ہریجن (دیوناگری: हरिजन؛ ترجمہ: "ہری/وشنو کی اولاد") ایک اصطلاح تھی جسے تحریک آزادی ہند کے رہنما موہن داس گاندھی نے سماج کے ان لوگوں کے لیے رائج کیا جنہیں روایتی طور پر صدیوں سے چھونے کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا (جسے عام طور پر "اچھوت" کہتے ہیں)۔[1] لیکن بعد میں اس لفظ کو ناپسندیدہ اور توہین آمیز سمجھا جانے لگا، لہذا اب لفظ ہریجن ان طبقوں کے لوگوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا جو قرون وسطی اور جدید بھارت میں پسماندہ ہیں۔[2] بلکہ انھیں اب دلت کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب کیرالا میں ہریجن اور دلت دونوں الفاظ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔[3] ہریجن لفظ کو کئی لوگوں نے ایک حساس لفظ،[4] اور کچھ دلت کارکنوں نے اسے ذلت آمیز سمجھا ہے۔[5] نتیجتاً حکومت ہند اور متعدد ریاستی حکومتیں سرکاری مقاصد کے لیے اس لفظ کے استعمال کو ممنوع سمجھتی ہیں۔[6] اگرچہ گاندھی جی نے ہریجن کی اصطلاح کو رائج کیا، جس کے لفظی معنیٰ خدا کا بیٹا تھے لیکن بعضوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ کچھ مذہبی کتابوں کے مطابق برہمنوں کو خدا کا فرزند کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ گاندھی کو پسماندہ طبقوں کے لیے اس اصطلاح کے استعمال کا مشورہ گجراتی زبان کے بھکتی دور کے شاعر نرسی مہتا[7][8] کے کاموں کی بنیاد پر دیا گیا ہو۔ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ نرسی کے کام میں اس اصطلاح سے دیوداسیوں کے بچے مراد ہیں[9][10]، لیکن اس دعوی کی تصدیق نہیں ہو سکی۔[11] دوسرے ذرائع کے مطابق قرون وسطی کے مذہبی شاعر گنگاستی نے بھکتی تحریک کے دوران میں خود کا حوالہ دیتے ہوئے اس لفظ کا استعمال کیا، بھارت میں ایک ایسی مدت گذری ہے جس نے ذات کی مشروعیت کو چیلنج کرتے ہوئے خواتین کو بلند تر مقام اور آواز دی تھی۔ گنگاستی 12ویں سے 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں گذرے ہیں وہ گجراتی زبان میں لکھا کرتے تھے۔[12]

ہریجن، موہن داس گاندھی کا اخبار

ترمیم

گاندھی جی نے برطانوی راج کے دوران میں 11 فروری 1933ء کو یرودا جیل سے "ہریجن" کے نا سے ایک ہفتہ وار اخبار شائع کرنا شروع کیا۔[13] انھوں نے اسے تین زبانوں میں کیا: انگریزی میں ہریجن (1933 سے 1948)، گجراتی میں ہریجن بندو[14] اور ہندی میں ہریجن سیوک[15]۔ ان اخباروں میں گاندھی جی نے اپنے پچھلے اخبار ینگ انڈیا (1919ء سے 1932ء[16]) کے مقابلہ میں سماجی اور اقتصادی مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کی تھی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. अछूत कोन और कैसे : डॉ. भीमराव अम्बेडकर, 1949
  2. Vajpeyi Ananya (14 August 2018)۔ "How to move a mountain"۔ The Hindu۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2018 
  3. "Kerala government bans use of the words "harijan" and "dalit""۔ Outlook India۔ 17 October 2017۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2018 
  4. Laura Dudley Jenkins (November 2003)۔ "Another "People of India" Project: Colonial and National Anhropology"۔ The Journal of Asian Studies۔ Association for Asian Studies۔ 62 (4): 1143–1170۔ JSTOR 3591762۔ doi:10.2307/3591762۔ (تتطلب إشتراكا (معاونت)) 
  5. "Use of word `Harijan' objected"۔ دی ہندو۔ 27 September 2003۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2015 
  6. [http:/ticle1421444.ece "Government bans use of word Harijan"] تحقق من قيمة |url= (معاونت)۔ دی انڈین ایکسپریس۔ 15 January 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2015 
  7. "Origin of name 'Harijan'"۔ mkgandhi.org۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2014 
  8. B. N. Srivastava (1997)۔ Manual Scavenging in India: A Disgrace to the Country۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 15۔ ISBN 9788170226390 
  9. Dale Hoiberg (2000)۔ Students' Britannica India: Select essays, Volume Six (بزبان انگریزی)۔ New Delhi: Popular Prakashan۔ ISBN 9780852297629۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2018 
  10. Akepogu Jammanna، Pasala Sudhakar (2016-12-14)۔ Dalits' Struggle for Social Justice in Andhra Pradesh (1956-2008): From Relays to Vacuum Tubes (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ ISBN 9781443844963۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2018 
  11. "Labelling Dalits 'Harijans': How we remain ignorant and insensitive to Dalit identity, The News Minute"۔ 30 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2019 
  12. "The Sacred and Profane in the Bhakti Religious Tradition." Women Writing in India, vol 1. Tharu & Lalita, eds. Feminist Press at CUNY, 1993.
  13. Archives of Harijan 11 February 1933
  14. Harijan Bandu
  15. Harijan Sevak
  16. Gandhi As A Journalist آرکائیو شدہ 2007-08-04 بذریعہ وے بیک مشین