یونس دہلوی
یونس دہلوی بھارت کے سب سے بڑے اردو رسالوں کے سلسلہ کے ناشر و مدیر تھے۔ ان کے زیر انتظام شمع پبلشنگ ہاؤس کے تحت شمع، سُشما، کِھلونا، بانو، شبستان، مجرم اور دوشی جیسے رسالوں کی اشاعت ہوتی رہی۔ کھلونا، جو بچوں کا ایک رسالہ تھا، اسی کے نام سے ایک ذیلی ادارہ کھلونا بک ڈپو بھی چلتا تھا۔ اس کے تحت کھلونا کے رسالے میں سلسلہ وار شائع ہونے والی کہانیوں کو باضابطہ ناولوں اور افسانوں کے مجموعوں کی شکل میں شائع کیا جاتا تھا۔ یونس کی اشاعتی دنیا پر غیر معمولی پکڑ اس بات سے بھی ثابت ہوتی تھی کہ آڈٹ بیورو آف سرکیولیشن کے گورننگ کونسل کے رکن بھی تھے۔ یہ بیورو ملک میں اخبارات کے فروخت کے اعداد و شمار رکھتا ہے۔ یونس انڈین اینڈ ایسٹرن نیوز پیپپر سوسائٹی کے صدر (1969-70) بھی تھے۔[1]
یونس دہلوی | |
---|---|
وفات | 7 فروری 2019ء |
پیشہ | بھارت کے سب سے بڑے اردو رسالوں کے سلسلے کے ناشر و مدیر، جس میں شمع، سُشما، کِھلونا، بانو، شبستان، مجرم اور دوشی شامل ہیں۔ |
زبان | اردو زبان |
قومیت | بھارت |
اولاد | سعدیہ دہلوی (دختر) |
رشتہ دار | علی دہلوی (نواسا)۔ |
اشاعتی گھر کی نظامت
ترمیمیونس دہلوی شمع، سشما، کھلونا، بانو، شبستان، مجرم اور دوشی جیسے رسائل کی اشاعت کرنے والے اشاعت گھر شمع پبلشنگ ہاؤس کی کافی کامیابی سے 1994ء تک نظامت اور ادارت کرتے رہے جس کی بنیاد ان کے والد یوسف دہلوی نے 1943ء میں رکھی تھی۔ 1994ء تک خاندان کے بکھراؤ کی وجہ سے تمام اشاعتیں مسدود ہو گئیں۔ یہ رسائل بھارت کے علاوہ پاکستان اور ریاستہائے متحدہ امریکا میں بھی پڑھے جاتے تھے۔ شمع رسالہ تو درجہ مقبول ہوا تھا کہ دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کمار، آشا پاریکھ، نوتن، نرگس، راج کمار، سنجیو کمار، محمد رفیع، ملکہ پکھراج اور کئی فلمی دنیا کی شخصیات سردار پٹیل مارگ میں واقع یونس کے گھر آتے تھے۔ تاہم رسائل کی مسدودی کے ساتھ اس گھر سے بھی دہلوی خاندان کنارہ کش ہو چکا ہے اور یہ گھر بھارتی سیاست دان مایاوتی کی ملکیت بن چکا ہے۔[1]
انعامات
ترمیمیونس دہلوی کئی انعامات و اعزازات سے نوازے گئے ہیں۔ ان میں اردو دہلی ایوارڈ، ایڈین برگ اردو سرکل ایوارڈ، ساحر ایوارڈ اور جان گلکرسٹ گولڈ میڈل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو نئی تہنیتیں بھی پیش کی جا چکی ہیں۔[1]
انتقال
ترمیم7 فروری، 2019ء کو یونس دہلوی کا انتقال ہوا. انھیں قرولباغ علاقے کے شیدی پورہ محلے کے قوم پنجابیان قبرستان میں دفن کیا گیا۔ وہ 89 سال کے تھے۔ انتقال سے دو سال قبل وہ دل کے دورے کا شکار ہوئے تھے۔[1]
پسماندگان میں اہلیہ زینت کوثر دہلوی، بیٹی سعدیہ دہلوی اور بیٹا وسیم دہلوی شامل ہیں۔[2] انتقال کے وقت ان کے ساتھ ان کا نواسا علی دہلوی بھی موجود تھا۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیم
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ Firoz Bakht Ahmed (February 9, 2019)۔ "Yunus Dehlvi, editor of Shama and Khilauna, was Ghalib and Azad of Urdu magazines"۔ View Headlines۔ View Headlines۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2019۔
Started by his father, Haji Yusuf Dehlvi, Yunus ran the world’s biggest chain of these Urdu magazines from 1943 till 1994 after the family fragmented and the historic era of these publications got sacrificed at the altar of children and grandchildren’s egos.
[مردہ ربط] - ↑
Rasia Hashmi (February 8, 2019)۔ "Yunus Dehlvi, former editor of 'Shama' passes away"۔ Siasat Urdu newspaper۔ Siasat۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2019۔
Yunus Dehlvi also served as President Indian Newspaper Society (INS) and executive member of Audit Bureau of Circulation (ABC).