آگہی (ترک شاعر)

سلطنت عثمانیہ کا ایک مؤرخ اور شاعر

آگہی منصور (وفات: 1577ء) سلطنت عثمانیہ میں ترک شاعر اور مؤرخ تھے۔[1]

آگہی (ترک شاعر)
معلومات شخصیت
مقام پیدائش گیانیتسا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1577ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول ،  سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مورخ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عثمانی ترکی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش اور ابتدائی حالات

ترمیم

آگہی کی پیدائش گیانیتسا میں ہوئی جو اَب یونان کا ایک شہر ہے۔ آگہی کے ابتدائی حالات دستیاب نہیں ہو سکے، البتہ وہ جوانی تک سلطنت عثمانیہ کے مقبوضہ علاقوں میں ہی کسی شہر میں مقیم رہا۔ گیانیتسا جو اُس زمانے میں اہم مقام تھا، میں وہ مدرّس اور قاضی کی حیثیت سے مختلف مقامات میں ٹھہرتا رہا۔ آگہی کے سوانح نگاروں کے مطابق وہ گیلی پول اور استنبول میں بھی مقیم رہا۔ آگہی کی زندگی سے متعلق اہم ماخذ وہ تذکرے ہیں جو عثمانی شعرا کے تراجم پر مشتمل ہیں مثلاً تذکرہ شعرا (جس کے مصنف عاشق چِلبِی تھے)، قِنال زادہ حسن چِلبی، رِیاضی، عَہدی، بِیَانِی اور قاف زادہ فائضی اور عَالی کی تصنیف کُنہ الاخبار کے وہ مندرجات جو تراجم پر مشتمل ہیں۔ اِن ماخذین میں سے فی الحال ابھی تک کوئی بھی ترجمہ کتاب شائع نہیں ہو سکا لیکن سعد الدین نزہت اِرگُون کی کتاب توزک شاعرلری میں آگہی کے ترجمہ میں مذکورہ شخصیات کے اِقتباسات دیے گئے ہیں اور آگہی کی متعدد نظمیں بھی درج کی گئی ہیں۔[2]

شاعری

ترمیم

آگہی شاعر کی حیثیت سے خاصی وسیع شہرت کا مالک تھا۔ گو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا دیوان کبھی بھی شعری مجموعہ (یعنی مکمل یا ترتیب شدہ حالت میں) کی صورت میں مرتب نہ ہو سکا۔ اُس کی شہرت خاص طور پر اُس کے ایک قصیدہ کی مرہونِ مِنَّت سمجھا جاتا ہے جو اُس نے اپنے ایک محبوب کی مدح میں لکھا ہے۔ وہ محبوب ایک نوجوان ملاح تھا جس پر آگہی فریفتہ ہو گیا تھا۔ اِس قصیدہ میں آگہی نے اُس زمانے کی عثمانی ترک زبان کا وہ خاص لہجہ استعمال کیا ہے جو اُس دور کی روزمرہ زبان کا حصہ رہا ہے اور بالخصوص یہ ترک ملاح اور بندرگاہوں کے قریب آباد باشندے بولا کرتے تھے۔ اِس قصیدہ میں جہازرانوں کی مشترکہ بولی یا خاص لہجے کی بہت سی اصطلاحات کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ خاص کر وہ اصطلاحات جو اُس دور کے جنگی جہازوں سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ قصیدہ جو ترک ملاحوں کی بولی و لہجے میں لکھا گیا ہے، اِس کا نام عصر ترک شعرندہ گمجی دِلی آگہی قصیدہ سی و تخمیسلری، ترکیات مجموعہ سی کے عنوان سے شرح کے ساتھ 1951ء میں شائع ہوا۔متعدد ترک شعرا نے آگہی کے اِس واحد موجود قصیدہ کی بحر میں کئی قصیدے لکھے ہیں۔ آگہی کی تاریخی تالیفات میں صرف ایک کتاب یعنی تاریخ غزات سگتوار کا ذِکر ملتا ہے جس میں سگتوار کے خلاف سلطان سلیمان اول کی فوجی لشکرکشی کا مفصل بیان ملتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اِس کتاب کا کوئی نسخہ یا مخطوطہ دریافت نہیں ہو سکا۔[2]

وفات

ترمیم

آگہی کی وفات 1577ء میں استنبول میں ہوئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. [بریل انسائیکلوپیڈیا، مضمون ’’آگہی‘‘۔ترجمہ انگریزی]https://referenceworks.brillonline.com/entries/encyclopaedia-of-islam-2/agehi-SIM_0360
  2. ^ ا ب اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد اول، صفحہ 117۔