 29, (2015)۔ آئی ایس بی این 9781849043427۔
  10. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 427, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  11. ^ ا ب P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 469, M. D. Publications, New Delhi (1994)
  12. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 3, p. 666, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  13. ^ ا ب Gazetteer of the Kashmir, p. 31, (1872–73)۔
  14. Prof. Saiyid Athar Abbas Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India"، Vol. 1, p. 171, Mar'ifat Publishing House, Canberra (1986)۔
  15. Prof. Saiyid Athar Abbas Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India"، Vol. 1, pp. 172-173, Mar'ifat Publishing House, Canberra (1986)۔
  16. ^ ا ب J. N. Hollister, "The Shi'a of India"، p. 148, Luzac and Co, London, (1953)۔
  17. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 480تا 481، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  18. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 374, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  19. Ildikó Bellér-Hann (2007)۔ Situating the Uyghurs Between China and Central Asia (بزبان انگریزی)۔ Ashgate Publishing, Ltd.۔ صفحہ: 20–21۔ ISBN 978-0-7546-7041-4 
  20. Ildikó Bellér-Hann (2008)۔ Community Matters in Xinjiang, 1880–1949: Towards a Historical Anthropology of the Uyghur (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ صفحہ: 137۔ ISBN 978-90-04-16675-2 
  21. Prof. Saiyid Athar Abbas Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India"، Vol. 1, p. 178, Mar'ifat Publishing House, Canberra (1986)۔
  22. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 377, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  23. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 481تا 482، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  24. ^ ا ب شیخ احمد سرہندی، ردِ روافض، صفحہ 35، مدنی کتب خانہ، گنپت روڈ، لاہور۔
  25. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 406, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  26. Prof. Saiyid Athar Abbas Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India"، Vol. 2, p. 37, Mar'ifat Publishing House, Canberra (1986)
  27. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحہ482 تا 483، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  28. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 409, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  29. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 483تا 484، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  30. Jadunath Sarkar, "History of Aurangzib"، vol. 5, pp. 323-325, Orient Longman Ltd, Delhi (1952)۔
  31. ^ ا ب J. N. Hollister, "The Shi'a of India"، p. 149, Luzac and Co, London, (1953)۔
  32. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 485تا 489، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  33. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, pp. 420-421, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  34. Jadunath Sarkar, "Fall of the Mughal Empire"،   Vol. 1, p. 303, Orient Longman Ltd, Delhi (1964)۔
  35. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 424, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  36. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 489تا 490، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  37. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 439, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  38. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحہ 490، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  39. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 440, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  40. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 456, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  41. P. N. K. Bamzai, "Cultural and Political History of Kashmir"، Vol. 2, p. 462, M. D. Publications, New Delhi (1994)۔
  42. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحہ 491، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  43. B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900"، p. 58, Princeton University Press ۔(1982)۔
  44. پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 491 تا 492، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  45. Gazetteer of the Kashmir, pp. 31 – 32, 1872–73.
  46. Altaf Qadir, "Sayyid Ahmad Barailvi"، p. 150, SAGE (2015)۔
  47. ^ ا ب پیر غلام حسن کوئیہامی، ”تاریخ حسن“، جلد 1 ، باب: تاراج شیعہ، صفحات 492تا 494، شعبہ تحقیق و اشاعت، حکومت جموں کشمیر، سری نگر (1960)۔
  48. Mridu Rai, "Hindu Rulers, Muslim Subjects: Islam, Rights, and the History of Kashmir"، p. 39, Hurst and Company, London (2004)۔
  49. Gazetteer of the Kashmir, p. 32, 1872–73.
  50. ملا عبد القادر بدایونی، ”منتخب التواریخ“، ذکر حکمای اکبر شاہی، حکیم احمد تیوی، صفحہ 598
  51. Abbas Zaidi, "Covering Faith-Based Violence: Structure and Semantics of News Reporting in Pakistan"، in: J. Syed et al. (eds.)، Faith-Based Violence and Deobandi Militancy in Pakistan, Palgrave Macmillan, (2016)۔
  52. "At least 7 killed, 65 injured: Suicide attack on mourners in Muzaffarabad."۔ DAWN۔ دسمبر 28, 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2021 
  53. "Shia cleric, wife shot by assailants in Muzaffarabad"۔ DAWN۔ 15 Feb 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 Feb 2021.