ہزارہ ڈویژن
ہزارہ ڈویژن پاکستان کا وہ واحد ڈویژن ہے۔ جو کسی مخصوص جگہ کا نام نہیں ہے جیسے ضلع راولپنڈی اور راولپنڈی ڈویژن بھی ہے۔ ہزارہ ڈویژن صوبہ خیبر پختون خوا کا مشہور و معروف ڈویژن ہے۔ ہزارہ مغل قوم سے منسوب یہ علاقہ مختلف اضلاع کو مجموعہ ہے، اس میں بسنے والی قوموں میں پٹھان(طاہرخیلی، سواتی، جدون، دلزاک، پنی، سلمانی، ترین، اتمانزئی، یوسفزئی) مغل، قریشی، تنولی، گجر، اعوان اور دیگر اقوام بھی شامل ہیں ہزارہ کی تحصیل حویلیاں کو ڈرائیوروں کا شہر کہا جاتا ہے حویلیاں کے زیادہ لوگ ٹرانسپورٹ سے وابستہ ہے۔ جولائی 2024ء کے آغاز میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی طرز پر ہزارہ ڈویژن کیلئے ہزارہ سول سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ ہزارہ ڈویژن درج ذیل اضلاع پر مشتمل ہے۔
ہزارہ ڈویژن کا پس منظر
ترمیمہزارہ کا پرانا نام کارلخ ہزارہ تھا۔ کارلخ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب 1 ہزار ہے۔ 1000 کے قریب قریب ترک فوجیوں نے اس پر حملہ کیا اور اس علاقے پر اپنا قبضہ جما کر اس کا نام کارلخ ہزارہ رکھ دیا۔جس کو بعد ازاں کارلخ کو حذف کر کے ہزارہ رکھ دیا گیا۔[حوالہ درکار] ہزارہ ڈویژن کے تین اضلاع قدیم ہیں جن میں مانسہرا قدیم ترین ضلع ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں قدیم ترین مذہبی تہذیبیں گذری ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ 1321 میں مانسہرا کا پرانا نام پکھلی سرکر تھا اس علاقہ کو مان سنگھ نے آباد کر کے اس کا نیا نام اپنے نام سے منسوب کر کے مانسہرا رکھ دیا۔ ہری پور کا پرانا نام مشرقی گندھارہ تھا۔ مہاراجا سکندر یونانی کی فوج کے جرنیل ہری سنگھ نلواہ نے 1821 اس علاقے کو آباد کرکے اس علاقے کا نام اپنے نام سے منسوب کرکے ہری پور رکھ دیا۔ 1846 میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ کے بعد کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ راجا گلاب سنگ کے حوالے کر دیا اور 1849 میں پورا علاقہ برطانوی راج میں آگیا۔ ضلع ایبٹ آباد کا قیام 1853 میں برطانوی میجر جیمز ایبٹ نے ایبٹ آباد کو آباد کر کے اس کا نام ایبٹ آباد رکھا۔ موجودہ وقت میں ہزارہ ڈویژن کے 7 اضلاح جن میں ہری پور۔ ایبٹ آباد۔ کوہستان۔ لوئر کوہستان۔ مانسہرا۔ بٹگرام۔ تورغر شامل ہیں۔ ہزارہ ڈویژن جو سات اضلاع پر مشتمل ہے 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہزارہ ڈویژن کی ٹوٹل آبادی 5049660 ہے۔ ہزارہ ڈویژن کا ہر ضلع قدرتی حسین مناظر سے بھرا ہوا ہے جو کے پوری دنیا میں حسین مناظر کی لسٹ میں منفرد شہرت کے حامل ہیں۔ ہزارہ ڈویژن کو خوبصورتی کے لحاظ سے جنت کا ٹکڑا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ہزارہ ڈویژن کے چار موسم۔ موسم سرما موسم گرما موسم خزاں موسم بہار تازہ آب و ہوا سمیت ہزارہ ڈویژن میں قدرتی مناظر گھنے جنگلات قدرتی چشمے لہلہاتی فصلیں شفاف نہریں قدرتی خوبصورتی کو دیکھ کر اللہ تعالی کی عظمت اور بڑھائی کو سجدہ گو ہونے کو دل کرتا ہے۔ہزارہ ڈویژن کے لوگ مہمان نواز کہلائے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ہندکو،پشتو، گوجری، کوہستانی ہیں لیکن سب سے زیادہ ہندکو بولی جاتی ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں زیادہ تر پہنے جانے والا لباس شلوار قمیض ہے۔ اس علاقے کی خواتین پردہ کے لیے زیادہ تر (برقع عبایا۔ چادر ) کا استعمال کرتی ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں زیادہ تر جائنٹ فیملی سسٹم ہے۔ یہاں زیادہ گھر دو منزلہ اور وسیع ہوتے ہیں۔ اس علاقہ لوگوں کا مشغلہ زیادہ تر کاشتکاری پالتو جانور ہے۔ یہاں کے لوگ کھیلوں کے لیے زیادہ تر مرغ کبوتر نیزہ بازی کے لیے گھوڑوں۔ لیک کے لیے بیلوں اور اعلیٰ نسل کے کتے پالنے کا شوق رکھتے ہیں۔ اس علاقہ میں ایسے شوقین بھی موجود ہیں جنھوں نے اپنے شوق کے طور پر چڑیاگھر گھروں میں بنائے ہوئے ہیں۔ جن میں شترمرغ آسٹریلین طوطے مکاؤ طوطے مور اعلیٰ نسل کی مرغیاں بطخیں غیر ہ شامل ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں اس علاقہ کے لوگوں کا شغل ڈھولک کی تھاپ پر علاقائی رقص کرنا ہے۔ یہاں کے لوگ سیروسیاحت کے بھی بہت شوقین ہیں یہاں کے لوگوں کی زیادہ تر پسندیدہ خوراک گندم اور مکئی کی روٹی سرسوں کا ساگ لسی ہاتھ سے بنی چٹنی چاول خاص سوغات میں گھریلو دیسی گی مکھن دیسی انڈے اور شادی بیاہ میں کٹوہ گوشت کو لوگ پسند کرتے ہیں ۔ ہزارہ ڈویژن پوری دنیا میں سیر و تفریح اور موسم کے لحاظ سے سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز جانا جاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں قدرتی مناظر آثار قدیمہ کو دیکھنے کے لیے ملک بھر سے آنے والے سیاحوں سمیت غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں اللہ تعالی کی قدرت کے ایسے شاہ کار موجود ہیں جن جو کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں بہنے والے دریاؤں میں دریائے جہلم دریائے کنہار دریائے سندھ دریائے سرن اور دریائے ہرو شامل ہیں جن سے ہزاروں لوگوں کا مایگیری کا روزگار وابستہ ہے۔ اللہ تعالی نے ہزارہ ڈویژن کو مختلف معدنیات سے بھی نوازا ہے ان معدنیات میں گرینائٹ جپسم فاسٹ ماربل سمیت دیگر قیمتی پتھروں کے بڑے بڑے پہاڑ موجود ہیں گرینائٹ پتھر ان قیمتی پتھروں میں شمار ہوتا ہے جس کی مالیت 3 سو روپے فٹ ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں ایبٹ آباد اور ہری پور کا شمار بھی قدیم شہروں میں ہوتا ہے جو سینکڑوں سال پہلے آباد ہوئے۔[حوالہ درکار]
ہزارہ ڈویژن کے مشہور مقامات
ترمیمہزارہ ڈویژن میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا ڈیم۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ قراقرم دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی حسین مناظر سے بھرپور سیروسیاحت کا مقام وادی کاغان ہزارہ ڈویژن میں ہیں جو عالمی شہرت کا مقام رکھتا ہے اور کوہ گندگر کے بلندو بالا پہاڑ شامل ہیں۔مختلف تہذیبوں کے آثار قدیمہ ہزارہ ڈویژن میں آج بھی موجود ہیں۔ جو دنیا بھر کی تہذیبوں کے لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
تربیلا ڈیم کی معلومات
ترمیمدنیا کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا کے مقام پر واقع ہے۔ اس ڈیم کا سٹرکچر والیم 153 ملین میٹرکیوب ہے اس کی اونچائی 143 میٹر اور لمبائی 2743 میٹر ہے اس ڈیم کی تعمیر 1968 سے 1976 میں مکمل ہوئی جو دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ڈیم پر پاور اسٹیشن میں 175 میگاواٹ کے 10 اور 423 میگاواٹ کے 4 ٹربائن لگائے گئے ہیں جو تقریباً 6200 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس ڈیم کا زیادہ تر پانی تربیلا جھیل میں جمع کیا جاتا ہے جو علاقہ تناول دربند کے مقام سے شروع ہوتی ہے۔
شاہراہ قراقرم کی معلومات
ترمیمدنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ قراقرم بھی ہزارہ ڈویژن سے گزرتی ہے۔ 1300 کلومیٹر طویل یہ سڑک جس کی تعمیر کا کام پاکستان نے پڑوسی ملک چین کے ساتھ 1966 میں معاہدے کے بعد شروع کیا اس شاہراہ کی تعمیر میں 15000 پاکستانی اور 9500 چائنہ کے مزدوروں اور انجینئرز نے حصہ لیا اس طویل سڑک کی تعمیر کے لیے بھاری مشینری کو پہاڑوں کی چٹانوں پر پہنچانے کے لیے پاک فضائیہ کی بھی مدد لی گئی۔ اس سڑک کی تعمیر میں 408 مزدور جاں بحق 314 شدید زخمی ہوئے جبکہ معمولی زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس طویل شاہراہ پر 24 بڑے پل 70 چھوٹے پل اور 1708 سے زائد آبی گذر گاہیں ہیں۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں 80 ملین کلو سیمنٹ استعمال ہوا۔ شاہراہ قراقرم دو ملکوں پاکستان اور چائنہ سمیت صوبہ پنجاب ڈویژن ہزارہ اور گلگت بلتستان کو زمینی راستے سے آپس میں ملاتی ہے اور دنیا کے بڑے پہاڑی سلسلوں میں شمار ہونے والے کوہ ہمالیہ کوہ ہندوکش کوہ بریرہ کے سفر کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ پاکستان کی دفاعی معیشتی اور تجارتی شاہراہ ہے۔ یہ شاہراہ صوبہ پنجاب کے شہر حسن ابدال ٹیپو سلطان شہید چوک سے شروع ہو کر گلگت بلتستان کے مقام درہ خنجراب پر اختتام پزیر ہوتی ہے۔ جو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہلاتی ہے۔
وادی کاغان
ترمیموادی کاغان سطح سمندر سے 25 سو میٹر بلند ہے۔ جون جولائی کے مہینوں میں جہاں وطن عزیز کے تمام شہروں میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اس گرمی کے موسم میں بھی وادی کاغان کا موسم ٹھنڈا رہتا ہے پہاڑوں کی چوٹیوں نے برف کی چادر اوڑھی ہوتی ہیں جو پاکستان کے سب سے ٹھنڈے مقامات میں سے ایک ہے۔ وادی کاغان میں ہائیکنگ؛ ٹریک؛ مچھلی پکڑنے کے شوق رکھنے والوں کے لیے بہترین جگہ ہے۔ وادی کاغان میں رہائش کے لیے بڑے بڑے ہوٹل اور کھانے پینے کی تازہ اشیاء بھی موجود ہوتی ہیں۔ وادی کاغان کو جانے والی سڑک شاہراہ کاغان ہے۔ شاہراہ کاغان دل دہلا دینے والی ان سڑکوں میں شمار ہوتی ہے جس کے ایک طرف گہری کھائی میں بہنے والا دریائے کنہار اور دوسری طرف بلند وبالا پہاڑ ہیں۔ اس علاقہ میں زیادہ بولنے والی زبان ہندکو اور گوجری پشتو کہلاتی ہے قومی زبان اردو بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ وادی کاغان کی مشہور سوغات ٹراوٹ فش خشک میوہ جات خواتین کے لیے اؤن کی بنی شعلیں وادی کاغان میں بسنے والے ہزاروں افراد کا روزگار سیاحوں سے ہے۔ مچھلی کا شکار پالتو مال مویشی ان کا بہترین مشغلہ ہے اس علاقے میں بسنے والے لوگ زمیندار اور انتہائی محنتی ہیں۔ اور یہاں کی خواتین دستکاری میں بہترین مہارت رکھتی ہیں جو ملک بھر میں مشہور ہیں۔ دور جدید میں بھی یہ علاقہ بہتر تعلیم کی سہولیات سے محروم ہے ہاں لیکن وادی کاغان کا بچہ بچہ اس علاقے کی تمام خوبصورت جگہوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے جو ٹور گائیڈ کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ گرمیوں میں سیاحوں کی بہترین توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ وادی کاغان میں جگہ جگہ قدرتی پانی کے چشمے ٹھنڈی آب و ہوا بیاڑ کے گھنے جنگلات برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیاں۔ پہاڑوں کے درمیان میں قدرتی بنی ہوئی جھیلیں دریائے کنار کا دلکش منظر۔ حیرت انگیز جنگلات جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ وادی کاغان کے ساتھ منسلک تفریحی مقامات میں شوگران ناران بٹہ کنڈی ہیں جن جھیل سیف الملوک آنسو جھیل جھیل للوسر پت و دیگر جھیلیں بھی سیاحوں کے لیے دلچسپ مقام ہیں
ہریپور کا پس منظر
ترمیمہری پور پرانا مشرقی گندھارہ کہلاتا تھا۔ سکندر یونانی کے دور میں جرنیل ہری سنگھ نلوہ جو اس علاقہ کا گورنر بھی تھا جس نے اس مشرقی گندھارا میں 16 گز اونچی اور 4 گز چوڑی قلعہ نما دیواریں تعمیر کروائیںاور 1821 اس علاقے کو آباد کرکے اس علاقے کا نام اپنے نام سے منسوب کرکے ہری پور رکھ دیا۔ ہریپور کو جولائی 1992 میں ضلع کا درجہ دے کر ایبٹ آباد سے علحیدہ کر دیا گیا۔ ہریپور صوبہ خیبرپختونخوا اور ہزارہ ڈویژن میں پھاٹک کا درجہ رکھتا ہے جو اسلام آباد سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اس کا کل رقبہ 1725 مربع کلومیٹر ہے جس کو دو تحصیلوں تحصیل ہریپور تحصیل غازی اور 45 یونین کونسلوں پر تقسیم کیا گیا ہے 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہریپور کی ٹوٹل آبادی 1003031 افراد پر مشتمل ہے ہری پور پاکستان کی آزادی سے پہلے ریاست امب کا حصہ تھا۔
ہری پور کو ڈیموں کا شہر بھی کہا جاتا ہے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے تربیلا ڈیم ہریپور واقع ہے ہری پور میں واقع پھتری ڈیم خانپور ڈیم خیربارہ ڈیم قابل ذکر ہیں۔ ہریپور صوبہ خیبر پختونخوا کے سب سے بڑا صنعتی ضلع کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ بڑے صنعتی یونٹس میں حطار انڈسٹری میں کئی چھوٹے بڑے کار خانوں سمیت ہزارہ فرٹیلائزرز پاک چائنا فرٹیلائزرز ٹیلی فون انڈسٹری آف پاکستان شامل ہیں۔ ان صنعتوں کی وجہ سے یہ ضلع ملکی معیشت ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں کا موسم گرم رہتا ہے۔ ہری پور میں تعلیم کی شرح 58 فیصد ہے ہری پور میں 1 یونیورسٹی 5 ڈگری کالج 1 پولی ٹیکنیکل کالج کئی سرکاری اور نجی ادارے موجود ہیں۔ اس علاقہ میں زیادہ تر بولی جانے والی زبان اردو ہندکو پشتو گجری ہیں۔ یہاں کا زیادہ تر پہنے جانے والا لباس شلوار قمیص ہے ہری پور میں بسنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری ملازمت اور پالتو جانور پالنا ہے۔
اس علاقے کا مشہور کھیل نیزہ بازی ہے اور یہاں کے لوگ زیادہ تر گھوڑے پالنے کے بھی شوقین ہیں۔ ہری پور میں سب سے زیادہ کاشتکاری کی جاتی ہے جس میں گندم اور مکئی کی فصلیں شامل ہیں۔ ہری پور میں کاشت کی جانے والی سبزیاں پشاور اور پنجاب بھر میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ ہری پور میں بڑے پیمانے پر پھلوں کے باغات بھی موجود ہیں۔ ہری پور کی لوکاٹ ملک بھر میں سپلائی کی جاتی ہے جو اپنے ذائقہ کی وجہ سے منفرد مقام رکھتی ہے۔ ہریپور کے شکری مالٹا اور بلڈ مالٹا پوری دنیا میں مشہور ہیں جو صرف ہریپور کی پیداوار ہیں۔ ہریپور میں پہاڑی اور میدانی علاقے موجود ہیں ہریالی بھرے کھیت جنگلات آبشاریں کاشتکاری کے لیے نہریں ہریپور کا حسن ہیں۔ ہری پور کی مشہور سیاسی سماجی شخصیات میں فیلڈ مارشل ایوب خان، راجا سکندر زمان، برصغیر کے مشہور شاعر قتیل شفائی، گوہر ایوب خان، اختر نواز خان، سابقہ وزیر اعلی کے پی کے اور سنیٹر پیر صابر شاہ، فیصل زمان اور شہید ملک طاہر اقبال شامل ہیں
پس منظر ایبٹ آباد
ترمیم1818 میں رنجیت سنگھ نے اس علاقہ پر حملہ کیا جس میں اس کے ایک جرنیل کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا 1821 میں اس کا دوسرا جرنیل امر سنگھ بھی مارا گیا۔ 1846 میں سکھوں اور انگریوں کے درمیان معاہدہ کے بعد 1849 میں برطانوی حکومت آئی تب 1853 میں برطانوی میجر جمیز ایبٹ نے اس علاقے کو آباد کر کے اس کا نام ایبٹ آباد رکھا۔ میجر جیمز ایبٹ نے ایبٹ آباد میں ملٹری اکیڈمی کاکول سنٹر قائم کیا جو آج پاکستان کی سب سے بڑی ملٹری اکیڈمی کاکول ہے۔ میجر ایبٹ کی یہ خواہش تھی کے یہ علاقہ آباد ہو اور یہاں بازار ہو جس سے ملٹری اکیڈمی میں فوجیوں کو بازار سے خریداری کے لیے زیادہ دور نہ جانا پڑے اور وہ اسی بازار سے خریداری کریں۔ 1903 میں اس علاقے میں پہلااسکول قائم کیا گیا۔ اور 1911 میں پہلی ڈسپنسری قائم کی گئی میں۔ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن بھی اسی ضلع میں ہوا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے دیرینہ دوستوں میں خان فقیرا خان مرحوم بھی ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ رہے۔ پاک فوج کے جرنیل ایاز سلیم رانا بھی اسی شہر کے باسی ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی یاسر حمید بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ بالی ووڈ کے مشہور ایکٹر انوشکا مار کی پیدائش بھی اس ہی ضلع کی ہے۔ (مرحوم) ائیر مارشل اصغر خان بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔
ایبٹ آباد معدنیات اور قدرتی حسن کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کا تیسرا بڑا ضلع ہے۔ایبٹ آباد کو اسکولوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ ایبٹ آباد میں تعلیم کی شرح 71 فیصد ہے۔ ایبٹ آباد کا کل رقبہ 1800 کلومیٹر ہے یہ ضلع دو تحصیلوں ایبٹ آباد حویلیاں اور 51 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کی ٹوٹل آبادی 1332912 افراد پر مشتمل ہے۔ جو سطح سمندر سے 1256 میٹر بلند ہے ایبٹ آباد شہر جو پہاڑوں کے درمیان میں گھرا ہوا ہے یہ پہاڑی سلسلہ سربن کہلاتا ہے جس میں چیتے ریچھ سنہری عقاب بندر کشمیر کے پہاڑی لومڑ جنگلی کبوتر اس کے علاوہ 896 اقسام کے پرندے اس پہاڑی سلسلہ کی زینت ہیں۔ ایبٹ آباد کا شہر پیالہ نما ہے۔ ایبٹ آباد سیروسیاحت کے لیے بھی توجہ کا مرکز جانا جاتا ہے ایبٹ آباد میں سیر وسیاحت کے لیے بلند مشہور مقامات میں نتھیاگلی ایوبیہ ٹھنڈیانی جو مری سے 8000 فٹ بلند ہیں۔ ایبٹ آباد کو اللہ تعالی نے قدرتی حسن اور معدنیات سے نوازا ہے معدنیات میں جپسم گرینائٹ ماربل فاس ریڈ شامل ہیں۔ قدرتی حسن میں جنگلات پانی کی ابشاریں میٹھا پانی سیروتفریح کے دلکش مقامات موجود ہیں۔ ایبٹ آباد میں الیاسی مسجد سیر و سیاحت کے لیے توجہ کا مرکز جانی جاتی ہے جس کا شمار ایبٹ آباد کی قدیم مساجد میں ہوتا ہے۔ الیاسی مسجد میں چشمہ کا پانی جو ہاضمہ کے لیے مفید ترین ہے الیاسی مسجد کے پکوڑے ہزارہ ڈویژن سمیت ملک بھر میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ ایبٹ آباد شہر میں سب سے مشہور لیڈی گارڈن بہترین تفریحی پرسکون اور پرکشش مقام ہے۔ ایبٹ آباد میں واقع شملہ پہاڑی جو ہائیکنگ کے لیے بہترین مقام ہے شملہ پہاڑی سے ایبٹ آباد شہر کا بہترین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ٹھنڈیانی بھی سیر و سیاحت کے لیے توجہ کا مرکز ہے ٹھنڈیانی کی پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر سیر و تفریح کے لیے چیئر لفٹ بھی لگائی گئی ہے جو بچوں بوڑھوں خواتین کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ ہرنوئی میں بھی سیاحوں کے لیے پکنک پوائنٹ موجود ہے ہرنوئی میں پہاڑوں کے درمیان میں سے گزرنے والا دریا اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہے جو بہترین پکنک پوائنٹ میں شمار ہوتا ہے۔ ایبٹ آباد کے گاؤں سے جی کورٹ میں 500 سال قدیم اور 200 فٹ بلند آبشار اپنی مثال آپ ہے جس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح اس مقام پر آتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے ہیں جو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یہاں پر زیادہ تر بولی جانے والی زبانوں میں ہندکو اردو اور پشتو ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر لباس قمیض شلوار ہے اس علاقے کے لوگ زیادہ تر بزنس مین اور ٹیچر ہیں۔ ہزارہ ڈویژن کے تمام بڑے دفاتر اسی شہر میں موجود ہیں۔
مانسہرا کا پس منظر
ترمیمگندارہ تہذیب کے مطالعہ سے مانسہرا کا پرانا نام پکھلی سرکر ملتا ہے اس علاقے کو سکھ جرنیل مان سنگھ نے آباد کیا جس کے بعد اس علاقے کا نیا نام مانسہرا رکھا اور اس پر حکومت کی۔ سکندر یونانی نے اس علاقے پر قبضہ کر کے اس علاقے کو راجا ابسراص اف پہنچھ کے حوالے کر دیا۔ اشوکہ جو اس وقت گورنر تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے کوہ بریری کی 4 پتھر کی چٹانوں پر ایتھیک مذہب کی عبارتیں لکھی ہیں جو آج بھی بٹ پل کے قریب اشوکہ پارک میں آثار قدیمہ کے طور پر موجود ہیں۔ اشوکہ جو ہندو تھا جو کے بعد میں بدھ مت مذہب اختیار کر چکا تھا۔ سن 1399 میں مسلمانوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 1472 شہاب الدین نے اس علاقے پر اپنی حکومت قائم کی اور گلی باغ کو اپنا دار الخلافہ قائم کر دیا۔ دور اکبری میں ترک سردار۔ سردار سلطان خان حسین نے بغاوت اعلان کر دیا جس کی بغاوت کو کچل دیا گیا۔ 1818 میں سکھوں نے اس علاقے پر قبضہ جمالیا۔ 1831 کے معرکہ میں دو عظیم مجاہد سید احمد اور سید اسماعیل شہید ہوئے۔ جن کی قبریں آج بھی بالاکوٹ میں موجود ہیں۔ اسلام آباد سے شمال کی جانب 120 کلومیٹر کوہ ہمالیہ کے نقطہ آغاز پر واقع دنیا کا سب سے زیادہ قدرتی حسین سے بھرا ہوا ضلع مانسہرا ضلع مانسہرا کے پی کے کا دوسرا بڑا ضلع بھی ہے۔ مانسہرا کی تحصیل میونسپل کمیٹی کا شمار خیبرپختونخوا کی دوسری بڑی تحصیل میونسپل کمیٹی میں ہوتا ہے جس کی آمدن سب سے زیادہ ہے۔ مانسہرا میں سب سے بڑا لاری اڈا ہے اس لاری اڈا سے ہر روز اندرون ملک پورے پاکستان کے لیے ٹرانسپورٹ دستیاب ہوتی ہے۔ ضلع مانسہرا وہ جنت پزیر خطہ ہے جس کے تصور سے ہی دل میں ٹھنڈک کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلہ کے باعث پوری دنیا میں جانا گیا۔ اس قیامت خیز زلزلہ میں سب سے زیادہ نقصان مانسہرا میں ہوا جس سے تحصیل بالاکوٹ صحفہ ہستی سے مٹ گئی لیکن قیامت خیز زلزلہ کے علاوہ بھی مانسہرا جو اپنی منفرد تہذیب اور ثقافت سے دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ سال 2017 کی مردم شماری کے ضلع مانسہرا کی ٹوٹل آبادی 1556460افراد پر مشتمل ہے۔ جو ہزارہ ڈویژن کی سب سے زیادہ آبادی ہے ضلع مانسہرا میں تعلیم کی شرح 75 فیصد ہے۔ ہزارہ ڈویژن کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہزارہ یونیورسٹی ڈهوڈیال مانسہرا میں واقع ہے۔ ضلع مانسہرا میں 6 ڈگری کالج 1 پولی ٹیکنیکل کالج 1 ایلیمنٹری کالج 1 کامرس کالج اور سینکڑوں کی تعداد میں سرکاری ونجیاسکول کالج تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ ضلع مانسہرا ko پانچ تحصیلوں جن میں تحصیل مانسہرا تحصیل بالاکوٹ تحصیل تحصیل اوگی تحصیل دربند تحصیل بفہ شامل ہیں کو 59 یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے
مانسہرا میں بہنے والے دریا جن میں دریائے کنار دریائے سندھ اور دریائے سرن شامل ہیں۔ مانسہرا کی بلند چوٹیوں میں ناگاپربت راکاپوشی کوہ بریری بٹوارہ اور بابوسرٹاپ شامل ہیں بابوسرٹاپ سب سے بلند ترین مقام ہے۔ اللہ تعالی نے مانسہرا کو بھی معدنیات سے نوازا ہے ان معدنیات میں جپسم گرینائٹ ماربل فاس ریڈ شامل ہیں۔ گرینائٹ کا شمار ان کی پتھروں میں ہوتا ہے جس کی مالیت 300 روپے فٹ ہے۔ اللہ تعالی نے ان معدنیات کے بڑے بڑے پہاڑوں سے مانسہرا کو نوازا ہے ضلع مانسہرا میں درجنوں قدرتی ایسے تفریحی مقامات ہیں جو دنیا بھر میں صفحہ اول پر ہیں۔ سب سے مشہور تفریحی مقامات وادی کاغان کے علاوہ مانسہرا کے دیگر تفریحی مقامات پارس مانڈری جرید بالاکوٹ جابہ عطرشیشہ سنڈے سر۔ سرن ویلی میں شنکیاری منڈا گچہ جبوڑی موسی مصلہ۔کونشویلی میں بٹل چھترپلین پکھل ویلی میں خاکی بفہ ڈهویال علاقہ تناول میں پھلڑہ دربند اؤگی شیر گڑھ گلی باغ شامل ہیں۔مانسہرا کی مشہور سوغات میں کچوری سموسہ تازہ مچھلی کباب کھوا دیسی گھی لسی وغیرہ شامل ہیں۔ *مانسہرا کی مشہور سیاسی سماجی مذہبی شخصیات میں شہزادہ گشتاسپ خان رہیس اعظم خان سردار محمد یوسف قاسم شاہ بابر سلیم سواتی صالح محمد خان شجاع سالم خان عرف (شازی خان) مفتی منیب الرحمن چیئرمین رویت ہلال کمیٹی شامل ہیں*۔ مانسہرا میں سب سے زیادہ سیروسیاحت کے تفریحی مقامات اور آثار قدیمہ موجود ہیں جن میں اشوکا کے ہاتھ کے لکھے پتھر کی چٹان مانسہرا شوکا پارک بٹ پل کے قریب آثار قدیمہ کے طور پر آج بھی موجود ہیں ہندوؤں کا مندر شفٹیمپل آج بھی مانسہرا گاندھیاں کے مقام پر موجود ہے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں تعمیر ہونے والا تمثال جو میٹنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا آج بھی گھڑی روڈ پر موجود ہے۔
ہزارہ ڈویژن میں سیر و سیاحت کے مقامات میں سے بٹگرام بھی کسی سے کم نہیں اپنے اندر حسین قدرتی مناظر کو چھپائے ضلع بٹگرام حکومت کی توجہ چاہتا ہے بڑے بڑے پہاڑ قدرتی آبشاریں ٹھنڈا اور میٹھا پانی دریا کی موجیں سیاحوں کی توجہ کے لیے منتظر ہے۔ ضلع بٹگرام کی ٹوٹل آبادی 476612 افراد پر مشتمل ہے جس کا کل رقبہ 1301 کلومیٹر ہے جو سطح سمندر سے 3406 فٹ بلند ہے۔ اس علاقہ میں تعلیم کی شرح 42 فیصد ہے بٹگرام میں زیادہ تر بولی جانے والی زبان پشتو اور اردو ہے یہ علاقہ ٹھنڈے علاقوں میں شمار ہوتا ہے دور جدید میں بھی یہ علاقہ پسماندگی سے دوچار ہے حکومت اور منتخب نمائندگان کی عدم دلچسپی کے باعث اس علاقہ میں سیر و سیاحت کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد کم ہے۔ ان اونچے اور گھنے جنگلات میں اگر چیرلیفٹ لگا دی جائے تو بٹگرام مری نتھیا گلی ناران اور مالم جبہ سے کم نہیں یہاں کی سڑکوں کا نظام بہتر نہیں جس کی وجہ سے یہاں کے مقامی لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہے۔
ضلع اپرکوہستان اور لوئر کوہستان
ترمیمضلع اپرکوہستان اور لوئر کوہستان بھی کسی خوبصورت ترین مناظر سے کم نہیں اپرکوہستان لوءر کوہستان کی بھی داستان بٹگرام ہی کے جیسی ہے ضلع اپرکوہستان کی آبادی 306337 افراد پر مشتمل ہے۔ جبکہ ضلع لوہر کوہستان کی آبادی 202913افراد پر مشتمل ہے ان علاقوں میں میں زیادہ بولی جانے والی زبان کوہستانی ہے اردو اور پشتو میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ان علاقوں میں تعلیم کی شرح 35 فیصد ہے جو دور جدید میں لمحہ فکر ہے حکومت وقت اور منتخب نمائندگان کو اس علاقہ پر توجہ کی ضرورت ہے
ضلع تورغر کالا ڈاکا
ترمیمضلع تورغر کی ٹوٹل آبادی171395 افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا کل رقبہ 497 کلومیٹر ہے جدبہ کالاڈاکہ کا کیپیٹل ہے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آصف علی زرداری نے اس علاقہ کو ضلع کا درجہ دے دیا لیکن آج بھی یہ علاقہ پسماندگی سے دوچار ہے اس علاقہ میں اگر سفر کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سن سکرت کے دور میں آگئے ہیں کالاڈھاکہ میں تعلیم کی شرح 20 فیصد سے بھی کم ہے اس بات کا اندازہ اس علاقہ کی تعلیم کی شرح سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ کتنی پسماندگی کا شکار ہے۔ اس علاقہ کے لوگ اپنی منفرد تہذیب کے حامل ہیں