بھارت میں خواتین کی حیثیت میں گذشتہ چند ہزار سال میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔[4] قدیم دور کی پست حیثیت عورت سے قرون وسطی تک کا دور،[5][6] جس میں کئی مصلحین کی طرف سے مساوی حقوق دیے جانے تک، ان کی تاریخ بھرپور رہی ہے۔ جدید بھارت میں، خواتین کئی اعلیٰ دفاتر تک پہنچ چکی ہیں بشمول صدر، وزیر اعظم، بھارت کی لوک سبھا کی اسپیکر، قائد حزب اختلاف، یونین کونسلر، وزرائے اعلیٰ اور گورنر وغیرہ۔

بھارت میں خواتین
جنسی عدم مساوات کا اشاریہ-2015[2]
سماجی اقدار0.683 (2016)
درجہ87th out of 144[1]
زچگی کے دوران میں ماؤں کی اموات (per 100,000)174
پارلیمان میں خواتین12.2%
25 سال سے زائد عمر خواتین کی ثانوی تعلیم35.3% [M: 61.4%]
افرادی قوت میں خواتین28% [M: 82%]
عالمی جنسی خلا کا اشاریہ-2017[3]
سماجی اقدار0.669
درجہ108ویں out of 144

تاہم، بھارت میں خواتین کو جنسی تشدد اور صنفی عدم مساوات جیسے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھارت میں عورت کی تاریخ

ترمیم

قدیم دور

ترمیم

ابتدائی ویدک دور کے دوران میں[7] عورت زندگی کے تمام پہلوؤں میں مرد کے مساوی حیثیت رکھتی تھی۔[8]قدیم ماہرین صرف و نحو جیسے پتنجلی اور کتیانا کے کام سے پتا چلتا ہے کہ ویدک عہد میں عورتیں تعلیم یافتہ تھیں۔[9][10] رگ وید کی عبارات سے علم ہوتا ہے کہ عورتیں بالغ عمر میں شادی کرتیں اور شاید ان کو اپنا شوہر چننے کی آزادی ہوتی تھی اس عمل کو سویمبر کہا جاتا تھا یا براہ راست تعلق کی ایک صورت گندروا ویاہ بھی ایک ذریعہ تھا۔[11] مقدس متون مثلاً رگ وید میں ایسی کئی خواتین کا ذکر ہے دانش مند اور روحانی بصیرت کی حامل تھیں۔

قرون وسطی

ترمیم

برصغیر پاک و ہند میں مسلم فتح ہندوستانی سماج میں تبدیلی لائی۔ اس مدت کے دوران معاشرے میں بھارتی خواتین کی حیثیت تنزلی کا شکار ہوئی۔[6][8]پردے کا نظام اور جوہر دسویں صدی کے مسلم قواعد و ضوابط سے منسوب ہیں۔

راجستھان کے راجپوتوں میں، دسویں صدی میں یہاں اسلام کی آمد کے ایک صدی بعد یہ رسم شروع ہوئی۔ سندھ میں ابتدائی مسلم حملوں کے نتیجے میں جوہر کی رسم نہیں ملتی، جیسا کہ راجا داہر یا سندھ کی تاریخ سے واضح ہے۔ محمد بن قاسم کے صدی میں حملے کے بعد، داجا داہر کو قتل کیا گیا اور اس کی بیوی اور بیٹی کو دمشق میں لونڈی کے طور پر بھیج دیا۔

ہندو کشتریہ حکمرانوں میں کثیر الازواجی نظر آتی ہے۔[12]

مزید دیکھیے

ترمیم

بھارتی خواتین کی فہرستیں بلحاظ پیشہ:

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Global Gender Gap Report 2016 - Reports - World Economic Forum"۔ 22 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2018 
  2. "Gender Inequality Index"۔ United Nations Development Programme۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2017 
  3. "The Global Gender Gap Report 2017"۔ World Economic Forum۔ صفحہ: 11۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2018 
  4. "Rajya Sabha passes Women's Reservation Bill"۔ دی ہندو۔ Chennai, India۔ 10 مارچ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2010 
  5. N. Jayapalan (2001)، "Status of women in Hindu society"، $1 میں N. Jayapalan، Indian society and social institutions، New Delhi, India: Atlantic Publishers and Distributors، صفحہ: 145، ISBN 9788171569250۔ 
  6. ^ ا ب "Women in history"۔ nrcw.nic.in۔ National Resource Center for Women۔ 19 جون 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2006 
  7. Sujata Madhok۔ "Women: Background & Perspective"۔ InfoChange India۔ 24 جولائی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2006 
  8. ^ ا ب R. C. Mishra (2006)۔ Women in India: towards gender equality۔ New Delhi: Authorspress۔ ISBN 9788172733063  Details.
  9. Varttika by Katyayana، 125, 2477
  10. Comments to Ashtadhyayi 3.3.21 and 4.1.14 by Patanjali
  11. R.C. Majumdar، A.D. Pusalker (1951)۔ "Chapter XX: Language and literature"۔ $1 میں R.C. Majumdar، A.D. Pusalker۔ The history and culture of the Indian people, volume I, the Vedic age۔ Bombay: Bharatiya Vidya Bhavan۔ صفحہ: 394۔ OCLC 500545168 
  12. Jyotsana Kamat (جنوری 2006)۔ "Status of women in medieval Karnataka (blog)"۔ kamat.com۔ Kamat's Potpourri۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2006 

بیرونی روابط

ترمیم