یوسف ایسٹس (پیدائش 1 جنوری 1944ء جوزف ایسٹس) امریکی مذہبی شخصیت ہے جنھوں نے 1991ء میں مسیحیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔[1]

یوسف ایسٹس
یوسف ایسٹس ایمسٹرڈیم میں (2013ء)

معلومات شخصیت
پیدائش جنوری 1944 (عمر 80 سال)
اوہائیو، امریکا
شہریت ریاستہائے متحدہ امریکا  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
پیشہ ماہر اسلامیات  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت تبلیغ اسلام
ویب سائٹ
ویب سائٹ www.yusufestes.com

ابتدائی زندگی ترمیم

یوسف ایک مسیحی امریکی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ نئے چرچز اور مسیحی اسکول بنانے کے لیے معروف تھا۔ جب آپ بارہ سال کے تھے تب ہی آپ کو ہوسٹن ٹیکساس میں بپتسمہ دیا گیا۔ یوسف ہر چرچ کے بارے میں معلومات اور مہارت حاصل کرتے رہے۔

قبول اسلام ترمیم

انھوں نے ہندو اور بدھ مذہب کے ساتھ کئی دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا مگر اس وقت ابتدا میں دین اسلام سے دل میں اتنا بغض تھا کہ کبھی اس کے بارے میں جاننے کی کوشش نہ کی۔ آپ کے والد تو چرچ میں منسٹر تھے ہی ان کو بھی مذہبی موسیقی کا منسٹر بنادیا۔ تیس سال تک یوسف نے اپنے والد کے ساتھ مل کر کاروبار کیا اور اس سے کروڑ پتی بن گئے۔ ان کے والد نے انھیں اپنے ایک نئے بزنس پارٹنر سے ملنے کو کہا جو ایک مصری مسلمان تھا۔ لفظ مسلمان سنتے ہی آپ نے پوری کوشش کی کہ اس سے نہ ملا جائے مگر والد کے اصرار پر ملنے کو تیار ہو گئے۔ جس دن ملاقات تھی اس دن چرچ سے ایک بڑا سا مذہبی جبہ پہنا، گلے میں ایک چمکیلا سا کراس لٹکایا اور ایسی کیپ پہن کر گئے۔

اس مصری مسلم شخص سے ملے تو ان کی امید کے برخلاف نہ اس کی لمبی داڑھی تھی اور نہ ہی عربی لباس تھا۔ اس کے بعد یوسف ایسٹس نے اسے مسیحیت کی دعوت دینا شروع کی۔ کچھ عرصہ کے لیے وہ یوسف ایسٹس کے گھر مقیم ہوا تو دن رات وہ، ان کی بیوی اور ان کے والد اسے بائبل سیکھانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی دوران میں ایک کاتھولک چرچ کا پادری بھی ان کے گھر پر مقیم ہوا۔ یہ ہر روز نشست جماتے جس میں ہر ایک اپنی اپنی بائبل کے بارے میں گفتگو کرتا تینوں مسیحی افراد تین الگ الگ بائبلوں کو زیادہ قطعی سمجھتے تھے۔

سب مل کر اس محمد نامی مہمان کو مسیحیت کی تبلیغ کرتے جسے وہ بہت غور سے سنتا اور سوال پوچھنے پر اسلام کے بارے میں بھی بتاتا۔ پھر ایک روز کاتھولک پادری نے اس مسلم شخص سے فرمائش کی کہ کیا مجھے مسجد دیکھا سکتے ہو؟ محمد انھیں مسجد لے گئے۔ واپسی پر سب نے پوچھا کہ کیسا رہا؟ تو بتایا کہ مسلمان تو نہ گانا گاتے ہیں نہ ہر نماز کے ساتھ تقریر کرتے ہیں۔ بس عبادت کرکے آجاتے ہیں۔

کچھ دن بعد ایک بار پھر اس کاتھولک پادری نے ساتھ جانے کی فرمائش کی۔ اس بار پورا دن گذر گیا اور محمد اور پادری صاحب نہیں آئے۔ رات گئے جب واپسی ہوئی تو پادری اب اسلام قبول کر کے مسلم ہو چکے تھے۔ یوسف ایسٹس جن کا اس وقت نام جوزف ایسٹس تھا بہت پریشان ہوئے اور اپنی بیوی کو روداد سنائی۔ جواب میں ان کی بیوی نے کہا کہ میں نے تو پادری سے پہلے ہی قبول اسلام کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ سن کر یوسف حیران ہوئے اور فوراََ گئے اور محمد کو سوتے میں سے اٹھایا اور کہا کہ انھیں بات کرنی ہے۔ پھر مذہب پر یوسف ایسٹس اور محمد ساری رات گفتگو کرتے رہے اور فجر تک گفتگو جاری رہی۔ پھر یوسف ایسٹس نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ منسٹر والد نے بھی چند مہینے بعد اسلام کو سمجھنے کے بعد اسے قبول کیا اور سب سے آخر میں ان کی کی سوتیلی ماں ایمان لے آئیں۔

بیرونی روابط ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. Akbar S. Ahmed (2010)۔ Journey Into America: The Challenge of Islam۔ Brookings Institution Press۔ صفحہ: 303۔ ISBN 978-0-8157-0440-9۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2016