آئین پاکستان میں ترامیم

آئین پاکستان میں متعدد ترامیم کیے جاچکی ہیں جن کی فہرست درج ذیل ہے:

# ترامیم تاریخ تجویز تاریخِ نفاذ مکمل متن
1واں پاکستان سرحدات کا نئے سرے سے متعارف کروانااور لفظ مشرقی پاکستان کا احذاف۔ مئی 4، 1974 مکمل متن
2راں مسلمان کی تعریف اور احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا۔ ستمبر 7، 1974 مکمل متن
3راں احتیاطی حراست کی مدت میں اضافہ. فروری 18، 1975 مکمل متن
4واں اقلیتی کے لیے اضافے نشست اور کورٹ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی کو بھی ضمانت پر رہا کرسکتی ہے خواہ احتیاطی حراست میں کیوں نہ ہو۔ نومبر 21، 1975 مکمل متن
5واں Widened the scope of restriction on the High Courts. ستمبر 5، 1976 مکمل متن
6واں یہ شامل کیا گیا کہ منصف اعظم پاکستان 65 سال کی عمر میں جبکہ ہائیکوررٹ کے منصف 62 سال کے عمر میں ریٹائرڈ ہوں گے۔ دسمبر22، 1976 مکمل متن
7واں ویراعظم کو پاکستان کے جمہور کا اعتماد حاصل کرنے کا اختیار تفویز ہوا۔ مئی 16، 1977 مکمل متن
8واں پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمان نظام سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ نومبر 11، 1985 مکمل متن
9واں بل پیش کیا گیا کہ شریعت کو ملک کا اعلیٰ قانون قرار دیا جائے ، جسے سینیٹ نے منظور کیا مگر قومی اسمبلی تحلیل کی وجہ سے نہ کرپائی۔ 1985 منظور نہیں ہوا مکمل متن
10واں قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے درمیان مدت 130 دن سے زائد نہیں ہونا چاہیے یعنی کم از کم اتنے دنوں میں اجلاس ہونا چاہیے. March 29، 1987 مکمل متن
11واں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے مخصوص نشسشتوں کا اعادہ 1989 منظور نہیں ہوا مکمل متن
12واں تین سال کے لیے فوری ٹرائل کورٹ قائم کیے گئے 1991 مکمل متن
13واں صدر پاکستان سے یہ اختیار ختم کیا گیا کہ وہ اسمبلیوں کو تحلیل کر کے وزیر اعظم کو گھر بھیج سکے۔ 1997 مکمل متن
14واں پارلیمان کی ارکان کی رکنیت ختم کرنے کا اختیارات دیا گیا اگر وہ بے نقص کے مرتکب ہوجائے۔ جولائی 3، 1997 مکمل متن
15واں بل میں کہا گیا کہ شریعت کو ملک کا قانون قرار دیا جائے ، مگر بل منظور نہ ہو سکا. 1998 منظور نہیں ہوا مکمل متن
16واں Increased the term appointed for quota system as per 1973 Constitution from 20 to 40 years. 1999 مکمل متن
17واں Made changes dealing with the office of the President and the reversal of the effects of the Thirteenth Amendment. 2003 مکمل متن
18واں پارلیمان کے تحلیل کا اختیار صدر سے لے لیا گیا. April 8، 2010 مکمل متن
19واں Provided for the appointment of the ججs of the عدالت عظمیٰ پاکستان and made amendments in the number of members of the parliamentary committee for the appointment of Chief Electoral Officers at الیکشن کمیشن آف پاکستان. دسمبر22، 2010 مکمل متن
20واں صاف شفاف انتخابات کے لیے.[1] فروری 14، 2012 مکمل متن
21واں فوجی عدالتوں کا قیام تاکہ دہشت گردی سے نمٹا جاسکے. جنوری 7، 2015 مکمل متن
22nd الیکشن کمیشن کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیے [2] جون 8، 2016 مکمل متن
23rd The 23rd Amendment was passed to re-establish the military courts for further two years till 6th جنوری 2019.[3] In 2015، National Assembly passed the 21st Amendment and created the military courts for the period of 2 years. The period of two years was expired on 6th جنوری 2017 hence this 23rd Amendment was passed to re-establish the military courts for further two years till 6th جنوری 2019. At the end of this period all the amendments will be expired/removed automatically. جنوری 7، 2017 مکمل متن[مردہ ربط]
24واں وفاق کی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ اور خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کی روشنی میں نئے انتخابی حلقوں کا بنانا. دسمبر22، 2017 مکمل متن
25واں قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔ 2018 مئی 31، 2018

مکمل متن

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Zardari signs 20th Constitutional Amendment bill"۔ DAWN.COM۔ DAWN MEDIA GROUP۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2014 
  2. Amir Wasim (2016-06-03)۔ "Senate passes 22nd constitution amendment bill"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2016 
  3. "constitution of pakistan amendment"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اکتوبر 2018