کچھی کینال پراجیکٹ
پرویز مشرف اس منصوبے کے آغاز کے بعد کم و بیش چھ برس تک ایوان اقتدار میں رہے۔ ان کے دور میں کچھی کینال کی تعمیر کے لیے مجموعی طور پر تقریباََ 18 ہزار 6 سو 29 ملین روپے جاری کیے گئے۔ منصوبے کا دوسرا پی سی ون، جس کی مالیت 57 ہزار 5 سو 62 ملین روپے تھی، ایکنک نے اس کی منظوری 31 دسمبر 2013ء کو دی۔ منصوبے کے پہلے دو مرحلوں کی تکمیل کی تاریخ 31 دسمبر 2014ء اور تیسرے مرحلے کی تاریخ تکمیل جون 2015ء مقرر کی گئی۔ اسی دوران تیرہ برس بعد ہمارے "ماہرین" پر یہ انکشاف ہوا کہ منصوبے کی مالیت میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے 21 دسمبر 2015ء کو منصوبہ بندی کمیشن میں 1 لاکھ 2 ہزار 78 ملین روپے کا ایک اور پی سی ون منظوری کے لیے ارسال کر دیا کچھی کینال منصوبے کے پہلے مرحلے کی تعمیر ایک طویل انتظار کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچ گئی، جس کے بعد تونسہ بیراج پر واقع پراجیکٹ کے ہیڈ ریگولیڑ سے 363 کلومیٹر طویل مین کینال میں پانی بھرنے کا مرحلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ تاہم منصوبے کے مطابق کینال کی مکمل تکمیل نہ ہونے پر بلوچستان میں مختلف حلقوں نے احتجاج بھی کیا ہے۔ کچھی کینال منصوبے کا پہلا مرحلہ 80 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔ 363 کلومیٹر مین طویل کینال میں سے 351 کلو میڑ کینال پختہ ہے۔ یہ نہر صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع تونسہ بیراج سے نکلتی ہے اور صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ختم ہو جاتی ہے۔ مین کینال میں پانی مکمل طور پر بھرنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان کے دست مبارک سے رواں ماہ کچھی کینال کے باقاعدہ افتتاح کی امید ہے۔ اس اہم منصوبے کی منظوری 2002ء میں دی گئی تھی اور اکتوبر 2002ء میں تونسہ کے مقام پر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 500 کلو میڑ طویل تھا۔ جس کا 300 کلومیٹر حصہ پنجاب اور 200 کلومیٹر حصہ بلوچستان میں آنا تھا۔ جس کے لیے ایکنک نے 2003ء میں فنڈز کی منظوری دی تھی۔ یہ منصوبہ 2007ء میں پورا ہونا تھا۔ ابتدائی طور پر کچھی کینال منصوبے کے مکمل اخراجات کا تخمینہ پچاس ارب روپے لگایا گیا تھا۔ جس سے منصوبے کے تینوں مراحل کو مکمل ہونا تھا۔ لیکن کئی سال سے التواء ہونے والے اس منصوبے کی جہاں ایک طرف لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا، وہی دوسری جانب اس منصوبے کی تاخیر کیوجہ سے بلوچستان کے باقی علاقوں کے مستفید ہونے کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں۔
اس منصوبے سے بلوچستان کے تین اضلاع میں فصلوں کی کاشت چار فیصد سے بڑھ کر اسی فیصد تک جا پہنچتی اور زرعی شعبے میں سالانہ 20 ارب روپے سے زائد کی آمدنی متوقع تھی۔ منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف بلوچستان کے غریب عوام کی زمینوں کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا بلکہ ان علاقوں سے غربت اور بے روزگاری تقریباََ ختم ہو جاتی۔ غریب بلوچوں کو اپنے گھروں میں باعزت روزگار میسر آتا اور مختلف زرعی اجناس کی برآمد سے نہ صرف بلوچستان معاشی طور پر مستحکم ہوتا بلکہ بلوچستان کی زمین سے اگنے والی فصل کا ہر دانہ پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافے کا باعث بنتا۔ منصوبے کی تکمیل سے ڈیرہ بگٹی ، نصیر آباد ، بولان اور جھل مگسی سے روزگار کی خاطر کوئٹہ ، کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں نقل مکانی کا سلسلہ رک جاتا اور بڑے شہروں پر آبادی کا مزید دباؤ بھی رک جاتا، لیکن بلوچستان اور پاکستان دونوں کی بدقسمتی کہ یہ منصوبہ آج بھی ادھورا ہے۔ پرویز مشرف اس منصوبے کے آغاز کے بعد کم و بیش چھ برس تک ایوان اقتدار میں رہے۔ ان کے دور میں کچھی کینال کی تعمیر کے لیے مجموعی طور پر تقریباََ 18 ہزار 6 سو 29 ملین روپے جاری کیے گئے۔ ظاہر ہے اس رقم سے منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کے بعد زرداری صاحب کا دور آیا اور انھوں نے آغاز حقوق بلوچستان کا نعرہ لگایا۔ کسی کی نظر کرم کچھی کینال پر پڑی تو انکشاف ہوا کہ منصوبے کی لاگت تقریباً دو گنا ہو کر 59 ہزار 3 سو 52 ملین روپے تک پہنچ چکی ہے۔ منصوبے کا دوسرا پی سی ون، جس کی مالیت 57 ہزار 5 سو 62 ملین روپے تھی، ایکنک نے اس کی منظوری 31 دسمبر 2013ء کو دی۔ منصوبے کے پہلے دو مرحلوں کی تکمیل کی تاریخ 31 دسمبر 2014ء اور تیسرے مرحلے کی تاریخ تکمیل جون 2015ء مقرر کی گئی۔
پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں کچھی کینال کی تعمیر کے لیے تقریباََ 17 ہزار 6 سو 24 ملین روپے جاری کیے گئے۔ لیکن پھر بھی یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ اسی دوران تیرہ برس بعد ہمارے "ماہرین" پر یہ انکشاف ہوا کہ منصوبے کی مالیت میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے 21 دسمبر 2015ء کو منصوبہ بندی کمیشن میں 1 لاکھ 2 ہزار 78 ملین روپے کا ایک اور پی سی ون منظوری کے لیے ارسال کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے اس سے پہلے صرف دو نہروں کا پانی دستیاب ہے۔ پہلی پٹ فیڈر جو کشمور کے قریب گڈو بیراج سے نکلتی ہے اور دوسری کیرتھر کینال جو سکھر بیراج سے نکالی گئی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس منصوبے کو گڈو یا کوٹری بیراج سے شروع کرنے کی بجائے تین سو چھ کلومیٹر پیچھے تونسہ بیراج سے شروع کیا گیا۔ اگر کچھی کینال گڈو یا کوٹری بیراج سے نکالی جاتی تو نہ صرف اس کی لمبائی تین چوتھائی سے بھی زیادہ کم ہوکر صرف 97 کلومیٹر رہ جاتی بلکہ اس کی لاگت بھی اسی تناسب سے کم ہوتی اور منصوبہ بھی جلد مکمل ہوتا۔ بلوچستان کے سیاسی قائدین نے 1970ء کی دہائی میں صوبے میں پانی کے منصوبے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کو شروع میں کچھی پلین منصوبے کے نام دیا گیا۔ 1972ء میں میر غوث بخش بزنجو نے اس حوالے سے پہلا قدم اٹھایا اور 1991ء میں جب ارسا کا معاہدہ ہوا، تو اس معاہدے کے تحت بلوچستان کے حصے میں دس ہزار کیوسک پانی آنا تھا۔ اس پانی کے حصول کے لیے بھی اس وقت کی بلوچستان حکومت نے کچھی کینال منصوبے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس منصوبے سے بلوچستان کے مختلف اضلاع ڈیرہ بگٹی، نصیر آباد، جھل مگسی اور بولان میں سات لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی کو سیراب کرکے زرعی شعبے میں خود کفالت کو مزید یقینی بنانا تھا۔ لیکن اب منصوبے کے مطابق سات لاکھ ایکڑ کی بجائے بلوچستان میں صرف 70 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوگی۔ اس حوالے سے بلوچستان کے دیگر حلقوں سے سمیت خصوصاً بلوچستان اسمبلی کے اراکین بھی سراپا احتجاج ہیں جبکہ کچھی کینال کو اس کی اصل روح کے مطابق مکمل کرنے کے حوالے سے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کیجانب سے اس پروجیکٹ کو سی پیک میں شامل کرنے کی قرارداد بھی منظور کرلی گئی ہے۔ گذشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں کچھی کینال سے متعلق قرارداد پیش کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی یاسمین لہڑی صاحبہ کا کہنا تھا کہ کچھی کینال عوامی نوعیت کا اہم پروجیکٹ ہے، جو پانچ سو کلومیٹر لمبائی پر محیط ہے۔ جس سے تین سو کلومیٹر پکا اور دو سو کلومیٹر کچا ڈیزائن ہوا۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل سے صوبے کے چار اضلاع سیراب ہونے تھے، لیکن بدقسمتی سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاحال مذکورہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔ اب شنید میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت اس کو پہلے مرحلے میں ڈیرہ بگٹی کی صرف 72 ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کرنے پر ختم کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے باقی تین اضلاع کے زمینداروں میں تشویش پایا جانا فطری امر ہے۔
اس سے متعلق قرارداد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ کچھی کینال پراجیکٹ کو باقاعدہ طور پر سی پیک میں شامل کرنے کو یقینی بنائے، تاکہ عوامی اہمیت کے حامل مذکورہ پراجیکٹ کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا جاسکے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں نہ صرف مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ اس کے لیے رکھی گئی رقم بھی خورد برد ہونے کا خدشہ ہے۔ قرارداد کو منظور کرکے صوبائی حکومت وفاق سے اس معاملے پر بات کرے اور اس میگا پراجیکٹ کو باقاعدہ طور پر سی پیک میں شامل کیا جائے۔ اراکین بلوچستان اسمبلی کے مطالبات ایک طرف لیکن یہاں پر یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بلوچستان میں عوام کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے، جن کا ذریعہ معاش زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے۔ بلوچستان بھر میں اس وقت صرف نصیر آباد ڈویژن میں نہری نظام موجود ہے اور پاکستان کے مختلف کینالوں سے بلوچستان کے صرف اسی علاقے کو دریائی پانی کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکا ہے۔ موجودہ کینال میں اتنی گنجائش نہیں کہ اس سے پورا بلوچستان اپنی ضروریات کو پوری کرسکے۔ دوسری جانب بلوچستان میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اگر گذشتہ اور موجودہ وفاقی حکومتیں اس منصوبے کو اتنی ہی اہمیت دیتی، جتنی اقتصادی راہداری منصوبے کو دی جا رہی ہے، تو شاید آج ایک حد تک بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو پاتا۔