1928ء جنوبی بھارتی ریلوے ہڑتال
1928ء جنوبی بھارتی ریلوے ہڑتال ساؤتھ سنٹرل ریلویز ورکرز یونین کی جانب سے جنوبی بھارتی ریلوے کے 3,100 ملازمین کو نکالے جانے کے منصوبے خلاف عمومی ہڑتال تھی تاکہ کمپنی کے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔ یہ ہڑتال 29 جون سے 2 اگست، 1928ء تک چلی اور اس سے افراد اور اموال کا جنوبی ہند میں حمل و نقل بری طرح سے متاثر ہوا۔ مدراس خکومت اور جنوبی بھارتی ریلوے نے اس کا چھاپے مارکر جواب دیا۔ ہڑتال کے زیادہ تر قائدین قید کیے گئے اور یونین کی مُسَلّمَہ حیثیت ختم کر دی گئی۔
ابتدائیہ
ترمیم1927ء میں بھارت بھر کی ریلوے کمپینیاں یہ متفقہ فیصلہ لے چکی تھی کہ افرادی قوت میں تخفیف کی جائے تاکہ اخراجات میں کمی ہو۔ اس کے جواب میں بنگال–ناگپور، خراگپور ریلوے اور لیلوہ کے ملازمین نے علی الترتیب فروری، 1927ء اور مارچ، 1928ء کو ہڑتال کی۔[1]
1928ء میں ساؤتھ انڈین ریلوے کمپنی کے ملازمیں لمبے کام کے اوقات، کم اجرت اور بھارتیوں کے لیے نسلی امتیاز کو لے ایک عمومی عدم اطمینان تھا۔ اسی وقت ساؤتھ انڈین ریلوے کمپنی نے 3,100 ملازمین کو بھاری قیمت کی مشینری کی پودنور، نیگاپٹنم اور تریچنوپولی میں خریداری کی وجہ سے نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ہڑتال کے حامی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اخراجات کی تخفیف کی کوشش ایک بہانہ تھی اور ملازموں کا نکالا جانا ریلوے یونین کے انتہاپسند عناصر سے چھٹکارا پانا ہے۔ ایک مدراس حکومت کے افسر نے نوٹ کیا کہ ملازمین کی برخاستگی
... ایک لبادہ تھا جس سے مشتبہ ملازمین کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا، بالخصوص ان کو جو مزدور یونینوں سے جڑے تھے۔[1]
واقعات
ترمیم28 جون، 1928ء کو ساؤتھ سنٹرل ریلوے ورکرز یونین کی مرکزی کمیٹی نے انتظامیہ کو تار بھیجا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ یونین کی گشتیہ نمبر202 کو واپس لینے کے بارے میں جواب طلب کیا گیا تھا۔ یہ کچھ ملازموں کے نکالے جانے اور تربیت یافتہ اور غیرتربیت یافتہ عمومی ملازموں کی اجرت میں اضافہ جیسے امور پر گفتگو کی گئی تھی۔ انتظامیہ اجرت میں اضافے سے انکار کیا اور لوگوں کے اخراج کو حکومت کی تحقیقات کا نتیجہ قرار دیا۔
29 جون، 1928ء کو ساؤتھ انڈین ریلوے ورکشاپوں کے تقریبًا 8,000 ملازمین نے ناگاپٹنم، تریچنوپولی اور پودنور میں ہڑتال کی۔ یونین نے کل اجرت میں 25 فیصد اضافے، اقل ترین ابتدائی اجرت 30 روپیے اور گشتیہ نمبر 202 کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔ انتظامیہ نے اس کا جواب قفل بندی سے کیا۔ یہ ہڑتال بعض یونین لیڈروں کی مخلفت کے باوجود جاری رہی جن میں ایس وی ایر، انڈین ریلوے میگزین کے ایڈیٹر اور مدراس اینڈ سدرن ماہرٹا ایمپلائز یونین کے صدر اور ارنسٹ کرک، معتمد عمومی مدراس لیبر یونین شامل تھے۔ آخرالذکر کا تبصرہ یوں تھا:
میں کسی ہڑتال کا مخالف نہیں ہوں، مگر اگر اس کی ابتدا، افزودگی اور گرفت ماسکو کے معتقدوں کے ہاتھوں میں ہے تو یہ آغاز سے کوتاہ نظری کا شکار ہے۔
ہڑتالی ملازمین نے ان لوگوں پر "ملازمین کے مفادات کے ساتھ غداری" کرنے اور "مرکزی کمیٹی کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا۔ 1 جولائی، 1928ء تریچنوپولی میں ایک اجلاس کے دوران مکند لال سرکار، آل انڈیا لیبر یونین کے معتمد نے الزام عائد کیا کہ برطانوی استعمار پر وسیع پیمانے پر بھارت میں بے روزگاری کا الزام عائد کیا اور ریلوے ملازمین کو انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہونے اور تحریک آزادی ہند سے جڑنے کی وکالت کی۔
6 جولائی، 1928ء کو تریچنوپولی اور پودنور میں مکمل قفل بندی رہی۔ تریچنوپولی میں سبزیوں اور پھلوں کے بیوپاری 6 جوے لائی کو ریلوے ملازموں کی حمایت میں اپنے شٹر گرائے رکھے۔ 3,000 افراد پر مشتمل شہر کو کونے کونے پر گشت کیا۔ 9 جولائی سے 18 جولائی تک صورت حال پر سکون رہی جب یونین انتظامیہ کے ساتھ مفاہمت کی کوشش میں لگی رہی۔ مگر جب مفاہمتی پہل 19 جولائی 1928ء کو ناکام رہی، تب ہڑتال پورے زورشور سے دوبارہ شروع ہوئی۔
یہ ہڑتال 20 جولائی سے پرتشدد رخ اختیار کرگئی اور ٹیوٹی کارن، ویلوپورم، مایاورم اور تریچنوپولی میں پرتشدد واقعات پیش آئے۔ ٹیوٹی کارن اور مایاورم ملازموں اور پولیس کے بیچ تصادم کے واقعات رونما ہوئے جن میں ایک ہڑتالی پولیس کی گولی باری میں مارا گیا اور 63 گرفتار ہوئے۔ اسی طرح سے پنروتی، ویکراونڈی اور ویلوکپم میں 78 گرفتاریاں ہوئ۔ ویلوپورم کے ملازمین نے ایک ستیاگرا کا اہتمام کیا تاکہ ان کے مطالبوں پر زور دیا جاسکے۔ تریچنوپولی میں ایک ہلکا انجن ایک بس سے ٹکراگیا جس سے بھاری تعداد متاثر ہوئی۔ مقامی مجمع ہلکے انجن کے چلانے والے کو یورپی پاکر اسے جنونی انداز میں قتل کر دیا۔
پڑتال کا اختتام
ترمیماس ہڑتال کو حکومت کی جانب سے وحشی انداز میں کچل دیا گیا تھا۔ جب مایاورم میں 5000 ہڑتالی ملازم پٹریوں پر لیٹ گئے تھے، پولیس نو ملازمین کو گرفتار کرلی اور ٹرین کو رکوا دیا۔ مایاورم ہی میں پتھراؤ کے جواب میں پولیس کے ہاتھوں قتل کیا گیا تھا۔ یہ پتھراؤ کا سبب کونے نامی چرواہے کی غیر متعلقہ کارروائی تھی جسے ٹیوٹی کورن میں ایک علاحدہ پتھراؤ کے دوران فرانسیسی طرز کی تیزدھار چاقو بایونیٹ کے ذریعے قتل کر دیا گیا تھا۔ ویلوپورم میں چھ لوگوں کی موت ہو گئی اور بائیس زخمی ہو گئے۔ مدراس ضلع کانگریس کمیٹی کی جانب سے مدراس شہر میں بلائی گئی بیٹھک پر امتناع لگ گیا تھا۔
سنگاراویلو چیٹی اور مکند لال سرکار کو 23 جولائی، 1928ء کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ڈی کے پلئی، صدر مرکزی کمیٹی کو 25 جولائی کو گرفتار کیا گیا جبکہ ٹی کے نائیڈو، معتمد انجنیرورکشاپ لیبر یونین، پی مدلیار، معتمد عمومی اور وی اوجار، نائب صدر مرکز کمیٹی کو 26 جولائی کو گرفتار کیا گیا۔ اگلے ہی دن نو اور قائدین کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد ایم پلئی، معتمد یونین تینیویلی نے ہڑتال واپس لینے کا اعلان کیا۔ تاہم یہ ہڑتال تریچنوپولی اور مدورائی میں 30 جولائی، 1928ء تک جاری رہی جب کہ کرشنماچاری، معتمد ساؤتھ انڈین ریلوے ورکرز یونین اور پلئی، خازن ساؤتھ انڈین ریلوے لوکل لیبر یونین نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ہڑتال واپس لینے کا اعلان کیا:
ہم نے عوام کے سامنے ہماری تنظیمی صلاحیت اور متحدہ عمل کا مظاہرہ کر دیا ہے. . . (مگر) ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ عوام سرمایہ اور مزدور کی کشمکش کے بیچ مصیبتیں اُٹھا رہا ہے اور ہمیں تاسف ہے کہ ہم کو زبردستی ہڑتال پر جانا پڑا جو ہماری خواہشوں کے برعکس تھا۔ . .اپنے مقصد کی منصفانہ نوعیت کی وجہ سے ہم یہ عزم پر قائم ہیں کہ ہماری جدوجہد کو ہم پرامن طریقوں سے جاری رکھیں۔ صرف عوام کو ہر قسم کی تکلیف سے بچانے کی خاطر ہم 30 تاریخ کو صبح 6 بجے سے ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
2 اگست، 1928ء تک معمولی واقعات رونما ہوتے رہے، تب ساؤتھ انڈین ریلوے ورکرز یونین پر سرکاری طور پر پابندی عائد کر دی گئی۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Reddy، Kanchi Venugopal (2002)۔ Class, colonialism, and nationalism: Madras Presidency, 1928–1939۔ Mittal Publications۔ ص 92–96۔ ISBN 81-7099-854-9, ISBN 978-81-7099-854-9