گجرات ساہتیہ اکادمی (گجراتی: ગુજરાત સાહિત્ય અકાદમી) جسے کبھی کبھی گجرات ساہتیہ اکیڈمی بھی لکھا جاتا ہے، ایک ادارہ جو بھارت کی ریاست گجرات میں بولی جانے والی زبانوں اور ان کے ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ اس ادارے کی تاسیس 1981ء میں وہاں کی ریاستی حکومت کی جانب سے ہوئی۔ گجراتی جو ریاست کی سرکاری زبان ہے، ادارے کے زیرفروغ زبانوں میں سے ایک ہے۔ دیگر زبانوں میں ہندی، سنسکرت، کچھی، سندھی اور اردو شامل ہیں۔ 2017ء میں وشنو پانڈیا اکادمی کے صدر کے طور برسرخدمت ہیں۔[1][2]

گجرات ساہتیہ اکادمی

مخفف جی ایس اے
ملک بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صدر دفتر گاندھی نگر، گجرات
تاریخ تاسیس 24 ستمبر 1981؛ 42 سال قبل (1981-09-24)
بانی حکومت گجرات   ویکی ڈیٹا پر (P112) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسم ادبی ادارہ
President President
رجسٹرار رجسٹرار
مرکزی افراد شبداسرشٹی
باضابطہ ویب سائٹ sahityaacademy.gujarat.gov.in
متناسقات 23°13′28″N 72°39′16″E / 23.224431°N 72.654421°E / 23.224431; 72.654421   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گجرات ساہتیہ اکادمی کا لوگو

تاریخ ترمیم

اس اکادمی کا قیام 24 ستمبر 1981ء کو گجرات کی حکومت کی جانب سے عمل میں آیا۔ ادارے میں صدر، نائب صدر اور دیگر ارکان شامل تھے۔ اس کا افتتاح 17 جون 1982ء کو ہوا تھا۔[3] گجراتی مصنف منوبھائی پانچولی اکادمی کے پہلے صدر بنے اور بھولابھائی پٹیل اس کے دوسرے صدر بنے۔ بھولابھائی پٹیل کی میعاد کے ختم ہونے کے بعد ریاستی حکومت نے کچھ سالوں تک انتخابی عمل پر روک لگا دی اور اکادمی کو رجسٹرار (مہاماتر) نے کئی سالوں تک چلایا۔ گجراتی مصنفین ہاسو یاگنیک، دلپت پادھیار، کیریت دودھات اور ہرشد تریویدی رجسٹرار کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔[4] 2015ء میں بھاگییش جھا کو سیدھے بلا انتخاب صدر کے طور پر ریاستی حکومت کی جانب سے مقرر کیا گیا۔ جھا کی جگہ وشنو پانڈیا کو مئی 2017ء میں دے دی گئی تھی۔[5][6]

تنظیم ترمیم

گجرات اکادمی پانچ دیگر اکادمیوں کا احاطہ کرتی ہے جو اس طرح ہے: ہندی ساہتیہ اکیڈمی ہندی زبان کے لیے، سنسکرت ساہتیہ اکیڈمی سنسکرت زبان کے لیے، کچھی ساہتیہ اکیڈمی کچھی زبان کے لیے۔ سندھی ساہتیہ اکیڈمی سندھی زبان کے لیے اور اردو ساہتیہ اکیڈمی اردو زبان کے لیے۔ مہاماتر (رجسٹرار) سبھی پانچ اکیڈمیوں کے انتظامی صدر ہیں۔ یہاں مجالس قائمہ بھی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں دس ارکان ہیں، ان میں پانچ سرکاری ارکان ہیں، جو لوک ادب، سنسکرت زبان اور ادب اور جدید بھارتی زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔[3]

اکادمی کا اختیار صدر، نائب صدر اور مہاماتر کے پاس ہے۔ اکادمی کی بااختیار شخصیات اور عہدے دار دو زمروں میں منقسم ہیں، جو سامانیا سبھا (عمومی مجلس) اور کاریاواہک سمیتی (ایگزیکیٹیو کاؤنسل) کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ سامانیا سبھا کی میعاد 5 سال بعد ختم ہو جاتی ہے۔ سامانیا سبھا میں 41 ارکان شامل ہیں جس میں گجرات ریاست کے تعلیمی کمیشنر، محمکۂ تعلیم کے مالیاتی مشیر، اکادمی کے رجسٹرار، گجرات ریاست کی اعلٰی تعلیم کے کمیشنر، گجرات ریاست کی زبانوں کے ڈائریکٹر، گجراتی ادب کے 5 ارکان جنہیں حکومت منتخب کرتی ہے، 9 ارکان جنہیں مختلف گجراتی ادبی اداروں کے نمائندے چنتے ہیں، 8 ارکان گجرات ریاست کی جامعات کے نمائندوں کے طور پر منتخب ہوتے ہیں، اکادمی کے 3 ارکان اکادمی کی سامانیا سبھا کی جانب سے چنے جاتے ہیں، 9 ارکان گجراتی مصنفین کی جانب سے چنی گئی انتخابی کمیٹی کی جانب سے منتخب ہوتے ہیں، 2 ارکان ایسے ہوتے ہیں جنہیں ساہتیہ گورو پرسکار حاصل ہوا ہوتا ہے۔ کاریاواہک سمیتی زیادہ سے زیادہ 10 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں صدر، نائب صدر، گجرات ریاست کے تعلیمی کمیشنر اور سامانیا سبھا کے 5 ارکان ہوتے ہیں جنہیں ریاستی حکومت چنتی ہے۔[7]

عمل آوری ترمیم

اکادمی کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مختلف تنظیموں اور ریاستی مصنفین کو اس بات پر حوصلہ افزائی کی جائے کہ گجراتی، سنسکرت اور دیگر جدید زبانوں اور گجراتی لوک ادب پر تحقیق اور ترقی ہو، ادبی کتابوں کو یکجا کیا جائے اور انھیں چھاپا جائے، ایک کتب خانہ شروع کیا جائے اور اسے قائم رکھا جائے، ادبی انجمنوں کو تسلیم کیا جائے اور ان کی مدد کی جائے، ادب کی مختلف اصناف پر تنقیدی کام ہو، ادب کے طلبہ کے وظائف جاری کیے جائیں، جانی مانی شخصیات کی سالگرہوں، صدسالہ جشن پیدائش وغیرہ منائے جائیں، مختلف اصناف سخن کی کتب کی اشاعت پر انعامات تقسیم ہوں اور معمر مسنفین کو اپاہج ہوں اور خستہ حالت میں گجرات میں رہ رہے ہوں، ان کی مدد کی جائے۔[3] ادارہ ساہتیہ گورو پرسکار تسلیم شدہ مصنفین کو دیتا ہے اور یووا گورو پرسکار نوجوان مصنفین کو ہر سال دیتا ہے۔ 2016ء سے اکادمی نے دو انعامات جاری کیے: ساہتیہ رتنا ایوارڈ جو گجراتی مصنفین کو ان کے گراں قدر تعاون پر دیا جاتا ہے اور رمن لال نیلکنٹھ ہاسیہ پریتوشیک جو گجراتی مصنفین کو ان کے گراں قدر گجراتی مزاحیہ ادب میں تعاون پر دیا جاتا ہے۔

تنازع ترمیم

یہ اکادمی ایک خود مختار ادارہ تھی اور خود اپنے صدر کا انتخاب ایک رائے شماری کے ذریعے کرتی تھی جس میں 41 ارکان حصہ لیتے تھے، جیسا کہ اس رفاہی ٹرسٹ کے دستور میں مذکور ہے۔[8]

مگر اپریل 2015ء میں ریاستی حکومت غیر دستوری طور پر بھاگییش جھا کو صدر کے طور پر متعین کر چکی ہے جو ایک گجراتی مصنف اور موظف آئی اے ایس افسر ہیں، جس کے لیے کسی بھی طرح کا انتخابی عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں سوایتھ اکادمی آندولن (خود مختار اکادمی احتجاج) منظر عام پر آیا۔ اس تحریک کو گجرات ساہتیہ پریشد، جو گجرات کا قدیم ترین ادارہ ہے اور کچھ دیگر گجراتی مصنفین جن میں منیشی جانی، شیریش پنچل، دھیرو پاریکھ، چندرکانت ٹوپی والا، بھرت مہتا، پریش نایک اور راجو سولنکی نے چلایا۔[9] غیر خود مختار اکادمی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پریشد نے فیصلہ کیا کہ وہ گجرات ساہتیہ اکادمی کو بھی طرح حمایت نہ کرے۔ مارچ 2016ء میں گجراتی شاعر ہرش برہمبھٹ نے اس انعام کو لینے سے انکار کر دیا جسے اکادمی کی جانب سے ان کی مطبوعہ کتاب پر دیا گیا تھا۔[10] نومبر 2015ء میں بھاگییش جھا اور ان کے دو حامی مصنفین چینو مودی اور ونود بھٹ نے دھیرو پاریکھ اور نرنجن بھگت جیسے مصنفین کے لیے لفظ طالبان کا استعمال کیا، جو احتجاج کا حصہ تھے۔ اس واقعے کے بعد پروین پانڈیا نے اپنا انعام اکادمی کو واپس کر دیا جسے انھیں اکادمی نے 2004ء میں ایک مطبوعہ کتاب کے لیے دیا تھا۔[11] پانڈیا ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وڈودرا میں مقیم گجراتی مصنف اور ادبی نقاد بھرت مہتا نے وہ انعام لوٹا دیا جو انھیں 2008ء میں دیا گیا۔[8]

اس مکمل قضیے کو ہائی کورٹ کے احاطے تک پہنجایا گیا۔ دھیرو پاریکھ نے دیگر مصنفین کے ساتھ استغاثہ گجرات ہائی کورٹ کے آگے رکھی۔[5][8][11]

حوالہ جات ترمیم

  1. "Vishnu Pandya replaces Bhagyesh Jha at Sahitya Akademi"۔ The Times of India۔ 2017-05-13 
  2. Lionel Wee (22 جنوری 2015)۔ The Language of Organizational Styling۔ United kingdom: Cambridge University Press۔ صفحہ: 171۔ ISBN 978-1-107-05480-6۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2017 
  3. ^ ا ب پ Syed Amanur Rahman، Balraj Verma (9 اگست 2005)۔ The Beautiful India - Gujarat۔ New Delhi: Reference Press۔ صفحہ: 231 – 233۔ ISBN 81-88583-98-7۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2017 
  4. Prasad Brahmabhatt (2010)۔ અર્વાચીન ગુજરાતી સાહિત્યનો ઈતિહાસ - આધુનિક અને અનુઆધુનિક યુગ (History of Modern Gujarati Literature – Modern and Postmodern Era) (بزبان گجراتی)۔ Ahmedabad: Parshwa Publication۔ صفحہ: 396۔ ISBN 978-93-5108-247-7 
  5. ^ ا ب "Vishnu Pandya replaces Bhagyesh Jha at Sahitya Akademi"۔ The Times of India۔ 2017-05-13۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2017 
  6. "Vishnu Pandya appointed Chairman of Gujarat Sahitya Akademi"۔ DeshGujarat۔ 2017-05-12۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2017 
  7. Priti Y. Dhameliya (2016)۔ પ્રકરણ 2: સાહિત્ય સંસ્થાઓનો પરિચય [Chapter 2: An Introduction of Literary Institutions]۔ ગુજરાતી સાહિત્ય પરિષદના મુખપત્ર 'પરબ' તથા ગુજરાત સાહિત્ય અકાદમીના મુખપત્ર 'શબ્દસૃષ્ટિ'ના વિશેષાંકોનો સમિક્ષાત્મક અભ્યાસ [A Critical Study of Gujaratí Sahitya Parishad's organ 'Parab' and Gujarat Sahitya Academy's organ 'Shabdasrishti] (PhD) (بزبان گجراتی)۔ Bhavnagar: Bhavnagar University۔ صفحہ: 8–27۔ hdl:10603/129321۔ 09 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2017 
  8. ^ ا ب پ "Bharat Mehta returns state Akademi award"۔ The Indian Express۔ 2015-11-04۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2017 
  9. "Writers demand autonomy for Sahitya Academy"۔ The Indian Express۔ 2011-06-06۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2017 
  10. "Writer declines award from 'non-autonomous' Academy"۔ The Indian Express۔ 2016-03-29۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2017 
  11. ^ ا ب "Writer returns award to Gujarat Sahitya Parishad"۔ The Times of India۔ 2016-01-15۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2017